جہانِ تازہ

ایڈمن

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہيں جہاں پيدا خودی ميں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے اِس آبجو سے کيے بحرِ بے کراں پيدا دوستوں! آپ نے کیا سمجھا ان…

جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود

کہ سنگ و خِشت سے ہوتے نہيں جہاں پيدا

خودی ميں ڈوبنے والوں کے عزم و ہمت نے

اِس آبجو سے کيے بحرِ بے کراں پيدا

دوستوں!

آپ نے کیا سمجھا ان اشعار سے؟ چلیں اِسے ڈِی کوڈ کرتے ہیں۔۔۔

شعر پڑھ کر تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔ جی، یہ علامہ اقبالؒ کی نظم ‘تخلیق’ کے دو اشعار ہیں۔ کیا آپ نے، میں نے کبھی نئی دنیا کا تصور کیا ہے؟ کیا تو ضرور ہوگا۔ ہم جب نئی دنیا کا تصور کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں نئی ٹیکنالوجی، آسمان کو چھوتی عمارتیں اور بہت سی آسائشوں کا خیال آتا ہے۔ لیکن کیا یہ سوچ درست ہے؟ اُمم۔۔۔ ہاں، کچھ حد تک درست ہو بھی سکتی ہے۔ مگر نئی دنیا کی روح اورمرکزی نقطہ یہ ہرگز نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ نئے جہان کی بنیاد نایاب، تعمیری اور ثمر ور خیالات سے ہوتی ہے۔ اینٹ، گارے اور پتھر تو ثانوی حیثیت رکھتے ہیں۔ جب تک ہمارے پاس نئے افکار نہیں ہوں گے، ہم دنیا میں نیا نظام نہیں پیدا کرسکتے۔ تو معلوم ہوا کہ مضبوط اور نفع بخش نظام بنانے کے لیے ہماری بلند سوچ، مظبوط افکار اور وسیع خیالات ہی بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔

دوسرے شعر میں اب علامہ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ یہ محض خیالی باتیں نہیں ہے۔ بلکہ ایسا ہوچکا ہے، تاریخ اس بات کی شاہد ہے! یہاں علامہ اقبالؒ پھر وہی نقطہ پیش کرتے ہیں جس کے اطراف آپ کی پوری شاعری مرکوز ہے۔ کیا سمجھے؟ خودی، خودی پہ اقبالؒ نے بہت کچھ لکھا ہے۔ خودی کامطلب بیان کرنے کے لیے تو ہمیں بہت وقت اور بہت سے صفحات چاہیے ہوں گے۔ مگر ابھی صرف اتنا یاد رکھیں کہ آپ کے اندر ایک دنیا بستی ہے، آپ میں بہت سی صلاحیتیں پوشیدہ ہیں، کئی ایسی توانائیاں ہے جو آپ کو اب تک نہیں معلوم، اور ان کی تلاش اور جستجو ہی دراصل خودی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ خودی میں ڈوب جاتے ہیں، وہ عظم و ہمت کے ساتھ اس چھوٹی سی ندی میں ایسے بڑے بڑے سمندر بنا لیتے ہیں کہ جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ یعنی انسان کے عظم و ہمت کی کوئی انتہا نہیں، بس وہ ایک دفعہ اپنے آپ کو پہچان لے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں