آج شہید صدر ڈاکٹر محمد مرسی کا یوم شہادت ہے، آج ہی کے دن پانچ سال قبل ظالم مصری حکمرانوں نے کئی سال کی ظالمانہ قیدوبند کے بعد اپنے پہلے منتخب جمہوری صدر کو بہت ہی پراسرار طریقے سے شہید کردیا تھا۔
شہید محمد مرسی ایک قدآور اخوانی رہنما تھے، انہوں نے اپنی زندگی میں ان تمام شدید آزمائشوں اور ان تمام صبر آزما حالات کا سامنا کیا، جن شدید آزمائشوں اور صبر آزما حالات کا سامنا اخوانی قیادت پچھلی سات آٹھ دہائیوں سے مصر ہی نہیں، بلکہ پوری عرب دنیا میں کررہی ہے۔
شہید محمد مرسی اخوان کی روشن روایات کے امین تھے، ان کے یہاں وہی فکری بلندی تھی جو اخوان کا امتیاز قرار پاتی ہے، ان کے یہاں وہی کردار کی پختگی تھی جو اخوانی قیادت کا نمایاں وصف مانی جاتی ہے، ان کے یہاں موقف کی وہی مضبوطی تھی جس کے لیے تحریک اخوان نے اپنی تاریخ میں سخت سے سخت مراحل کا سامنا کیا لیکن کبھی کسی بھی طرح کا سمجھوتہ نہیں کیا، ان کے یہاں امت کی آزادی اور سربلندی کا وہی خواب تھا جو اخوان کی بنیاد اور اخوان کے سابقون اولون میں نظر آتا ہے اور جس کے لیے اخوان نے ہر طرح کی قربانی پیش کی، لیکن کبھی کسی قسم کی سودے بازی نہیں کی، یہی فکری بلندی، کردار کی پختگی، موقف کی مضبوطی، اور امت کی آزادی وسربلندی کا خواب اخوان کی شناخت اور پہچان ہے اور یہی صدر مرسی کی شخصیت اور ان کی تمام تر جدوجہد کا مرکزی عنوان تھا۔
اخوان المسلمون کے بالکل ابتدائی لٹریچر اور بالکل ابتدائی پروگرامس میں فلسطین کی آزادی کے لیے جدوجہد کا بہت ہی مضبوط تذکرہ ملتا ہے، نہ صرف تذکرہ ملتا ہے بلکہ عملی طور پر اخوان نے فلسطینی جدوجہد میں ایک نمایاں کردار ادا کیا ہے، 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں اخوان باقاعدہ عملی طور پر شریک رہی۔ اور اس معرکہ میں اخوانی جدوجہد کا بڑے پیمانے پر اعتراف بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ 1948 سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی فلسطینی جدوجہد کو مضبوط کرنے میں اور اس کی صحیح خطوط پر رہنمائی کے سلسلہ میں اخوان کا اچھا اور قابل ذکر رول رہا ہے۔ بلکہ 1948 کے بعد سرزمین فلسطین پر تحریک مزاحمت کو کھڑا کرنے اور اسے صحیح خطوط پر لے کر چلنے میں بھی اخوان کا ایک زبردست رول رہا ہے۔
فلسطینی جدوجہد کے سلسلہ میں بھی دہشت گردی کا مغربی بیانیہ اسی طرح ناکام رہا جس طرح اخوانی تحریک کے سلسلہ میں یہ بیانیہ پورے طور پر ناکام رہا، گرچہ اس کے لیے مغربی دنیا کی طرف سے بھی بھرپور کوششیں ہوئیں اور مغرب نواز عرب حکومتوں کی جانب سے بھی اس کے لیے بڑے پیمانے پر سازشیں رچی گئیں۔ یقیناً فلسطینی جدوجہد اور اخوانی تحریک کے سلسلہ میں اس بیانیہ کی ناکامی کی ایک بڑی وجہ اخوان کی دوٹوک اور مضبوط فکری بنیادیں ہیں اور فلسطینی مزاحمت کا ان بنیادوں سے مضبوطی کے ساتھ چمٹے رہنا ہے۔
شہید صدر محمد مرسی کو اللہ رب العزت نے بہت سے کمالات سے نوازا تھا، انجینئر تھے، یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ 1992 میں اخوان نے سیاسی عمل میں شرکت کے لیے محاذ کھڑا کیا تو اس کے تاسیسی ممبر بنائے گئے اور پھر سیاسی میدان کے لیے بہت حد تک یکسو ہوگئے۔ شہید محمد مرسی صدر جمہوریہ منتخب ہونے سے پہلے مصری صدر حسنی مبارک کے دور میں بھی ایک مضبوط سیاسی کردار ادا کرتے رہے، کئی بار الیکشن میں کھڑے ہوئے، ایک بار ممبر آف پارلیمنٹ بھی منتخب ہوئے، اور اخوانی محاذ کے آفیشیل ترجمان بھی مقرر کیے گئے۔
2010 کے آخری ایام میں تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہاریہ نے جن ممالک پر خاص اثرات مرتب کیے، ان میں تیونس اور لیبیا کے ساتھ ساتھ مصر بھی تھا، یہاں سالہاسال سے قائم حسنی مبارک دور کا خاتمہ ہوا، صاف وشفاف جمہوری انتخابات ہوئے اور مصر کی تاریخ میں پہلی بار اخوان المسلمون کو کھلے طور پر عوامی تائید اور سپورٹ حاصل ہوا۔
انتخابات سے قبل جون 2011 میں جب حزب الحریہ والعدالہ کا قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر محمد مرسی اس کے تاسیسی صدر منتخب ہوئے۔ انتخابات ہوئے تو پارلیمانی انتخابات میں بھی اخوان کو اکثریت حاصل ہوئی اور صدارتی انتخابات میں بھی۔ ہشام قندیل اخوان کی سیاسی پارٹی حزب الحریہ والعدالہ سے وزیراعظم منتخب ہوئے اور ڈاکٹر محمد مرسی صدر جمہوریہ منتخب ہوئے۔
صدر محمد مرسی نے منصب سنبھالنے کے بعد جہاں ملک کی آزاد اور خودمختار سیاسی اور معاشی پالیسی کے سلسلہ میں ایک واضح موقف اختیار کیا، اور اس کے لیے باقاعدہ ایک لائحہ عمل تشکیل دیا، وہیں دوسری طرف عالم اسلام کے ممالک کے سلسلہ میں بھی بہت ہی واضح اور دوٹوک موقف اختیار کیا۔ مسئلہ فلسطین چونکہ ہمیشہ سے اخوان کی ترجیحات میں شامل رہا ہے، اور عالم اسلام کی سیاست میں اس کا کلیدی رول رہا ہے، اس لیے انہوں نے صدارت سنبھالنے کے بعد اوّل روز سے مسئلہ فلسطین پر بہت ہی واضح اور بہت ہی مضبوط موقف اختیار کیا، ذیل کی سطور میں مسئلہ فلسطین کے تعلق سے صدر محمد مرسی کے کچھ اہم مواقف پیش ہیں:
صدر جمہوریہ منتخب ہونے کے کچھ ہی دن بعد غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا آغاز ہوا تو صدر مرسی نے اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے دوٹوک انداز میں کہا تھا:
(مصر لن تصمت إزاء أي اعتداء على غزة، أوقفوا هذه المهزلة فورًا، وإلا فغضبتنا لن تستطيعوا أبدا أن تقفوا أمامها، غضبة شعب وقيادة)
مصر غزہ پر ہونے والی کسی بھی زیادتی پر خاموش نہیں بیٹھے گا، یہ تماشہ فورا بند کردیا جانا چاہیے، ورنہ ہمارے غضب کے سامنے تم کبھی نہیں ٹک سکوگے، مصری عوام اور مصری حکومت دونوں تمہارے خلاف ایک ہیں۔)
اسی پر انہوں نے اکتفا نہیں کیا، بلکہ فوری طور پر اپنے وزیراعظم ہشام قندیل کی قیادت میں ایک اعلی سطحی سرکاری وفد غزہ کے لیے روانہ کیا، جس نے عالمی سطح پر غزہ کے لیے ہمدردی کی راہ ہموار کی، اور پھر دوسرے عرب ممالک کے وفود بھی غزہ آنا شروع ہوگئے۔ اور پھر کچھ ہی دن بعد تحریک مزاحمت کے قائدین، بالخصوص خالد مشعل اور اسماعیل ہنیہ کا مصری دورہ ہوا اور صدر ہاؤس میں ڈاکٹر مرسی نے ان کا شاندار استقبال کیا۔
اس موقع پر انہوں نے ایک خطاب میں کہا تھا:
(مصر اليوم مختلفة عن مصر الأمس وأن الثمن سيكون باهظًا)
آج کا مصر کل کے مصر سے مختلف ہے، اگر یہ ظلم وعدوان جاری رہا تو اس کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی۔
چنانچہ چند دن ہی گزرے تھے کہ اسرائیل کو اپنی جارحیت کا سلسلہ روک کر مذاکرات کی ٹیبل پر آنا پڑا، اور تحریک مزاحمت کو ایک بار پھر تازہ دم ہونے کے لیے وقت، ہمت اور حوصلہ نصیب ہوا۔ اس موقع پر پہلی بار امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کو جھک کر معاملہ طے کرنا پڑا اور پہلی بار امریکہ کو اس بات کا اندازہ ہوا کہ مصر میں اگر ایک مضبوط جمہوری حکومت قائم ہوگئی تو خطے میں اس کے لیے کس قدر مشکلات کھڑی ہوجائیں گی۔
اسی موقع پر صدارتی حکم کے مطابق رفح بارڈر کو فوری طور پر کھول دیا گیا، چنانچہ اس کے ذریعے بڑے پیمانے پر غزہ کے لیے راحت کے سامان، طبی امداد اور غذائی اشیاء کی فراہمی کا انتظام ہوگیا، اندازہ لگایا جاتا ہے کہ تحریک مزاحمت کو مضبوط کرنے کے لیے اس دوران صدر مرسی کے ایما پر بہت ہی خاموشی کے ساتھ بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی سپلائی کا انتظام بھی کیا گیا، اور اسی زمانے میں غزہ اور مصر کو جوڑنے والی سرنگوں کا پورا ایک مضبوط جال بچھا دیا گیا۔
صدر مرسی مسئلہ فلسطین کو مصر کا اپنا مسئلہ بھی مانتے تھے، عرب ممالک کا اہم مسئلہ بھی مانتے تھے اور مسلم دنیا کا ضروری مسئلہ بھی مانتے تھے، وہ اس مسئلہ کو اس قدر اہم مانتے تھے کہ اقوام متحدہ میں ان کو خطاب کرنے کا موقع ملا، تو وہاں بھی انہوں نے اپنے خطاب میں مسئلہ فلسطین پر کھل کر گفتگو کی تھی، ان کا یہ بیان کافی مشہور ہوا کہ:
“إن أولى القضايا التي ينبغي أن يشترك العالم في بذل كل جهد ممكن لتسويتها على أسس العدالة والكرامة هي القضية الفلسطينية”
“بیشک سب سے اولین مسئلہ جس کے سلسلہ میں دنیا بھر کے ممالک کو سنجیدگی کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، کہ وہ عدل اور انسانیت کے اصولوں پر فوری حل ہوسکے، وہ مسئلہ فلسطین ہے”
مرکز الزیتونہ کی تحقیق کے مطابق صدر محمد مرسی کا فلسطین کے تعلق سے یہ مضبوط موقف صدر بننے سے پہلے بھی سیاسی حلقوں میں بہت معروف تھا، وہ کہتے تھے:
(قلوبنا جميعًا تتوق إلى بيت المقدس)
ہم سب کے دل بیت المقدس کے دیوانے ہیں۔
(يا أهل غزة أنتم منا ونحن منكم)
اے اہل غزہ! تم ہم میں سے ہو اور ہم تم میں سے ہیں، یعنی اس محاذ پر ہم اور تم ایک ساتھ ہیں۔
صدر بننے سے پہلے مارچ 2012 میں انہوں نے مسئلہ فلسطین کو مصر کی قومی سلامتی کا ایک اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا تھا، کہ یہ مصر کی قومی سلامتی کا بھی ایک بڑا اہم مسئلہ ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اہل فلسطین کو اب تک کی سب سے بڑی اور حقیقی مدد فراہم کی جائے:
(القضية الفلسطينية تستقر في عقل كل مصري ووجدانه، وإن فلسطين ليست فقط تاريخًا وعقيدةً وجزءًا أصيلاً من تكويننا، ولكنها تعد حجر الزاوية للأمن القومي المصري؛ وإن الوقت قد حان لتقديم دعم أكبر ومساندة حقيقية يشعر بها الفلسطينيون)
حسنی مبارک کے زمانے میں جب آپ ممبر آف پارلیمنٹ تھے، اس وقت آپ نے پارلیمنٹ کی ایک اسپیچ کے دوران انتفاضہ اور فلسطینی مزاحمت کو فلسطینیوں کا حق قرار دیا تھا، اور مصری پارلیمنٹ کے سامنے اس کے جواز کو قبول کرنے کی بھرپور وکالت کی تھی، اس سلسلہ میں انہوں نے دفاع کے حق کا بھی حوالہ دیا تھا، حقوق انسانی، عالمی قراردادوں، مروجہ قوانین اور آسمانی شرائع کا بھی حوالہ دیا تھا:
(الانتفاضة والمقاومة الفلسطينية حق لكل الفلسطينيين، طالما أنهم يدافعون عن أرضهم وعن أعراضهم طبقًا لكل المواثيق والشرائع السماوية والأرضية والمنظمات العالمية وحقوق الإنسان.. هم يدافعون عن أنفسهم وعن أرضهم، والمعركة تقوم على الأرض الفلسطينية.)
یہ شہید صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی عزیمت بھری داستان کے کچھ اہم مواقف تھے، مرکز الزیتونہ کی رپورٹ (الرئيس محمد مرسي والقضية الفلسطينية) میں بہت تفصیل سے اور بہت سے حوالوں کے ساتھ مسئلہ فلسطین کے تعلق سے صدر مرسی کے بے باک موقف کو پیش کیا گیا ہے، اس تحریر میں ان سب کا احاطہ کرنا ممکن نہیں، آئندہ کسی موقع پر اس پر مزید تفصیل کے ساتھ لکھنے کی کوشش رہے گی۔
صدر مرسی کا دور حکومت تقریباً ایک سال پر محیط تھا، اس دوران انہوں نے غزہ میں تحریک مزاحمت کو مضبوط کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن یہی وہ محاذ تھا، جس پر ان کی کوششیں نہ تو مغربی دنیا کی حکومتوں کو قبول تھیں اور نہ عرب دنیا کی حکومتوں کو، اسرائیل کے لیے تو یہ وجود کا مسئلہ تھا، خود مصر کے اندر موجود اسرائیل ومغرب نواز عناصر صدر مرسی کی ان کوششوں کو کیسے برداشت کرسکتے تھے، چنانچہ ایک منظم فوجی انقلاب کا منصوبہ بنایا گیا اور دنیا بھر کے ظالموں کے سپورٹ کے ساتھ مصر کی فوج اپنے پہلے منتخب فوجی صدر کا تختہ پلٹنے میں کامیاب ہوگئی، اور مصر ایک بار پھر غلامی کے تاریکی دور میں داخل ہوگیا۔
فوج کی جانب سے تختہ پلٹنے کے بعد فوج نے صدر مرسی پر جو بڑے الزام عائد کیے، ان میں ایک کلیدی الزام تحریک مزاحمت کی مدد کا بھی تھا۔
یہ عظیم انسان، سراپا استقلال، اور پیکر عزیمت سالہاسال تک قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے، آخرکار قیدوبند کے دوران ہی جام شہادت نوش فرما گیا، تغمدہ اللہ برحمتہ الواسعۃ وادخلہ فسیح جناتہ۔
تحریک مزاحمت کے لوگ صدر مرسی کو شہید فلسطین کہتے ہیں اور بجا طور پر کہتے ہیں، وہ یقیناً:
شہید امت بھی تھے،
شہید اسلام بھی تھے،
اور شہید فلسطین تھے!