نفرت انگیز سیاست کے خلاف عوام کا ردعمل

انجینئر محمد سلیم

یہ اس ملک کے لیے ایک مثبت چیز ہے اور امید کی کرن ہے کہ عوام نے اس رخ کو موڑنے کی کامیاب کوشش کی۔

(گزشتہ لوک سبھا انتخاب کے پس منظر میں میڈیا کا رول، حزب مخالف کا کردار، سول سوسائٹی کا کردار وغیرہ اہم امور پر خان طاہر نے انجینئر محمد سلیم سے گفتگو کی۔ انجینئر محمد سلیم میڈیا اور سول سوسائٹی میں ایک معروف نام ہیں اور فی الحال جماعت اسلامی ہند کے نائب امیر ہیں۔)

لوک سبھا الیکشن 2024 پر آپ کا پہلا تاثر کیا ہے؟ اور یہ الیکشن گذشتہ الیکشن سے کس طرح مختلف تھا؟

18/ ویں لوک سبھا الیکشن کے نتائج بالکل مختلف ہیں۔ پچھلے 10 سالوں سے جس طرح کی حکومت ہو رہی تھی، جس رخ پر ملک کو لے جانے کی کوشش کی جا رہی تھی، نفرت کی سیاست سے سماج کو بانٹنے اور تقسیم کرنے کی کوششیں لگاتار جاری تھیں۔ اس ملک کے تنوع اور سوسائٹی کی تکثیریت ( plurality) کو کچلنے یا دبانے کی کوششیں کی جا رہی تھیں۔ اس ملک میں قوت اور زور زبردستی سے یونیفارمٹی لا کر ملک کو ایک خاص مذہبی رخ دیا جا رہا تھا۔ اس الیکشن سے یہ بات واضح ہوئی اور عوام نے بہت صاف مینڈیٹ اور ایک بہت ہی واضح پیغام دیا کہ ملکی عوام اس نفرت اور تقسیم کی سیاست کو پوری طرح سے رد کرتی ہے۔ پچھلے 10 سالوں میں پارلیمنٹ میں بحث و مباحثہ کا ماحول نہیں رہا بلکہ محض چند منٹوں میں کئی بڑے اہم بل پاس کر دیے گئے۔ ہندوستان کو ڈکٹوریل طرز حکومت کی طرف لے جانے کی جدوجہد جاری تھی۔ ایک شخص یا چند لوگوں نے مل کر پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے ممبران کی رائے کی پرواہ کیے بغیر ڈسکشن اور بحث کے بغیر بعض چیزیں تھوپنے کا کلچر بنا دیا تھا کیونکہ اس وقت بی جے پی کے پاس بڑی اکثریت تھی اور اس میں ان کو کسی اور پارٹی کی مدد کی ضرورت نہیں محسوس ہوئی۔ اس الیکشن میں عوام نے اس خاص پارٹی کو مجورٹی لیول پر بھی نہیں آنے دیا۔ اکثریت سے بھی کم سیٹیں ان کو ملی اور انھیں مجبور ہونا پڑا کہ وہ الائنس کی سیاست کریں اور دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر حکومت چلائیں۔ اس طرح ہندوستان کی عوام نے نفرت کی سیاست، سماج کو بانٹنے کی سیاست کو رد کیا ہے۔

یہ اس ملک کے لیے ایک مثبت چیز ہے اور امید کی کرن ہے کہ عوام نے اس رخ کو موڑنے کی کامیاب کوشش کی۔ جو لوگ سمجھدار اور دانشمند ہیں وہ عوام کے دیے گئے پیغام کو اگر سمجھ کر اپنے رویے میں تبدیلی لائیں گے تو ان کے لیے بھی بہتری ہے، ان کی پارٹی کے لیے بھی بہتر ہے اور اس ملک کے لیے تو بہتر ہے ہی۔ اگر اس پیغام کو نظر انداز کیا گیا جو پیغام ہندوستان کی عوام نے دیا ہے تو بہت نقصان ہوگا۔ جو اچھی چیز ہوئی ہے وہ یہ کہ اب کسی ایک پارٹی کو اکثریت نہیں ملی اور حکومت چلانے کے لیے دوسرے الائز کی مدد درکار ہے۔ جمہوریت میں اتحاد بھی ایک دباؤ کا کام کرتا ہے۔ امید ہے کہ انتہا پسندی اور نفرت کی سیاست پر روک لگے گی۔

این ڈی اے الائنس کی مضبوطی اور استحکام کے متعلق کیا اندازے لگائے جارہے ہیں؟

این ڈی اے الائنس کے ٹوٹنے کا بڑا خطرہ تو نظر نہیں آرہا ہے لیکن اندیشہ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ الائنس کی جو سیاست ہے اس میں ہمارے ملک کی سیاست میں خودغرضی اور مفاد پرستی ہمیشہ سے حاوی رہی ہے۔ اگر ان چیزوں نے پھر سر اٹھایا اور لوگ بہت ایمبیشنز کے ساتھ آگے بڑھے تو اس کا امکان بھی ہے۔ لیکن مجھے ذاتی طور پر یہ لگتا ہے کہ حکومت اپنا ٹرم شاید پورا کرے گی۔ یہ موقع حکمران پارٹی اور اپوزیشن پارٹی کے لیے بھی ہے کہ وہ اپنے رول کو پازیٹو انداز میں ادا کریں۔

 ان انتخابات میں میڈیا کے کردار کو کیسے دیکھا جاسکتا ہے؟ کیا میڈیا نے غیر جانبداری کے ساتھ انتخابات کی رپورٹنگ کی یا اس نے کسی مخصوص سیاسی جماعت یا بیانیے کی حمایت کی؟

یہ بات صحیح ہے کہ میڈیا اور مین سٹریم میڈیا کا ایک بڑا حصہ یا تو دباؤ میں کام کر رہا تھا یا پوری طرح سے حکومت کا نمائندہ بن کر حکومت کی مہم میں حصہ دار بنا ہوا تھا۔ یہ کسی جمہوری ملک، جمہوری نظام کے لیے بہت ہی تشویش اور افسوس کی بات ہے کیونکہ میڈیا کا رول واچ ڈوگ کی طرح ہوتا ہے۔ وہ نگاہ رکھتا ہے تاکہ حکومت کہاں درست ہے کہاں غلط ہے اسے اجاگر کرسکے۔ عوام کی بات کو میڈیا کے ذریعے حکومت تک پہنچانا اور حکومت کی کمزوریوں کو واضح کرنا یہ عمل اگر کمزور پڑ جائے تو پھر جمہوریت بہت کمزور ہو جائے گی اور پچھلے 10 سالوں میں میڈیا کے رول میں بہت ہی گراوٹ آئی اور میڈیا کا ایک بڑا حصہ یا تو حکومت کا غلام بن گیا یا حکومت کا دوست بن گیا یا پھر وہ ڈر اور خوف میں مبتلا ہو گیا اور حق بات کہنے کی اس میں جرات نہیں رہی۔ ان نتائج سے وہ لوگ جو سچ بات کہنا اور لکھنا چاہتے تھے مگر ڈر، خوف اور دباؤ میں نہیں کہہ پاتے تھے، انہیں امید نظر آئی ہے۔ وہ میڈیا جو حکومت کا غلام بن کر اور حکومت کے ایجنڈہ پر کام کر رہا ہے، ان کے لیے یہی پیغام ہے کہ وہ اپنے میڈیا کے کردار کو صحیح طور پر ادا کریں۔

گذشتہ 10 سالوں میں مختلف جمہوری اداروں کو جس درجہ کمزور کیا گیا ہے، انفرادی آزادی و اختلاف رائے کو دبانے کا جو عمومی ماحول بنایا گیا، ظالمانہ و غیر جمہوری قوانین و پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ ان سب چیزوں کے اثرات کو زائل کرنے اور اداروں کے جمہوری کرن وغیرہ کے حوالے سے اگلے 5 سالوں میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟

ای ڈی، سی بی آئی، انکم ٹیکس اور اس طرح کی جو حکومتی ایجنسیاں ہیں انہیں جمہوری ملک میں آزاد ہونا چاہیے اور ان میں اتنی قوت ہونی چاہیے کہ حکومت کے خلاف بھی اگر کوئی معاملہ ہو تو یہ ایجنسیاں اپنا فرض نبھائیں۔ لیکن ہم نے دیکھا کہ ان ایجنسیوں کو حکومت کے ذریعے سے استعمال کیا گیا اور حکومت کے خلاف اٹھنے والی آواز کو خاموش کرنے یا دبانے کے لیے اور مخالف پارٹیوں کو کمزور کرنے یا توڑنے کے لیے ان اداروں کا استعمال کیا گیا۔ یہ بہت ہی افسوس کی بات تھی اور اس سے پورا جمہوری نظام کمزور ہوا ہے۔ ہم بیوروکریسی سے امید کرتے ہیں اور ان اداروں کے ذمہ داروں سے ہمیں بھی بات کرنی چاہیے کہ وہ کسی پارٹی یا حکومت کے ایک ٹول کے طور پر کام کرنے کی بجائے دستور کے مطابق کام کریں۔ دستور میں بتائی گئی ذمہ داریوں کا پاس رکھیں۔

مذہبی گروہوں، سول سوسائٹی اور غیر سیاسی افراد و اداروں کی کوششوں نے انتخابات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ انہوں نے جمہوریت کی حفاظت میں کیا کردار ادا کیا؟

اس ملک میں تکثیریت پائی جاتی ہے۔ یہاں کسی مذہب، کلچر یا زبان کی بالادستی اور کسی ایک طبقے کے غلبہ کی کوشش کی جائے تو یہ ملک کمزور ہوگا۔ عوام نے صاف طور پر بتا دیا ہے کہ وہ ایجنڈہ جو اس ملک کو کمزور کر رہا ہو، جو اس ملک میں اپنے لوگوں کو غیر بناتا ہو، جو مختلف طبقات میں دوریاں اور نفرت پیدا کرتا ہو انہیں عوام رد کرتی ہے۔ ہندوتوا کی جو تنظیمیں اور تحریکیں ہیں انہیں بھی سوچنا چاہیے کہ اس ملک کو اگر مضبوط کرنا ہے تو یہ منفی ایجنڈہ کسی کے لیے بھی مفید نہیں ہے اور اس سے یہ ملک طاقتور اور مضبوط نہیں ہوسکتا۔ ان 10/ سالوں میں اس پہلو سے یہ ملک کمزور ہوا ہے اس ملک کی تصویر دنیا میں خراب ہوئی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جو ہندوتوا تنظیمیں ہیں ان کو بھی اس پر غور کرنا چاہیے اور وہ بھی اس پر غور کریں۔

پچھلے کچھ سالوں سے منفی نظریات نے ملک کی یک جہتی اور سالمیت کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے، کیا وہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہو پارہے ہیں؟ 

پچھلے 10 سالوں میں نفرت کو بڑھانے کے لیے جھوٹ پھیلایا جاتا رہا ہے۔ اور اس ملک کی ہندو عوام کی بڑی تعداد کو ڈرانے اور خوفزدہ کرنے کی کوشش کی گئی تاکہ اس کے ذریعے سے وہ سیاسی فائدہ حاصل کر سکیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس الیکشن نے اس جھوٹ کو بے نقاب کر دیا اور یہ بتا دیا ہے کہ اس طرح کے ایجنڈوں کو عوام سپورٹ نہیں کرتی اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے تو اس الیکشن میں ہی نہیں اس سے پہلے کے انتخابات میں بھی مسلمانوں نے صرف اور صرف مسلمان ہونے کی حیثیت سے نہیں بلکہ ذمہ دار شہری ہونے کے ناطے سول سوسائٹی، انصاف پسند اور جمہوریت پسند عوام کے ساتھ مل کر ملک کے سامنے درپیش چیلنج کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان نتائج کو اس طرح دیکھنا مناسب نہیں ہے کہ صرف مسلمانوں نے اپنے بچاؤ کے لیے کوئی کوشش کی ہے بلکہ اس ملک کو غلط رخ پر جانے سے روکنے میں مسلمانوں نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ البتہ ہندوستان کی باقی عوام کے ساتھ مل کر ایسا کرنا ممکن ہو سکا۔

فی الحال اپوزیشن کس مقام پر کھڑی ہے؟ کیا آ پ کو لگتا ہے کہ اپوزیشن گٹھ جوڑ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوشش کرے گی یا وہ اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کے ضمن میں کام کرنے کی کوشش کرے گی؟

عوام نے اس الیکشن میں اپوزیشن کو مضبوط کیا ہے۔ اپوزیشن کو ایک طرح سے قوت دی ہے، پہلے اپوزیشن کی بالکل آواز نہیں تھی وہ منتشر تھا۔ عوام نے یہ محسوس کیا کہ صحت مند جمہوریت میں اور ملک کی ترقی کے لیے ضروری ہے کہ اپوزیشن بھی مضبوط ہو۔ حکومت کے غلط کام کو روکنے والی جو سیاسی قوت ہے وہ مضبوط ہو۔ چونکہ حزب مخالف اکثریت تک نہیں پہنچ پائی تو ظاہر ہے کہ انہیں بہتری کی ضرورت ہے۔ ان کے درمیان مزید کوآرڈینیشن پیدا کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام شخصی مفادات اور پارٹی کے مفادات سے اوپر اٹھ کر ہو۔ جس طرح اس الیکشن میں ڈیموکریسی اور دستور کو بچانے کی کوشش پارٹیوں نے کی جس کے عوض اس کا ایک مثبت نتیجہ سامنے آیا۔ ساتھ ہی یہ پیغام بھی ہے کہ ان اپوزیشن پارٹیوں کو اپنا رول اور زیادہ سنجیدگی سے ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ خود غرضی، مفاد پرستی اور موقع پرستی کی جو سیاست ہے اس سے باہر نکل کر، اس ملک اور ملک کی عوام کے لیے بہتری لانے والی سیاست کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اگر اپوزیشن پارٹی اس راستے پر چلے گی تو یہ آئندہ اور مضبوط ثابت ہوگی۔

 ہندوتوا کے بیانیے یا عوام میں ہندوتوا فکر کے نفوذ کے حوالے سے یہ نتائج کیا پیغام دیتے ہیں؟ بالفاظ دیگر کیا ان نتائج سے یہ بات اخذ کرنا درست ہوگا کہ ہندوتوا کی فکر عوام میں کمزور ہوئی ہے؟

یقیناً ایسا لگتا ہے کہ شر پسند لوگ جن کو حکومت کی سرپرستی حاصل تھی اور جو ایک ایسا گروہ بن گیا تھا جو اپنے آپ کو قانون سے اوپر سمجھتا تھا، جو ڈر اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کے لیے مابلنچنگ اور دوسرے فسادات وغیرہ کرنے کی کوششیں کرتے تھے، ہمیں لگتا ہے کہ ان پر لازما روک لگنی چاہیے۔ دستور کے مطابق ہر شہری کو برابری کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے۔اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً ملک کے حالات بہتر ہوں گے۔ توقع تو ہم اچھی رکھتے ہیں لیکن اگر وہی غلطیاں دہرائی جائیں گی جو پہلے ہوتی رہی ہیں تو اس کا نقصان پارٹیوں کو بھی ہوگا اور ملک کو تو ہوگا ہی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اب ملک کی عوام میں بیداری آرہی ہے۔

بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے اتحاد کے 293 منتخب ارکان پارلیمنٹ میں مسلم ارکان کی عدم موجودگی اور مسلم نمائندگی میں مجموعی طور پر کمی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ جمہوری معاشرے میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کیا اہمیت ہے؟

اس وقت جو حکومت بن رہی ہے اور جو پارلیمنٹ تشکیل پائی ہے اس میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ پورے 543 ممبر آف پارلیمنٹ میں سے 24 ممبران مسلم ممبران الیکٹ ہو کر آئے ہیں اور یہ 5 فیصد سے بھی کم ہے یعنی 4.4 فیصد نمائندگی، جبکہ مسلمانوں کی آبادی 14 فیصد یا اس سے زیادہ ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط ڈیموکریسی کی علامت ہوتی ہے کہ اس میں سب طبقوں کی نمائندگی ان کی آبادی کے لحاظ سے ہو یا اس کے قریب قریب ہو۔ پچھلے 10 سالوں میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ خاص طور سے مسلمانوں کی سیاسی نمائندگی کو بے وزن کرنے کی دانستہ اور منصوبہ بند کوششیں کی گئی ہیں۔ حزب مخالف کی طرف سے بھی اقلیتوں اور خصوصا مسلمانوں کی نمائندگی کو بہتر بنانے کی کوشش نہیں ہوئی ہیں۔ابھی جو 72 وزراء بشمول پرائم منسٹر کے مقرر ہوئے ہیں اس میں ایک بھی مسلمان منسٹر نہیں ہے۔ تو یہ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ بر سر اقتدار پارٹی اور ان کے الائنس میں کوئی بھی مسلمان ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہو کر نہیں آیا۔ اگر مسلمان چن کر نہیں آئے تو بھی دوسرے طریقوں سے نمائندگی بڑھائی جاسکتی ہے۔ اس حکومت میں ہر علاقے، ہر پارٹی اور ہر طبقے کی نمائندگی کی گئی سوائے مسلمانوں کے۔ یہ اس ملک کے لیے بہت تشویش کی بات ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کو سراہنا چاہیے کہ اس الیکشن میں خاص طور سے اپنی کشادہ دلی کے ساتھ ایک بہت ہی پازیٹو وژن کا مظاہرہ کیا۔ اس بحرانی حال میں مسلمانوں نے اپنی نمائندگی کو بڑھانے پر اصرار نہیں کیا۔ یقیناً اپنی نمائندگی ضروری ہے اور ملک کے لیے بہت ضروری ہے لیکن اسے پہلی ترجیح پر نہیں رکھا۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی کہ اس ملک کو غلط رخ پر جانے سے روکا جائے۔ اس ملک کے دستور اور دستوری قدروں کو بچانے کی کوشش کی جائے۔ البتہ سیکولر پارٹیوں کو اس پہلو پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور اقدام کرنے چاہیے۔

حکمران پارٹی کو خود ان انتخابی نتائج پر سنجیدگی سے سوچنا چاہیے اور مسلم مخالف ایجنڈہ چھوڑ کر اس ملک کی عوام کے لیے کام کریں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں