مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے تقریباً اٹھارہ سو طلباء کی اسکالر شپ خطرے میں ہے۔ مرکزی وزارت برائے اقلیتی امور کی جانب سے ملنے والی اسکالرشپ کے لئے اس سال اردو یونیورسٹی کے تقریباً 1600 طلباء نے درخواست داخل کی تھی اور تقریباً 200 طلباء نے اپنی درخواستوں کو ازسر نو اپڈیٹ کیا تھا۔ لیکن اس سال نیشنل اسکالرشپ پورٹل(این ایس پی) سے اردو یونیوسٹی کا نام ہٹا دیا گیا ہے جس کی وجہ سے یہاں کے طلباء کافی فکر مند ہیں اور مستقل اپنی پریشانی کا اظہار کررہے ہیں ۔
طلباء کا کہنا ہے کہ نوڈل آفیسر کی جانب سے اسکالرشپ فارم کی تصدیق کی آخری تاریخ 10 جنوری تھی لیکن انہیں 6جنوری ہی سے اس بات کی اطلاع ملنی شروع ہوگئی تھی کہ اسکالرشپ کے لئےان کی داخل کردہ درخواست کو منسوخ کردیا گیا ہے۔
اردو یونیورسٹی کے ایک طالب علم شعبان نے ادارہ رفیق منزل سے گفتگو میں یہ بات کہی کہ جب انہیں درخواست کے منسوخ ہونے کی اطلاع ملی تو انہوں نے فوری طور پر یونیورسٹی کے ذمہ دار افراد تک یہ بات پہنچائی اور ان سے اس مسئلہ کو حل کرنے کی درخواست کی لیکن انہوں نے لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بات کو نظر انداز کیا۔اسی وجہ سے 13 جنوری کو یونیورسٹی میں طلباء نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا تھا ۔ اس احتجاجی مظاہرہ کے بعد وائس چانسلر، ڈی ایس ڈبلیو اور رجسٹرار طلباء کے درمیان پہنچے اور انہیں اطمینان دلایا کہ وہ مسئلہ کو حل کرنے کے لئے اقدامات کریں گے۔
اس درمیان 25 جنوری کو طلباء کی جانب سے ایک آر ٹی آئی فائل کی گئی ۔اس آرٹی آئی کا جواب دیتے ہوئے وزارت نے یہ بات بتائی کہ ایک فرضی درخواست موصول ہونے کی وجہ سے باقی درخواستوں کو منسوخ کردیا گیا ہے۔ طلباء اس جواب سے حیران و پریشان ہیں کہ آخر کیسے ایک فرضی درخواست کی بنیاد پر باقی تمام 1800 درخواستوں کو منسوخ کیا جاسکتا ہے۔
طلباء کا کہنا ہے کہ اتنے دنوں تک جب یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے مسئلہ کے حل کے لئے کوئی خاص پہل نہیں کی گئی تو انہیں مجبور ہوکر 3 فروری کو دوبارہ احتجاج کرنا پڑا۔اس احتجاجی مظاہرہ میں کثیر تعداد میں طلباء نے حصہ لیا جس کے بعد یونیوسٹی کے وائس چانسلر نے طلباء یونین کے ذریعے سے اس بات کی اطلاع دی کہ وہ 6 فروری کو دہلی جاکر وزارت کے سامنے اس مسئلہ کو پیش کریں گے۔
اردو یونیوسٹی کے طالب علم ابوبکر کہتے ہیں کہ،
6 جنوری کو جب ہمیں یہ بات پتہ چلی کہ ہماری درخواست منسوخ کردی گئی ہے تو یہ ہمارے لئے کسی صدمہ سے کم نہیں تھی۔ہماری درخواست کی، پہلے انسٹی ٹیوٹ اور پھر ریاست کی سطح پر تصدیق کی جاچکی تھی ۔ ہم جب یونیوسٹی انتظامیہ کے پاس گئے تو ان کے پا س کوئی جواب نہیں تھا ۔ ایک مہینہ سے زیادہ کا وقت ہوگیا ہے لیکن اب تک ہمیں کوئی پیش رفت کی اطلاع نہیں ملی ہے ۔ میں اس اسکالرشپ پر مکمل طریقے سے منحصر ہوں ۔ اگر یہ اسکالرشپ مجھے نہیں مل پائی تو ممکن ہے کہ میں اپنی پڑھائی جاری نہ رکھ پاؤں۔
انہوں نے مزید کہا کہ،
میں اپنی پڑھائی کے اخراجات کے لئے اپنے خاندان پر منحصر نہیں ہوں ۔جو اسکالرشپ مجھے ملتی ہے اسی کو سال بھر استعمال کرپاتا ہوں،میرے کھانے اور پڑھنے کی فیس اسی سے ادا ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ میں اپنا خرچ اٹھانے کے لئے ٹیوشن پڑھاتا ہوں۔ میری بہن بھی اسی یونیوسٹی کی طالبہ ہے ۔ ہم دونوں کو ایک سال میں تقریباً پچاس ہزار روپیے اسکالرشپ مل جاتی تھی اور اسی سے ہماری پڑھائی چل پارہی تھی ۔اس طرح اسکالرشپ کو روک لینا ایک چھوٹے سے خاندان کے لئے بڑا جھٹکا ہے۔
اس پورے معاملے میں یونیورسٹی انتظامیہ اور طلباء یونین کے کردار پر لگاتار سوالات اٹھ رہے ہیں ۔طلباء کا ماننا ہے کہ یونین اور انتظامیہ نے اس انتہائی اہم مسئلہ پر اطمینان بخش کام نہیں کیا ہے اور اسے سرد خانہ میں ڈال دیا ہے ۔ رپورٹ لکھےجانے تک اس مسئلہ پر یونیورسٹی انتظامیہ کے تیقن کے علاوہ کوئی تازہ پیش رفت نہیں مل سکی۔
اس معاملہ پر The Quint کی ایک رپورٹ،
https://youtu.be/t1BFzlFmzlY