محمد اکمل فلاحی
’’وَمَا خَلَقْتُ الجِنَّ وَالاِنسَ اِلّا لِیَعْبُدُون‘‘(سورۃ الذاریات، آیت 56 )’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے چاہتاہے کہ اس کے بندے اس کی بندگی پوری زندگی کرتے رہیں۔زندگی کے ہر موڑ پر اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے رہیں۔ہر لمحہ اس کی عبادت میں خود کو مشغول رکھیں۔مگر۔۔۔مسلمانوں کی اکثریت نے اس حقیقت کو فراموش کردیا۔مسلمانوں کی اکثریت نے اس عبادت کو محدود کرکے رکھ دیا۔کیا ہم نے پنج وقتہ نمازوں کو چھوڑ کر صرف جمعہ کی نماز پر اکتفا نہیں کیا؟کیا ہم نے سال بھر ادا کی جانے والی نماز کوصرف رمضان کے ساتھ خاص نہیں کردیا؟کیا ہم نے سال بھرپرہیز گاری اختیار کرنے کو صرف رمضان سے نہیں جوڑ دیا؟اسی کا نام تو ہے خواہشِ نفس کی پیروی۔اسی کا نام توہے جہالت اور گمراہی۔اسی کانام تو ہے دین سے انحراف۔
رمضان کا یہی پیغام ہے کہ:
ہم بندگی کے سلسلے کو سال بھر جاری رکھیں۔ہم تقوے کی صفت پر سال بھر قائم رہیں۔ہم صدقہ وخیرات سال بھر کرتے رہیں۔ہم ضرورت مندوں کی ضرورت سال بھر پوری کرتے رہیں۔ہم یتیموں،غریبوں،بیواؤںاور بے سہاروں کا سال بھر سہارا بنے رہیں۔ہم پڑوسیوں کا سال بھر خیال رکھیں۔ہم مظلوموں کا سال بھر ساتھ دیتے رہیں۔سال بھر۔۔۔ سال بھر۔۔۔ سال بھر۔۔۔یہاں تک کہ ’’یہ سال بھر‘‘،’’پوری زندگی‘‘ میں تبدیل ہوجائے۔’’پوری زندگی‘‘، ’’بندگی‘‘ کے رنگ میں رنگ جائے۔ جب آپ اپنی ’’پوری زندگی‘‘ ’’خدا کی بندگی‘‘ میں لگائیں گے تبھی جاکر بندگی کا حق ادا ہوگا۔پھر آپ کی زندگی آپ کو بڑی خوبصورت لگے گی۔پھر آپ اپنی زندگی میں خدا کی خاطر کچھ کرگزرنے کے لیے چٹان سے بھی زیادہ مضبوطی پائیں گے۔پھر آپ اپنی زندگی میں خدا کے دین کی سربلندی کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا جوش اور ولولہ پائیں گے۔آئیے! ہم عزم کریں، سچے دل سے عزم کریں کہ:
ہم اپنی ’’پوری زندگی‘‘ ’’خدا کی بندگی‘‘ میں لگادیں گے۔