اے مورّخ ترے ہاتھ سے چھوٹ کر
دیکھ قدموں میں تیرے قلم گرگیا
جابجا روشنائی بکھر سی گئی
جیسے چھینٹے لہو کے ہوں پھیلے ہوئے
وہ لہو سر زمینِ فلسطیں جسے
اپنے آغوش میں جذب کرتی رہی
وہ لہو آسمانِ فلسطیں جسے
چشمِ حیرت سے مایوس تکتا رہا
وہ لہو جو نہتّے بدن سے بہا
وہ لہو جو کہ بچّوں کے تن سے بہا
وہ لہو ماں کے آنچل پہ جو جم گیا
وہ لہو جس کے بہنے کا کوئی اثر
نسلِ انسانیت پر ہوا ہی نہیں
عہدِ حیوانیت پر ہوا ہی نہیں
اے مورّخ قلم ہاتھ میں پھر اٹھا
جا بجا روشنائی بکھرنے نہ دے
وہ مقدّس لہو جو شہیدوں کا ہے
اس کو مضموں بنا ، کوئی عنوان دے
عہدِ حیوانیت کی ڈگر پر نہ جا
اپنی انسانیت آسمانی بنا
اپنی انسانیت جاودانی بنا
عزیز نبیل، قطر