پارلیمانی انتخابات 2024ء کے نتائج نے کئی اہم بحثوں کو جنم دیا ہے۔ انتخابات اور نتائج کے مختلف پہلوؤں پر عبداللہ یسعی علی نے سلمان احمد سے تفصیلی گفتگو کی۔ سلمان احمد اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے سابق صدر رہے ہیں۔ موصوف سماجی مسائل پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اپنی دوٹوک رائے پیش کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ فی الحال جماعت اسلامی ہند کے اسسٹنٹ سکریٹری ہیں۔
حالیہ عام انتخابات کے نتائج پر آپ کا پہلا تبصرہ کیا ہے؟
لوک سبھا انتخابات کے نتائج کے حوالے سے مختصراً یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ حکومت تبدیل نہ ہونے کے باوجودبھی بی جے پی کی طاقت بہت زیادہ کمزور ہوئی ہے۔ جو بیانیہ وہ ترتیب دے رہے تھے، جو پروپیگنڈا وہ کر رہے تھے، جس غرور میں وہ مبتلا تھے اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو بی جے پی یا این ڈی اےالیکشن جیتنے کے باوجود بھی ہار چکی ہے۔ ساتھ ہی اپوزیشن یا مخالف پارٹیوں کو جتنا کمزور سمجھا جا رہا تھا، جتنی ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کی گئی، جتنا ان کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپوزیشن ہارنے کے باوجود بھی پورے طریقے سے ہارا نہیں ہے بلکہ مضبوط حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ حالیہ نتائج مزید یہ بتاتے ہیں کہ جس نفرت کی سیاست کو ہندوستان میں پھیلانے کی کوشش ہو رہی تھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے اسےمسترد کردیاہے۔
ہندوتوا کے بیانیے یا عوام میں ہندوتوا فکر کے نفوذ کے حوالے سے یہ نتائج کیا پیغام دیتے ہیں؟ بالفاظ دیگر کیا ان نتائج سے یہ بات اخذ کرنا درست ہوگا کہ ہندوتوا کی فکر عوام میں کمزور ہوئی ہے؟
مجھے لگتا ہے کہ کسی بھی انتخابات کے نتائج کو نظریات کے حوالے سے عام ریفرنڈم نہیں سمجھنا چاہیے، پھر چاہے بات ہندوتوا کی ہو، سیکولرزم کی یا دیگرنظریات کی۔ اس تناظر میں نہ تو یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ موجودہ انتخابات نے یہ ثابت کر دیا کہ ہندوستان نے ہندوتوا کو چھوڑ دیا ہے نہ اس سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ سیکولرزم کو چھوڑ دیاگیا ہے، بلکہ یہ اپنے آپ میں مکمل تصویر کا ایک پہلو ہے۔ ہماری ذاتی رائے ہے کہ یہ کبھی بھی الیکشن میں غالب فیکٹر نہیں رہا۔ ہندوستان کی ایک بڑی آبادی بقاء (سروائیول) کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ عوام کی کثیر تعداد غربت، دو وقت کی روٹی اور بنیادی ضروریات کی تکمیل جیسے مسائل سے جوجھ رہی ہے۔ جب لوگ ووٹ کرتے ہیں تو کاسٹ بھی ایک فیکٹر ہوتا ہے، مقامی امیدوار (لوکل کینڈیڈیٹ) ہونے کا بھی ایک فیکٹر ہوتا ہے۔ وہ کس علاقے میں رہتے ہیں، حکومت کی کون سی فلاحی اسکیمیں ان کو مل پارہی ہیں، کس پروپگنڈے سے وہ متاثر ہو رہے ہیں جیسے کئی پہلوؤں (فیکٹرس) کی بنیاد پررائے دہندگان ووٹ دیتے ہیں۔ لہٰذا نا تو کسی ووٹ کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ مکمل طور پر ہندوتوا کےحق میں ہے، یعنی کہ بی جے پی کو موصولہ 37 فیصد ووٹ ہندوتواکا ووٹ نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح انڈیا الائنس کو حاصل شدہ ووٹ سیکولرزم کو ملا ہوا ووٹ نہیں ہے۔ ہندوتوا اپنے آپ میں ایک فیکٹر تو ضرور ہے، ایسا نہیں ہے کہ اس الیکشن سے وہ ختم ہو گیا لیکن پروپگنڈے کے ذریعے سےجتنا یہ بتانے کی کوشش کی جارہی تھی کہ ہندوتوا ہندوستان کا سب سے بڑاموضوع یا مسئلہ ہے تو اس الیکشن نے کم از کم یہ ثابت کر دیا کہ یہ اتنا بڑا فیکٹر نہیں ہے۔ ایک چیلنجنگ فیکٹر ضرور ہے لیکن وہ کوئی اتنی بڑی چیز نہیں ہے کہ پورا ہندوستا ن اس کی لہر میں بہہ جائے۔
دورانِ انتخابات ایک گروہ نے فرقہ واریت کو ہوا دی، جبکہ دوسرا گروہ کاسٹ کی سیاست میں مصروف رہا۔ اس لوک سبھا انتخابات کو ان دونوں عوامل کے تناظر میں آپ کیسے دیکھتے ہیں؟
مسئلہ یہ ہے کہ سماجی انصاف (سوشل جسٹس) کی سیاست کو اکثرذات پات کی سیاست (کاسٹ پولیٹکس) کہا جاتا ہے، ہمیں اس سے بچنا چاہیے۔ یہ بات تو واضح ہے کہ کاسٹ ایک حقیقت ہے۔ کاسٹ ازم اپنے آپ میں ایک حقیقت رہی ہے اور ہزاروں سالوں تک اس ملک کی بڑی آبادی پر کاسٹ کے نام پر ظلم کیا جاتا رہا ہے۔ ظاہر ہے کہ جن پر ظلم کیا گیا آپ ان کے انصاف کے لیے بات کریں گے، اب اس کے لیے جو بات کی جائے اسے سماجی انصاف کی سیاست تو کہا جا سکتا ہےلیکن کاسٹزم یا کاسٹ پولیٹکس نہیں کہا جا سکتا۔ اس تناظر میں ہم سمجھتے ہیں کہ انڈیا الائنس کےاتحادی یا دیگر پارٹیوں کی جانب سے سماجی انصاف کے حوالے سے جو موضوعات اور مسائل انتخابی منشور یا مہم کے ذریعے سے اٹھائے گئے، جیسے ذات پر مبنی مردم شماری وغیرہ، وہ اپنے آپ میں ایک اہم چیز ہے اور اس پر کام ہونا چاہیے۔
جہاں تک فرقہ وارانہ سیاست کی بات ہےتو یقیناً وہ بہت تشویشناک ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں کی منہ بھرائی (appeasement) کا جو پروپگنڈا کیا گیا، اس کے بارے میں سارا ڈاٹا اور رپورٹیں یہ بتاتی ہیں کہ اس میں کوئی سچائی نہیں ہے۔ اصلا ظلم و زیادتی اور ناانصافی سے لوگوں کی نظر ہٹانے کے لیے یہ پروپگنڈا کیا جاتا رہا ہے۔
ہندتوا کے نظریے کےمتعلق ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ یہ (نظریہ) بہت زیادہ مسلمانوں سے obsessed اور غیر ضروری طور پر مرعوب ہے۔ اس کے نتیجے میں یہ ان کی نظریاتی مجبوری اور کمزوری ہے کہ ان کی کوئی بات اسلام، مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو درمیان میں لائے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ یہ بات ان کی سیاست میں بھی منعکس (ریفلیکٹ) ہوتی ہے۔ لیکن اپنے آپ میں وہ ایک ناپسندیدہ چیز رہی اور بہت اچھی بات اس الیکشن کی یہ رہی کہ عوام نے اسے بڑی حد تک مسترد کردیا ہے۔
ان انتخابات میں مجموعی طور پر مسلمانوں کی شرکت و شمولیت کیسی رہی؟ کیا مسلمانوں نے ان انتخابات میں کوئی نمایاں (significant) کردار ادا کیا ہے؟
ان انتخابات میں مسلمانوں کا بڑا کنٹریبیوشن رہا ہے اور فرقہ وارانہ طاقتوں کو ہرانے اور بڑے مقصد (larger cause) کے لیے مسلمانوں نے بڑھ چڑھ کر ووٹ کیا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ بہت سی کمیونٹیز میں نمائندگی (representation) کا سوال بنیادی سوال بن جاتا ہے اور لوگ یہ سوچتے ہیں کہ اگر ہماری کاسٹ یا ہمارے مذہب کانمائندہ ہے تو پھر چاہے وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو، کسی بھی پارٹی سے کیوں نہ ہو، ہم اسے ہی ووٹ دیں گے۔ لیکن الیکشن کے دوران مسلمانوں نے بہت سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے’ہم مذہبی نمائندہ’ کے سوال کو بنیادی سوال ہی نہیں بننے دیا۔ بلکہ انہوں نے اپنی نمائندگی کے سوال کو بہت پیچھے رکھ کر اعلیٰ سطح پر سوچتے ہوئے سارےملک اور سماج کی بھلائی کے لیے ووٹ دیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک بہت خوش آئند چیز ہے۔
لیکن اسی کے ساتھ اس بات کو بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ انڈیا الائنس یا کانگریس کو جو کچھ سیٹیں ملی ہیں وہ بنیادی طور پرمحض مسلمانوں کے ووٹ سے نہیں ملی ہیں۔ رائٹ ونگ مستقل یہ پروپگنڈا کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ کانگریس اور انڈیا الائنس کو جو کچھ فائدہ حاصل ہوا، وہ مسلمانوں کی وجہ سے ہوا ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے بلکہ مسلمانوں سے زیادہ بڑی تعداد میں غیر مسلموں، مزدوروں، کسانوں، حاشیہ زدہ (مارجنلائز) کمیونٹیز کے لوگوں، آدی واسیوں، نوجوانوں، خاص طور پر شیڈول کاسٹ کے لوگوں نے انہیں ووٹ دیا ہے اور اس پوری تحریک میں مسلمانوں کا اپنا بھی ایک کنٹریبیوشن رہا ہے۔
بی جے پی کی زیر قیادت این ڈی اے اتحادحکومت سازی میں کامیاب ہو گیا ہے۔ اسے کن چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا اور یہ حکومت کتنی مضبوطی سے چل پائے گی؟
یہ تو وقت ہی بتائےگا کہ حکومت کتنی مضبوطی کے ساتھ چلے گی۔ ہم حکومت کے کمزور ہونے کی دعا تو نہیں کرتےلیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ حکومت انصاف کے ساتھ چلے۔ اگر انصاف اور مساوات کے ساتھ سب کو ساتھ لے کر چل رہی ہے تو پوری مضبوطی کے ساتھ چلے اور اگر نا انصافی کے ساتھ چل رہی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی حکومت کا رہنا ملک کی ساری عوام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ حکومت کے مضبوط یا کمزور ہونے کا سوال تو وقت ہی طے کرے گا کیوں کہ انڈیا الائنس یا کسی ایک پارٹی کے پاس مکمل اکثریت نہیں ہے۔ چنانچہ اقتدار کی باگ ڈور اگر این ڈے اے سے انڈیا اتحاد کی جانب منتقل ہو بھی جاتی ہے تب بھی مضبوط یا مستحکم ہونے کا سوال باقی رہے گا۔ یہ تو وقت پر طے ہوگا کہ کہاں کتنی مضبوطی یا استحکام ہوتا ہے۔
بنیادی طور پر ہماری فکر مندی حکومت کی مضبوطی یا کمزوری سے زیادہ یہ ہے کہ اس حکومت کی پالیسیاں زیادہ سے زیادہ شمولیتی (inclusive) اور سماجی انصاف پر مبنی ہو۔ بد قسمتی یہ ہے کہ ہمارےپاس زیادہ تر سیاسی فیصلے، سیاسی حساب کتاب کی بنیاد پر لیے جاتے ہیں، اصولوں کی بنیاد پر نہیں۔ اس لیے کون، کب کیا کرے گا اس بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ طویل مدت کے اعتبار سے(این ڈی اے کے دو بڑے اتحادی) پارٹیوں کے حق میں بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے اقدار، منشور میں کیے گئے اپنے وعدوں، اپنے اپروچ اور تاریخ سے بہت زیادہ مصالحت نہ کریں۔ اگر وہ مصالحت کریں گے تو اس کے نتیجے میں جو کچھ ان کا سوشل بیس (social base) ہے وہ بھی کھسک جائے گا اور دوسری طرف یہ کہ اگر ان میں اور بی جے پی کے درمیان کوئی بڑا فرق باقی نہ رہے تو اگلی بار ان پارٹیوں کے لیے بھی ووٹ حاصل کرنا مشکل ہو جائے گا اور بی جے پی ان کو نگل جائے گی۔
بی جے پی زیرقیادت این ڈی اے اتحاد کے 293 منتخب ارکان پارلیمنٹ میں مسلم ارکان کی عدم موجودگی اور مسلم نمائندگی میں مجموعی طور پر کمی کو دیکھتے ہوئے اس مسئلہ کے حل کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں؟ جمہوری معاشرے میں مسلمانوں کی نمائندگی کی کیا اہمیت ہے؟
ہمارا خیال ہے کہ مسلم نمائندگی کا سوال صرف مسلمانوں کا سوال نہیں، بلکہ اصلاً یہ جمہوریت کا سوال ہےکیونکہ جمہوریت اسی وقت مضبوط ہوتی ہے جب اس میں ہر کسی کی حصہ داری ہو۔ لہٰذا مسلم نمائندگی کا سوال صرف مسلمانوں کا سوال نہیں یا دلت نمائندگی کا سوال محض دلتوں کا سوال نہیں ہے بلکہ یہ دستور، عدل و انصاف اور جمہوریت کا سوال ہے، چنانچہ اسے اسی حیثیت سے دیکھا جانا چاہیے۔ دوسری بات یہ کہ نمائندگی کے سوال پر بات کرتے وقت کبھی بھی یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ نمائندگی صرف موجودگی کو نہیں کہتے بلکہ نمائندگی کے ساتھ یہ بہت اہم ہے کہ وہ نمائندگی واقعتاً اور معیاری ہو۔ بڑی تعداد میں لوگ ہوں لیکن وہ آواز نہ اٹھائیں اور اصل موضوعات پر بات نہ کریں تو ایسی بھیڑ اور ایسی تعداد کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اس لیےنمائندگی کے سوال کو کبھی بھی معیاراور اس کی حقیقت سےعلیحدہ کرکے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔
تیسرا پہلو یہ بھی ہے کہ کسی بھی منتخب شدہ لیڈر کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ صرف اپنی کاسٹ یا اپنے مذہب کے لوگوں کانمائندہ ہے۔ اس میں تو کوئی دو رائے نہیں کہ مسلمانوں کی تعداد پارلیمنٹ میں کم ہے لیکن اس کے باوجود بھی ہم توقع کرتے ہیں کہ 543میں سے جملہ 543 ممبران پارلیمنٹ یہ سمجھیں کہ ہم صرف اپنی کاسٹ یا طبقے کے نہیں بلکہ ان سبھی کے نمائندہ ہیں جن کی نمائندگی یا موجودگی فی الحال کم ہے۔ لہٰذا ہم سمجھتے ہیں کہ چاہے وہ چندر بابو نائیڈو ہوں یا نتیش کمار یا وہ بی جے پی ہی کے ایم پی کیوں نہ ہوں، انہیں اپنے آپ کواس حیثیت سے دیکھنا چاہیے کہ انہیں محض مخصوص لوگوں کی نہیں بلکہ مسلمانوں، عیسائیوں اور وہ سارے طبقات جنہیں مناسب نمائندگی نہیں مل سکی ان کے حق میں بھی آواز اٹھانی ہے۔
یہ بات بھی ہے کہ لوک سبھا انتخابات کے ساتھ معاملہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ راجیہ سبھا کے اور ریاستوں کے انتخابات بھی ہوتے ہیں۔ کئی طرح کے کمیشن اور کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں۔ ان سب میں محروم طبقات کی حصہ داری کے ذریعے ان کے لیے پُر وقار جگہ بنائی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے بھی سنجیدگی سے کوششیں ہونی چاہیے۔ ان سب سے آگے بڑھ کر مسلمانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ سیاست اصلاً ملکی ایجنڈوں کو متاثر کرنے کا نام ہے، حکومت کی پالیسیوں کومتاثر کرنے کا نام ہے۔ نمائندگی کم ہونے پر کچھ بے چینی ضرور ہو سکتی ہےاور وہ فطری ہے لیکن مسلمانوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہندوستان میں برائے نام نمائندگی ہمارا مرکزی سیاسی ایجنڈا نہ بن جائے بلکہ حکومت کی پالیسی کو زیادہ سے زیادہ شمولیتی (inclusive) بنانا ہمارا مرکزی ایجنڈا ہونا چاہیے۔ اس ایجنڈے کے تحت نمائندگی کا سوال ایک ضمنی سوال تو ہو سکتا ہے لیکن یہ مرکزی سوال کبھی نہیں ہونا چاہیے۔
گذشتہ دس سالوں میں مختلف جمہوری اداروں کو جس درجہ کمزور کیا گیا ہے، انفرادی آزادی واختلاف رائے کو دبانے کا جو عمومی ماحول بنایاگیا، ظالمانہ و غیر جمہوری قوانین و پالیسیاں نافذ کی گئیں۔ ان سب چیزوں کے اثرات کو زائل کرنے اور اداروں کے جمہوری کرن وغیرہ کے حوالے سے اگلے پانچ سالوں میں کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟
یہ چیلنجز تو خود ان اداروں کے سامنے ہے۔ بات یہ ہے کہ کوئی بھی ملک اس وقت چلتا ہے جب سسٹم پر لوگوں کا اعتماد باقی ہو۔ آپ زور زبردستی سے بہت لمبی مدت تک لوگوں کا اعتماد بحال نہیں رکھ سکتے۔ لہٰذا خود ان اداروں کے لیے اہم یہ ہے کہ وہ جانب داری اور تعصب سے پاک ہوکر اپنا کام کرے تاکہ لوگوں کا ان پر اعتماد بحال رہے۔ اب آپ سوچئے کہ الیکشن کمیشن کو لے کر جتنے شبہات لوگوں کے ذہنوں میں پیدا ہوئے ہیں، یہ جمہوریت کے لیے، ملک کے لیے بہت خطرناک ہے۔ سرکار تو آئے گی، چلی جائے گی لیکن اگر الیکشن کمیشن پر لوگوں کا اعتماد ختم ہو جائے تو پھر ہر چیز اپنے آپ میں مشکل میں پڑ جائے گی۔ اسی طرح کا معاملہ عدلیہ، پولیس اور دیگر اداروں کے ساتھ ہے۔ ان اداروں کو خود مضبوطی دکھانی چاہیے اور اپنے دستوری فریم وک میں رہتے ہوئے آزادانہ طور کام کرنا چاہیے۔
حکومت میں موجود لوگو ں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ ان اداروں کے غلط استعمال سے وقتی طور پر کچھ فائدہ حاصل ہو بھی جائے لیکن طویل مدت میں اس کا نقصان خود انہیں ہوگا، ان ہی پارٹیوں کو ہوگا۔ مہاراشٹرا کے نتائج اس کی بہت بڑی مثال ہیں۔ وہاں آزاد اداروں جیسے سی بی آئی، ای ڈی اور دیگر اداروں کا استعمال کرتے ہوئے پارٹیاں توڑی گئیں جس کے نتیجے میں دو ڈھائی سال کے لیے تو بی جے پی نےریاست میں حکومت بنا لی لیکن اس پوری حرکت کی وجہ سے سیاسی طور پر جو نقصان بی جے پی کو ہوا ہے وہ اس فائدے سے کئی گنا بڑا ہے جو انہوں نے حاصل کیاتھا۔ اس لیے اداروں کا غلط استعمال خود ان اداروں کے لیے بھی نقصان دہ ہے اور جو اس کا غلط استعمال کر رہے ہیں ان کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ پورے ملک اور سماج کے لیے ہونے والا نقصان تو ظاہر ہے۔ اب جو چیز سب کے لیے نقصان دہ ہے چاہے مختصر یا طویل مدت کے اعتبار سے ہو اس کی طرف جانا حماقت ہے۔
اپوزیشن پہلے سے زیادہ مضبوط ہو چکی ہے۔ کیا آ پ کو لگتا ہے کہ اپوزیشن گٹھ جوڑ کے ذریعے حکومت بنانے کی کوشش کرے گی یا وہ اپنے منشور میں کئے گئے وعدوں کے ضمن میں کام کرنے کی کوشش کرے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں کسی بھی پارٹی کو اگر موقع ملے گا تو وہ حکومت بنانے کی کوشش کرے گی۔ اگر آپ سیاست میں ہیں تو آپ کا حق ہے، یہ کوئی بہت غیر معمولی یا نایاب بات نہیں ہے۔ تو ظاہر ہے کہ اس طرح کی کوششیں دونوں جانب سے ہوسکتی ہیں۔ کب کی جائیں گی، کیسے کی جائیں گی، یہ تو پارٹیاں طے کریں گی۔ ہماری فکر مندی (concern)اصلاً یہ ہے کہ آپ جو بھی کریں، دستوری اقدار کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نہ کریں اور جو وعدے آپ نے کیے ہیں، جو ملک کے تمام لوگوں کے لیے بہتر ہے اس سے کوئی مصالحت نہ کریں۔ اس مصالحت کے بغیر انڈیا اتحاد مزیدکچھ پارٹیوں کو ساتھ لے کر حکومت بناتا ہے تو ملک کے دستور میں اس کی گنجائش ہے۔ اگر این ڈی اے کا موجود اتحاد حکومت جاری رکھتا ہے تو اس کی بھی گنجائش ہے۔ لہذا بحیثیت عوام ہماری دلچسپی کسی خاص پارٹی کی حکومت بننے یا نہ بننے سے زیادہ اس بات سے ہونی چاہیے کہ جو بھی حکومت کرے وہ بنیادی طور پر انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائے، فلاحی ریاست قائم کرےاور اس ملک کی کثیر عوام کو ترقی کی جانب لے جائے۔
مذہبی گروہوں، سول سوسائٹی اور غیر سیاسی افراد و اداروں کی کوششوں نے انتخابات پر کیا اثرات مرتب کیے ہیں؟ انہوں نے جمہوریت کی حفاظت میں کیا کردار ادا کیا؟
یہ بات درست ہے کہ حالیہ انتخابات میں سول سوسائٹی، کمیونٹی آرگنائزیشنز، کسان موومنٹس، مزدوروں کی تنظیموں اور یونینوں کا بہت بڑا رول رہا ہے۔ انہوں نے عوام کو متحرک کیا، ایک بیانیہ ترتیب دیا، خود اپوزیشن کو بھی قوت فراہم کی، اس طرح انہوں نے اپنے آپ میں بڑاکردار ادا کیا۔ لیکن یہ بات بہت اہم ہے اور ہم سبھی اسے یاد رکھیں کہ انتخابات پورے سیاسی نظام کا ایک چھوٹا سا حصہ ہوتے ہیں۔ لہٰذاجو محنت انتخابات سے قبل رہی، وہ انتخابات کے بعد بھی جاری رہنی چاہیے۔ اگر این ڈی اے کے بجائے انڈیا الائنس کی حکومت بن جاتی تب بھی ظاہر ہے کہ اس محنت کو جاری رہنا تھا۔ کیونکہ جوچیلنجز ہمیں درپیش ہیں وہ سماجی انصاف، سماجی عدم مساوات اور غربت ہیں۔ دولت کے ارتکاز کے مسائل، خواتین کے مسائل، مزدوروں اور کسانوں کے مسائل، نفرت کی سیاست کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل اتنے راسخ ہیں کہ پارٹیوں کے بد ل جانے سے مکمل ختم نہیں ہوں گے۔ اس تناظر میں ظاہر ہے کہ حالیہ نتائج سے ایک امید اور حوصلہ ملا ہے۔ اس امید اور حوصلے کو برقرار رکھتے ہوئے نئی رفتار اور نئے جوش کے ساتھ اپنے کام کو پوری سنجیدگی اور پوری شدت کے ساتھ جاری رکھنا چاہیے۔
ان انتخابات میں میڈیا کے کردار اور اس کی کوریج کو کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا میڈیا نے غیر جانبداری کے ساتھ انتخابات کی رپورٹنگ کی یا اس نے کسی مخصوص سیاسی جماعت یا بیانیے کی حمایت کی؟
یہ بات تو عیاں ہے کہ اس دوران مین اسٹریم میڈیاکا کرادر بہت بدترین اور مایوس کن رہا۔ لیکن اسی کا ایک خوبصورت پہلو آپ یہ دیکھیں کہ جب مین اسٹریم میڈیا انتہائی منفی کردار ادا کررہا تھا، تو اسی کیفیت نے خود بخود ایک متبادل میڈیا کو جنم دیا۔ مرکزی دھارے کے میڈیا سےالگ ہونے والے کئی صحافیوں کے علاوہ، عوام میں سے کئی لوگ ایسے نکلے جنہوں نے سوشل میڈیا، یوٹیوب اور دیگر پلیٹ فارمز کے ذریعے سے عوامی رائے کو مثبت اور صحیح سمت دینے کی کوشش کی۔ ان کا ایک بڑااثر رہا جسے آج ہر کوئی قبول کر رہا ہے۔ اس لیے اب یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ مین اسٹریم میڈیا گرچہ دباؤمیں کام کر بھی رہا تھا لیکن اب چونکہ سیاسی قوت کا ارتکاز اتنا نہیں رہا، تو دباؤ بھی کم ہوگا۔ دوسری بات، انہیں بھی یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ حکومتیں مستقل نہیں رہتی۔ اگر آپ کسی ایک پارٹی کے ترجمان بن کر کام کریں گے تو جب وہ پارٹی اقتدار سے ہٹ جائے گی تو آپ کے لیے بھی مسائل پیدا ہوں گے۔
تیسری بات یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ چونکہ وہ بنیادی طور پر بزنس کرتے ہیں، تو بزنس کے نقطہ نظر سے بھی یہ سمجھنا اہم ہے کہ اگر آپ(کسی خاص پارٹی کی ترجمانی کا) یہ اپروچ اختیار کریں گے توعوام آپ سے دور ہو جائے گی اورآزاد ڈیجیٹل میڈیا آپ کی جگہ لے لے گا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ مرکزی دھارے کے بڑے چینلوں کی ٹی آر پی متاثر ہے اور ان کے لیے revenue پیدا کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ میڈیا کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ آپ لوگوں کو کچھ وقت خاص تک تو بیوقوف بنا سکتے ہیں لیکن مستقل پروپگنڈے کے ذریعے لوگوں کو بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا۔
آپ کی نظر میں ان انتخابات سے حاصل شدہ کلیدی نکات کیا ہیں؟
ان انتخابی نتائج سے حاصل شدہ کلیدی نکات میں سے پہلی بات یہ کہ یہ جو سمجھا جا رہا تھا کہ ہندوتوا کی سیاست کا کوئی توڑ نہیں ہے اور ہندوتوا کے غبارے میں جو ہوا بھری ہوئی تھی، اس الیکشن نے وہ ہوا نکال دی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ہندوتوا ختم ہو گیاہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس کی ہوا بری طرح نکل گئی ہے۔ دوسری بات یہ کہ اپوزیشن کو بالکل لاغر اور کمزور سمجھا جارہا تھا تو اس الیکشن نے یہ بتا دیا کہ ایسا نہیں ہے اور اس ملک کی عوام اب بھی سیکولرازم، جمہوریت اور دستور پر یقین رکھتی ہے اور بی جے پی کے علاوہ غیر بی جے پی پارٹیوں کا بھی بڑے پیمانے پر تعاون کرتی ہے۔ تیسری بات اس الیکشن نے یہ ظاہر کردیا کہ چاہے معاشی وسائل ایک جگہ مرتکز ہوجائیں، ای ڈی، سی بی آئی اور دیگر دستوری اداروں پر قبضہ کرلیا جائے تب بھی یہ سب مل کر عوام کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ عوام کی طاقت اپنے آپ میں ایک بڑی طاقت ہے جو ان ساری چیزوں کو شکست دے سکتی ہے۔ یہ ایک بڑا سبق حاصل ہوا ہے۔ چوتھی بات جو حاصل ہوئی وہ یہ کہ قوت کو مرتکز کرنے کی، ہندوستان کےوفاقی ڈھانچے (فیڈرل اسٹرکچر) سے کھلواڑ کرنے کی جو کوشش کی جارہی تھی، اس تناظر میں عوام نے مقامی پارٹیوں کو جس طرح مضبوط کیا ہے، چاہے وہ شمال یا جنوب میں ہوں تو اس لحاظ سے بھی بہت واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اب بھی مقامی قوتیں بہت اہم قوتیں ہیں اور لوگ یہ چاہتے ہیں کہ اس ملک کے فیڈرل کلچراور فیڈرل سسٹم کو برقرار رکھا جائے۔
اس سے آگے بڑھ کر ایک بات یہ کہ ضروری نہیں کہ ایک الیکشن ہی سے ساری چیزیں تبدیل ہوجائیں لیکن رجحان یہ بتارہا ہے کہ ہوا اب ایک دوسرے رخ پر بہہ رہی ہے۔ آنے والے اسمبلی انتخابات میں بھی یہ چیز بہت شدت سے نظر آئے گی اور اس کے نتیجے میں جو سیاسی تبدیلی ہورہی ہے، زمینی سطح پر ری سوشل انجینئرنگ ہو رہی ہے، نئے گٹھ جوڑ بن رہے ہیں، لوگ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں، یہ سب اپنے آپ میں مثبت نشانات ہیں۔
ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے دوران توسیاسی پارٹیوں اور ان حامیوں کے درمیان بہت کچھ مقابلہ آرائی ہوتی ہے لیکن انتخابات کے بعد اب یہ موقع ہے کہ مختلف کمیونٹیز، سیاسی پارٹیوں، تنظیموں اور سول سوسائٹی کے الگ الگ لوگوں کے درمیان معنی خیز، تعمیری اور مثبت ڈائیلاگ ہوں۔ ہم بی جے پی کے ووٹر یا رائٹ ونگ سپورٹرز کو ‘بھکت’ کا لیبل لگا دیں، ان سے مایوس ہو جائیں یا ان کا مذاق اڑائیں تو یہ زیادہ مناسب اپروچ نہیں ہے۔ مناسب اپروچ تو یہ ہے کہ آپ نےاپنی سطح پر درست تصویر لوگوں کے سامنے لانے کی کوشش کی تو ایک بڑی تعداد جوپہلے رائٹ ونگ کی جانب تھی وہ اب دوسری طرف آچکی ہے۔ اب بھی جو لوگ رائٹ ونگ کے ساتھ موجود ہیں، ضرورت ہے کہ ان کے ساتھ بھی انگیجمنٹ کیا جائے، ان سے ڈائیلاگ کیا جائے، انہیں بتایا جائے کہ نفرت کا ایجنڈا بذات خود ان کے اپنے لیے بہتر نہیں ہے۔ ان کے سماج، مستقبل اور ان کے بچوں کے لیے بہتر نہیں ہے۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی انسان اپنے آپ سے نفرت نہیں کرتا البتہ 2 سے 4 فیصد لوگ تو بے وقوف ہو سکتے ہیں۔ لیکن باقی لوگ یقیناً اپنے اور سماج کے وسیع تر مفادات کو سمجھیں گے اور جب وہ یہ دیکھیں گے کہ ہندو مسلم کی سیاست خود ان کے اپنے گھروں کو بھی جلا سکتی ہے تو وہ اس سے ان شاءاللہ دور ہوں گے۔ لہٰذاتبدیلی کی امید کو باقی رکھتے ہوئے محنت کرنی چاہیے۔
گذشتہ چند سالوں سے مسلمانوں سے نفرت کا ماحول بنانے کی جو کوششیں کی جارہی تھیں، کیا ان نتائج سے یہ نتیجہ اخذ کرنا درست ہوگا کہ وہ نفرت کم ہوئی ہے۔ مزید یہ کہ مسلم نوجوانوں کو آپ کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ انتخابی نتائج کے ساتھ نفرت ختم تو نہیں ہوئی لیکن کم ضرور ہوئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ جتنی نفرت ہمیں میڈیا اور سوشل میڈیا پر نظر آرہی تھی، وہ حقیقت میں بھی اتنی نہیں تھی۔ اسی لیے ہم نے یہ بات کہی کہ ایسا نہیں ہے کہ اس الیکشن نے ہندوتوا کو بہت کمزور کر دیا، لیکن یہ ضرور ہے کہ ہندوتوا کا ہوا سے بھرا ہوا غبارہ پنکچر ہوگیا۔ نفرت کو بہت بڑا بتا کر پیش کیا جا رہا تھا اور مسلمان بھی یہ سمجھنے لگ گئے تھے کہ اس ملک میں سب سے بڑی چیزاگر کوئی ہے تو وہ اسلاموفوبیا ہی ہے، اس ملک میں جو کچھ ہوتا ہے وہ صرف مسلمانوں سے دشمنی اور نفرت کی بنیاد ہی پر ہوتا ہے، اس الیکشن نے یہ بتا دیا کہ ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔
اس ملک کی 70 فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے، ووٹنگ کا سب سے زیادہ تناسب دیہی علاقوں میں ہے، ان میں بھی ووٹ کرنے والی بڑی تعداد خواتین کی ہے، لہٰذا سوشل میڈیا دیکھ کر ہم جو یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ساری ووٹنگ بس ہندوتوا اور سیکولرزم کے نام پر ہو رہی ہے تو ایسا نہیں ہے۔ لوگ بہت سارے دیگر فیکٹرز کی بنیاد پر ووٹ کرتے ہیں۔ ملک میں سے بہت چھوٹی تعداد ہوگی جو خالصتاً نظریاتی بنیادوں پر ووٹ کرتی ہے۔ ورنہ ہندوستان میں ووٹنگ بہت متنوع عوامل کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ہمیں خود بھی اس بات کوسمجھنا چاہیے۔
یہ بھی حقیقت ہے کہ نفرت کی جو کچھ سطح تھی، وہ اچھی خاصی کم ہوئی ہے۔ ہمیں اس بات کی امید کرنی چاہیے کہ مستقبل میں وہ مزید کم ہوگی ان شاء اللہ اور اگر خدانخواستہ وہ بڑھ بھی جائے تو مسلمانوں کو اصلاً ا اس بات پر اعتماد رکھنا چاہیے کہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ پارلیمنٹ، اسمبلیز یا کوئی اور جگہ نہیں بلکہ ہماری قوت کا اصل سرچشمہ ہمارا ایمان ہے، اللہ سے ہمارا تعلق ہے، اللہ پر یقین اور اس کی راہ میں جدوجہد کا جذبہ ہے۔ ہم اس جدوجہد کو جاری رکھیں تو ان شاءاللہ حالات بدلیں گے۔ اللہ تعالیٰ حالات اس لیے پیدا کرتا ہے تاکہ وہ بدلے جائیں۔ لہٰذا پہلے جو شر کی کیفیت تھی، وہ نسبتاً خیر کی طرف بڑھی ہے اور ان شاء اللہ آگے مزید خیر ہی خیر ہوگا۔