لو جہاد اور دیگر افسانے (Love Jihad & Other Fictions)

جویریہ آصف

کتاب: لوجہاد اور دیگر افسانے: وائرل جھوٹ کے مقابلے میں سادہ حقائق مصنف: سری نیواسن جین، مریم علوی، سپریا شرما ناشر: الف بک کمپنی مبصر: جویریہ آصف ترجمہ: شیخ حسن احمد خالص تخیل سے پیدا ہونے والی کسی بھی چیز…

کتاب: لوجہاد اور دیگر افسانے: وائرل جھوٹ کے مقابلے میں سادہ حقائق

مصنف: سری نیواسن جین، مریم علوی، سپریا شرما

ناشر: الف بک کمپنی

مبصر: جویریہ آصف

ترجمہ: شیخ حسن احمد

خالص تخیل سے پیدا ہونے والی کسی بھی چیز کے مقابلے میں کہیں زیادہ عجیب و غریب، غیر معمولی اور بظاہر ناممکن واقعات کا حقیقی زندگی میں رونما ہونے کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے مارک ٹوین نے کہا تھا “سچائی افسانے سے کہیں زیادہ عجیب ہے، کیونکہ افسانے امکانات تک محدود ہیں، سچائی تک نہیں۔” جبکہ افسانے امکانات اور فہم میں آنے والی حدوں کے پابند ہوتے ہیں،سچائی ایسی کوئی حدیں نہیں جانتی اور اکثر اس طرح رونما ہوتی ہے جو توقعات اور منطق کے خلاف ہے۔ ٹوین نے یہ بات اپنے وقت کے سماجی اور سیاسی حقائق پر تبصرہ کرتے ہوئے کہی ہوگی لیکن “لو جہاد اور دیگر افسانے: وائرل جھوٹ کے مقابلے میں سادہ حقائق” کتاب پڑھتے وقت وہی الفاظ مسلسل میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ یہ کتاب، جو تین صحافیوں – سرینیواسن جین، مریم علوی اور سپريا شرما، کی تصنیف کردہ ہے، ہندوتوا کی نفرت وتعصب کے موجودہ سماجی سیاسی ماحول میں وضاحت کرنے والی اور توازن کا احساس فراہم کرتے ہوئے ایک جرات مندانہ اور انتہائی اہم تحقیقاتی کوشش ہے۔

تقریباً ساٹھ سالوں سے بے حرکت ہندو قوم پرست، ہندوتوا، رائٹ ونگ بھارتیہ جانتا پارٹی کے 2014 میں اقتدار حاصل کرنے کے بعد یکایک بیدار ہو چکی ہے۔ جس نے ملک کی اقلیتوں کے خلاف اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف بد گمانی اور دشمنی کےماحول کے لیے وسیع راستہ ہموار کیا۔ اور اسی ماحول نے سوشل میڈیا کی آمد سے تیزی کے ساتھ بڑھتے ہوئی کنیکٹیوٹی کی مدد سے گزشتہ سالوں میں تعصّب، نفرت پر مبنی تقاریر اور نفرت انگیز جرائم کے پروان چڑھانے کے لیے زرخیز زمین فراہم کی۔ سینٹر میں کانگریس (یو پی اے) کی حکومت کے دوران بھی ہندوتوا تشدّد، ایک منظم شکل کے ساتھ، کوئی اندیکھی چیز نہیں تھی، لیکن اسی تشدّد کو مکمل منظوری اور سہارا ‘ہندوتوا حمایت یافتہ حکومت’ کے سینٹر پر قابض ہونے پر مل گئی ہے۔

اقتدار کی حمایت کا مطلب یہ ہے کہ جس چیز کو پہلے سیاسی اور سماجی گفتگو میں حاشیہ کا مقام حاصل تھا آج اسے قانونی حیثیت (legitimacy) حاصل ہوگئی ہے۔ جو چیز کبھی اندھیروں میں سرگوشی کا موضوع تھی اور جس پر سازش (conspiracy) کا نام دے کر ہنسا جا سکتا تھا، پچھلے چند سالوں میں ہندتوا تخیل میں داخل ہو چکا ہے۔ وہی سرگوشیوں سے پھیلنے والی بیان بازیاں، 2014 کے انتخابات کے بعد نیشنل ٹیلیویژن پر دلیری اور بے شرمی کے ساتھ نشر کی جا رہی ہے۔ بغیر کسی حدود کے کئی دفعہ واٹس اپ اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر پھیلائے جانےوالے ‘لو جہاد ‘ جیسے خطرناک افسانوں کے ذریعے جھوٹ اور مضحکہ خیز تمام تر تصورات کی اشاعت ہو رہی ہے۔ یہ اس قدر چالاکی اور جوش وخروش کے ساتھ بار بار دہرائے جا رہے ہیں کے اب ان تصورات نےعام معلومات کی جگہ لے لی ہیں اور حقیقت و افسانے کے درمیان تمام حدیں ٹوٹ چکی ہے۔ اس کا نتیجہ؟ ایک ‘سچ’، لامتناہی تکرار اور بڑھتی ہوئی شدّت کے ساتھ، تخلیق کیا جا رہا ہے جس کا ہدف دن بہ دن وسیع تر ہوتا ہوا، خارجی اور اکثر مذمت کا شکار، ہندو قوم پرست ایجنڈے کے مفادات کی تکمیل ہے۔

مصنفین نے ایسی ‘گڑھی ہوئی سچائیوں’ کے شواہد اور ثبوتوں کو تلاش کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے RTI درخواستیں، حکومت کے ریکارڈ، پارلیمانی سوالات کے ریکارڈ، بی جے پی لیڈران اور ہندوتوا تنظیموں سے رابطہ، اکیڈمک تحقیقات کا مطالہ اور گراؤنڈ رپورٹس وغیرہ کے ذرائع استعمال کیے ہیں۔ اور تمام تر صورتوں میں جو بھی ٹھوس ثبوت ان دعووں کی حمایت میں ملے وہ یا تو قرائنی ثبوت (circumstantial evidence) تھے یا پہلے سے قائم شدہ آگ کو آکسیجن فراہم کرنے کے لیے من گھڑت اور بغیر سیاق کے چنے ہوئے ثبوت تھے۔ مثال کے طور پر پہلا باب منظم طریقے سے لو جہاد کیسز کی واحد حتمی فہرست کی جانچ کرتا ہے جس میں گرفتاریوں کی وجوہات اور بنیادی سیاق و سباق کو تفصیل سے دریافت کیا گیاہے۔ اُن گرفتاریوں کے کیسز اس ‘وسیع اور مذموم مسلم مخالف ہندوستان کے وجود کو خطرے میں ڈالنے والی سازش’ کی بنیاد پر کیے گئے تھے۔ اور یہ باب سخت صحافتی اصولوں اور جانچ پڑتال کے بعد یہ خلاصہ کرتا ہے کہ حقیقت میں ایسے سازشی نظریات کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔

اسی طرح دوسرا باب ‘پاپولیشن جہاد’ کے ہندوتوا دعوے کی جانچ کرتا ہے، جس کا کہنا ہے کہ مسلمان زیادہ بچے پیدا کرکے اور ہندوستانی سرحدوں میں دراندازی سے ہندوستان کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی ایک مقدس جنگ کر رہے ہیں۔ یہ باب اس دعوے کے متعلق ڈاٹا کی تحقیق کرکے یہ نتیجہ ظاہر کرتا ہے کے یہ بات ممکن ہی نہیں ہے۔ عالمی سطح پر مشہور ماہرینِ آبادیات کی تحقیقات کا حوالہ دیتے ہوئے اس نتیجہ تک پہنچاتا ہے کے ہندوستان کی آبادی کے پانچویں حصے سے بھی کم تعداد رکھنے والے مسلمانوں کے گروہ کے لیے ممکن ہی نہیں ہے کہ ہندوؤں پر تعداد کے اعتبار سے غالب آجائیں۔ اسی طرح تیسرا باب جبری تبدیلئ مذہب کی بات کرتے ہوئے “تبدیلی مذہب” کی تعریف کرنے میں ہندوستانی آئین کی مبہم نوعیت کی زبان کے مسئلے پر روشنی ڈالتا ہے۔ یہاں آئین کی زبان میں ابہام کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہے کیونکہ آج کے دن (اور تاریخ میں بھی) جس قانون کو مذہب کے انتخاب کی آزادی کے لیے بنایا گیا تھا اسی کا استعمال ایسے “آزادئ مذہب” قوانین بنانے میں ہو رہا ہے جو اسے الٹا محدود کرتے ہیں۔

چوتھے باب میں “مسلمانوں کی تشفی (muslim appeasement)” کی بات کی گئی ہے یہ اس خیال کی بات ہے کہ “سیاسی جماعتیں مسلمانوں کو ترجیحی سلوک سے ہٹ کر اُن کو اپنے ووٹ بینک کے طور پر پروان چڑھاتی ہيں، اکثر بجٹ کچھ allocations کے طور پر تقسیم ہوتا ہے (جیسے کے حج سبسڈی کا معاملہ)۔” ایک سرسری نظر اعداد و شمار پر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کے یہ سچ نہیں ہے اور گہرائی کے ساتھ تجزیہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کے یہ سرے سےممکن ہی نہیں ہے۔ مصنفین کے مطابق یہ دعویٰ بڑی حد تک اقلیتوں پر حکومت کے اخراجات میں مبالغہ آرائی پر مبنی ہے (جب کہ حقیقت يہ ہے کے وہ انتہائی کم ہے) اور اقلیتوں کے لیے حکومت کی طرف سے “آئینی دفعات میں خصوصی توجہ” میں مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔ یہ کتاب CAA-NRC، آسام ریاست میں مسلموں کی ہجرت کے مسئلے، گائے کے ذبح کا مسئلہ، یکساں سول کوڈ کا لاگو ہونا، عیسائی دلت اور مسلم دلت کے ریزرویشن کا مسئلہ، وغیرہ سے بحث کرتی ہے اور اس کتاب کا اختتام ایک موزوں محاورے سے ہوتا ہے جو ان افسانوں کو پھیلانے میں طاقت و اقتدار کے کردار کو بیان کرتا ہے جس کے نتیجے میں ہی ان تفرقہ انگیز قوانین کا تعارف اور اُن کو منظوری ملی ہے۔

آج کے اس تفرقہ زدہ ماحول میں ایسی کتاب کی شدید ضرورت ہے۔ یہ ان بے وزن، کھوکھلے دعووں کے خلاف بھی کام کرتی ہے جو ریاستی آلائندوں کے ذریعے ہر دن ہر وقت پیدا کیے جا رہے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کتاب کا پہلے کے ڈسکورس کے مخالف ہونا اس بات سے پتہ چل جاتا ہے کے اس کی زبان اس سے کتنی مختلف ہے۔ جہاں عوامی حلقوں میں مشہور بیانیہ، افسانے اور تخیل پر مبنی ہے، يہ کتاب حقائق اور منطق پر مبنی ہے۔ مصنفین اس کتاب میں اپنی سی امید کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ ملک کی اکثر آوازیں جو اب بھی باقی ہیں وہ ‘سوچ سمجھ’ رکھنے والی آوازیں ہیں۔ میں ذاتی طور پر مصنفین کے لیے اس جوش اور یقین (اس بات پر کہ آج بھی سوچ سمجھ رکھنے والی آوازیں باقی ہیں) کا اظہار نہیں کرتی۔ اس کے باوجود، اُن کا طرز تحریر ٹھوس اور تیر با ہدف ہے، اور سچائی کے خود ساختہ ماہرین کے لیے (چاہے وہ کسی بھی پس منظر سے ہوں) سوچنے کے لیے کافی مواد اور حقائق جو ہضم کرنے کے لئے مشکل ہوں اس کتاب میں ملیں گے۔ میرے مطابق اس کتاب کا واحد مقصد ہی یہ ہے کہ ایسے بیانیوں میں خلل ڈالنا جنھیں عام اور مشہور کر دیا گیا اور پڑھنے والے کو اپنے گھروں میں رہنے والے شیطانوں کا مقابلہ کرنے پر مجبور کرنا- مختصر یہ کے پڑھنے والے کو رک کر سوچنے کے لیے حد درجہ بے چین کر دینا ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں