“اسلامی تمدن میں آئینی بحران”ڈاکٹر محمد مختارشنقیطی کی کتاب ” الأزمة الدستورية في الحضارةالإسلامية” کا اردو ترجمہ ہے۔ یہ ترجمہ ہندوستان کے مشہور عالم دین اور محقق ڈاکٹر محی الدین غازی صاحب نے کیا ہے۔ یہ کتاب اپنے موضوع پر غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔امت مسلمہ کے سیاسی بحران کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھی گئی اس کتاب میں شنقیطی ان سیاسی اقدار پر روشنی ڈالتے ہیں جن کی بناء پر ایک اسلامی ریاست کی تشکیل ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کی سیاسی تاریخ کا تجزیہ،اس کے سیاسی زوال کے اسباب ووجوہات اور اس سے نکلنے کی تدابیراس کتاب کے نمایاں نکات ہیں۔ اسلامی تراث میں موجود سیاسی افکار کا گہرائی سے جائزہ لیتی اس کتاب میں مصنف اسلامی سیاسی فکر کا خاکہ پیش کرنے سے پہلےمشرق ومغرب کے بہت سے سیاسی افکار و نظریات کا جائزہ لیتے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچتےہیں کہ مکمل اسلامی تاریخ فتنوں سے خبردار کرنے والی فقہ سے بھری پڑی ہے، اس میں صنعتی انقلاب جیسا کوئی ارتقائی باب نظر نہیں آتالہذا موجودہ سیاسی بحران اور روز افزوں بڑھتی خونریزیوں کے اعداد اسی چیز کےمتقاضی ہیں کہ گذشتہ غلطیوں کو نہ دہرایا جائے تاکہ انسانی تہذیب کی نشونما کے لئے راہیں ہموار ہوسکے۔ مؤلف کے خیال میں اس کتاب کا مطمح نظراسلام کے سیاسی سرچشمہ میں پائے جانے والے ناپید اختلاف سے نپٹناہے۔اس کتاب کا مطالعہ اسلامی نص سے اختلاف اوربدگمانی رکھنے والے افراد کے سامنے حقیقت کے پردےچاک کرتا ہے۔اس تحریر میں ہم اس کتاب کی خصوصیات کی طرف توجہ دلاتےہوئے اس کے بعض اہم پہلوؤں پر گفتگو کریں گے۔
کتاب کی ابتدا عالم اسلام کے عظیم سیاسی مفکر راشد غنوشی کے مقدمہ سےہوتی ہے ۔اگر اس کتاب کے خد و خال کا جائزہ لیا جائےتو مؤلف نے اسےتین حصوں میں تقسیم کیاہےجو بالترتیب مشاورتی حکومت ،غیر مشاورتی امارت اورفقہی ضروریات پر مشتمل ہیں۔مشاورتی حکومت(اسلامی ریاست )کی تشکیل مشورہ کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں اصل حیثیت امت کوحاصل ہوتی ہے اور امیر امت کےنمائندہ کی حیثیت سے فرائض انجام دیتا ہے جبکہ غیر مشاورتی امارت میں ریاست ،امت کی رائے کے بغیر قائم ہوتی ہے جسے ایک مجبوری اور ضرورت کی حد تک قبول کیا جاتاہے۔
پہلا حصہ :
مولف نے اس کتاب میں اسلام کی سیاسی فکر کی تشکیل کے لئے ایک تفصیلی فریم ورک اور نظریہ پیش کیاہےجس میں مختلف سیاسی مفکرین کے سیاسی نظریات میں سے اہم اور قابل ذکر پہلووں کو جمع کرکے ایک نیا اور انوکھا سیاسی فریم ورک پیش کرنے کی کوشش کی ہے ۔کتاب کا پہلا باب دو فصلوں پر مشتمل ہے، پہلا حصہ سیاسی تشکیل کی اور دوسرا حصہ سیاسی عمل کی قدروں سےتعلق رکھتا ہے ۔ پہلے حصہ میں فطری اور انسانی قدروں جیسے بنیادی اقداراوراصول پر روشنی ڈالی گئی ہےجو کسی بھی سیاست کی تشکیل میں بنیاد کی حیثیت رکھتےہیں۔ معاصرین میں سے بھی بعض نے اسلامی سیاست کی بنیادی اقدار کے متعلق لب کشائی کی ہے لیکن ان کے یہاں صرف متقدمین کے اقوال ہی دیکھنے ملتے ہیں جس میں ایک رائے دوسری رائے سے ٹکراتی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس کتاب کے بارے میں مؤلف کا کہنا ہے کہ اس کتاب میں تمام سیاسی اقدار قرآن وسنت سے مستنبط ہیں اور وہ تمام اقدار علماء کے نزدیک معتمد ہیں۔ نیز اس کتاب میں ان قدروں کے وسیع تر استیعاب واحاطہ کے دوران اسلامی اصطلاحوں کا استعمال کیا گیا ہےجووحی کی نص سے مستفاد ہونے کی وجہ سے اپنے اندر معنوی اور اخلاقی پرچھائیوں کےساتھ مسلم ضمیر کو مخاطب کرنے کے لیے ایک خطابی قوت رکھتی ہیں۔
پہلی فصل میں دو اہم قدروں کو زیر بحث لایا گیاہے جو مساوات اور شورائیت ہیں ۔مصنف نےمساوات اور عدل کے مابین عدل کو تمام قدروں کی جڑ قرار دیا ہےکیونکہ تشکیل وعمل کی ہر حالت میں اسلام کی سب سے اعلی کلی قدر عدل ہے۔سیاسی ریاست کے وجوب کو نصوص، اجماع اور عقلی بنیاد پر واضح کرنے کے بعد اسلام میں سیاسی مداخلت کے مسئلہ کو زیر بحث لاتے ہوئے مصنف نےاپنی رائے اس طرح قائم کی ہے کہ اسلام صرف سیاسی ریاست کے جواز کا قائل نہیں بلکہ اسے انسانی فطرت میں شمار کرتا ہے۔سیاسی اہلیت میں مساوات پر گفتگو کرتے ہوئے مصنف نے تصورمساوات سے ٹکرانے والے نظریات کا تفصیلی جائزہ لیا ہے اور انھیں محض اسلامی تاریخ میں ہونے والی غلطیاں قرار دیا ہے نہ کہ اسلام کی حقیقی تعلیمات۔اس کی وضاحت میں خلیفہ کو صرف قریش قبیلہ تک محدود کرنے والی حدیث بیان کی ہےاور لکھتے ہیں کہ یہ شرط اسلامی سیاسی اقدار سے تعارض کرتی ہے، قدیم سیاسی فقہ میں اسلامی ریاست کی سربراہی کے منصب کی تولیت میں اسلام کی شرط رکھنا ایک مبنی بر مصلحت اجتہاد تھا، جو اپنے زمانے میں درست تھا، لیکن وہ کسی نص والی اساس پر استوار نہیں تھا جو اسے دائمی حکم کی حیثیت دیتی۔ اس کے بعددوسرے نکتہ میں ایک مسلم ریاست میں سیاسی منصب کی تولیت میں اسلام کی شرط رکھنے والی رائے کا جائزہ لیتے ہیں اور اسے اسلام کے تصور مساوات کے خلاف سمجھتے ہیں۔اس طرح ان مثالوں کے ذریعے مصنف نے تصور مساوات میں آمیزش کو ثابت کر دکھایا ہے۔
سیاسی اقدار میں ایک اہم اور اعلی قدر شورائیت ہے۔مصنف نےحکومت سازی میں شورائیت کو اسلامی سیاسی قدروں کی اصل بتایا ہے۔کسی بھی ریاست کے منصب کے لیے تاریخ میں تین راستے” قوت کے ذریعہ، رواجی وراثت کا راستہ اور باہمی رضامندی کا راستہ” اختیار کیے گئے ہیں۔ اسلام نے تیسرے راستے کو اختیار کیا ہے ، اس کے علاوہ دونوں راستوں پر روک لگائی ہے۔ نیزاس بات کی طرف بھی نشان دہی کرتے ہیں کہ،
“حاکم کے انتخاب میں اجماع کی شرط مطلوب نہیں ، کیونکہ اس کا حصول عام طور سے ناممکن ہے، اس میں صرف اکثریت کا حصول کافی ہے”۔
اس کے علاوہ بہت سے سیاسی اقدار جن میں سیاسی نمائندگی واجب ہے، سیاسی بیعت کی اہمیت ، جماعت سے وابستگی اور اس کا امام ، جائز حکومت کی اطاعت ، امارت کی حرص میں ممانعت اور بگاڑ کے خلاف مزاحمت پر گراں قدر گفتگو دیکھنے کو ملتی ہے۔
دوسری فصل میں ان اقدارکو بیان کیا گیا ہے جن کا تعلق ان اصولوں کی ادائیگی اور تطبیقات سے ہے۔ یہ فصل ان ستونوں پر بحث کرتی ہے جن پر اسلامی ریاست قائم ہوگی۔ جب سیاسی اقتدار قائم ہو جاتا ہےتب سیاسی عمل کی قدروں کا ارتکاز فیصلہ سازی کے عمل اور حاکم و محکوم کے تعلقات پر ہو جاتا ہے۔ اس حصہ میں پہلی قدر یہ بیان کی گئی ہے کہ کوئی بھی نزاع پیدا ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف لوٹایا جائے۔البتہ تکثیری سماج میں اس قدر کو کس طرح عملی جامہ پہنایا جائے اس کے احاطے سے مصنف قاصر ہیں۔ اسی فصل میں امانت داری یا اخلاق پر نظر ڈالی گئی ہے کہ امت کی جانب سے امانت داری کی ادائیگی کا تقاضا ہے کہ وہ عمومی منصب کو اسی کے حوالے کرے جو اس کا اہل ہواور جو اہلیت کے بغیر اسے لےلے اس پر خاموش نہ رہے۔حاکموں کی جانب سے امانت داری کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے تحت جو عمومی ذمہ داری ہے اس میں بہتر تصرف کریں اور کوشش کریں کہ اس ذمہ داری کے کسی بھی پہلو کی انجام دہی کو بہتر لوگوں کے حوالے کریں اور مشاورت کے حکم کا تقاضا یہ ہے کہ حاکم کے لیے جائز نہیں ہے ،(خواہ وہ پوری طور پر جواز یافتہ ہو)کہ وہ تنہا فیصلہ کرے یا فیصلے میں مطلق العنانی کا رویہ اختیار کرے۔اس کے علاوہ اسی فصل میں سواد اعظم کی پابندی ، ظالم کا ہاتھ پکڑنا، خیانت اور رشوت کی ممانعت اور امانت داری جیسےبہت سے اقدار بھی بیان کیےگئے ہیں۔
ان دونوں فصلوں کا خلاصہ کچھ اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے کہ پہلا حصہ اگر فلسفہ سیاست سے قریب تر ہے تو دوسرا حصہ فلسفہ تاریخ سے قریب تر، کیوں کہ وہ زمانی اور مکانی سیاق میں اسلام کی سیاسی قدروں کی حرکت کا تعاقب کرتا ہے۔پہلا حصہ اسلام کی سیاسی قدروں کی نصوص میں پیوست جڑوں پر ارتکاز کرتا ہے اور دوسرا حصہ ان قدروں کی تاریخ ، ان کے زمانی سفر اور ان کی مکانی گرفت پر مرکوز ہے۔اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو یہ فصل اس کتاب کی روح ہے ۔
دوسراحصہ :
دوسرے حصہ کی پہلی فصل میں مولف نے اسلامی تاریخ کے مختلف زمانوں میں اسلامی سیاست کی بنیادی اقدار کے ساتھ ہونے والے تعامل پر بحث کی ہے۔اس فصل کی شروعات میں اسلام کے پہلے عرب کےسیاسی وسماجی حالات کو بیان کرتے ہوئے تدریجاََتاریخ کے اس دور میں وقوع پذیر حالات،واقعات اور انقلابات پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔خلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہوجانے کا ایک سبب عثمان بن عفان کی خلافت کے آخری ایام کو قرار دیاگیا ہےجہاں حکومت کا میلان ثروت اور اقتدار کو اپنی تحویل میں لینے کی طرف ہو گیاتھا، دراصل یہی وہ بیج تھا جس سے سیاسی فتنے پھوٹے ، جنھوں نے خلافت راشدہ کے پورے تجربے کو آندھی بن کر اڑا دیا اور امت کا راستہ ہی بدل ڈالا۔جسے ہم یہاں “التامر عن غیرإمرة”(بغیر مشورے کی امارت) سے تعبیر کرتے ہیں مؤلف کا ماننا ہے کہ حضرت معاویہ کا منصب پر فائز ہو جانے کو مجبوری کے تحت قبول کیا گیا تھا تاکہ کسی طرح کی سفاکیت نہ ہو، لیکن اسے مستقل طور پر قبول کر لیا گیا جو اسلامی اصولوں کے قطعا ًخلاف ہے۔
اس کتاب میں انارکی اور تاناشاہی سے متعلق قیمتی گفتگو کرتے ہوئے ابن عباس کا اس آیت “قل هو القادر على أن يبعث عليكم عذابا من فوقكم أو من تحت أرجلكم” پریہ قول ذکر کیا گیا ہے کہ اس آیت میں وہ معاشروں کو اوپر سے لاحق ہونے والے عذاب کی تفسیر ظالم حکمرانوں سے کرتے ہیں اور نیچے سے لاحق ہونے والے عذاب کی تفسیر خراب اوباشوں سے کرتے ہیں۔ سرکشی اور انارکی کو امت کے قتل کا سبب قرار دیتے ہوئے مولف رقم کرتے ہیں کہ”سرکشی امت کی روح کا خاموش قتل ہے اور انارکی اس کا پر شور قتل ہے”۔اسی فصل کے آخر میں مؤلف نے خلفاء راشدین کے بعد خلافت کےملوکیت میں تبدیل ہو جانے پر بھی بحث کی ہے اور عثمان بن عفان اور علی بن ابی طالب کے قتل کو فتنہ الکبری سے تعبیر کیا ہے۔ اور یہاں پر وہ اسلامی اقدار کے خاتمے کا اعلان کرتے ہیں ۔ اس کے بعد تین بڑے اسلامی مفکرین( شیخ الاسلام ابن تیمیہ، ابن خلدون اور مولانا مودودی) کے کارناموں کا ذکر کرتے ہیں ، جنہوں نے سیاسی ارتداد کی وجوہات پر روشنی ڈالی ہے اورخلافت کے ملوکیت میں تبدیل ہو جانے کے اسباب پر بلا جھجھک تنقید کی ہے۔اس باب میں ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ کس طرح عربی سیاسی انارکی کی وجہ سے اولین اسلامی معاشرہ میں انفجار ہوا اور شورائیت سے بننے والی حکومت نے کس طرح سے استبدادی شکل اختیار کر لی۔ اسی حصہ کی دوسری فصل اس وقت اٹھنے والی بہت سی سلطنتوں سے اسلام کےتعامل کو بیان کرتی ہے۔اور ایک نمونے کے طور پر عہدنامہ اردشیر کو پیش کرتی ہے اور اس کااسلامی سیاسی اقدار سے مقارنہ کرتی ہے۔
تیسراحصہ :
پہلی فصل میں مصنف امت مسلمہ کو ایک امید دلاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اس بات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں کہ اگر امت مسلمہ اسلامی سیاست کی بنیاد ان اقدار(جو پہلے باب میں ذکر کی گئی ہے) پر قائم کرتی ہے تو ممکن ہے کہ پھر سے ایک نئے دور کا آغاز ہو۔ اس کے پہلے والے حصہ میں مؤلف نے خلفائے راشدین کے بعد جو فتنہ برپا ہوا اور اس کے بعد مختلف مراحل میں اسلامی اقدار کے ساتھ جو تعامل رہا اس پر روشنی ڈالی ہے۔ اس باب کے پہلے حصہ میں یہ بات بیان گیا ہے کہ مسلمانوں سے جو غلطیاں ماضی میں صادر ہوئی ہیں ان سے سبق حاصل کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔مسلم امت کو آگے آنے کے لیے اپنی دینی تجدید اور فکری اصلاح کرنی ہوگی اور احساس کم تری اور احساس برتری سے باہر نکلنا ہوگااورانسانیت (خاص طور سے غالب مغرب تمدن) سے ربط قائم رکھنا بھی ضروری ہے جس سے اکتساب کے وہ واقعی حاجت مند ہیں۔اسلامی تاریخ نے وہ وقت بھی دیکھا ہے جب مسلم فقہاء نے امت کی وحدت کی خاطر ناجائز اقتدار کو اضطرار کی حالت میں تسلیم کر لیا ،فتنہ اکبر کے بعد عملی وحدت کی خاطر مسلمانوں نے پہلے سیاسی جواز کی قربانی دی او ر اس کے بعد عباسی ریاست کے کم زور ہوجانے کے بعد عملی وحدت کو شکلی وحدت کی خاطر قربان کر دیا پھر شکلی وحدت بھی پیوند خاک ہو گئی۔اسی طرح سیاسی جواز کی قربانی دینے کا سفر اپنے منطقی نتیجے کو پہنچا۔اس تاریخ کو سامنے رکھنے کے بعد مصنف نے صریح طور پر ملوکیت کی کھلی مذمت کی ہےاور اپنا تجزیہ یوں پیش کیا ہے کہ عالم اسلام میں سیاسی طور پر ریزہ ریزہ ہوکر بکھرتے رہنے کی یہ لمبی تاریخ بتاتی ہے کہ عام الجماعہ کا سمجھوتا زمانے کی حرکت کے سامنے ٹھہر نہیں سکا اور آخرکار مسلمانوں کے لیے سیاسی وحدت کی برقراری کی ضمانت دینے میں ناکام ہوگیا۔ تاریخ کا یہ سبق اشارہ کرتا ہے کہ باقی رہنے والی سیاسی وحدت وہی وحدت ہے جو امت کے افراد کے درمیان باہمی رضامندی اور شوری پر استوار ہو، نہ کہ وہ جو جبر وقہر اور امر واقعی کے زیر تسلط۔ استبداد دو میں سے کم تر ضرر یا دو میں سے بہتر برائی نہیں ہے، بلکہ فتنے کی جڑ، بنیاد اور اس کا یقینی سبب ہے۔ وہ زیر التواخانہ جنگی ہے، لہو اور لاشوں سے پرپوشیدہ جوالا مکھی ہے۔ اس لیے وہ قومیں جو آزادی کے سلسلے میں کوتاہی برتتی اور استبداد کے آگے سرنگوں ہو جاتی ہیں ، چیرہ دستی اور خانہ جنگی کے جہنم میں جلنے کے لیے تیار رہیں، وہ دیر ہو یا سویر۔پھر مصنف نے انقلاب سے متعلق گفتگو کی ہے۔انقلاب سے مرادمتعین طور پر وہ انقلاب ہیں جن کا مقصد “امیر کی حکومت ” کے اصول کی حصول یابی ہےاورسیاسی اقوام کا مقصد عوام کی آزادی ہے، اقوام پر حکم رانی نہیں ہے۔ معاصر میں ہونے والے تین بڑے انقلابات(فرانس کا بنیاد پرستی والا منہج، انگلینڈ کا اصلاح پسند منہج اور امیرکی منہج جو حریت انسان اور حریت وطن کا مرکب ہے) ہمیں مختلف حالات میں موزوں حکمت عملی اختیار کرنے کا سبق دیتے ہیں۔ اس کے بعد” جمہوری عسکری انقلاب” کو صحیح سمجھتے ہوئےمصنف نے تبدیلی کی راہیں بھی اسی باب میں تجویز کی ہے۔تاریخ کا سبق یاد دلاتے ہوئے لکھتے ہیں,
“حقیقی انقلابات جو لوگوں کے وجدان سے اور معاشروں کی گہرائیوں سے جنم لیتے ہیں ، مڑ تو سکتے ہیں، ٹھوکر بھی کھا سکتے ہیں، لیکن وہ ٹوٹ نہیں سکتے اور نہ ہی فنا ہو سکتے ہیں”۔
آخری فصل میں مصنف نے اسلام سے متعلق کئے جانے والے دعووں پر تبادلہ خیال کیا ہے جو اسلام کو سیکولردین بتاتے ہیں ،سیاست کو دین سے جدا کرتے ہیں یا سیاسی رہبانیت کی بات کرتے ہیں۔ ان کی تردید میں مصنف لکھتےہیں کہ اسلامی قانون ایک ہی وقت میں دینی بھی ہے اور سول بھی ہے، اسے خالص دینی قانون یا خالص دنیوی قانون کہنا درست نہیں ہے مزید اسلام دنیا سے کنارہ کش ہونے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ اخلاقی اور مادی پہلو کے درمیان مکمل ہم آہنگی پر توجہ مرکوز کرتا ہے۔اس طرح یہ تینوں دعوےاپنی ساخت کے اعتبار سے ہی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ مصنف کے نزدیک جس طرح اسلام کی سیکولر شکل ممکن نہیں اسی طرح کو ئی سلفی شکل بھی ممکن نہیں ہو سکتی ۔کیونکہ سلفی مدرسہ زمان ومکان کے شعور کے سلسلے میں شدید مفلسی سے دوچار ہے۔ وہ کتاب وسنت کی طرف رجوع کا پرچم تو بلند کرتا ہے، لیکن پیش آمدہ واقعات کا فیصلہ شریعت کی نصوص اور اس کی کلی قدروں سے نہیں کرتابلکہ تاریخی تصویروں اور فقہی مفاہیم سے کرتا ہے جو بیشتر اسلام کی سیاسی قدروں سے پسپائی اور ماضی کی جبری سلطانی ریاست کے ساتھ سمجھوتے سے عبارت ہیں ۔وہ لوگوں کو خلافت کی واپسی کا خواب تو دکھاتا ہے، لیکن اس کے پاس وہ اخلاقی یا فکری افق نہیں ہے جو مسلمانوں کی تاریخ میں ہونے والے سلطانی تجربے سے آگے بڑھ سکے۔معاصر سلفی روایت میں خلافت ایک تاریخی تصویر ہے، وہ وحی سے ماخوذ اسلامی سیاسی قدروں کی بنیاد پر کھڑی کی جانے والی نئی عمارت نہیں ہے۔انسانی ثقافت، خاص طور سے سیاسی حقوق اور آزادیوں کے میدان میں ، معاصر انسانی اکتسابات سے تعامل کے سلسلے میں اپنے خول میں بند رہنے اور ان ہی متاع کو کافی سمجھنے کا رویہ رکھتا ہے۔ یہ فکری تکبر اور دوسروں کی ثقافت وعلوم اور طرز زندگی کے سلسلے میں یہ بے گانگی اور جھوٹی قناعت پسندی فکری افلاس اور روحانی قحط سالی پر منتج ہوتی ہے۔ جب کہ انفتاح اور کشادہ ظرفی فکری وروحانی دولت میں اضافے کا سبب بنتے ہیں ۔ سلفیوں کو ہنوز اس کا ادراک نہیں ہوا کہ جب مسلمان اپنے آپ تمدن کی تعمیر نو اور اسلامی سیاسی قدروں کی افزودگی وکارفرمائی کے لیے کوشاں ہوں گے تو انہیں اپنے آپ کو اس راہ کے سروسامان سے لیس کرنے کے لیے معاصر مغربی ثقافت اور مغربی تجربے کی ضرورت پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ جو اپنے آپ کو اپنی تاریخی ثقافت کی حدوں میں محصور کر لیتا ہےوہ اپنے سلسلے میں بانجھ پن اور جمود کا فیصلہ کر لیتا ہے۔
سلفی طریقہ معاصر انسانی اکتباسات سے کچھ لینا نہیں چاہتا اور دوسروں کے ساتھ تعامل بھی نہیں کرنا چاہتا۔یہی طریقہ معاصر انسانی ارتقاء سے استفادہ میں رکاوٹ بنتا ہے۔ لہذاسیکولر ریاست اسلامی پہلو سے ناممکن ہے اور سلفی ریاست انسانی پہلو سے ناممکن ہے۔اسلامی ریاست سے وہ نظام مراد ہے جو اپنے نظام حکومت میں تشکیل اور انجام دہی کے اعتبار سے اساسی اسلامی سیاسی قدروں کی پابند رہے۔
کل ملا کر یہ کتاب بہت اہم اور قیمتی مضامین پر مشتمل ہے۔ مسلم امت کو ماضی کے تجربوں سے عبرت حاصل کرتے ہوئے بنیادی اصول واقدار کی بناء پر ایک ایسی اسلامی سیاست کی تشکیل کے لئے اقدامات کی ضرورت ہے جو مستقبل میں کارگر ثابت ہو اور موجودہ خون ریزی اور سفاکیت سے نجات کی راہ دکھائےاور پوری انسانیت کے سامنے ایک ماڈل پیش کرے۔
تحریر نگار: شعیب مرزا