جس روز کچھ چہرے روشن ہوں گے

(تبصرہ)

عبدالخالق سبحانی

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ، محسن اور قیمتی بندے جب اچانک دنیا سے اٹھالیے جاتے ہیں تو ان کی جدائی کسی بےوقت امتحان سے کم نہیں ہوتی۔

اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ، محسن اور قیمتی بندے جب اچانک دنیا سے اٹھالیے جاتے ہیں تو ان کی جدائی کسی بےوقت امتحان سے کم نہیں ہوتی۔ ہرچند کہ وہ دنیا کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں لیکن درحقیقت ان کا وجود نگاہوں کے روبرو، دل سے ہم کلام اور روح پرور ہوتا ہے۔ انسانوں کے درمیان وہ ایک منارۂ روشن بن کر رہ جاتے ہیں۔ ایس آئی او آف انڈیا کے تاسیسی رکن اور جماعت اسلامی ہند کے ہردل عزیز مربی و رہنما مولانا عبد الباسط انور صاحب کا نام بھی خدا کے انہی قیمتی بندوں کی فہرست میں آتا ہے۔

واقعہ یہ ہے کہ اگر سادگی کے پیکر میں روشن چہرہ، الفت و متانت، شفقت و صلابت، نرم لہجہ و خوش گوئی، پرہیزگاری، فداکاری، بےنیازی جیسی خوبیاں آکر مجتمع ہو جائیں تو مرحوم باسط انور صاحب کی سراپا شخصیت ابھر کر آئے گی۔

مرحوم کی پیدائش 1950ء میں ہوئی اور آپ نے تقریباً 74 سال کی زندگی پائی، زندگی بھی ایسی کہ رشک آئے اور خوب رشک بھی آئے کیوں نہ؟ زندگی ہر دم تسلیم جاں جو ہے یہاں!

مہذَب اور دیندار گھرانے میں آنکھ کھولی۔ جوانی کے ابتدائی ایام ہی میں دین کا سنجیدگی سے مطالعہ کیا، اللہ کے پیغام کو سمجھا اور صحیح غور و فکر کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ خدا تعالیٰ اپنے بندوں سے بےآمیز خود سپردگی کا تقاضا کرتا ہے۔ چنانچہ زمانۂ شباب سے آخری لمحات تک اسی تقاضے کی ادائیگی میں خود کو ہمہ تن یکسو کر دیا اور اسی راہ پر ثابت قدمی سے گامزن رہے۔ جماعت اسلامی ہند کی طلبہ تنظیم ایس آئی او کو یہ شرف حاصل ہے کہ مولانا عبد الباسط انور اس کے اہم بانیان اور سابقون الاولون میں سے ہیں۔ ایس آئی او متحدہ آندھرا پردیش کے پہلے صدرِ حلقہ،  پھر تنظیم سے ریٹائرمنٹ کے بعد طویل عرصہ امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند، متحدہ آندھرا پردیش، کی حیثیت سے بےشمار خدمات انجام دیں،مختلف محازوں پر نمایاں کام کیے، کئی مثالیں قائم کیں۔ جماعت کی مرکزی اور متعدد حلقہ جاتی ذمہ داریاں بھی سنبھالیں اور ان کو حسن و خوبی سے انجام دینے کی مکمل کوشش کی۔ اسلام کے آسمانی پیغام کو بےشمار نوجوانوں میں عام کیا، ہزاروں کی زندگیوں میں حرارت پیدا کی اور سینکڑوں کو حرارت بخش زندگی سے متعارف کرایا۔ دین کی خدمت اور جماعت اسلامی حلقہ آندھرا پردیش کی توسیع و استحکام میں آپ کی کارگزاریوں اور کارناموں سے کبھی صرفِ نظر نہیں کیا جاسکتا۔

باسط انور صاحب مرحوم کی شخصیت سے استفادہ اور ان کی خدمات کے اعتراف کے پیش نظر ھدیٰ پبلی کیشنز حیدرآباد کی جانب سے ایک نئی کتاب ”جس روز کچھ چہرے روشن ہوں گے“ منظر عام پر آچکی ہے۔ ھدیٰ پبلی کیشنز کے مینجنگ ڈائریکٹر، جناب سید عبد الباسط شکیل اس مجموعے کے مرتِب ہیں۔ مرحوم باسط انور صاحب کے حوالے سے یہ ایک اہم کام مکمل ہوا ہے، جو کہ باعثِ مسرت اور امید افزا ہے۔ چونکہ مرحوم کا کبھی کسی ‘قلمی حلقے’ سے براہ راست تعلق قائم نہ تھا، اس لیے سوگواروں کی بڑی تعداد اس چیز سے قاصر ہے کہ وہ اپنا مدعا بآسانی بیان کرسکیں، حالاں کہ ان کا داغ روشن اور آرزوئے اظہار اپنی جگہ بالکل بجا ہے۔ اس لیے بھی کتاب کوئی ساڑے چھے سو صفحات پر مشتمل نہیں ہے، بلکہ 124 صفحات پر مختلف تحریروں کا مجموعہ ہے۔ کتاب کے بیشتر مضامین بنیادی طور پر باسط صاحب کے اہلِ خانہ، چند تحریکی رفقاء اور دیگر ساتھیوں نے تحریر کیےہیں۔ خاص کر تجمل حسین صاحب (سابق سیکریٹری جنرل، ایس آئی او)، حسن رضا صاحب (صاحبِ طرز ادیب) کے خاکے ٹھیر ٹھیر کر بار بار پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ سعادت اللہ حسینی، ایس ایم ملک، حامد محمد خاں صاحبان اور پروفیسر خالدہ ریحانہ صاحبہ کی تحریریں بھی اہم ہیں۔ کتاب کسی حدتک مرحوم کی شخصیت کے مجموعی پہلوؤں کا احاطہ کرنے میں کامیاب ہے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ کتاب دور رس اثرات مرتب کرے اورمرتبِ کتاب کو بہترین جزائے خیر سے نوازے۔ امید ہے کہ اگلے ایڈیشن کی اشاعت اگر ممکن ہو پائی تو موجودہ مسودے کی خامیوں کو دور فرمائیں گے اور قابلِ توجہ مزید اضافوں کے ساتھ جدید ایڈیشن پیش کریں گے۔

باسط صاحب مرحوم کے حوالے سے ایک آخری اور اہم بات یہ کہ وہ قلم کاری کا لطیف ذوق اور پرتاثیر قلم رکھتے تھے۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں کچھ جگہ مرحوم کی اس قابلیت اور خصوصیت کا بالواسطہ تذکرہ ملتا ہے، حالاں کہ یہ پہلو تبصرے اور تجزیے کا متقاضی ہے۔ باسط صاحب مرحوم افسانہ، انشائیہ اور حسبِ گزارش مضمون نگاری کرتے تھے۔ اپنی تحریریں ماہنامہ پیش رفت، ماہنامہ رفیق منزل اور دیگر رسائل میں شائع کرواتے رہے۔ حلقہ ادب اسلامی سے بھی کچھ حد تک وابستگی رہی۔ آپ کی تحریر سادہ و شائستہ، مغز سے بھرپور، جمالیاتی جذبات سے سرشار اور چوں کہ دل سے لکھی گئی ہوتی ہے اسی لیے دل ہی پر اثر انداز ہوتی ہے۔ باسط صاحب کی ان تحریروں کی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایک بار درخواست کی کہ ”مولانا کیوں نہ آپ انہیں سلیقے سے ایک جگہ جمع کردیتے؟“ (تبسم زیرِ لب ابھر آئی، پس و پیش ہوتے ہوئے کہا) ”ارے یارو، چھوڑو بھی۔ اب کون ان کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر جمع کرے گا؟“۔ انتقال سے چھے مہینے قبل، ماہنامہ رفیقِ منزل کی جانب سے ماہانہ تذکیر لکھنے کی گزارش پر بخوشی تیار ہوگئے۔ پہلی تذکیر بعنوان ”سادگی“ لکھی، پھر اس سادگی بھرے انداز سے ارسال کیا:”Assalamualaikum. Hope this will meet your standard … Jazakumullah khair“۔ پھر یہ سلسلہ چار مہینوں تک جاری رہا۔ آخری تذکیر 14 اگست کو بعنوان “مہمان نوازی” ارسال کی، 15 اگست کی صبح ایک اجتماع میں درس قرآن دیا، طبیعت کچھ ناساز سی لگی، اسپتال شریک ہوئے، 16 اور 17 آگست 2023ء  کی درمیانی شب تھی، خود عرش معلّیٰ کے مہمان ہوئے۔

عمر کے آخری حصے میں باسط صاحب مرحوم کا راہ خدا سے تعلق اور زیادہ مضبوط ہوگیا تھا، اسلامی تحریک اور جماعت اسلامی کے لیے بےچینی، غور و فکر اور احباب سے قربت میں بلا کا اضافہ ہوچکا تھا، آغازِ سفر کی سی تازگی معلوم ہوتی تھی۔ ایک بار پوچھا کہ “آپ آج کل دن میں کس وقت لکھنے کے لیے بیٹھتے ہیں؟” (تو کچھ یوں) بتایا کہ ”ان دنوں رات کے پہر بڑے کام کے ہیں، کام بھی ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔خیر موقع بھی تو موزوں ہے“۔ بروقت جواب کی تہ داری کا اندازہ نہیں لگا پایا لیکن اپنے آخری انشائیے میں خود ہی اس راز کو کھول گئے، لکھتے ہیں
”اور آج۔۔۔۔۔۔الحمدللہ! تحریک پھیل چکی ہے، ارکان کی تعداد دن بہ دن بڑھ رہی ہے صحن، دالان، بڑے ہال بھی تنگ دامنی پر حیراں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ الحمدللہ سب مرفع حال ہیں، اچھی ملازمتیں، اچھے کاروبار۔۔۔ ہاں! ایک ہوا چلی تھی جو بہت ساروں کو سعودی عرب اڑالے گئی، مکانات عالیشان ہوئے، اعانتیں بھی بڑھیں، دفتر حسب توفیق آفس میں تبدیل ہوئے۔۔۔۔۔ فراوانی نے خوب اپنا اثر دکھایا۔۔۔۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔ اب جو ہے سو وہ ہمارے سامنے ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ نیند نہیں آتی!“۔

حسن رضا صاحب رقم طراز ہیں
”لوگوں کو یاد ہوگا کہ آل انڈیا تنظیم یعنی ایس آئی او کے پہلے صدر کی حیثیت سے دو نام بہت نمایاں تھے۔ ایک محمد جعفر صاحب جن کا انتخاب ہوا اور دوسرا نام عبد الباسط انور صاحب کا تھا۔ دونوں نے اپنی جوانی کے سہانے خواب کو اعلیٰ نصب العین کے عشق میں جلا کر راکھ کر دیا اور اقامت دین کی عملی تعبیر کے لیے اپنی نوجوانی کے بہترین ایام کو وعدۂ فردا پر تنظیم کی جھولی میں ڈال دیا۔ قیامت میں پانچ سوالوں میں ایک سوال یہ ہوگا کہ تم نے جوانی کہاں لگائی۔ اس کے جواب کے پس منظر میں سوچتا ہوں تو لگتا ہے کہ جن چند لوگوں کے چہرے روشن ہوں گے، ان میں ایک چہرہ عبد الباسط مرحوم کابھی ہوگا“

اللہ پاک مرحوم کی مغفرت فرمائے، اخلاص و سعی کو قبول فرمائے اور نعم البدل سے نوازے۔۔۔ آمین۔

کتاب: ”جس روز کچھ چہرے روشن ہوں گے“
مرتب: سید عبدالباسط شکیل
ناشر: ھدیٰ پبلی کیشنز، حیدرآباد
رابطہ نمبر: 24514892-040، وہاٹس اپ نمبر: 9849330850 91+
دیگر تفصیلات کے لیے ملاحظہ فرمائیں: hudapublications.com

(تبصرہ نگار، ایم بی اے سال اول کے طالب علم ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں