نئے سماج کا خواب

ایڈمن

عبید الرحمان نوفلسماجی تبدیلی یا سماج کی تشکیل نو کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سماج کیا ہے؟ سماج کن بنیادوں پہ تشکیل پاتا ہے؟ سماج کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ اور خصوصاً موجودہ سماج کو جس میں ہم…

عبید الرحمان نوفل


سماجی تبدیلی یا سماج کی تشکیل نو کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ سماج کیا ہے؟ سماج کن بنیادوں پہ تشکیل پاتا ہے؟ سماج کے عناصر ترکیبی کیا ہیں؟ اور خصوصاً موجودہ سماج کو جس میں ہم مکمل یا جزوی تبدیلی لانا چاہتے، جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
کسی بھی سماج کی تشکیل ایک خاص تصور کائنات (world view) کی بنیاد پہ ہوتی ہے۔ یہ تصور کائنات کیا ہوتا ہے؟ تصور کائنات کو ڈاکٹر ذکی کرمانی یوں ڈیفائن کرتے ہیں کہ “کائنات کیا ہے؟ اور انسان کا اس سے کیا رشتہ ہے؟ خود انسان کیا ہے اور وہ اس کائنات میں کیوں آیا ہے اور پھر یہ کہ اس جیسے دوسرے انسانوں سے اس کا کیا رشتہ ہے؟ اور اگر کائنات کے خالق کی حیثیت مسلمہ ہے تو یہ تینوں اِس سے کس طرح مربوط ہیں؟ ان رشتوں کا تعین ہی دراصل تصور کائنات کی وضاحت کرتا ہے”(1)۔ ان سوالوں کے مختلف جواب دیئے جاسکتے ہیں اور ورلڈ ویو مختلف ہونے کی بنا پر سماج کا ڈھانچہ و سسٹم بھی بدل جاتا ہے۔
تو سماج کی بنیاد تصور کائنات پہ ہوتی ہے۔ اس بنیاد پہ ہوتی ہے کہ لوگ بنیادی سوالات کا کیا جواب متعین کرتے ہیں۔صحیح و غلط کے کیا پیمانے متعین کرتے ہیں۔ کیونکہ پھر ان کی روشنی میں زندگی کے مختلف سماجی، سیاسی و معاشی میدانوں کے لیے اصول طئے کیے جاتے ہیں اور تھیوریز بلڈ کی جاتی ہیں۔ پھر مختلف ذرائع سے اس کو فروغ دیا جاتا ہے حتی کہ وہ ایک حقیقت بن جاتی ہے۔
ہم جس سماج میں رہ رہے ہیں وہ پہلے سے تشکیل شدہ ہے۔لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ موجودہ سماج کی بنیادیں کیا ہیں؟ کن اصولوں اور تصور کائنات پہ اس کی تعمیر ہوئی ہے؟ کیونکہ دراصل یہی اصول اور تصور کائنات ہیں جو سماج کی تشکیل کے لیے بنیادیں فراہم کرتے ہیں اور رخ دیتے ہیں۔
ہمارے سماج کی بنیادیں دراصل اس خاص تصور کائنات و فلسفہ حیات میں پیوستہ ہیں جو مغرب میں نشاۃ الثانیہ کے دور میں منظر عام پر آئے۔یہ تصورات بھی دراصل ایک خاص حالات کی پیداوار تھے جس کے اثرات اس میں نظر آتے ہیں ۔ لہذا ان مخصوص حالات کی وجہ سے ہی اس نے مذہب اور مذہبی تصورات سے الگ ہٹ کر عقل و سائنس کی روشنی میں ایک نیا تصور کائنات و حیات تشکیل دے ڈالا۔جس نے یا تو خدا کے وجود سے ہی انکار کیا یا خدا کے رول کو محدود تر کردیا۔ انسانی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا ۔انسان اپنی پرائیویٹ لائف میں تو مذہبی ہوسکتا ہے ،خدا اور روحانیت کا متلاشی ہوسکتا ہے لیکن پبلک لائف میں جہاں سارے انسان اپنے پرانی وابستگیوں(belongings) کو چھوڑ کر آرہے ہیں، وہاں مذہب کا کوئی رول نہیں ہوگا اورسارے معاملات انسانی عقل کی روشنی میں طے پائیں گے۔
ڈاکٹر راشد شاز کے الفاظ میں ” ڈیکارٹ نے جب ببانگ دہل اس بات کا اعلان کیا کہ “میں چونکہ سوچتا ہوں اس لیے میرا وجود ثابت شدہ ہے۔”(I think, therefore I am) تو وہ دراصل انسانی زاویہ فکر میں ایک بڑی تبدیلی کا اعلان کررہا تھا۔ یہ گویا اس بات کا اظہار تھا کہ آنے والے دنوں میں انسانی تہذیب خدا کے بجائے انسان کے گرد گردش کرے گی اور اس کی تقدیس کا نغمہ گائے گی….. وحی اور وجدان کے لیے اب کوئی جگہ باقی نہیں رہ گئی تھی ۔انسان خود اپنا پیمانہ تھا۔ وہی عبد بھی تھا اور معبود بھی “۔ (2)
یہ تصورات تیزی سے پھیل گئے اور مغربی ذہن کو متاثر کیا۔ ان کی روشنی میں سماجی، معاشی و سیاسی اصول بناے گئے، تھیوریز بلڈ کی گئیں اور ادب و میڈیا کے ذریعے ان کی نشر و اشاعت کا کام ہوا۔نتیجتاً مغرب میں ایک نیا انسان اور ایک نیا سماج وجود میں آیا۔ یہ سماج جو ایک خاص تصور کائنات کی روشنی میں وجود میں آیا تھا وہ یقیناً اپنے رسوم و رواج میں دنیا کے دوسرے سماجوں سے مختلف تھا۔ پھر دور استعمارمیں یہ نظریات و خیالات دنیا بھر میں پھیلاے گئےاور لوگوں کو یقین دلایا گیا کی مغربی سماج ہی ترقی یافتہ سماج ہے۔ کامیابی و ترقی کا صرف ایک طریقہ ہوسکتا ہے اور وہ ہے مغربی تصورات اورطرز زندگی کو قبول کرنا۔ جدیدیت نے اس طریقے سے خود کو منوایا کہ سارے لوگ اُسی کی لینگویج بولنے لگے اور اُسی کی اصطلاح میں بات کرنے لگے۔
لیکن، جیسا کہ Age of anger کے مصنف پنکج مشرا کی رائے ہے کہ ماڈرنٹی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی۔ وہ پرامن سماج ساری دنیا میں وجود میں نہ آسکا۔ سارے انسانوں کے حصے میں مادی خوشحالی نہ آئی۔ جس کے نتیجے میں بے چینی بڑھی ۔
مولانا وحید الدین خان بھی لکھتے ہیں کہ “موجودہ دور کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جدید انسان نے صنعتی تہذیب میں اپنے یقین کو کھو دیا ہے۔ یہ تہذیب آدمی کو زندگی کی حقیقی بنیاد فراہم نہ کرسکی”. (3)
جدیدیت کی زبان اپنے معنیٰ کھو چکی ہے اور مابعد جدیدیت نے جدیدیت کے بہت سے دعوں کو رد کرتے ہوئے ایسی دنیا تخلیق کی جسے Professor Alan Macfarlane نے A World without world view سے تعبیر کیا ہے۔ دنیا اب ایک نئی زبان کی تلاش میں ہے۔
انسانیت کو ضرورت ہے ایک نئے ورلڈ ویو کی جس کی روشنی میں نئے سماج کی داغ بیل ڈالی جاسکے۔اسلام کے پاس وہ ورلڈ ویو موجود ہے ۔لیکن جیسا کہ سعادت اللہ حسینی لکھتے ہیں کہ “دنیا کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی ڈھنگ کا تصورِ جہاں (ورلڈ ویو) نہیں ہے،جہاں سے کارآمد آئیڈیاز پیدا ہوسکیں ۔ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ورلڈ ویو ہے لیکن آئیڈیاز نہیں ہیں”۔(4)
اسلامی ورلڈ ویو کی روشنی میں نئی سماجی و سیاسی تھیوریز بلڈ کرنے، متبادل آئیڈیاز کی تخلیق کرنے اور ایک بہتر سماج کا خواب خود دیکھنے اور دنیا کو دکھانے کی ضرورت ہے۔
مولانا مودودی نے بھی اس جانب توجہ دلائی تھی۔ وہ لکھتے ہیں کہ” اب اسلام اگر دنیا کا رہنما بن سکتا ہے تو اس کی بس یہی ایک صورت ہے کہ مسلمانوں میں ایسے مفکر اور محقق پیدا ہوں، جو فکر و نظر اور تحقیق و اکتشاف کی قوت سے ان بنیادوں کو ڈھادیں، جن پر مغربی تہذیب کی عمارت قائم ہوئی ہے۔ قرآن کے بتائے ہوئے طریق فکر و نظر پر آثار کے مشاہدے اور حقائق کی جستجو سے ایک نئے نظامِ فلسفہ کی بنا رکھیں جو خالص اسلامی فکر کا نتیجہ ہو”. (5)
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی صاحب نے مولانا مودودی کی تحریروں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ان کی” تحریروں میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ اسلامی انقلاب کے لیے ایک فکری انقلاب ناگزیر ہے۔ اس فکری انقلاب کے لئے دو کاموں کی ضرورت ہے۔اول یہ کہ ہر میدان علم کی نسبت سے قرآن و سنت کی روشنی میں بنیادی نکات متعین کرکے ان علوم کی اسلامی تشکیل نو عمل میں لائی جائے.۔دوم یہ کہ مغرب کی مادہ پرست تہذیب نے ان علوم کی جو تشکیل کر رکھی ہے اس کو علمی تنقید کر کے بے بنیاد، غلط اور انسانیت کے لئے مضر ہونا ثابت کر دیا جائے۔”(6)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ سماج میں جزوی تبدیلی مطلوب ہو یا مکمل تبدیلی، اس کے لیے اسلامی تصور کائنات کی روشنی میں موجودہ سماج کا جائزہ اور نئے سماج کے لیے آئیڈیاز اور ماڈل کی تخلیق بنیادی ضرورت ہے۔
ہم یہاں پر ایک مثال لیتے ہیں۔
مغربی ورلڈ ویو کی روشنی میں مختلف نظام وجود میں آئے،انہی میں ایک صحت کا نظام بھی ہے۔جس پہ یقیناً مغربی ورلڈ ویو کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ۔ لہٰذا موجودہ صحت کے نظام کو مارکیٹ determine کررہی ہے۔ دوا بیچنے اور بیچ کر ڈھیروں پیسے حاصل کرنے کے لیے بنائی جارہی ہے جب کہ پہلے خدمت خلق کے جذبے سے لوگوں کے علاج کے لیے بنائی جاتی تھی۔ اور علاج پہلے صرف دوا سے نہیں ہوتا تھا،طبیب دعا پہ بھی کثرت سے توجہ دیتے تھے۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی کمیوں کا مشاہدہ ابھی ہم نے پچھلے چند مہینوں میں کیا ہے ۔ یہاں جو بات سمجھنا ہے وہ یہ کہ یہ ساری چیزیں اور اس طرح کا طبی نظام دراصل ایک خاص فکر و تصور حیات کا پیداوار ہے۔
لہذا طبی نظام و سماج کے دیگر سسٹم کی اصلاح و تعمیر نو کے لیے نیز دیگر سماجی مسائل مثلاً چند ہاتھوں میں دولت کا ارتکاز،ماحولیاتی بحران وغیرہ کے خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ اسلامی ورلڈ ویو کی روشنی میں، جس میں خدا کو مرکزی حیثیت حاصل ہے، موجودہ سماجی ڈھانچے کا جائزہ لیا جائے اور نئے آئیڈیاز اور ماڈل پیش کیے جائیں۔ ایک نئے سماج کا خواب دیکھا جائے۔
حوالہ جات
1)) محمد عمر چھاپرا (2015) “مسلم تہذیب : زوال کیوں کر اور اصلاح کیوں کر” (اردو ترجمہ: محمد ذکی کرمانی). ایویروز اکیڈمی، علی گڑھ۔ ص 1
(2) راشد شاز (2008) “اسلام: مسلم ذہن کی تشکیل جدید”، ملی پبلی کیشنز، نئی دہلی۔ ص 161
3)) مولانا وحید الدین خان “الاسلام” (1977) گُڈورڈس بُکس ،نئی دہلی ۔ ص 169
4)) سید سعادت اللہ حسینی (2018) “بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر”،ہدایات پبلشرز، نئی دہلی ۔ص 123
5)) سید سعادت اللہ حسینی (2018) “بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر”،ہدایات پبلشرز، نئی دہلی۔ ص 119
6))محمد نجات اللہ صدیقی (2000) “اسلام، معاشیات اور ادب : خطوط کے آئینہ میں”، ایجوکیشنل بک ہاوس، علی گڑھ۔ص 318

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں