حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کو اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے اسوۂ حسنہ قرار دیا ہے۔ یہود ونصاریٰ اور مشرکین مکہ کے سامنے بار بار ملت ابراہیمی کا تعارف مختلف انداز میں پیش کیا گیا اور واضح کیا گیا کہ وہ توحید کے علم بردار، حنیف اور اپنے آپ میں ایک ملت تھے۔ قرآن نے اس حقیقت کو بھی پیش کیا ہے کہ وہ خلیل اللہ تھے (النساء:125)۔ خلیل قریب ترین اور محبوب ترین دوست کو کہتے ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ان کا کیا مقام ہے اور وہ اپنے خالق کے کیسے مقرب اور محبوب بندہ تھے۔ عبدیت کا یہ مقام اور خلیل اللہ ہونے کی سند یونہی نہیں حاصل ہوئی تھی بلکہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے ابتلاء وآزمائش کے طویل اور صبر آزما مراحل سے گزرنا پڑا۔ اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں۔ قرآن کریم کی مندرجہ آیت اس باب میں بالکل واضح ہے کہ وہ ہر آزمائش میں کھرے اترے اور ہر مرحلہ میں کامیاب ہوئے نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے ان کی امامت کا اعلان کردیا۔ اب گویا قیامت تک جو بھی امام ہوگا اسے قول وفعل اور عمل میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اقتدا کرنا لازم ہوگا۔ (وَاِذِ ابْتَلٰٓى اِبْـرَاهِيْمَ رَبُّه بِكَلِمَاتٍ فَاَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ اِنِّىْ جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ اِمَامًا ۖ قَالَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِىْ ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِى الظَّالِمِيْنَ البقرۃ:124)۔ اسی طرح سورہ نساء میں کسی شخص کے دینی اعتبار سے افضل ہونے کے جو معیارات مذکور ہوئے ہیں ان میں حضرت ابراہیم ؑ کے طرزِ زندگی کی پیروی کا بھی خصوصی ذکر کیا گیا ہے۔ وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَه لِلّـٰهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّـةَ اِبْـرَاهِيْـمَ حَنِيْفًا ۗ وَاتَّخَذَ اللّـٰهُ اِبْـرَاهِيْـمَ خَلِيْلًا (النساء: 125)
چوں کہ قرآن کریم کی متعدد آیات میں اسوۂ ابراہیمی اختیار کرنے اور ملت ابراہیمی کی پوری یکسوئی سے اتباع کرنے کی دعوت دی گئی ہے اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ان اوصاف وصفات کا ادراک ہو جسے قرآن کریم نے پیش کیا ہے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سےپتہ چلتا ہے کہ قرآن نے حضرت ابراہیم ؑ کے لیے امام، حنیف، خلیل، مستغفر، اواہ، حلیم، کریم، مجادل، منیب، شکور، صدیق، صالح، علیم، رشید، لطیف، متضرع، قنوت، امۃ جیسی صفات کا حوالہ دیا ہے۔ ا ن صفات پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایک طرف رب کائنات سے تعلق کے لیے جس آہ و زاری، شب بیداری، تضرع واستغفار اور دعوتی تڑپ کی کیفیت مطلوب ہے وہ ان میں بدرجہ اتم موجود تھی تو دوسری طرف صالحیت، عبدیت، حلم و بردباری، اطاعت و شکرگزاری اور رحم دلی کا جذبہ بھی ان میں کامل طور پر موجود تھا۔ قرآن کریم نے متعدد مقامات پر ان صفات واوصاف کو اجاگر کرکے اسے اختیار کرنے کی خاموش دعوت بھی دی ہے تاکہ اسوۂ ابراہیمی کی روشنی میں اپنا سفر طے کرتے ہوئے احقاقِ حق اور ابطال باطل کا فریضہ کما حقہ انجام دے سکیں۔
حضرت ابراہیم ؑ کا بچپن، شباب اور ضعیفی سراپا اطاعتِ الٰہی سے عبارت ہے۔ آپ ؑ ایک ایسے گھر کے چشم وچراغ تھے، بت فروشی جس کاآبائی پیشہ تھا۔ سنگ تراشی میں اس خانوادہ کو نہ صرف مہارت حاصل تھی بلکہ وہ ان کے لیے باعثِ فخر تھا اور اس کی وجہ سے بادشاہِ وقت کا قرب بھی حاصل تھا۔ دنیاوی اور ظاہری اعتبار سے حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا مستقبل انتہائی روشن اور تابناک تھا لیکن انھوں نے اس ماحول سے بغاوت کی روش اختیار کی اور عقل ودلیل کی روشنی میں قوم کے سامنے پتھر کے ان معبودوں کی بے وقعتی اور ان کی کمزوری و بے بسی کو واضح کیا۔ عقل و دلیل کی روشنی میں اس حقیقت کو پیش کرنے کے لیے انھوں نے جو طریقۂ کار اختیار کیا قرآن کریم میں متعدد مقام پر اس پورے واقعہ کا کہیں اجمالاً اور کہیں تفصیلی ذکر موجود ہے۔ اظہارِ حق کے نتیجہ میں ابتلاء و آزمائش کے جن مراحل سے گزرنا پڑا، آپ نے خندہ پیشانی سے اسے انگیز کیا اور اس راہ میں بڑی سے بڑی قربانی کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔ آپ نے محبت اور جذب کے عالم میں اپنے پدر محترم کو بھی دعوت توحید دی اور ان کے سامنے اللہ کی وحدانیت کا صحیح تصور پیش کیا۔ بادشاہ وقت سے جب مکالمہ ہوا اور اس نے اپنی قوت وسطوت اور اقتدار کا مظاہرہ کرنے کی کوشش کی تو آپ نے اس سے بحث کرنے کے بجائے دلیل وحجت اور برہان کا سہارا لیا اور ایسی حکمت سے اسے مغلوب کردیا جس کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں تھا اور قرآن کریم کے الفاظ میں کفر مبہوت رہ گیا۔ اور جیسا کہ عموماً ہوتا ہے کہ باطل کے پاس جب دلیل کی قوت نہیں ہوتی اور وہ شکست سے دوچار ہوتا ہے تو تعذیب کا سہارا لیتا ہے اور بزور قوت اپنی حقانیت کے اثبات کی کوشش کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ بھی وہی ہوا، لیکن وہ پامردی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور توحید کا ببانگِ دہل اعلان کرتے رہے۔ ہجرت کی ضرورت پیش آئی تو ہجرت کی اور اس وقت بھی یہ اعلان کردیا کہ بے سروسامانی کے اس عالم میں بھی اللہ ضرور میری رہنمائی فرمائے گا۔
حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی ابتلاء وآزمائش سے عبارت ہے۔ ضعیفی میں اللہ تعالیٰ نے اسماعیل کی شکل میں ایک بیٹا عطا کیا اور جب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوا تو خواب میں اسے قربان کرنے کی وصیت ہوئی۔ آپ نے بیٹے سے مشورہ کیا اور برضاو رغبت اللہ کے حکم کی تعمیل کے لیے آمادہ ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ کو ان کی یہ ادا، ایثار وقربانی کا یہ جذبہ اور اطاعت و سرافگندگی کا یہ منظر اس قدر پسند آیا کہ قیامت تک اس سنت ابراہیمی کے جاری رکھنے کا اعلا ن کردیا۔ خانۂ کعبہ کی از سرنوتعمیر کی تاکہ یہاں سے اللہ کی کبریائی وعظمت کی آواز بلند ہوتی رہے۔ لوگ جوق در جوق اس کا قصد کریں اور اللہ کی حمد وستائش اورعظمت کی صدا بلند کریں۔ خانۂ کعبہ کی تعمیر کے وقت آپ نے جو دعا کی اس میں اقامت صلوٰۃ اور ادائیگی زکوٰۃ کا خصوصی ذکر کیا۔ گویا خانۂ کعبہ کی تعمیر کا اصل مقصد اطاعت الٰہی کے جذبہ کی آبیاری اور اقامت صلوٰۃ کی تربیت ہے۔ اسی موقع پر آپ علیہ السلام نے ایک ایسے نبی کی بعثت کی دعا بھی مانگی جو تلاوت آیات، تزکیہ اور کتاب وحکمت کی تعلیم دے۔ قرآن کریم نے تین مقامات پر حضرت ابراہیم ؑ کی اس دعا کا ذکر کیا ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مختلف اوقات میں اپنے لیے اور اپنی اولاد وذریت کے لیے جو دعائیں کی ہیں انھیں مولانا الیاس نعمانی نے بڑے سلیقہ سے اپنے ایک مضمون (بندۂ مومن کی چند آرزوئیں حضرت ابراہیم ؑ کی دعاؤں کے آئینہ میں، مشمولہ: رہنمائے آیات قرآنی، حارث منصور، خلیق احمد نظامی، مرکز علوم القرآن، 2021، ص48-61)میں قلم بند کیا ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے لیے جو دعائیں کی تھیں، الیاس نعمانی کے الفاظ میں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
اے اللہ! شرک سے میری حفاظت فرمائیے، مجھے اپنا فرمانبردار وعبادت گزار بنائیے، نمازوں کو قائم کرنے کی توفیق دیجیے، میری توبہ قبول فرمائیے، میری مغفرت فرمادیجیے، نیک اولا عطا فرمائیے، علم ودانش سے مجھے بہرہ ور کیجیے، اگلی نسلوں میں میرا ذکر خیر جاری فرمائیے، روز ِ قیامت رسوائیوں سے میری حفاظت فرمائیے۔
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت کا ایک اہم اپہلو اپنی اولاد وذریت کی دینی فلاح اور دنیوی بہبود کی فکر ہے۔ قرآن کریم نے ان کی جو دعائیں نقل کی ہیں ان میں ان کی زندگی کا یہ پہلو بہت روشن ہے۔ آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد کے لیے جو دعائیں کی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ:
میری اولاد کی شرک سے حفاظت فرمائیے، انھیں اپنا فرمانبردار عبادت گزار بنائیے، انھیں نمازوں کو قائم کرنے کی توفیق دیجیے، ان کی توبہ قبول فرمائیے، ان کی مغفرت فرمائیے، میری اگلی نسلوں کی دینی تربیت وراہ نمائی کے لیے ایک دینی راہ نما بھیجیے، لوگوں کے دلوں میں ان کے لیے محبت کے جذبات پیدا کیجیے، انھیں رزق میں اشیائے خورد ونوش (خوب ) عطا فرمائیے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام توحید کے باب میں کس قدر محتاط تھے اس کا اندازہ قرآن کریم کی اس منظر کشی سے ہوتا ہے جس میں انھوں نے اپنے بیٹوں کے سامنے توحید کو اختیار کرنے کی وصیت کی ہے اور یہ سلسلہ ان کی اولاد میں جاری رہا کہ وہ اپنے فرزندگان سے اس بات کا عہد لیتے رہے تم میرے بعد کس کی عبادت کروگے؟ آیت کریمہ ملاحظہ ہو: وَوَصّـٰى بِهَآ اِبْـرَاهِيْمُ بَنِيْهِ وَيَعْقُوْبُۖ يَا بَنِىَّ اِنَّ اللّـٰهَ اصْطَفٰى لَكُمُ الدِّيْنَ فَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُـمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ اَمْ كُنْتُـمْ شُهَدَآءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْۖ قَالُوْا نَعْبُدُ اِلٰـهَكَ وَاِلٰـهَ اٰبَآئِكَ اِبْـرَاهِيْمَ وَاِسْـمَاعِيْلَ وَاِسْحَاقَ اِلٰـهًا وَّاحِدًاۚ وَّنَحْنُ لَـه مُسْلِمُوْنَ۔ (البقرۃ:132-133)
آج ہندوستان اور پوری دنیا میں مسلمانوں کے جو حالات ہیں وہ کسی دانائے راز سے مخفی نہیں ہیں۔ جس قوم کے ہاتھوں میں قیادت وسیادت کا منصب ہونا چاہیے تھا وہ مدعو بن کر زندگی گزار رہی ہے۔ توحید کا اتنا واضح قرآنی تصور ہونے کے باجود خودملت اسلامیہ کا ایک بڑا طبقہ آج اپنی زبوں حالی کو دور کرنے اور اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے اِدھر اُدھر بھٹکتا پھر رہا ہے۔ دین وایمان سے ان کا رشتہ کمزور اور ناپائیدار ہوچکا ہے۔ آج ملت اسلامیہ کو نئے نئے چیلنجز درپیش ہیں، جدید الحاد موجودہ دور کا ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جو دین ومذہب سے لوگوں کا رشتہ ختم کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ مختلف ازم نے انسان کی ترقی میں مذہب کو سب سے بڑی رکاوٹ قرار دیا ہے۔ جدید فلسفہ بھی مذہب کوانسان کا ذاتی مسئلہ ہونے کی وکالت کرتا ہے۔ کیریرازم کے اس مسابقاتی دور میں ہر شخص اپنے مستقبل کو لے کر پریشان ہے اور وہ ان حقیقتوں سے آنکھیں موند کر اپنی دنیا بسانا چاہتا ہے۔ ایسے حالات میں اسوۂ ابراہیمی کی معنویت دو چند ہوجاتی ہے۔ ضرورت ہے کہ آج بھی کچھ نوجوان اس طرح سے تیار ہوں جو نہ صرف اسوۂ ابراہیمی کی معنویت کا ادراک رکھتے ہوں بلکہ اس کے پیروکار بن کر توحید کی شمع روشن کرنے اور اس کے غلبہ کی جدوجہد کا جذبہ بھی رکھتے ہوں۔ انھیں اس راہ کی صعوبتوں کا اندازہ ہو، اس راہ میں ابتلاء وآزمائش کے جو مراحل آئیں گے ان کا بھی ادراک ہو اور ہر محاذ پر ثابت قدم رہنے اور اپنے مشن کی تکمیل کے لیے ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کا شعور ہو۔
لَقَدۡ كَانَ لَكُمۡ فِيهِمۡ أُسۡوَةٌ حَسَنَة لِّمَن كَانَ يَرۡجُواْ ٱللَّهَ وَٱلۡيَوۡمَ ٱلۡأٓخِرَۚ وَمَن يَتَوَلَّ فَإِنَّ ٱللَّهَ هُوَ ٱلۡغَنِيُّ ٱلۡحَمِيدُ (الممتحنہ:6) مذکورہ آیت اس باب میں بہت صریح ہے کہ جو لوگ بھی اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان کے لیے حضرت ابراہیم ؑ اور ان کے پیروکار کی زندگی میں اسوۂ حسنہ ہے۔ جس طرح انھوں نے کفر سے اپنے صریح اختلاف کا اظہار کیا اور توحید کی حقیقت اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور اس راہ میں درپیش ہر چیلنج کو انگیز کیا اور اللہ رب العالمین سے اپنا رشتہ استوار کرکے مستقل دعائیں کرتے رہے کہ اللہ ہمیں کافروں کے لیے تختۂ مشق نہ بنا۔ وہ مسلسل عفو و درگزر کے طلب گار رہے اور یہ اعلان کرتے رہے کہ ہم شرک سے بیزار ہیں۔ اسی جوش و جذبہ کے ساتھ آج کے ماحول میں بھی کفر سے اظہار براءت اور توحید کا نغمہ گنگنانے کی ضرورت ہے۔ بالخصوص دور حاضر اپنے براہیم کی تلاش میں ہے جو اس شرک زدہ ماحول میں پوری طاقت اور عزم وحوصلہ کے ساتھ توحید کی اس دعوت کو عام کرے اور اس ملکوتی نغمہ کی صدا بلند کرتا ہوا توحید کی حقیقت اور شرک کی بے بسی دنیا کے سامنے پیش کرسکے۔
(مضمون نگار ادارہ علوم القران، شبلی باغ، علی گڑھ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ )