نباتی امراضیات (Plant Pathology) کے میدان میں روزگار کے مواقع

محمد صادق پرویز

ہندوستان جیسے ملک میں زراعت کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زراعت کو 58 فیصد عوام نے بطور پیشہ اپنایا ہے۔

ہندوستان جیسے ملک میں زراعت کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زراعت کو 58 فیصد عوام نے بطور پیشہ اپنایا ہے۔ زراعت ہندوستانی معاشی نظام میں بنیادی شعبے سے تعلق رکھتی ہے جسے ہم “پرائمری سیکٹر” کہتے ہیں۔ اس سال پرائمری سیکٹر نے ہندوستان کی جی۔ ڈی۔ پی میں 18.20 فیصد کا تعاون کیا ہے۔ لہٰذا پرائمری سیکٹر سے متعلق شعبوں میں بہتری لانے کی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ چونکہ اس سیکٹر سے متعلق شعبے قدرتی وسائل پر بھی منحصر ہوتے ہیں اور انہیں وقتاً فوقتاً قدرتی آفات کا بھی سامنا ہے، لہٰذا حکومت کی جانب سے تحقیقی ادارے، ریسرچ سینٹر قائم کیے جاتے رہے ہیں تاکہ نقصان کی شرح کم کی جاسکے۔ شعبہ زراعت پرائمری سیکٹر کی اہم شاخ ہے۔ زراعت ابتدائی دور سے تمدنی ضرورت کو پورا کرتی آئی ہے، اگر پیداوار کی شرح کم ہو جاتی ہے تو اس کی زد میں عام اور خاص سبھی آتے ہیں۔ جہاں پیداوار میں اضافے اہم ہیں وہیں پیداوار کونقصانات سے بچانا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔ بڑے پیمانے پر پیداوار کا نقصان ہونا “قحط” سے عبارت ہے۔ ماضی قریب میں عظیم “قحط سالی” کی وہ داستان بھی ہم نے سنی ہے جس سے روح کانپ جاتی ہے۔ 1853ء میں’آئرلینڈ’ میں رونما ہونے والا قحط جس میں 12.5 لاکھ افراد بھوک سے ہلاک ہوئے اور قریب 15 لاکھ لوگوں کو امریکہ کی جانب نقل مکانی کرنی پڑی۔ آلو کی فصل میں ایک مرض”Late Blight of potato” کی وجہ سے یہ عظیم قحط رونما ہوا تھا۔ اس قحط کو” آئرش فیمائن” کہا جاتا ہے۔ اسی قحط کے بعد ہی “نباتی امراضیاتی سائنس” کا وجود ہوا، جو “پلانٹ پیتھالوجی” کے نام سے معروف ہے۔ ملک ہندوستان کے تناظر میں ‘نباتی امراض’ سنگین حد تک پیداوار کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ مثال کے طور پر گیہوں کے پودے میں ایک فنگس کی وجہ سے بیماری ہوتی ہے، اس پیتھوجن کا نام “puccina graminis trici”ہے۔ یہ ہر سال کروڑوں کی پیداوار کو ختم کر دیتا ہے۔ جس کے نتیجے میں فصل زائد قیمت پر بازار میں فروخت ہوتی ہیں۔ مذکورہ مثال سے ہمیں نباتی امراضیاتی سائنس کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔اس وقت ہندوستان میں بڑے پیمانے پر طلبہ زراعتی یونیورسٹیوں میں داخلہ لے رہے ہیں اور مختلف فیلڈ میں تحقیقات کرکے اپنا کَریر بنا رہے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ‘پلانٹ پیتھالوجی’ کے شعبہ میں روزگار کے مواقع پر مفصل گفتگو کریں گے تاکہ دلچسپی رکھنے والے طلبہ اس فیلڈ میں اپنا کَریر بناسکیں۔ پلانٹ پیتھالوجی میں حسب ذیل فیلڈ موجود ہیں۔

پلانٹ قورنٹائیں ڈپارٹمنٹ

ٹشو کلچر لیباریٹری

سیڈ کمپنی

ایجنسی برائے تحفظِ ماحولیات

اگرو کیمیکل کمپنیز

پلانٹ پروٹیکشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ

بوٹانیکل گارڈن

پلانٹ ڈائیگناسٹک

بائیو کنٹرول فارمز

ایگریکلچر کنسلٹنسی فارمز وغیرہ۔ 

شعبہ قورنٹائین:

پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ روزگار کے لیے اپنی پہلی پسند Quarantine department رکھتے ہیں۔ نباتی امراضیات میں ‘قورنٹائین ڈیپارٹمنٹ’ روزگار کے سب سے زیادہ مواقع فراہم کرتا ہے۔ پلانٹ قورنٹائین کا قیام قانونی نفاذ کے طور پر کیا گیا ہے۔ جس کا مقصد جراثیم کو پھیلنے سے روکنا ہے۔ اگر کسی وجہ سے وہ پہلے داخل ہوگئے ہیں تو اُنھیں محدود علاقے میں قورنٹائین کرکے مزید بڑھنے سے روکنے کے لیے اس ڈپارٹمنٹ کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں مختلف بین الاقوامی ہوائی اڈوں، سمندری بندرگاہوں اور زمینی سرحدوں پر 73 پلانٹ قورنٹائین اسٹیشن قائم ہیں۔ اس کا ہیڈکوارٹر فریدآباد ہے۔ مرکزی حکومت کی اہم منسٹری برائے زراعت اور بہبودیِ کسان پلانٹ قورنٹائین اسٹیشن” میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر” کی پوسٹ کے لیے ویکنسی کا اعلان کرتی ہے۔ مرکزی سطح پر یو پی ایس سی ایک مقابلاتی امتحان کے ذریعے کامیاب طلبہ کا انتخاب کرتی ہے۔ اس ڈپارٹمنٹ میں اور بھی مختلف عہدے ہوتے ہیں۔ مثلاً پلانٹ پروٹیکشن ایڈوائزر، پلانٹ پروٹیکشن آفیسر وغیرہ۔ پلانٹ قورنٹائین میں ان تمام پوسٹ کے لیے منعقد ہونے والےامتحانات میں لازمی کوالیفیکیشن ایم ایس سی ہے۔ جس میں پلانٹ پیتھالوجی اختصاصی مضمون ہونا چاہیے۔ بوٹنی اور ایگریکلچر والے طلبہ بھی اس امتحان میں شرکت کرسکتے ہیں۔

ٹشو کلچر لیبارٹریز:

یہ ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں تحقیق، بریڈنگ اور نشونما کے لیے چھوٹے پودے ایک مخصوص آب و ہوا میں اگائے جاتے ہیں جسے گروتھ چیمبر کہا جاتا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں ہزاروں سے زائد ٹشو کلچر لیبارٹریز قائم ہیں۔ پلانٹ پیتھالوجی کی ڈگری مکمّل کرنے کے بعد اس طرح کی مختلف لیبارٹریز میں روزگار کے بھرپور مواقع ہیں۔ چند اہم ٹشو کلچر لیبارٹریز کے نام حسب ذیل ہیں:

  • جن(gene) ویں بائیوٹیک
  • شری مکوند بائیوٹیک
  • کرشی جیونی جینیٹکس
  • شیل بائیوٹیک لیمیٹیڈ 

سیڈ کمپنیاں:

سیڈ کمپنیاں تجارتی کاشتکاروں اور شوقیہ باغبانوں کو پھولوں، پھلوں اور سبزیوں کے لیے بیج تیار اور فروخت کرتی ہیں۔ بیج کی پیداوار اربوں ڈالر کا عالمی کاروبار ہے۔ پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ ان کمپنیوں میں روزگار کے مواقع تلاش کر سکتے ہیں۔ ہندستان میں ہزاروں سیڈ کمپنیاں اس وقت سرگرم ہیں۔ چند کے نام حسب ذیل ہیں:

  • جے ،کے جینیٹکس لیمیٹیڈ 
  • کرشک بھارتی کوآپریٹیوLTD

ایجنسیز برائے تحفظِ ماحولیات:

ماحولیاتی تحفظ ایجنسی افراد، گروہ اور حکومتوں کی طرف سے قدرتی ماحول کی حفاظت کا عمل ہے۔ اس کا مقصد، قدرتی وسائل اور موجودہ قدرتی ماحول کا تحفظ کرنا اور جہاں تک ممکن ہو نقصانات کو کم کرنا ہے۔ ہندوستان میں بہت سی NGO ان اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔ پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ ان NGO کے ساتھ مل کر خدمات انجام دے سکتے ہیں۔ چند اہم NGO کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

  • اشوک ٹرسٹ فور ریسرچ اِن ایکولوجی اینڈ انوائرنمنٹ
  • چنتن انوائرنمنٹ اینڈ ایکشن گروپ 
  • سنکلپ تارو فاؤنڈیشن
  • انوائرنمنٹلسٹ فاؤنڈیشن آف انڈیا وغیرہ۔

ایگرو کیمیکل کمپنیاں:

یہ ایسی کمپنیاں ہوتی ہیں جہاں زراعت میں اضافہ اور پودے کی بیماریوں کے ازالے کے لیے پروڈکٹس بنائے جاتے ہیں۔اس طرح کی کمپنیوں میں پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ کا کیمپس سلیکشن کے ذریعے بھی تقرر کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں ہزاروں کی تعداد میں ایگرو کیمیکل کمپنیاں سرگرم ہیں۔ حسبِ ذیل چند کے نام بطور مثال پیش ہیں۔

  • پی آئی انڈسٹریز لمیٹڈ 
  • یونائیٹڈ فاسفورس لمیٹڈ 
  • بھارت رسائین
  • ہیرنبا انڈسٹریز 

پلانٹ پروٹیکشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ:

پودوں کے تحفظ کے لیے تحقیقی ادارے کا اہم کام پیتھوجن کی شناخت، کنٹرول اور پودوں کی بیماریوں کے سبب جانداروں سے متعلق تمام معلومات کا احاطہ کرتا ہے۔ جس میں زرعی مسائل کو حل کرنا اور کیمیکل کے استعمال کو کم کرتے ہوئے ماحول دوست تکنیک کے استعمال کو ترجیح کے ساتھ مستقبل کے لیے پیداوار کی معیارات کو بڑھانا ہے، شامل ہے۔ پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ ان اداروں میں شمولیت اختیار کرسکتے ہیں۔

بوٹینیکل گارڈن:

ملک اور بیرون ممالک میں بوٹینیکل گارڈن میں طلبہ پلانٹ ہیلتھ آفیسرز، پلانٹ اِنوِجِلیٹر جیسے پیشے اختیار کرسکتے ہیں۔

پلانٹ ڈیسیز ڈائیگ نوسٹک ليبس:

یہ پودوں کے لیے مخصوص لیبس ہوتے ہیں جہاں مرض کی شناخت اور علاج کے لیے آبزرویشن میں رکھا جاتا ہے۔ ان لیباریٹریوں میں پروجیکٹس منیجر، پروجیکٹس سائنٹسٹ جیسے عہدوں پر جاب کے لیے اپلائی کیا جاسکتا ہے۔

بائیو کنٹرول فارمز:

یہ پیسٹس کو کنٹرول کرنے کا ادارہ ہوتا ہے۔ یہاں بھی پلانٹ پیتھالوجی کے طلبہ کے لیے بہترین مواقع ہیں۔ حسبِ ذیل چند کے نام بطور مثال پیش ہیں۔

  • اگرو بائیو ٹیک ریسرچ سینٹر لمیٹڈ
  • سمریدھی کرپس انڈیا پرائیوٹ لمییٹڈ
  • منی دھرما بائیوٹک پرائیویٹ لمیٹڈ

ایگریکلچر کنسلٹنسی فرمز: 

ان اداروں سے طلبہ سرٹیفیکیشن کرسکتے ہیں۔ کنسلٹنسی فرمز 6 مہینے يا سال بھر کی ٹریننگ بھی فراہم کرتی ہیں۔

پلانٹ پیتھالوجی میں داخلہ اور امتحانات کی اہلیت: 

ہندوستان میں بہت سے معروف ادارے ہیں جہاں “نباتی امراضیات” کا کورس موجود ہے۔ ان یونیورسٹیز میں داخلے کے لیے ایسے طلبہ درخواست دے سکتے ہیں جنہوں نے “بی ۔ایس۔سی (بوٹنی، ایگریکلچر، ہورٹیکلچر، کروپ سائنس، فوریسٹری، لائف سائنس) میں 50 فیصد مارکس حاصل کیے ہوں۔ ملک گیر سطح پر 4 امتحانات کے ذریعے داخلے کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

  • U AT 
  • JEE Mains
  • GATE
  • ICAR AIEEA

ان داخلہ امتحانات کے علاوہ بہت سی یونیورسٹیاں اپنا انٹرنس ٹیسٹ منعقد کرتی ہیں۔ کورس کی فیس 3000 تا 1.2 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ ہندوستان میں ایسے معروف ادارے موجود ہیں، جہاں سے پلانٹ پیتھالوجی میں ماسٹرز پروگرام کرنا طلبہ کا خواب ہوتا ہے۔ یہاں تعلیم کا اچھا معیار، بہترین لیبارٹریز اور اہم تحقیقی رسالے ہر سنجیدہ طالبِ علم کو داخلے کے لیے مائل کرتے ہیں۔ طلبہ یہاں داخلہ پا کر اپنے خواب کو شرمندہ تعبیر کرتے ہیں۔ ان اداروں کے نام حسبِ ذیل ہیں۔

  • انڈین ایگریکلچر ریسرچ انسٹیٹیوٹ، نئی دہلی
  • تمل ناڈو ایگریکلچر یونیورسٹی ،کوئمبٹور
  • بی ۔ایف۔آئی۔ٹی ،دہرادون
  • مہرشی مرکنڈیشور، امبالہ
  • علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
  • ایل۔پی۔یو ۔پنجاب
  • اچاریہ این ۔جی رنگا ایگریکلچر یونیورسٹی، حیدرآباد
  • پنجاب ایگریکلچر یونیورسٹی
  • انڈین ایگریکلچر اسٹیٹکس ریسرچ یونیورسٹی،نئی دہلی
  • انڈین ویٹرنری ریسرچ انسٹیٹیوٹ ،بریلی وغیرہ۔

(مضمون نگار نے دہلی یونیورسٹی سے شعبہ نباتات (Botany) میں گریجوئیشن مکمل کیا ہے اور فی الحال نالندہ یونیورسٹی میں ماسٹرز کے طالب علم ہیں۔)

[email protected]

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں