چلتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے

ڈاکٹر سلیم خان

-فتحِ کامل کی خبر دیتا ہے جوشِ کارزار-

7/اکتوبر 24 یعنی ابتدائے انقلابِ عظیم کی پہلی سالگرہ کے دن سب سے چونکانے والی خبر اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے ویٹربی سنٹر فار پبلک اوپینین اینڈ پالیسی ریسرچ ‘کی شائع کردہ ے رائےعامہ کا جائزہ ہے ۔اس سروے کے رائے دہندگان نے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کو ایک خیالی ہدف تک پہنچنے کی ناکام کوشش قرار دیا ہے۔ اسرائیل نہ اپنے قیدی بزور قوت رہاکراسکا اور نہ حماس کا قلع قمع کرسکا اس لیے یہودی باشندوں کا اس نتیجے پر پہنچنا کہ ناقابلِ تسخیر سمجھی جانے والی صہیونی ریاست اپنے متعین کردہ مقصد میں ناکام ہوگئی توقع کے عین مطابق ہے لیکن ایک سال قبل اس کا تصور بھی محال تھا۔ ساری دنیا اس خیالِ خام میں مبتلا تھی کہ امریکہ اور یوروپ کی مدد سے اسرائیل جب چاہے گا جسے چاہے گا کچل کے رکھ دے گا لیکن تمام تر تباہی و بربادی کے باوجود اب اسرائیلی حکومت یہ گہار لگا رہی ہے کہ ہمارے قیدیوں کو رہا کردو تو ہم یحیٰ سنوار کو سوڈان جانے کا محفوظ راستہ دے دیں گے ۔ یہ پیشکش اپنے آپ میں مغرور استعمار کا اعترافِ شکست ہے۔ 7/اکتوبر 2023ء کا حملہ دراصل فیض احمد فیض کے اس شعر کی مصداق تھا؎

اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو وہ وقت قریب آ پہنچا ہے
جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے


اسرائیل کا دوسرا ہدف حماس کو صفحۂ ہستی سے مٹا دینا تھانہ کہ 42 ہزار لوگوں کو شہید کرنا جن میں 69 ؍ فیصد بچے اور خواتین شامل ہیں۔ وہ 86 فیصد انفرا سٹرکچر تباہ کرنے کے لیے 5 ایٹم بم کے برابر اسلحہ بھی استعمال نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن یہ سب کرنے کے باوجود حماس جوں کی توں موجود ہے اس لیے اسرائیل ناکام ہوگیا ۔ آج ہی’حماس‘ کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے جنوبی غزہ کے رفح میں گھات لگا کر حملے کرکے یہ ثابت کردیا کہ نیتن یاہو کی تمام گیدڑ بھپکیوں کے باوجود ’ٹائیگر زندہ ہے‘۔ اس نے اسرائیلی فوجیوں اور گاڑیوں کو نشانہ بنا کر تباہ کردیا ۔ گزشتہ سال 27؍ اکتوبر کو غزہ میں القسام بریگیڈز نے زمینی حملے کا آغاز کیا تھا جو اب بھی جاری و ساری ہے۔آپریشن طوفان الاقصیٰ کی سالگرہ کے موقع پر حماس نے اس بات پر زور دیا کہ’’ ۷؍ اکتوبر 2023ء سے شروع ہونے والی جدوجہدتحریکِ آزادی کا ایک تاریخی مرحلہ اور قومی نصب العین کو ختم کرنے کے صہیونی منصوبوں کا قدرتی ردعمل تھا‘‘۔


حماس نے ”آزادی کے لیے طوفان” کے عنوان سے اپنے بیان میں کہا کہ گذشتہ ایک سال کے دوران اسرائیلی فوج نے فلسطینی عوام کے خلاف حالیہ تاریخ کی سب سے ہولناک نسل کشی کرکے بدترین جنگی جرائم اور قتل عام کا ارتکاب کیا ہے ۔ اس کے مطابق اس کے جواب میں فلسطینیوں کی ثابت قدمی اور مزاحمت کی حمایت میں متحد ہونا ہی حماس کی طاقت کا وہ سرچشمہ ہے جس نے دشمن کے تمام مکروہ عزائم اورمنصوبے خاک میں ملا دیئے۔ اس بیان میں واضح کیا گیا کہ فلسطینی عوام اپنی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور دشمن کے ساتھ اپنے آئینی اور جائز حقوق پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ حماس نے مزاحمت کے رہنماؤں کوشہید کرنے کے صہیونی عزائم پر مایوس ہونے کے بجائے اعلان کیا کہ یہ کارروائیاں مزاحمت کی طاقت، مضبوطی اور دشمن کے جارحانہ منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے عزم میں اضافہ کریں گی فیض نے اس کیفیت کا یوں اظہار کیا تھا کہ؎

کٹتے بھی چلو، بڑھتے بھی چلو، بازو بھی بہت ہیں سر بھی بہت
چلتے بھی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے


حماس کے قائد خالد مشعل نے ’طوفان الاقصیٰ‘ کی پہلی سالگرہ پرکہا ہے کہ ایک سال کی جارحیت کے باوجود صہیونی دشمن اپنے مکروہ عزائم میں بدترین شکست سے دوچار ہوا ہےاور آئندہ بھی کامیاب نہیں ہوسکےگا۔موصوف نے اہلیانِ غزہ کو ثابت قدمی پر مبارکباد دی۔انہوں نے شہید حسن نصراللہ کی قیادت میں فلسطینی کاز کے لیے قربانیاں پیش کرنے والےلبنان، ایران، یمن اور عراق کے حمایوں کا شکریہ ادا کیا ۔ خالد مشعل کے مطابق بے پناہ قربانیوں کے باوجود طوفان الاقصیٰ نے مسئلہ فلسطین کو نئی زندگی عطا کردی ۔ انہوں نے اس مہم کے سبب اسرائیل کو لاحق وجودی بحران کے حوالے سے کہا کہ اسرائیلیوں کی خود اعتمادی کو متزلزل ہوچکی ہے۔یہ خیال بھی سروے کے نتائج سے مماثل ہےکیونکہ اسرائیلی بھی حماس کو فاتح سمجھتے ہیں ۔ خالدمشعل کے مطابق اس حملے نے دنیا کو اسرائیل کی حقیقی تصویر اور ”مزاحمت کی تخلیقی صلاحیتوں“ سے روشناس کیا۔


خالد مشعل یاد دلایا کہ آزادی کو بھاری قیمت ہوتی ہے۔ انہوں نے مزاحمتی دستوں کو متحدہو کر مغربی کنارے سمیت دیگر اضافی محاذوں کو کھولنے پر زور دیا۔ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے بیت المقدس کے مرکزی اسٹیشن پر دلیرانہ فدائی حملے میں ایک اسرائیلی فوجی ہلاک اور 13 زخمی ہوگئے۔ اسرائیلی فوج کے ریڈیو نےاعتراف کیا کہ فدائی حملہ آور فلسطینی جزیرہ نما النقب کا رہائشی تھا۔اس سے قبل بیرسبع میں فائرنگ سے ایک اسرائیلی خاتون ہلاک اور 10 لوگ زخمی ہوئے تھے۔فلسطینی جنگجو نے ایک سرحدی محافظ کو چاقو سے زخمی کرکے اس کا ہتھیار چھین کر وہاں موجود آباد کاروں پر گولیاں چلائی تھیں۔یکم اکتوبر کو صیہونی ریاست کے مرکز تل ابیب میں ایک خودکش فائرنگ کی کارروائی میں 6؍اسرائیلی ہلاک اور 10 دیگر زخمی ہو گئے تھے ۔گزشتہ ہفتہ الخلیل کے رہنے والے محمد ارشد نے یافا ایک اسرائیلی فوجی کا خودکار ہتھیار چھین کرتل ابیب کے قلب میں دو مختلف مقامات پر ۷؍ صہیونی ہلاک اور سولہ کو زخمی کردیا تھا ۔اس طرح گویا یہ کشمکش غزہ سے نکل کر مغربی کنارے میں آگئی ہے۔ اس لیے خالد مشعل کے ذریعہ فتح کی بشارت قرین قیاس ہے۔ انہوں نے آزادی کی صبح کےجلد طلوع ہونے کی نوید سنائی کیونکہ؎

دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے

غزہ میں ناکامی کی پردہ پوشی کے لیےاسرائیل نے حسن نصراللہ کو شہید کرنے کے بعد لبنان پر فوج کشی کی مگر حزب اللہ نے اس کا منہ توڑ جواب دےکر پیچھے کھدیڑ دیا ۔ حزب اللہ نے جنوبی لبنان کے مارون الراس قصبے میں گھسنے والی فوج پر حملہ کرکے متعدد صہیونی فوجیوں کو واصلِ جہنم اور زخمی کیا جنہیں ہیلی کاپٹر کی مدد سے منتقل کیا گیا۔عبرانی میڈیا نے اس کا اعتراف کیا۔پچھلے ہفتہ گولان کی پہاڑیوں میں ایک فوجی اڈے پر عراق سے لانچ کیے جانے والے حملے میں گولانی بریگیڈ کے دو اسرائیلی فوجی ہلاک ہوئے۔صہیونی فوج نے ان کی شناخت 19 سالہ سارجنٹ ”ڈینیل ایویو ہائیم سوفر“ اوراس کے ہم عمر کارپورل ”تل ڈرور“ بتائی ۔اسرائیلی فوج نے گولان کے ایک فوجی اڈے پر عراق سے داغے گئے ڈرون کے دھماکے میں 23 فوجیوں کا زخمی ہونا قبول کیا۔ جنوبی لبنان میں اسرائیل کےفوجی آپریشن میں اب تک 12؍ اسرائیلی افسران اور فوجیوں کی ہلاکت کا اسرائیل اعتراف کرچکا ہے۔


اس دوران حوثیوں نے اسرائیل کے قلب میں میزائل سے حملہ کرکے صہیونیوں کے ہوش اڑا دئیے۔ اس کے جواب میں امریکہ نے اپنے بحری بیڑے سے ڈرون داغے تو انہیں گرا بھی دیا۔ ایران ابھی تک اسرائیل پر دو عدد حملے کرچکا ہے مگر اسرائیل میں انتقام لینے کی ہمت نہیں ہے۔ ایران کی سپاہ پاسداران انقلاب کے کمانڈر انچیف جنرل حسین سلامی نے اسرائیل پر حملے کو ”کامیاب، بااثر، روشن اور فتح مند“ قرار دے کر اس کا مقصد مزاحمتی محاذ کے شہداء کا بدلہ لینا اور صہیونی ریاست کو سزا دینا بتلایا ۔ اسرائیلی حکومت اس حملے کےنقصانات کی پردہ پوشی کررہی ہے۔ کمانڈر نےاعلان کیا کہ اسرائیل نےاگر میزائل حملوں کے جواب میں ایران پر حملہ کیا تو ”طاقت، مضبوطی اور جرأت“ کے ساتھ اس کا منہ توڑ جواب دیاجائے گا۔ ان ہی وجوہات کی بناء پر اسرائیلی اخبار ”معاریو“ میں شائع ہونے والے مذکورہ بالا سروے میں یہودی رائے دہندگان نے مانا کہ فلسطینی مزاحمت پر فتح حاصل کرنا ایک غیر حقیقی مقصد ہے۔ اسرائیل’حماس‘ پر فتح حاصل نہیں کرسکتا۔اس لیے سروے میں شامل 53 فیصدشرکاء نے کہا کہ ”جنگ کے خاتمے کا وقت آ گیا ہے“۔


اس سروے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ تقریباً دو تہائی اسرائیلی سات اکتوبر 2023ء سے اپنے ذاتی حفاظت کا احساس کھوچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ کہ جہاں 62 فی صد رائے دہندگان نے غزہ سے اسرائیلی قیدیوں کی واپسی کو اسرائیل کا بنیادی ہدف قرار دیاوہیں صرف 29 فی صد نے حماس کا تختہ الٹنےکو اصل مقصد بتایا ۔سچ تو یہ ہے ان دونوں ہی اہداف کی حصولیابی میں اسرائیلی حکومت پوری طرح ناکام ہوچکی ہے۔اسی لیےملائیشیا کے سابق وزیر اعظم مہاتیرمحمد سات اکتوبر 2023ء کو طوفان الاقصیٰ آپریشن کو دُنیا میں اسرائیلی بیانیے کے خاتمہ اور قوم کی بیداری کاوسیلہ بتاتے ہیں ۔ ’حماس‘ کے رہنما خلیل الحیہ نے کہا کہ سات اکتوبر 2023ء کے حملے نے فلسطینی کاز کوپوری دنیا میں زندہ کیا ہے،کیونکہ ”مجاہدین کی ایک مختصر سی جماعت نے چند گھنٹوں کے اندر اسرائیلی وجود کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔ اس کے اہم ترین فوجی ڈویژنوں کو بے اثر کر کے انہیں ہلاک، گرفتار اور زخمی کر دیا اور القسام کے بیٹے اور مزاحمتی دھڑے اب بھی انتہائی شاندار لڑائیاں لڑ رہے ہیں ۔ وہ اپنے اہل خانہ واعزہ کا دفاع اور حفاظت کر رہے ہیں‘‘۔ ان حوصلوں پر فیض کے یہ اشعار صادق آتے ہیں؎


یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی

 

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں