ندوۃ العلماء بلند مقاصد و تخیلات کی حامل ایک ایسی ہمہ گیر دینی و دعوتی، علمی و فکری، سماجی و اصلاحی اور ثقافتی تحریک ہے، جس نے اپنے سفر کا آغاز انیسویں صدی کے آخر میں ایک ایسے نازک اور بحرانی دور میں کیا، جو کہ مسلمانوں کے ہمہ جہت زوال اور مغرب کے یک طرفہ عروج کا وقت تھا۔ اس دور میں مسلم معاشرہ دو متوازی طبقوں (علمائے دین اور مغربی تعلیم یافتہ حضرات) کے درمیان منقسم ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف مذہبی فرقوں اور فقہی مسلکوں میں بٹا ہوا تھا۔ مناظروں، مجادلوں اور تفسیق و تکفیر کی گرم بازاری تھی۔ علمائے دین ایسے نصاب کے پروردہ تھے جن کے اندر سرے سے یہ صلاحیت موجود ہی نہیں تھی کہ وہ زمانے کے تقاضوں کے مطابق کچھ نتیجہ خیز تعمیری و اصلاحی کام کر سکیں اور ملت کی ڈوبتی نیا پار لگائیں۔ دوسری طرف کالجوں اور یونیورسٹیوں کے ساختہ پرداختہ تعلیم یافتہ حضرات مغرب کے غاشیہ بردار بنتے ہوئے مکمل فکری و تہذیبی مرعوبیت کے شکار تھے۔ ایسے میں چند منتخب اہل نظر اور درد مند حضرات نے اس کا ایک حل تجویز کیا اور ”ندوۃ العلماء“ کے نام سے ایک انجمن قائم کی۔ اس تحریک کے پیشواؤں میں مولانا سید محمد علی مونگیری، علامہ شبلی نعمانی، مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی، مولانا حکیم سید عبدالحئی حسنی اور منشی احتشام علی کاکوروی وغیرہ خصوصاً قابل ذکر ہیں۔ اس تحریک نے جن بنیادوں پر اپنے سفر کا آغاز کیا وہ مندرجہ ذیل تھیں:
1- مسلمانوں کا باہمی اتحاد اور اسلامی نشأۃ ثانیہ کے لیے مختلف اجتماعی، اصلاحی و تعلیمی کوششوں میں ہم آہنگی۔
2- مسلمانوں کے مختلف امور و مسائل کے حل کے لیے مختلف مسلک و مشرب کے صحیح العقیدہ علماء کے ایک مشترکہ پلیٹ فارم کی تشکیل۔
3- اسلامی اصولوں اور شریعت اسلامی کے مقاصد کو سامنے رکھ کر علوم دینیہ کے نصاب میں ایسی تبدیلیاں جو عصر حاضر کے تقاضوں کی تکمیل کر سکیں۔
4- علماء کی دینی سطح کو بلند اور ان کے فکر و معلومات کے افق کو وسیع کرنا اور ایسے علماء تیار کرنا جو قدیم و جدید دونوں طبقوں کے اعتماد کے اہل اور احترام کے مستحق ہوں اور مسلمانوں کی دینی، فکری، علمی قیادت کے اس منصب پر فائز ہو سکیں جو عرصے سے خالی چلا آرہا ہے۔
انہیں مقاصد کو بروئے کار لانے کے لیے تحریک ندوۃ نے اپنے قیام کے چار سال بعد 1998ء میں ایک ادارے کے قیام کا فیصلہ کیا اور دارالعلوم ندوۃ العلماء کے نام سے اتر پردیش کے مردم خیز شہر لکھنؤ میں اس ادارہ کا قیام عمل میں آیا۔
ندوۃ العلماء نے اپنی 125/سالہ زندگی میں ان مقاصد کی جس ثبات و استقامت، ہوشمندی و بیدار مغزی اور حسن و خوبی کے ساتھ خدمت کی ہے، وہ ہندوستانی مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ عالم اسلام کی تاریخ میں ایک یادگار اور شاندار باب کی حیثیت رکھتی ہے، جس کو اسلامی تعلیم و ثقافت کا کوئی مؤرخ نظر انداز نہیں کر سکتا، اس نے جدت و قدامت، راسخ العقیدگی اور عصری تقاضوں، دین اور دنیا، اور قدیم صالح و جدید نافع کے درمیان جیسا توازن و اعتدال اور خوشگوار امتزاج قائم رکھا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔
اس نے دینی علوم کے پہلو بہ پہلو عصری علوم کی تعلیم و تدریس، اردو و عربی تصنیف و تالیف اور انشاء و صحافت، عصری دانشگاہوں کی مناسب رفاقت اور ہندوستانی مسلمانوں کی سیادت و قیادت، عالم اسلام اور عالم عربی سے مضبوط و محکم علمی وثقافتی تعلقات اور زندگی کے دوسرے میدانوں میں جو لافانی نقوش قائم کئے ہیں، وہ ہندوستانی مسلمانوں کے علمی و ثقافتی سفر میں سنگ میل اور نشانِ منزل کی حیثیت رکھتے ہیں اور ہندوستانی مسلمانوں کے لیے سرمایۂ افتخار ہیں:
خارہا از اثرِ گرمئ رفتارم سوخت
منّتے بر قدیم راہروان است مرا!
رفع نزاع باہمی اور اتحاد بین المسلمین کے میدان میں تحریک ندوۃ العلماء ہمیشہ تیز گام اور سبک رفتار رہی ہے، اس نے اپنے اسٹیج پر، اپنی مجلس انتظامی، تعلیمی اسٹاف اور طلبہ کی جماعت میں مسلمانوں کے مختلف مکتب خیال و دبستان فقہ سے تعلق رکھنے والوں کو یکساں احترام و مقام بخشا ہے اور اختلاف و افتراق کی جگہ اتحاد و اتفاق اور شیرازۂ ملت کے استحکام و یک جہتی پر زور دیا ہے، جس کے اثرات ہندوستانی مسلمانوں کی زندگی پر بھی محسوس کیے جاسکتے ہیں۔
فضلائے ندوہ نے نسل نو کی ایمانی و فکری تربیت اور مسلمانوں میں اسلام کی قائدانہ صلاحیت اور پیغمبر اسلام کی رسالت اور اس کی ابدیت و شمولیت پر اعتماد بحال کرنے کے لیے علوم و افکار اور زبان و ادب کے ہر شعبے کو اپنی توجہات کا مرکز بنایا ہے۔ عربی و اردو صحافت، ادب عربی، تفسیر، حدیث، فقہ، تاریخ و سیرت، معاشرت و سیاست، فکر مغرب اور اس کی خامیوں، مستشرقین اور اعدائے اسلام کے بے بنیاد اعتراضات پر عصری اسلوب میں بیش قیمت سرمایہ فراہم کیا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے مسلمانوں کی سماجی و سیاسی مضبوطی کے لیے ہر ہر علاقے میں تعلیمی، اصلاحی اور دعوتی امور پر بھی زور دیا اور سنجیدہ اشخاص اور سرگرم ملی تنظیموں کے تعاون سے اس میں قابل قدر کامیابیاں بھی حاصل کی۔
ذیل میں قارئین کے لیے ندوۃ العلماء کے ان چار اہم علمی و تحقیقی اداروں کا تعارف پیش کیا جاتا ہے، جو ندوی فکر کے مطابق اسلامی علوم اور مسلمانوں کی دینی و سماجی خدمت انجام دے رہا ہے:
1- رابطہ ادب اسلامی:
رابطہ ادب اسلامی گرچہ مستقل ایک عالمی ادارہ ہے، لیکن ندوۃ العلماء کا اس کی داغ بیل ڈالنے میں بنیادی رول رہا ہے اور دارالعلوم کے ذمہ داران اور متعدد فضلاء اس کے روح رواں رہے ہیں۔ مولانا سید جعفر مسعود حسنی ندوی (ناظر عام: ندوۃ العلماء) کل ہند سطح پر اس کے جنرل سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ رابطہ کا مرکزی دفتر دارالعلوم کے احاطہ ہی میں واقع ہے۔
بانیان ندوۃ کو اس بات کا گہرا ادراک تھا کہ ادب محض دل بستگی کی چیز نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے اندر معاشرے کو راہ دکھانے اور اس کے افراد کو متاثر کرنے کی عظیم طاقت بھی رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے اسلام نے ادب و شاعری کو بے پایاں اہمیت دی ہے اور قرآن مجید کو رہتی دنیا تک کے لیے فصاحت و بلاغت کے اعجاز کا نمونہ اور فن ادب کا سب سے اونچا معیار قرار دیا ہے، تاکہ ہر دور میں اسلام کے نام لیوا ادب کی تاثیر کو سمجھیں اور زبان و بیان کی درستی اور فن کی چابک دستی کے ساتھ جو کوئی بھی صنف سخن اختیار کریں، بس یہ ضروری ہے کہ ان سے معاشرے میں خیر کے اقدار فروغ پائیں۔ اسی اہمیت کے پیش نظر علامہ شبلی نعمانی، سید سلیمان ندوی، مسعود عالم ندوی، عبد السلام ندوی، عبد الماجد دریا آبادی، عبدالباری ندوی وغیرہ کے علاوہ دیگر کئی ندوی فضلاء نے اپنے گہر بار قلم کے ذریعہ فن و ادب کی آبیاری کا کام کیا ہے اور مختلف موضوعات پر تحریر کی پختگی و شگفتگی، زبان و ادب کی چاشنی، جملوں کی برجستگی کے ساتھ قیمتی سرمایہ چھوڑا ہے۔ اخیر وقت میں اس کے قافلہ سالار مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی ہوئے، جنہوں نے ادب اسلامی کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا۔ آپ نے اپنی ولولہ خیز تحریر و تقریر کے ذریعے ادب اسلامی اور اس کے فروغ کے لیے لوگوں کے اندر خوب حرکت پیدا کی۔ جب آپ دمشق کی مشہور اکیڈمی ’’المجمع العلمی العربی‘‘ کے رکن منتخب ہوئے تو وہاں بھی اس کی دعوت دی، جس کا تمام عرب ممالک میں مثبت ردّعمل ہوا، پھر 1981ء میں حضرت مولاناؒ کی دعوت پر ایک بین الاقوامی سیمینار میں اسلامی ادب کی عالمی تنظیم کی ضرورت محسوس کی گئی اور ایک تمہیدی سطح کا دفتر ندوۃالعلماء میں قائم کردیا گیا، 1985ء میں مکہ مکرمہ میں حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندویؒ کی زیر صدارت ایک نشست میں ادب اسلامی کے لیے بین الاقوامی انجمن کی تشکیل کا فیصلہ ہوا۔
جس کے لیے اگلے ہی سال ندوۃ العلماء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی، جس میں ہندوستان کے علاوہ عرب ممالک کے اساتذۂ ادب و شعراء شریک ہوئے اور رابطہ ادب اسلامی کے نام سے انجمن تشکیل کی گئی، انجمن کے اغراض و مقاصد اور قواعد و ضوابط مرتب کیے گئے اور مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ کو ہی صدر منتخب کیا گیا، ندوۃالعلماء میں اس کا صدر دفتر قائم ہوا، اس وقت سے اب تک عالم اسلام کے تمام ملکوں میں اسلام پسند ادیبوں اور شاعروں کی بڑی تعداد اس کی ممبر بن چکی ہے،
رابطہ ادب اسلامی نے عربی زبان میں اپنی جدوجہد کے لیے تین میدانوں کا انتخاب کیا ہے، ان میں سے ایک اسلامی ادب کے تعارف وتشریح کا میدان، دوسرا اسلامی رجحان رکھنے والے ادب کی کاوشوں کو تقویت پہنچانے اور قابل تحمل حد تک ان کے ساتھ تعاون کرنے کا میدان، تیسرا اسلامی ادب کے ذخیرہ میں نئے اضافے کرنے کا میدان ہے اور ان سب میں قابلِ قدر کامیابی حاصل کی ہے۔
ادب اسلامی کے اس خیال اور تحریک کو عمومی مقبولیت حاصل ہوئی۔ عالمی رابطہ ادب اسلامی کے اس وقت سعودی عرب، کویت ، شام ، اردن ، مصر ، ترکی ، پاکستان ، ہندوستان ، بنگلہ دیش ، ملائشیا، مراکش اور تیونس سمیت دیگر کئی اسلامی ممالک میں اس کے دفاتر کام کر رہے ہیں، ان تمام ملکوں کے مختلف شہروں میں کئی سیمینار منعقد ہوئے، جن کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ نیز رابطہ ادب اسلامی کے مسائل پر غور و فکر کے لیے ہر سال مجلس امناء کا جلسہ منعقد ہوتا ہے اور ہر تین سال پر سارے اراکین کا ایک عمومی اجلاس ہوتا ہے۔
عالمی رابطہ ادب اسلامی نے ادب کے مختلف موضوعات و اصناف خصوصاً نقد ادب، تاریخ ادب، قصہ گوئی، ڈرامہ اور ادب اطفال پر عظیم اور پیش قیمت لٹریچر تیار کیا ہے۔ مصر، ترکی، پاکستان، سعودی عرب اور ہندوستان سے اس کے افکار کے ترجمان کے طور پر ادب اسلامی کے عمدہ اور بیش قیمت مجلات نکلتے ہیں، ہندوستان کے صدر دفتر لکھنؤ سے سہ ماہی مجلہ ”کاروان ادب“ نکلتا ہے۔
ہندوستان میں رابطہ ادب اسلامی کے شاخیں دہلی، حیدرآباد، اورنگ آباد، ممبئی، جمبوسر گجرات، پونہ، بھوپال، کلکتہ، بھٹکل، کیرالا، بنگلور، پٹنہ، رانچی اور غازی پور وغیرہ میں قائم ہیں اور ادب اسلامی کے تعلق سے اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہندوستانی دفتر کے تحت اب تک مختلف اہم موضوعات پر 38 قومی سیمینار منعقد ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی مختلف شاخوں کے تحت بھی متعدد علاقائی سیمینار اور ماہانہ نشستیں ہوتی رہتی ہیں۔ (مزید تفصیل کے رابطہ کی ویب سائٹ سے رجوع کریں)
2- مجلس تحقیقات و نشریات اسلام:
یہ اصلاً ایک اشاعتی ادارہ ہے، جس کا مقصد سیاست و معاشرت، کلام اور فقہ و شریعت، سیرت و تاریخ سے متعلق مسائل حاضرہ سے بحث اور اسلام کے پیغام کی عصری اسلوب میں ترجمانی ہے۔ مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی کے مطابق ”علامہ شبلی نعمانی نے جو تصنیفی ادارہ قائم کیا تھا، اس نے اپنی کوششیں اسلامی اور علمی موضوعات پر مرکوز کردیں اور ان پر تاریخ کا رنگ غالب تھا اور اس کی مطبوعات زبان اردو تک ہی محدود تھیں، جبکہ اس عرصہ میں نئے مسائل اور نئی صورتحال پیش آنے لگی۔ مثلاً قومیت، نئے مکاتب فکر، فلسفیانہ فتنے اور جارہانہ سیاسی رجحانات، جو فکر اسلامی کے لیے ایک چیلنج تھے۔ اس ضرورت کا احساس مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کو ہوا اور انہوں نے ندوۃ العلماء میں اس علمی ادارے کی بنیاد رکھی۔” مئی 1959ء میں قائم ہونے والے اس ادارے نے اردو کے علاوہ عربی، انگریزی اور ہندی زبانوں میں اسلامی مباحث کی اشاعت کا خوب اہتمام کیا ہے۔ تقریباً 65 سال کی مدت میں 405/کتابیں اس ادارے سے شائع ہوکر بڑی مقبول ہوئیں، ان میں سے متعدد کتابوں کے کئی کئی ایڈیشن نکلے اور ان میں سے درجنوں کتابوں کے ترجمے انگریزی، عربی، فارسی، ترکی، فرانسیسی، انڈونیشی، ہندی اور بنگالی زبانوں میں شائع ہوئے، ان کتابوں نے تعلیم یافتہ طبقہ سے خراج تحسین حاصل کیا، ان بیش قیمت کتابوں کے مصنّفین میں متعدد ایسے مقتدر اصحاب علم وفکر ہیں، جن کی تصنیفات وتالیفات ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں، مجلس کی یہ کتابیں تفسیر، حدیث، فقہ، سیرت نبویؐ، اسرارِ شریعت ،تاریخ اسلامی ،فکر اسلامی، تمدن اسلامی و غیر اسلامی نظریات کا تقابل، مختلف ممالک کے دعوتی اسفار، اصلاحی تقریریں اور اس طرح کے متعدد مفید موضوعات پر مشتمل ہیں۔ انگریزی مطبوعات کی تعداد 50 سے متجاوز ہے۔ مجلس کی انگریزی کتابوں کی فہرست پر ایک نظر ڈالنے سے اس کی خدمات کی کمیت و کیفیت، ان کتابوں کے موضوعاتی تنوع اور طباعتی حسن کا اندازہ کیا جا سکتا ہے، جو اس ادارے کی (قلت وسائل کے کمی کے باوجود) محدود کوششوں پر اچھی طرح روشنی ڈالتی ہے۔
3- مجلس تحقیقات شرعیہ:
مجلس تحقیقات شرعیہ کا شمار ان اداروں میں ہوتا ہے، جن کو فقہ و فتاوی سے متعلق نئے مسائل پر اجتماعی غور و خوض کے لیے ادارہ جاتی کوششوں میں اولیت حاصل ہے۔ نومبر 1963ء میں مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی نے ہندوستان کے ممتاز ترین علماء و فقہاء کی مدد سے اس ادارے کی بنیاد ڈالی۔ اس وقت ہندوستان ہی نہیں پورے عالم اسلام میں نئے مسائل پر اجتماعی غور و خوض کے ادارے نہ ہونے کے برابر تھے۔ جدہ فقہ اکیڈمی، مکہ فقہ اکیڈمی، ادارہ مباحث فقہیہ اور اسلامک فقہ اکیڈمی، انڈیا، یہ سب بعد کے کام ہیں۔ اجتماعی اجتہاد کے لیے اس سے پہلے جامعۃ الازہر نے 1961 میں مجلس البحوث الاسلامیہ کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا تھا، جو ایک خوشگوار پہل تھی۔
مجلس تحقیقات شرعیہ وقت کے اہم تقاضے کی تکمیل تھی، اس کا علمی و فکری منہج اور تنظیمی ڈھانچہ ہر قسم کے دباؤ سے آزاد اور ہر غلط رجحان و خام خیالی سے محفوظ تھا۔ اخذ و استفادہ کے باب میں اس نے وسعت نظری سے کام لیا اور ملک کے تقریباً 30 مایہ ناز علماء و فقہاء کو بطور اراکین اس میں شامل کیا، یہ افراد جہاں علم و فکر اور دینی بصیرت میں اپنی مثال آپ تھے، وہیں ملک کے مختلف علمی و فقہی دبستانوں اور تحریکوں کے نمائندہ تھے۔ اس کے علاوہ بیرون ہند کے مختلف علماء کی ایک فہرست تیار کی گئی، تاکہ ان مسائل پر ہندوستان کے علماء کے ساتھ مصر و شام اور حجاز کے نامور علماء کی رائے بھی حاصل کی جائے۔ انہیں خوبیوں کو دیکھتے ہوئے علمی حلقوں میں اس کا خوب استقبال کیا گیا اور اس کے قیام کی خبر ملک کے اخبارات وسائل میں نمایاں طور پر شائع ہوئی۔ متعدد نامور اصحاب قلم نے مجلس کے قیام پر اپنی مسرت کا اظہار کیا۔ مولانا شاہ معین الدین ندوی (ناظم دارالمصنفین و مدیر ماہ نامہ معارف) نے معارف کے شذرات میں اپنے تاثر کا اظہار اس طرح کیا کہ: ”اس میں شبہ نہیں کہ مجلس نے جس کام کی ذمہ داری لی ہے وہ بڑا کٹھن ہے، مگر اس سے کم سے کم یہ فائدہ تو ضرور حاصل ہوگا کہ ضروری اور کثیر الوقوع معاملات و مسائل کے تمام پہلو، ان کے بارے میں مختلف مذاہب کے ائمہ کے مسلک اور موجودہ علماء کی رائیں سامنے آئیں گی۔ جن سے موجودہ تنگ دائرے میں وسعت پیدا ہوگی اور اندھیرے میں ایک راہ نظر آ جائے گی۔“
مجلس کے پہلے ناظم مولانا محمد تقی امینی صاحب نے مجلس کے قیام کے پہلے دن ہی سے مجلس کی سرگرمیوں کا آغاز کر دیا۔ تمام تنظیمیں سرگرمیوں کے ساتھ مسائل کی ایک فہرست تیار کی گئی جن کو ترجیحی طور پر غور و خوض کے لیے منتخب کیا گیا۔ اس فہرست میں درج ذیل مسائل شامل تھے:
- رؤیت ہلال
- انشورنس
- پراویڈٹ فنڈ
- حکومت کے قرضے
- کوآپریٹیو سوسائٹی
- کمرشیل انٹرسٹ
- ذبیحہ غیر مسلم
- ہوائی جہاز میں اوقات نماز
- وراثت، ولایت، طلاق ثلاثہ اور تعدد ازدواج وغیرہ
مجلس کے طریقۂ کار کی نوعیت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی حسنی ندوی کے نزدیک اس طرح تھی کہ: ”پہلے ایک سوال نامہ ارکان اور دوسرے ممتاز اہل علم و نظر کی خدمت میں بھیجا جائے گا اور کسی ایک مسئلہ کو منتخب کر کے اس پر ان کی رائے دریافت کی جائے گی، پھر ان کی آراء کو سامنے رکھ کر کسی مجلس میں ان پر بحث و مذاکرہ کر کے مسئلہ کی تنقیح کی جائے گی اور کسی ایک پہلو کو اختیار کیا جائے گا۔“
اس طریقۂ کار کے مطابق مجلس 1971ء تک سرگرم عمل رہی۔ علمی مذاکرے اور مشاورتی نشستیں منعقد ہوتی رہیں۔ انشورنس اور رؤیت ہلال جیسے موضوع پر اجتماعی غور و فکر سے حل تلاش کیا گیا۔ اس کی بازگشت پورے برصغیر میں سنی گئی، لیکن خدا جانے ایسی کیا رکاوٹیں پیش آئیں کہ اجتماعی سرگرمیوں کا سلسلہ دھیرے دھیرے بالکل منقطع ہو گیا، لیکن پھر ذمہ داران ندوۃ کی توجہ سے مجلس کے کاموں کا احیاء ہوا۔ فروری 2020 میں اس کا کام باضابطہ شروع ہو گیا۔ نامور عالم دین اور دار العلوم ندوۃ العلماء میں حدیث و فقہ کے سینئر استاذ مولانا عتیق احمد بستوی کو اس سکریٹری منتخب کیا گیا، پھر ان کے ذریعہ مقاصد کی تعین اور علمی و تحقیقی کاموں کا خاکہ تیار کیا گیا۔ قدیم ریکارڈ اور مقالات کی حفاظت، ترتیب و تحقیق اور عمدہ طباعت کا کام کیا گیا۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل اشاعتوں کے علاوہ 15/ سے زائد قیمتی کتابوں کی طباعت کا کام عمل میں آیا:
1- اجتہاد اور کار اجتہاد (اصول فقہ کے چند اہم مباحث)، از: مولانا عتیق احمد بستوی
2- اسلامی عائلی قوانین (مجموعہ مقالات مسلم فیملی لاء لیکچر سیریز)، مرتب: منور سلطان ندوی
3- علامہ سید سلیمان ندوی کے چند فقہی مقالات، مرتب: مولانا رحمت اللہ ندوی
4- ہندوستان میں نفاذ شریعت، از: مولانا عتیق احمد بستوی
اسی طرح مجلس کی ویب سائٹ بنائی گئی اور اس پر مجلس کی تاریخ اور شرعی نظام سے متعلق قدیم اہم مقالات اور کتابچے اپلوڈ کئے گئے۔ مسلم فیملی لاء پر ماہانہ خطبات کا سلسلہ جاری کیا گیا۔ اس سلسلے کے تحت متعدد ابھرتے اہم سماجی اور خاندانی مسائل پر اپ تک 22/ لیکچر سیریز کا اہتمام ہو چکا ہے، اس لیکچر سیریز کے پیچھے یہ مقصد پیش نظر تھا، کہ فیملی لاء سے وابستہ وکلاء حضرات (جو عموماً شریعت کے عادلانہ نظام سے ناواقف ہوتے ہیں اور عائلی مسائل میں شریعت کے نظام کی غلط ترجمانی کرتے ہیں، جس سے شریعت کے خلاف فیصلے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں) کے لیے لیکچر کا اہتمام کیا جائے اور شریعت کے احکام، نظام اور مقاصد کے تئیں وکلاء حضرات کی معلومات میں اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح مجلس فضلاء کی علمی و تحقیقی تربیت کا کام بھی انجام دے رہی ہے، اس کے لیے فارغین ندوۃ میں سے دو ہونہار طالب علموں کا معقول اسکالرشپ کے ساتھ انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ علمی موضوعات پر ماہانہ نشستوں کا آغاز کیا گیا۔ طلبۂ دارالعلوم کے اندر بنیادی قانونی واقفیت بہم پہنچانے کے لیے Legal literacy course کا آغاز ہوا۔ اس کے علاوہ فقہی مذاکروں کا بھی سلسلہ از سر نو شروع کیا گیا، جس کا پہلا کامیاب سلسلہ ”دو روزہ چوتھا فقہی سیمینار مؤرخہ 23/، 24/ نومبر 2022ء“ ہے، اس میں کورونا، سودی کاروبار اور سرکاری قرضے کی حلت و حرمت جیسے موضوعات پر تجاویز پاس کی گئیں۔
اس کا دوسرا کامیاب سلسلہ ”سہ روزہ پانچواں فقہی سیمینار منعقدہ 20/، 21/ اور 22 اکتوبر 2023ء“ ہے، یہ سیمینار دارالعلوم ندوۃ العلماء کے عظیم الشان ہال علامہ حیدر حسن خان ٹونکی میں منعقد کیا گیا، اس سیمینار میں ملک بھر کے 75/ سے زائد منتخب علماء، ممتاز اصحاب افتاء اور نئے مسائل پر لکھنے والے نوجوان فضلاء نے شرکت کی۔
اس سیمینار کے تین اہم موضوعات تھے:
1- مساجد میں خواتین کی آمد کا مسئلہ
2- عوامی مقامات پر نماز کا مسئلہ
3- سونے چاندی کا معیار نصاب اور ضم نصاب کا مسئلہ
جن پر پانچ نشستوں میں طویل علمی بحث و مناقشے کے بعد اہم تجاویز منظور کی گئیں۔
(مجلس کے تفصیلی تعارف کے لیے دیکھئے: مجلس تحقیقات شرعیہ: مختصر تاریخ اور تشکیل نو کا خاکہ، از مولانا منور سلطان ندوی)
قصۂ مختصر یہ کہ ندوۃ العلماء نے جن عزائم اور مقاصد کی تکمیل کے لئے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا، اس راہ میں وہ اپنے متعدد شعبوں، ذیلی اداروں اور محدود وسائل کے ساتھ برابر کوشاں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کاموں میں مزید بہتری پیدا کی جائے۔ رفتار کار کو بڑھایا جائے۔ ارسال و ترسیل پر خوب سے خوب توجہ کی جائے۔ صلاحیتوں کو جمع کیا جائے اور نئے تقاضوں کے مطابق ایسے فضلاء کی تیاری پر زور دیا جائے جو اسلام کی خدمت اور مسلمانوں کی ہمہ جہت ترقی میں اپنا بنیادی کردار ادا کرسکیں۔
(مضمون نگار دار العلوم ندوۃ العلماء، لکھنؤ میں فضیلت سال اول کے طالب علم ہیں)