بھارت میں ہر زمانے میں اسلامی تعلیم کے حوالے سے مدارس کے نظام تعلیم کو اہم سمجھا جاتا رہا ہے۔ مختلف زمانوں میں ملک کے طول وعرض میں ابتدائی سے اعلیٰ سطح کے مختلف مدارس(اسلامی تعلیمی ادارے) قائم کئے گئے تاکہ اسلامی تعلیم کی ضروریات کو پورا کیا جاسکے۔
وقت کے گذرنے کے ساتھ روایتی مدارس اپنی افادیت کھوتے جارہے ہیں۔ مدارس کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کی آوازیں بلند تر ہوتی جارہی ہیں۔ موجودہ دور میں مدارس کے تعلیمی نظام کو کئی چیلنجز درپیش ہیں ۔ ان چیلنجز کو ٹھیک طور پر مخاطب کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں کئے گئے تو عین ممکن ہے کہ بہت جلد یہ ادارے (عصر حاضر سے ) غیر متعلق ہوجائیں۔
اس مضمون میں مدارس کو درپیش چیلنجز و مشکلات کا تذکرہ و تجزیہ کرتے ہوئے ان مسائل کو مخاطب کرنے کے لیے چند تجاویز پیش کی جائیں گی تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ یہ مدارس وقت کے بدلتے تقاضوں سے ہم آہنگ اور اپنے فرائض کی بہتر انجام دہی کے لیے تیار ہوں۔
مدارس کا کردار
مدارس وہ ادارے ہیں جہاں علم کی تدریس، مقاصد زندگی کی تفہیم اور اخلاق کی تعمیر کا کام سرانجام دیا جاتا ہے۔ مدارس، ایسے علماء (اسکالرس) تیار کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں جو اسلام کی خدمت اور دینی تعلیم کی تبلیغ و اشاعت کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے والے ہوں۔ اسلامی تہذیب و ثقافت اور وہ آفاقی اقدار جو مسلم شناخت، روایات اور تصورات کا حصہ ہیں، کی ترویج کے ضمن میں بھی مدارس کی خدمات کو دیکھا جاتا رہا ہے۔(اسی بناء پر) بھارت میں مدارس کو اسلام کے “قلعے”، محافظ اور غیر اسلامی طاقتوں کے خلاف مؤثر ہتھیار کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔
تعلیم کی نشرو ترویج، نصابی خصائص اور تعمیراتی حسن انتظام کے نقاط ہائے نظر سے جدید مدارس کا کردار مقامی آبادی سے بہتر طور پر مربوط نہیں ہے۔ قدیم مضامین پر مشتمل محدود نصاب، جانچ یا محاسبہ کا کمزور نظام، معلومات کی حصولیابی اور حفظ پر ضرورت سے زیادہ اصرار، تنقیدی سوچ اور تحقیقی صلاحیتوں پر کم توجہ، فارمل اور باضابطہ تعلیمی نظام کا حصہ نہ ہونے اور طلبہ کے اسناد، اعزازات یا کریڈینشیل کی حیثیت کو تسلیم نہ کرنے جیسی وجوہات کی بناء پر کئی لوگ روایتی مدارس کو (تعلیم کے حوالے سے ) بہت زیادہ فائدہ مند نہیں سمجھتے ۔
اسلامی تعلیم (مدارس کے تعلیمی نظام) کو درپیش چیلنجز
آج اسلامی تعلیم صدیوں کے تعطل کا شکار ہے۔ اسلامی اسکالر س اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیم صدیوں سے حفظ، نقل اور اصالت کی کمی سے متاثر رہی ہے۔ جس کے نتیجے میں مدارس مسلم امت کو (جدید تقاضوں سے) متعلق اور ہم آہنگ تعلیم فراہم نہیں کر پا رہے۔
مغربی نوآبادیات کے زمانے ہی سے مختلف تبدیلیوں کی وجہ سے اسلامی تعلیم کی حیثیت اور مقام اورعصری تعلیم سے مطابقت میں عدم توازن اور خلیج پیداہونے لگی تھی۔ لیکن چیلنجز اس وقت پیدا ہونے لگے جب اسلامی مدارس سے مطلوبہ اثراتِ مابعد مرتب نہ ہوسکے۔ (عصری) تبدیلیوں کو درست طور پر اختیار نہ کرپانے کی وجہ سے دینی مدارس مطلوبہ نتائج حاصل نہیں کرپارہیں ہے چنانچہ اسی وجہ سے وہ مختلف چیلنجزکا سامنا کررہے ہیں ۔
آئیے، اسلامی تعلیم کو درپیش چیلنجز اور مسلم امت اور سماج کو نظام کی بناء پر لاحق خطرات کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں ۔
الف) سسٹم (نظام)
مدارس کا نظام تعلیم بنیادی طور پر حافظہ پر منحصر مذہبی تعلیم پر مبنی ہے ۔(اکثر وہ طلبہ اس نظام کا حصہ بنتے ہیں جو ) ذہنی بالیدگی کے بالکل ابتدائی دور میں ہوتے ہیں۔ اس نظام کی خرابی طلبہ کی علمی صلاحیت کو مخصوص قسم کی مذہبی تعلیم تک محدود کردینا ہے جو ان کے لیے پروفیشنل ترقی یا کرئیر کے امکانات کو محدود کردیتا ہے۔ غربت کی وجہ سے کئی طلبہ حافظہ پر مبنی ان تعلیمی درجات کے بعد اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ پاتے جس کی بناء پر وہ پروفیشنل یا کرئیر کے نقطہ نظر سے موجود دیگر امکانات سے استفادہ نہیں کرپاتے ۔
(عصری) تعلیمی نظام ،مدارس کی تعلیمی اسناد کو تسلیم نہیں کرتا یا اس کی اہمیت کو محدود کردیتا ہے۔ بحالت مجبوری فارغین مدارس یاتو مذہبی تعلیم ہی کو جاری رکھ پاتے ہیں یا یونیورسٹیوں میں موجود لسانی شعبہ جات ہی میں داخلہ کا متبادل موجود پاتے ہیں جہاں اکثر و بیشتر دیگر علوم کو اختیار کرنے اور ان میں کرئیر بنانے کے امکانات اور مواقع بہت محدود ہوتے ہیں۔
ب) انتظامیہ
مدارس کے تعلیمی نظام کی دگرگوں صوتحال کی ایک بڑی وجہ مدارس کے انتظامیہ کا غیر موثر کردار ہے۔ قائدانہ صلاحیتوں کے فقدان اور اکثر علمی پس منظر کے نہ ہونے کے سبب مدارس کے ذمہ داران تعلیمی معیار کو بلند کرنےکی قابلیت نہیں رکھتے۔ ذمہ داران اور (تدریسی) عملہ کے انتخاب کا عمل)ضابطہ کا پابند اور شفاف ) نہ ہونے کی وجہ سے کم قابل (محدود تدریسی صلاحیتوں کے حامل ) افراد کا انتخا ب ہوجاتا ہے۔ لیاقت و قابلیت کی بنیاد پر انتخاب نہ ہونے کی وجہ سے وہ مدارس اور طلبہ کے تعلیمی مفاد اور مستقبل کے بالمقابل اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ہیں۔
ج) نصاب
مدارس کے نظام میں اصلاحات کے حامی افراد موجودہ نصاب (جو درس نظامی کی کسی قدر بدلی ہوئی شکل ہے ) کو جامد اور عصری تقاضوں و ضروریات سے غیر آہنگ تصور کرتے ہیں ۔ چنندہ تبدیلیوں کے علاوہ گذشتہ تین صدیوں سے(مدارس کا) نصاب بڑی حد تک جوں کا توں وہی ہے ، اسی بناء پر مسلم سماج میں علماء تیزی سے عصری معنویت کھوتے اور حاشیے پر جاتے نظر آرہے ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے دور میں (جی رہے ہوتے ہیں) جو گذر کے عرصہ ہوگیا۔
د) معیار کی کمی
دیگر تعلیمی اداروں کی طرح مدارس کے بھی تعلیمی معیار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ ایک زمانے میں ‘معیار’ مدارس کی امتیازی شان ہوا کرتا تھا، اب وہی سوالیہ نشان بن گیا ہے ۔معدودے چند کے، مدرسے کے فارغین کم استعدا د کے حامل اور نااہل نظر آتے ہیں۔ وہ اپنے ہی میدان میں اختصاص کے تقاضوں کو پورا نہیں کرپاتے اور مدرسے کی طویل المدت تعلیم کا دفاع نہیں کرپاتے۔ وہ زمانہ گذرگیا جب ان مدارس سے ایسے قابل افراد تیار ہوتے تھے جو سماج کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ عربی کی مثال لیجیے۔ سالوں کی تعلیم کے باوجود مدارس کے فارغین کی بڑی تعداد اس زبان میں پروفیشنل طور پر رابطہ و ترسیل کی قابلیت سے عاری نظر آتی ہے ۔
تعلیمی معیار کی گراوٹ کے پس پشت کئی اسبا ب ہیں جیسے انتظامی امور کا غیر مؤثر ہونا، فرسودہ نصابی خاکہ، (ادارے کا مجموعی )مضرت رساں ماحول، غیر موزوں طریقےاور انسانی وسائل کی قلت۔
ہ) تدریسی ذرائع
مدارس میں سالوں سے ایک ہی طرز کے تدریسی طریقے رائج ہیں ۔ معلمین کو جدید تدریسی تکنیک اور صلاحیتیں سیکھنے کی ترغیب و تربیت نہیں دی جاتی ۔ طلبہ کو سکھائے گئے مواد پر سوال کرنے اور تنقیدی نقطہ نظر سے سوچنے پر نہیں ابھارا جاتا۔ پروفیشنل زندگی کے لیے درکار صلاحیت و قابلیت کے امور نصاب میں شامل نہیں ہوتے۔معلمین ،کلاس میں پڑھائے جانے والے اسباق کی بہتر تیاری نہیں کرتے، بسااوقات دیگر اضافی سرگرمیوں میں شمولیت کی وجہ سے بھی وہ تدریس میں دلچسپی کھوتے ہیں۔ طلبہ کو دی جانے والی سزائیں مختلف مدارس کا ایک بڑا مسئلہ ہیں۔
و) عام تصورات
مدارس کے طلبہ کے بارے میں یہ عام تصور ان کے لیے چیلنج کا باعث ہے کہ یہ طلبہ عملی زندگی کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لیے درکار قابلیتوں سے محروم اور غیر ہنر مند ہیں۔ یہ تصور معاشرہ کے متمول طبقہ کو متاثر کرتا ہےجس کی بناء پر یہ لوگ اپنے بچوں کو مدرسوں میں تعلیم کے لیے داخلہ دلوانے پر تیار نہیں ہوتے۔
مدارس کے بارے میں پایا جانے والے عام تصور والدین کی ذہنیت کو متاثر کرتا ہے، وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ تمام اسلامی مضامین میں مہارت ضروری نہیں ،بطور خاص اس وقت جب کہ پروفیشنل زندگی میں ترقی کے لیے جدید عصری مضامین میں مہارت درکار ہے۔ اس لیے بڑے پیمانے پر یہ تصور رائج ہے کہ مسلم طلبہ کے لیے اسلامی مضامین کا بنیادی علم کافی ہےاور دونوں (اسلامی اور عصری) مضامین پر عبور غیر حکیمانہ عمل ہوگا چونکہ انہیں جدید عصری مضامین پر بھرپور توجہ دینی ہے ۔
ز) روحانی تنزل
اس بات سے انکار نہیں کہ مدارس کے فارغین روحانیت، اخلاق و آداب کے حوالے سے کئی ساری خوبیوں کے مالک اور دیگر عام طلبہ کے بالمقابل ان معاملات میں کافی بہتر ہوتے ہیں۔ لیکن، فارغین مدارس کی روحانی تربیت کے حوالے سے موجودہ صورتحال متاثر کن نظر آتی ہے ۔ فارغین مدراس دنیاوی امور سے اس درجہ متعلق نظر آتے ہیں کہ ان میں اور عصری علوم کے طلباء میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ یہ بات بالخصوص مدارس سے فراغت کے بعد عصری یونیورسٹیوں میں داخلہ لینے والے طلبہ پر صادق آتی ہے۔ ایسے طلبہ کی ایک معتدبہ تعداد مدارس میں سیکھے گئے اعلیٰ اقدار و خصائص کے عملی زندگی میں اطلاق میں ناکام ہونے کے سبب سنٹرل یونیورسٹی کے ساتھی طلبہ پر کوئی (مثبت) تاثر قائم نہیں کرپاتی۔ زیادہ تشویش کی بات تو یہ ہے کہ ان میں چند طلبہ بنیادی فرائض (جیسےنماز) کی ادائیگی کے حوالے سے کوتاہ عملی کے شکار نظر آتے ہیں۔
یہ صورتحال مدارس کے نظام تربیت پر سوال کھڑا کرتی ہے۔ ان رسومات کی ادائیگی و پابندی کے حوالے سے برسوں زیر تربیت رہنے والے مسلم طالب علم کس طرح مدرسے کے ماحول سے نکلنے کے بعد اچانک کسی شرمندگی کے بغیر انہیں ترک کرنے کا فیصلہ کردیتے ہیں؟ سرپرست حضرات اور مدرسہ کے ذمہ داران کو چوکنا ہوتے ہوئے مدرسے کے تربیتی نظام کا سختی سے جائزہ لینا چاہئے، اس کے پس پشت کارفرما اسباب کا تجزیہ کرتے ہوئے ان کے تدارک اور روحانی پہلو سےبہتری کے لیے اقدامات کرنے چاہئیں۔
ح) فنڈنگ
مدارس کو درپیش ایک اہم توجہ طلب چیلنج فنڈنگ ہے۔ بڑی تعداد میں مدارس اپنے اخراجات اور مالی تقاضوں کی تکمیل کے لیے خیر خواہوں کے مالی تعاون ہی پر منحصر ہوتے ہیں۔ یہ ذرائع متاثر ہوں تو ادارے متاثر ہونے لگتے ہیں۔ مالی تعاون پر انحصار کے شدید اثرات کا مشاہدہ کووڈ -19 کے وقت کیا گیا ،جب اس تعاون میں بڑی کمی واقع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں اساتذہ کو مدارس سے فارغ کرنا پڑااور سماج میں کافی واویلا مچا۔ عملہ کی تنخواہوں کو کم یا ختم کردینے کے انتظامیہ کے فیصلے شدید تنقید کی زد میں آئے اور انہیں من مانی تصور کیا جانے لگا۔
ط) اصلاحات کی مزاحمت
اصلاحات کامیابی کی ضمانت ہوتے ہیں جسے نظر انداز کرنے کے اثرات شدید نقصاندہ ہوتے ہیں۔ لمبے عرصے سے مدرسوں میں اصلاحات کی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس ضمن میں جدید مضامین کی تدریس کو اہم اقدام تصور کیا جاتا ہے ۔لیکن اسے قدامت پسند علماء کی مخالفت کا سامنا ہے جو اسلامی اور جدید علوم کی بیک وقت تدریس کے قائل نہیں ، کیونکہ ان کی نظر میں یہ مدارس کے بنیادی تصور اور مقاصد کے خلاف ہے اور جدید مضامین کی شمولیت عقائد کے شارح کی حیثیت سے ان کے مقام و مرتبہ کو متاثر کرے گی۔
ی) اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت اور عناد
مدارس کے لیے بڑا چیلنج اسلامی تعلیم کے بارے میں پائی جانے والی غلط فہمیاں اور تصورات ہیں۔منصوبہ بند کوششوں کے ذریعے طلبہ کے ذہنوں میں اسلامی تعلیم اور اقدار کے متعلق شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں کہ یہ نظام فرسودہ اور عصر حاضر کے مسائل کو حل کرنے میں ناکام ہے۔ ان غلط فہمیوں کے زیر اثر کئی والدین بچوں کو دینی تعلیمی اداروں میں بھیجنے سے کتراتے ہیں۔
غیر مسلم اقوام نے اسلامی تعلیم کے متعلق غلط تصور کو پیدا کیا، کہ اس کے ذریعے دہشت گردوں کو تیار کیا جاتا ہے۔ بھارت میں شدت پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مدارس کو بدنام کرنے کی دانستہ کوششیں کی جاتی رہی ہیں۔ جسے مدارس کے منتظمین اور سرپرست حضرات مسلم عقیدہ اور شناخت کو ختم کرنے کی سازش خیال کرتے ہیں۔نفرت کے سوداگر عوام کے ذہنوں کو ورغلانے اور حکومتی اداروں میں موجود افرد کو تعصب برتنے کی ترغیب دیتے ہیں۔
حکومتی پالیسیاں ملک میں مدارس کے لیے بڑی مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔ حال ہی میں آسام کی حکومت نے ریاستی امداد سے چلنے والے مدارس کو عام تعلیمی اداروں میں تبدیل کردینے کے بل کو منظوری دی ہے۔ (جاری)
(مضمون نگار نے جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ سے عالمیت مکمل کی ہے، اور فی الحال متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں)