عصر کا وقت تھا شام ڈھلنے لگی تھی سورج مغرب میں جھکنے لگا تھا جب ہم سب آرٹس کالج کے سامنے سبزہ زار اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن کی سرپرستی میں غایبانہ نماز جنازہ کے لئے جمع ہوئے ہمارے ساتھ اظہار یگانگت کے لئے مختلف طلبہ تنظیمیں موجود تھیں نماز عصر کے ساتھ ہی غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی اک افسردگی فضا پر چھائی ہوئی تھی یا ہم کو ہی لگ رہی تھی ورنہ نیوزی لینڈ کے کرسٹن چرچ میں “انسانوں” کی ہلاکت پر خوشیاں بھی منائی گئی میں نے جان بوجھ کر “انسانوں” کا لفظ استعمال کیا ورنہ انکی شناخت کے لئے اک اور لضظ بھی ہے “مسلمان”اور یہی شناخت ان کے قتل کا سبب بنا اور اسی لفظ کو قاتل نے دلیل صفائی کے طور پر استعمال کیانیوزی لینڈ کا یہ بہیمانہ واقعہ صرف اک نہیں ہے بلکہ یہ تو زنجیر کی وہ کڑی ہے جو پھٹ کر باہر نکلااسی لفظ “مسلمان”کو ساری دنیا میں اک منصوبہ بند طریقے سے دوسرے انسانوں میں خوف پھیلانے کے لئے زور وشور سے استعمال کیا جارہا ہے
یہ سوچ جس سے کسی خاص وضع یا خاص لباس اور زبان کو دہشت گرد یا ڈرایا جارہا ہے خود کو برتر یا دوسروں کو کمتر سمجھنا اور نسلی برتری کا جنون اس مہذب سماج کے لیے اک کلنک ہے اسلاموفوبیا یا نسلی برتری کا جنون کا مقابلہ صرف حکومت یا قوانین بنانے سے نہیں ہوگا یہ سوچ بمقابلہ سوچ ہے اور تعلیمی ادارے اس کے لئے بہترین جگہ ہے SIOنے اسکی اہمیت کو سمجھا اور دوسرے طلبہ تنظیموں سے ملکر اک اور کامیاب کوشش کی سبھی مقررین نے اپنی بات رکھی کہ حملہ بزدلانہ ہے اور دنیا کو اس طرح کے حملوں سے محفوظ رکھنا ہےسورج مغرب میں ہونے لگاتھا کہ یہ محفل اختتام کو پہنچی اس امید کے ساتھ کہ پھر نیا سورج طلوع ہوگا اور اک دن ضرور اس دنیا میں سارے انسان برابر ہونگے