کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج ۲۰۲۳

ارشاد احمد

ضرورت اس بات کی ہے کہ صرف نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ نفرت کا پورا بازار ہی بند کرنا پڑےگا۔

بی جے پی کے قائدین اور چوٹی کے لیڈران جیسے وزیر اعظم نریندر مودی، یوگی ادتیناتھ، ہیمنتا بسوا شرما، دیویندر فڈنویس، اور دو سو سے بھی زائدپارلیمنٹ  ارکان نے کرناٹک میں پُر زور انتخابی مہمات منعقد کیں، لیکن پچھلے چار سالوں میں “چالیس فیصد رشوت خور سرکار” کے نام سے بدنام ہونے والی بی جے پی سرکار کو کرناٹک کی عوام نے بری طرح رد کرتے ہوئے کانگریس کو واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی سے ہمکنار کیا ۔

۱۳ مئی کو اعلان ہونے والے کرناٹک اسمبلی انتخابات کے نتائج نے بی جے پی کو جنوبی ہند کی اپنی ایک اور آخری ریاست سے بھی دستبردار کردیا۔ اب جنوبی ہند کے کسی بھی ریاست میں بی جے پی اپنا سیاسی اقتدار نہیں رکھتی۔ ریاست ِکرناٹکا کو بی جے پی کے لئے جنوب ہند کی سرزمین کا “باب الدخول ” مانا جاتا ہے کیونکہ تمل ناڈو، تلنگانہ، آندھرا پردیش، اور کیرالا میں بی جے پی کبھی اقتدار میں نہیں آئی۔ حقیقت یہ ہے کہ کرناٹک کی عوام نے بھی بی جے پی کو کبھی اکثریت نہیں دی۔ اب ۲۰۰۸ ہو یا ۲۰۱۹ بی جے پی ہمیشہ چور دروازے سے ہی کانگریس اور JDS کے قانون ساز اسمبلی کےاراکین کو خرید کر ہی حکومت بنائی ہے جسے “آپریشن کمل” کہا جاتا ہے۔ حالیہ انتخابات میں کل ۲۲۴ نشستوں میں کانگریس نے ۱۳۵، بی جے پی نے ۶۶، JDS نے ۱۹اور باقی چار آزاد امیدواروں نے جیت حاصل کی ہے۔ تقریباً چالیس سال کے بعد کانگریس نے کرناٹک میں اتنی بڑی جیت حاصل کی ہے۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ صرف جنوبی ہندوستان میں بی جے پی کا صفایا اہم مسئلہ نہیں ہے بلکہ اور بھی ایسے اہم نکات ہیں جو کرناٹک کے نتائج سے جھوٹی ثابت ہوئی ہیں۔

۱۔ انتخابی حکمت عملی اور انتظامی امور

 عوام میں یہ رجحان ۲۰۱۴کے بعد سے سرایت کر گیا ہے کہ زمینی سطح پر انتخابی انتظامات، عوامی بیانیہ کھڑا کرنے کی صلاحیت اور حکمت عملی متعین کرنے میں بی جے پی سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اُوپر ذکر کردہ نکات کے مطابق کانگریس نے کرناٹک میں بی جے پی کو غلط ثابت کردیا ہے۔

۲۔ مضبوط اعلیٰ کمان کا خلا

ٹھیک گجرات کی طرح بی جے پی نے کرناٹک میں بھی نئے امیدواروں کو لاکر “حکومت مخالف جذبات” پر قابو پانے کی غرض سے “عمر” کو وجہ ٹھہراتے ہوئے بڑے اور عمر رسیدہ لیڈران کو ٹکٹ دینے سے انکار کردیا۔ گجرات میں چلایا گیا یہ فارمولہ ریاست کرناٹک میں ناکام ہوا۔ وہ تمام بڑے لیڈران جن کو بی جے پی میں ٹکٹ نہیں دیا گیا، اُن سب نے مودی اور امت شاہ کے سامنے گھٹنے ٹیکنے سے انکار کیا اور پارٹی سے استعفیٰ دیدیا۔ دوسری طرف یہ بیانیہ لوگوں میں عام ہوگیا کہ بی جے پی لنگایت لیڈران کو کنارے کرکے برہمن لیڈران کو اقتدار پر بٹھانے کے کوشش کر رہی ہے۔ خاص کر لنگایت کے بڑے لیڈر جیسے يڈیورپّا کا وزیر اعلی کے عہدے سے ہٹانا، جگدیش شٹّر اور لکشمن سوادی جیسے لنگایت لیڈران کا کانگریس میں شامل ہونا، بی جے پی سے لنگایت کمیونیٹی کی ناراضگی کا بنیادی سبب بنا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ۷۵ نئے چہرے جن کو بی جے پی نے ٹکٹ دیا تھا اُن میں سے صرف ۱۸لوگ ہی کامیاب ہو پائے۔ وہ تمام باغی امیدوار جنہیں بی جے پی نے ٹکٹ نہیں دیا سب نے نئے امیدواروں کے خلاف مہم چڑھ دی۔

۳۔ مودی فیکٹر   

کرناٹک کے بی جے پی لیڈران کو یہ بات پہلے ہی سے سمجھ آگئی تھی کہ ۲۰۲۳کے انتخابات میں وہ ہارنے والے ہیں لیکن کہیں نہ کہیں یہ اُمید بھی تھی کہ اگر مودی جی مہم کے لئے یہاں خود آئینگے تو انکے جادو سے ریاست کی ہوا ہمارے حق میں بدلےگی۔ مودی جی آئے اور کرناٹک انتخابات میں ۱۸سے زیادہ ریلی اور روڈ شو منعقد کیے اور آخری دن بنگلور میں زوردار روڈ شو کے ساتھ انتخابی مہم کا اختتام بھی کیا۔ مودی جی نے خود کو مظلوم بنانے کا کھیل بھی کھیلا کہ اپوزیشن نے مجھے ۹۱بار گالیاں دیں، بہت برا بھلا کہا، لیکن یہ کھیل بھی ناکام ہوگیا۔ انتخابی نتائج سے پتہ چلا کہ ۱۸جگہ جہاں مودی جی نے اپنی ریلی کی وہاں ۱۳جگہ پر شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

۴۔ ہندوتوا اور دیگر جذباتی ایشوز

حجاب، حلال، معاشی بائیکاٹ، ٹیپو سلطان، اذان اور آخر میں کیرالا اسٹوری اور بجرنگ بلی کے نام پر نفرت پھیلا کر عوام کو باٹنے کی پوری کوشش کی گئی لیکن کرناٹک کی عوام نے نفرت کی اس سیاست کا ساتھ دینے سے انکار کردیا۔

۵۔ علاقائیت اور انتہاء پسند قومیت 

کرناٹک کی علاقائیت کے سامنے بی جے پی کی انتہاء پسند قومیت کو کراری شکست ملی ہے۔ کننڈزبان پر ہندی زبان تھوپنے کا مسئلہ ہو یا کرناٹک کا نندینی (Nandini) اور گجرات کا امول (Amul) کا معاملہ ہو، بی جے پی پوری طرح سے ناکام رہی۔

۶۔ ریزرویش

اس بار کے انتخابات میں ریزرویشن ایک اہم مدعا رہا ہے۔ آخری دنوں میں حکومت نے مسلمانوں سے ۴فیصد ریزرویشن چھین کر دوسری ذات اور کمیونیٹی کو دینے کی کوشش بلکل ناکام رہی۔

آپوزیشن اور کرناٹک اسمبلی نتائج 

۱۔ کانگریس کی خود اعتمادی میں اضافہ

کرناٹک اسمبلی انتخابات کی شاندار جیت سے یقیناً کانگریس پارٹی کو ملک بھر میں نئے جوش و جذبے کے ساتھ واپسی کے لئے قوت ملی ہے۔ اب ملک کے دیگر ریاستوں میں پارٹی اسی طرح منظّم اور متحدہ مہم کو رول ماڈل بنا کر انتخابات لڑنے کی کوشش کریگی۔

۲۔ پانچ وعدے

کانگریس نے پانچ اہم وعدوں کا اعلان کیا تھا جسکا عوام پر بہت اچھا اثر پڑا ہے جس کے سبب مہنگائی، غریبی اور بیروزگاری سے جوج رہے لوگوں کو اس میں اُمید کی ایک کرن نظر آئی۔

۳۔ سماجی انصاف

کرناٹک میں بی جے پی کی سیاسی شمولیت سے پہلے ہمیشہ سماجی انصاف والی سیاست رائج رہی ہے۔ ۲۰۱۳میں کانگریس کی جیت کے پیچھے اقلیتوں، دلت، اور OBC کے اتحاد کا بڑا اہم رول رہا ہے۔ اس بار مختصر ہی سہی لیکن لن گایت اور وكّلی گاس جیسے اعلیٰ طبقات کا ساتھ بھی کانگریس کو ملا ہے۔ پچھلی بار داخلی حصےداری (Internal Quota) کی سیاست کی وجہ سے مدیگا ذات (Dalit Left) اور ہولیا ذات (Dalit Right) کے ووٹ تقسیم ہو گئے تھے لیکن اس بار کانگریس کی طرف منجمد ہوتے ہوئے نظر آئے۔

۴۔ علاقائی پارٹیاں

جنوبی ہند کے دوسری ریاستوں میں علاقائی پارٹیاں بہت مضبوط ہیں لیکن کرناٹک میں JDS صرف ایک خاندان اور ذات کی حد تک محدود ہو کے رہ گئی جس کے سبب JDS پچھلی بار کے مقابلے ۳۷نشستوں سے ۱۹ پر ہی رہ گئی۔اُسکے علاوہ عام آدمی پارٹی (AAP)، SDPI  اور دیگر چھوٹی پارٹیاں پوری طرح ناکام رہیں۔

۵۔ دیگر مخالف پارٹیاں

ان انتخابات میں باقی اپوزیشن پارٹیوں اور خاص کر تلنگانہ کی BRS کے لئے ایک اہم سبق یہ ہے کہ بی جے پی چاہے فرقہ وارانہ ایشوز کے ذریعے انتخابات لڑنے کی پوری کوشش کریں لیکن BRS کو مہنگائی، ترقی، سماجی بھلائی اور علاقائی مسائل پر ہی اپنی توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔

کرناٹک الیکشن اور مسلمان  

پچھلے تین چار سالوں میں مسلمانوں کو حجاب، حلال، اذان جیسے مختلف مسائل کا سخت سامنا کرنا پڑا ہے۔ ریاست کے مسلمانوں نے صبر اور امن کا مظاہرہ کرتے ہوئے بی جے پی کی اکسانے اور بھڑکانے کی کوششوں کو ناکام کیا اور انتخابات میں سمجھ بوجھ کے ساتھ اپنے ووٹ کے ذریعے اسکا جواب دیا۔ پسماندہ طبقات تک بی جے پی کی پہنچ کے افسانوں کو کرناٹک انتخابات کے نتائج نے جھوٹا ثابت کردیا۔ یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ جنوبی ہند میں پسماندہ طبقات کے نام پر سیاست کرنا آسان کام نہیں ہے۔  بی جے پی نے کرناٹک میں اسکی بھرپور کوشش کی لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ مسلمان اور عیسائی کمیونٹی نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو ایک صاف پیغام یہ پہنچا دیا کہ اقلیتوں سے نفرت اور انکی حمایت کا کھیل ایک ساتھ نہیں کھیلا جاسکتا۔ انڈیا ٹوڈے اور ایکسس مائی انڈیا کے سروے کے مطابق صرف ۲ فیصد مسلمانوں نے بی جے پی کو اپنا ووٹ دیا ہے۔

خلاصہ ِبحث: 

اسمبلی اور پارلیمانی انتخابات دو مختلف چیزیں ہیں اور کرناٹک کی عوام نے ہمیشہ دونوں انتخابات کو مختلف ڈھنگ سے ادا کیا ہے جس کی وجہ سے ۲۰۱۹ کے الیکشن میں کرناٹک کے ۲۸ پارلیمانی ممبران میں سے ۲۵ بی جے پی کے حق میں گئیں تھیں۔ موجودہ اسمبلی الیکشن میں بھی بی جے پی کا گڑھ مانے جانے والے کرناٹک کے ساحلی علاقوں میں کانگریس کچھ خاص نہیں کر پائی۔ صرف نفرت کے بازار میں محبت کی دکان کھولنے سے کام نہیں چلے گا بلکہ نفرت کا پورا بازار ہی بند کرنا پڑےگا۔

تجزیہ نگار: ارشاد احمد

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں