آزادی کے بعد ہندوستانی معیشت مسلسل ارتقاء کے عمل سے گزر رہی ہے۔ گلوبلائزیشن اور لبرلائزیشن نے ہندوستان میں اقتصادی اداروں کی انتظامیہ کے لیے پیچیدہ خدشات ظاہر کیے ہیں ۔ حال ہی میں ہندوستان کے معاشی اداروں میں زبردست تبدیلیاں آئی ہیں۔ جن میں عوامی وسائل کو مختص کرنے، عوامی مالیات اور انسانی وسائل کی ساخت وغیرہ میں کی گئی تبدیلیوں کا اثر ملک کی گھریلو معیشت پر ہوگا۔
ہندوستانی معیشت میں ۵ سالہ منصوبہ بندی کا دور 31 دسمبر 2014ء کو پلاننگ کمیشن کی تنسیخ کے ساتھ ختم ہوا۔ ہندوستان میں پلاننگ کمیشن کو 1950ء میں غیر دستوری حیثیت سے ایک خود مختار ومشاورتی ادارے کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا، لیکن تقریباً 65 سالوں کی کارکردگی کے بعد اسے نیتی آیوگ (NITI:نیشنل انسٹی ٹیوشن فار ٹرانسفارمنگ انڈیا ) سے تبدیل کر دیا گیا ۔ نیشنل ڈیولپمنٹ کونسل(NDC) کی تشکیل 6 اگست 1952ء کو حکومت کے ایک ایگزیکٹو آرڈر کے تحت کی گئی تھی اور اب نیتی آیوگ کی گورننگ کونسل نے اس کی جگہ لے لی ہے ۔پلاننگ کمیشن وزارتوں اور ریاستی حکومتوں کو فنڈز مختص کرسکتا تھا۔ لیکن نیتی آیوگ کے پاس فنڈز مختص کرنے کا اختیار نہیں ہے، وہ ایک تھنک ٹینک اور مشاورتی ادارے کے طور پر کام کرتا ہے۔ نیز مرکز اور ریاستوں میں مجوزہ پالیسی سے متعلق معاملات پر حکومت کو مشورہ فراہم کرتا ہے۔ نیتی آیوگ کے ذمہ منصوبہ بندی کا کام نہیں ہے ۔ یہ دراصل پالیسیاں تشکیل دیتا ہے اور مرکزی حکومت کی مختلف وزارتیں ان پالیسیوں پر مبنی منصوبے تیار کرتی ہیں۔ ریاست کیرالہ نے اپنے ریاستی پلاننگ بورڈ کو واپس نہیں لیا اور اب بھی اپنی منصوبہ بندی جاری رکھے ہوئے ہے جو کیرالہ حکومت کے تحت مشاورتی بورڈ کے طور پر کام کرتا ہے۔
جی ایس ٹی :
ہندوستانی حکومت نے یکم جولائی 2017ء کو متعدد بالواسطہ ٹیکسوں کو یکساں اشیاء اور خدمات ٹیکس (جی ایس ٹی) نظام سے بدل دیا جو ملک کو ایک ہی مارکیٹ بنانے کی غرض سے لایا گیا تھا۔ اسے آزاد ہندوستان میں سب سے بڑی ٹیکس اصلاح سمجھا جاتا ہے۔ پچھلے متعدد بالواسطہ ٹیکس مختلف قانون سازی اور ضمنی قوانین پر مبنی تھے۔ جبکہ جی ایس ٹی کو نہ صرف کم قانون سازی کے ساتھ لاگو کیا گیا بلکہ جی ایس ٹی کے نفاذ کے وقت مرکزی حکومت کی طرف سے بہت سارے اعلانات کیے گئے تھے جن میں ٹیکسوں کی کثرت کو ختم کرنے کے فوائد شامل تھے ۔ لیکن گھریلو قیمت کی سطح شدید افراط زر کے ساتھ بڑھتے ہوئے رجحان کو ظاہر کر رہی ہے۔ بہت سے تجزیہ کار جی ایس ٹی ماڈل پر مختلف نقطہ نظر سے تنقید کر رہے ہیں۔ جس کی ایک وجہ آمدنی کی وصولی، توقع کے مطابق نہیں رہنا ہے، لیکن ساتھ ہی جی ایس ٹی کے بنیادی ڈھانچے کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔
ورلڈ بینک نے115ممالک کے ذریعہ نافذ کردہ بالواسطہ نظام ٹیکس (Indirect Tax) کا تجزیہ کیا ۔ تجزیہ کے بعد جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ جی ایس ٹی نظام ایک انتہائی پیچیدہ نظام ہے اور بالواسطہ ٹیکس ڈھانچے میں سے ایک ہے۔ ہندوستان کی ٹیکس کی شرح دنیا کی دوسری سب سے زیادہ شرح ہے۔ جی ایس ٹی میں 5 درجوں کے tax slab ہیں جس میں رسد کے لئے زیروٹیکس کی شرح ، ٹیکس میں چھوٹ اور Input Tax Credit والے زمرے، شامل ہیں۔ اس کے علاوہ سونے اور دیگرقیمتی جواہرات کے لئے ٹیکس کی علیحدہ شرح ہے۔ پیٹرولیم اور الیکٹریکل اشیاء وغیرہ کو بھی جی ایس ٹی سے باہر رکھا گیا ہے۔ ان سب کی وجہ سے ہندوستان کا جی ایس ٹی ، ٹیکس کا ایک گنجلک اور پیچیدہ نظام قرار پاتا ہے۔ دنیا کے 82 ممالک جو جی ایس ٹی کا نظام رکھتے ہیں ان میں 49 ممالک میں صرف ایک ٹیکس سلیب موجود ہے، جبکہ 28 ممالک میں دو ٹیکس سلیب موجود ہیں۔ صرف 5 ایسے ممالک ہیں جہاں چار سے زیادہ Tax slab پائے جاتے ہیں جن میں ہندوستان، اٹلی، گھانا، پاکستان اور لیکزیم برگ شامل ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق جی ایس ٹی کے نفاذ سے ابتدائی طور پر ہندوستان میں ریاستی انتظامیہ کےکام میں خلل پڑا ہے۔ جی ایس ٹی کے آنے کے بعد مقامی ٹیکس کے نظام میں یہ وضاحت نہیں رہی کہ ان میں سے کس کو جاری رکھنا ہے اور کسے ختم کردینا ہے۔ اس کے نتیجے میں کچھ ریاستوں نے جی ایس ٹی کے بعد ہونے والے نقصانات کی تلافی کے لیےتفریح کے ذرائع وغیرہ پر مقامی ٹیکس میں اضافہ کر دیا۔ ایک اور بڑا اثر کاروباری فرموں پر ہوا، جس میں ٹیکس کی تعمیل کا بڑھتا ہوا بوجھ اور درآیدہ ٹیکس کی تاخیر یا واپسی کی وجہ کاروبار میں لگائے سرمایہ پر نقصان شامل ہے ۔ مرکزی حکومت ۵ سال مکمل ہونے کے بعد بھی جی ایس ٹی کے نفاذ میں آنے والی مشکلات کو حل نہیں کر سکی ہے ۔ جی ایس ٹی کونسل کے کچھ اقدامات نے ملک کے وفاقی نظام کو متاثر کیا ہے اور اس پر بہت سے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اس نے ٹیکسوں کے نفاذ کے لئے ریاستی حکومتوں کے اختیار کو ختم کردیا۔ متعدد ریاستوں کی آمدنی میں کمی جی ایس ٹی کے نفاذ کی وجہ سے مالی بحران کا باعث بنی ہے۔
تعلیم کے انتظامی ادارے:
دنیا کے کسی بھی ملک کی ترقی میں انسانی وسائل کی ترقی ایک اہم عنصر ہے۔ جس کے لیے بنیادی ضرورت تعلیم ہے۔ اعلیٰ تعلیم وہ عنصر ہے جو ہر فرد کو ایک کارآمد وسیلہ بناتی ہے۔ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) ایک قانونی ادارہ ہے جسے محکمہ اعلیٰ تعلیم، وزارت تعلیم اور حکومت ہند نے یو جی سی ایکٹ1956ء کے تحت قائم کیا ہے۔ یہ ہندوستان میں اعلیٰ تعلیم کے معیارات کو مربوط کرنے، اس کا تعین کرنے اور انہیں برقرار رکھنے کا ذمہ دار ہے۔ یہ یونیورسٹیوں کو منظوری دیتا ہے، اور منظور شدہ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں فنڈز کی تقسیم کرتا ہے۔ یو جی سی کی تشکیل کے لیے یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن نے 1948ء- 1949ء میں سفارش کی تھی جسے ایس رادھا کرشنن کی صدارت میں “ہندوستانی یونیورسٹی کی تعلیم پر رپورٹ کرنے اور بہتری اور توسیع کی تجویز دینے کے لیے قائم کیا گیا تھا”۔ 27جون 2018ء کو، وزارتِ انسانی وسائل کی ترقی نے یو جی سی ایکٹ، 1956ءکو منسوخ کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔ پارلیمنٹ کے 2018ء کے مانسون اجلاس میں ایک بل پیش کیے جانے کی امید تھی، جو منظور ہونے کی صورت میں یو جی سی کو تحلیل کیا جاسکتا تھا۔ اس بل کے مطابق ایک نئی باڈی، ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا (ایچ ای سی آئی) کی تشکیل بھی پیش نظر تھی ۔لیکن بل کی اس شکل کو بالآخر سخت سیاسی مخالفت کے پیش نظر چھوڑ دیا گیا، اور سیاسی اتفاق رائے حاصل کرنے کے لیے 2019ء میں اس پر دوبارہ کام کیا گیا۔ یوں یو جی سی بدستور باقی رہا۔ وزارت انسانی وسائل کی ترقی ( MHRD ) کا نام بدل کر ‘وزارتِ تعلیم’ کردیا گیا۔
قومی تعلیمی پالیسی 2020ء کا اعلان 29جولائی 2020ءکو کیا گیا ہے۔ اس میں اسکولی تعلیم ، اعلیٰ تعلیم اور ٹیکنیکل ایجوکیشن میں مختلف اصلاحات کی تجویز دی گئی ہے ۔اس نے اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے ایک ایسا نظام پیش کیا جو یو جی سی کی جگہ لے سکتاہے ۔ اساتذہ کی تعلیم اس کا حصہ ہے لیکن طبی اور قانونی تعلیم کو اس میں شامل نہیں کیا گیا۔ اسے ہائر ایجوکیشن کمیشن آف انڈیا (HECI) کا نام دیا گیا ہے۔اسے مختلف مقاصدکے لیے آزاد اداروں کی صورت میں بنایا جائے گا۔ مثلا اعلی تعلیم کو معیاری ترتیب دینا ، مختلف اداروں کو منظوری دینا ،ان اداروں میں اصول و ضوابط برقرار رکھنا اور ان کی فنڈنگ وغیرہ۔ اس سلسلے میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کی معیاری ترتیب کے لیے” جنرل ایجوکیشن کونسل” ،فنڈنگ کے لیے”ہائر ایجوکیشن گرانٹس کونسل” (HEGC)اداروں کی منظوری کے لیے” نیشنل ایکریڈیٹیشن کونسل”(NAC)اور ان میں اصول و ضوابط کو برقرار رکھنے کے لیے “نیشنل ہائر ایجوکیشن ریگولیٹری کونسل” (NHERC) قائم کی جائے گی۔ ان اصلاحات کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اعلی تعلیم سے یو جی سی کے تعلق اور خود مختاری کم ہوجائے گی۔
معاشی اداروں کی آزادی و خود مختاری:
معاشی اداروں کے کاموں کی صحیح انداز میں تکمیل کے لیے خود مختاری بہت ضروری ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا ہندوستان کا مرکزی بینک اور جو ہندوستانی میں بینک نظام کے ضابطے کا ذمہ دار ہے۔ یہ ہندوستانی روپے کوجاری کرنے ،اس کی فراہمی کو برقرار رکھنے اور ملک میں بنیادی ادائیگی کے نظام کا ذمہ دار ہے اور ملک کی اقتصادی ترقی کو فروغ دینے کا کام بھی کرتا ہے۔ مرکزی بینک کی خود مختاری سے مراد مالیات کے متعلق پالیسی سازی اوراس کے نظم میں کسی بھی قسم کی حکومت اور ریاستی مداخلت سے آزادی ہے۔ یہ مانیٹری پالیسی میں مداخلت کے وقت اور نوعیت کے بارے میں فیصلہ کرنے کے لیے مرکزی بینکوں کی صوابدید پر دلالت کرتا ہے۔ عام طور پر مرکزی بینک کی آزادی کا تعلق تین شعبوں سے ہوتا ہے۔ عملے کی آزادی، پالیسی کے نظم اور مالیاتی پہلو۔ عملے کی آزادی سے مراد مرکزی بینک کے اعلیٰ عہدیداروں اور گورننگ بورڈ کے ارکان کی تقرری، عہدے کی مدت اور برطرفی کی صورت میں مرکزی بینک حکومتی مداخلت سے کس حد تک آزاد ہے۔ اس میں مرکزی بینک کی گورننگ باڈی میں حکومت کی نمائندگی کی حد اور نوعیت بھی شامل ہے۔ پالیسی کے نظم میں آزادی کا تعلق مالیاتی پالیسی کی تشکیل اور اس پر عمل درآمد کرنے میں مرکزی بینک کو دیے جانے والے مواقع سے ہے۔ مالی آزادی کا تعلق مرکزی بینک کی آزادی سے ہے کہ وہ فیصلہ کرے کہ کس حد تک سرکاری اخراجات کو مرکزی بینک کے اثاثہ کے ذریعے براہ راست یا بالواسطہ طور پر مالی اعانت فراہم کی جاتی ہے۔ ہندوستان جیسی transition رکھنے والی معیشتوں میں مانیٹری پالیسیاں کی لچک بھی مالیاتی خسارے کی وجہ سے محدود نتائج ہی برآمد کر سکتی ہے۔ یہاں مالیاتی پالیسی بھی سیاست کے زیر اثر بنتی ہیں۔ ان سب کے نتیجے میں حکومت کے مالیاتی خسارہ کو seignior age( کرنسی کو جاری کرنے کے دوران حکومت جو فائدہ اٹھاتی ہے اسےاس اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے ) کے ذریعے monetiseکیا جاتا ہے جو کہ مہنگائی(Inflation) کا باعث بنتا ہے۔
کچھ ماہرین کی طرف سے اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ آر بی آئی، اگرچہ قانونی طور پر خود مختار نہیں ہے، لیکن ریفارم کے بعد اس نے کسی حد تک خود مختاری حاصل کی ہے۔ ریزرو بینک اگر بہت حد تک آزاد رہے اسی وقت وہ معیشت کو لے کر اہم فیصلے کر سکتا ہے۔ معاشی ترقی کی رفتار کم کرنے کے باوجود ریزرو بینک نے 2013ء سے تین مرتبہ شرح سود میں اضافہ کیا ہے۔ رگھورام راجن نے اپنے ریزرو بینک کے گورنر کے عہدے کی میعاد میں مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش کی۔جنوری 2014ء میں ریزرو بینک نے اپنا repo rate7.75 سے 8 فیصد تک بڑھایا تھا۔ جیسے ریزرو بینک کے سابق گورنر ڈی۔سباّ راؤ نے کہا کہ “ریزرو بینک کو بہت زیادہ آزادی دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ مانیٹری پالیسی کو بہتر طور پر نافذکر سکے”۔
آر بی آئی نے مالیاتی پالیسی فریم ورک پر نظر ثانی کے لیے ارجیت پٹیل کے تحت ایک ماہرکمیٹی قائم کی، اور اس نے جنوری 2014ء میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ رپورٹ نے تجویز کیا کہ آر بی آئی متعدد انڈیکیٹر کے نقطہ نظر کو ترک کردے اور افراط زر کو اپنی مالیاتی پالیسی کے مقصد کا ہدف بنائے۔ اس نے ایک مالیاتی پالیسی کمیٹی (MPC) رکھنے کا مطالبہ کیا تاکہ یہ فیصلے اکثریتی ووٹ کے ذریعے کیے جا سکیں۔ جوابدہی کے لیے MPC میں حکومت اورآر بی آئی دونوں کے ممبران کا ہونا تجویز کیا گیا تھا۔ 2016ء میں مالیاتی پالیسی کمیٹی قائم ہونے تک، آر بی آئی کا ملک میں مالیاتی پالیسی پر مکمل کنٹرول تھا۔اب لازمی ہے حکومت خسارے کو قابو میں رکھے اور آر بی آئی مہنگائی کی شرح سے متعلق وضاحت پیش کرے۔
کوآپریٹو سیکٹر:
کوآپریٹو تحریک نے آزادی کے بعد ہندوستانی معیشت میں بہت زیادہ پیداواری اثرات مرتب کیے۔ مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو نے سماجی بہبود، دیہی ترقی، زرعی ترقی کو بڑھانے اور استحصال کو کم کرنے کے لیے باہمی تعاون کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ یہ عالمی سطح پر کارپوریٹس کے خلاف ایک متبادل معاشی نظریے اورمسابقتی قوت کے طور پر بھی ابھرا۔ آر بی آئی نے 2021ء میں 97ویں ترمیم اور حصہ 9 B کے ضمیمہ کے بعد کوآپریٹو بینکنگ کے ڈھانچے میں پیشہ ورانہ مہارت لانے کے لیے مختلف تبدیلیاں شروع کی ہیں ۔ جس کے نتیجے میں 2021ءمیں امت شاہ کی قیادت میں تعاون کی غرض سے ایک مرکزی وزارت تشکیل دی گئی اور یونین کے قوانین اور معیارات میں مختلف ترامیم کی گئیں۔ اس سے کوآپریٹو سیکٹر میں مرکزی حکومت کی مداخلت بڑھ جائے گی اور ملک کا وفاقی نظام تباہ ہو جائے گا۔ ترامیم کے مطابق رقم کے لین دین میں سخت ضابطے لاگو کیے گئے۔ ایک کروڑ روپے سے زائد رقم نکلوانے والی کوآپریٹو سوسائٹیز پر 2 فیصد ٹیکس لاگو کیا گیا۔ زرعی کوآپریٹو کریڈٹ سوسائٹیز کو ‘بینک’ کا لفظ نام کی حیثیت سے استعمال کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ آر بی آئی نے ملک میں شہری اور ریاستی کوآپریٹو بینکوں کے لیے مختلف اصول و ضوابط بھی متعارف کرائے ہیں۔ 2016ء میں نوٹ بندی کے بعد رقم کا لین دین ڈیجیٹل ہو گیااور اس سے ہندوستان کے مالیاتی نظام میں افراتفری پیدا ہوگئی۔ مختلف قوانین اور ضوابط کے ساتھ بھی کرپٹو کرنسی کی موجودگی ملک میں اس نظام کے مستقل رواج سے متعلق بہت سے سوالات پیدا کرتی ہے۔
سیمپل سروے اور مردم شماری :
نیشنل سیمپل سروے (NSS) 1950ء میں بڑے پیمانےپر پورے ہندوستان میں نمونے کے سروے کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔ مارچ ۱۹۷۰ء میں، این ایس ایس کو نیشنل سیمپل سروے آرگنائزیشن (NSSO) کے طور پر دوبارہ منظم کیا گیا۔ این ایس ایس او کے ملازمین کا تعلق انڈین اسٹا ٹسٹیکل سروس اور سب آرڈینیٹ اسٹا ٹسٹیکل سروس سے ہے۔ یہ ہندوستان کی سب سے بڑی تنظیم تھی جو وقتاً فوقتاً سماجی و اقتصادی سروے کرتی تھی۔ جس نے مئی 2019ء تک ہندوستانی حکومت کی وزارت شماریات کے تحت کام کیا۔ 23 مئی2019ء کو حکومت نے این ایس ایس او کو نیشنل اسٹاٹسٹکس آفس (CSO)کے ساتھ ضم کرتے ہوئے نیشنل اسٹاٹسٹکس آفس (NSO)قائم کرنے کا حکم دیا۔ حکومت نے کہا کہ NSO کی سربراہی منسٹری آف اسٹاٹسٹکس اینڈ پروگرام امپلمنٹشن (MoSPI) کرے گی۔ MoSPI کے دو ذیلی شعبے ہیں، ایک شماریات سے متعلق اور دوسرا پروگرام کے نفاذ سے متعلق۔ شماریات ونگ جسے نیشنل اسٹاٹسٹکل آفس (NSO) کہا جاتا ہے، نیشنل اسٹاٹسٹکل آفس (CSO) اور نیشنل سیمپل سروےآفس (NSSO) پر مشتمل ہوتا ہے۔
آبادی کا اعداد و شمار وسائل کو مؤثر انداز میں مختص کرنے اور اس کی تقسیم کے لیے بہت اہم ہے۔ یہ ادارہ ملک میں پائیدار ترقی کو یقینی بناتا ہے۔ ہندوستان کو 2021ء کی مردم شماری کوملتوی کرنا پڑا تھا کیونکہ کووڈ -19کی وجہ سے ملک کے تمام شعبہ جات متاثر تھے۔ اب مرکزی حکومت نے مردم شماری کے دوبارہ آغاز پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اپڈیٹ شدہ ڈیٹا ناقص ہے بلکہ متعلقہ پالیسی کی تشکیل میں بھی رکاوٹ پیش آرہی ہے۔ تحقیق اور ترقی کے مقاصد کے لیے بھی سرکاری اور غیر سرکاری ادارے ایک دہائی پہلے کی مردم شماری کے اعداد و شمار پر انحصار کر رہے ہیں۔ مردم شماری کا ڈیٹا نمونے کے سروے کے اعداد و شمار سے زیادہ درست ہوتا ہے کیونکہ یہ ملک کی پوری آبادی سے ڈیٹا اکٹھا کرتا ہے۔ ملک میں اس وقت کوئی بھی اعداد و شمارمردم شماری کے اعداد و شمار کے متبادل کے طور پر موجودنہیں ہے۔ اسی لیے مختلف گروہوں کی عمر ، صنف اور دیگر بنیادوں پر درجہ بندی میں ایک وسیع فرق پایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں شہری کاری اور نقل مکانی کی رفتار میں بھی فرق واضح ہے ۔ یہ سماجی بہبود سے متعلق اسکیموں کی مؤثر تشکیل اور نفاذ میں بڑی رکاوٹیں پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں ملک کے کمزور طبقات نشانہ بن رہے ہیں۔
عالمی اثرات اور معیشت کا مستقبل:
وہ اندھیرا جو عالمی سطح پر منڈلاتا ہے اب ہندوستان کے اقتصادی افق پر بھی منڈلا رہا ہے ۔ کوئی مالی پیشن گوئی بھی نئے مالی سال کے لیے اچھی امید نہیں دے رہی۔ یہاں تک کہ جب وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے معیشت کےبحال ہونے کا اعلان کیاہے، اس وقت بھی معیشت کی اصل تصویر اور لوگوں کے تجربات اس کے بالکل برعکس ہیں۔ ملک کے حالات کووڈ سے پہلے ہی خراب تھے۔ ہندوستانی معاشی نظام جو پہلے ہی نوٹ بندی، جی ایس ٹی سمیت اصلاحات اور قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے متزلزل ہو چکا تھا، کووڈ اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے اور بھی ابتر ہو چکا ہے ۔ یو ایس فیڈرل ریزرو کی طرف سے شرح میں اضافہ امریکی منڈیوں میں سرمائے کے بہاؤ کا باعث بنا۔ اس کی وجہ سے زیادہ تر کرنسیوں کے مقابلے میں امریکی ڈالر کی قیمت بڑھ گئی اور ہندوستان سمیت دیگر ممالک کرنٹ اکاؤنٹ اور افراط زر میں خسارے کا شکار ہوئے۔ جی ڈی پی کے سالانہ تخمینوں کا استعمال معیشت کی ترقی کا اشارہ دینے کے لیے کیا جاتا ہے۔ پہلے تین ماہ میں جی ڈی پی کی شرح نمو 4.1 فیصد، دوسرے تین ماہ میں 13.5فیصد، اور تیسرے تین ماہ میں 6.3فیصد پچھلے سال کی کم شرح نمو کے مقابلے پر مبنی تھی۔ عالمی بینک کے مطابق،2022ء میں مجموعی اقتصادی ترقی کی شرح 6.9فیصد رہے گی۔ سال کے آخر میں ریزرو بینک کے سابق گورنر رگھورام راجن نے کہا تھا کہ ،”ہندوستان اگر 2023ء میں کم از کم 5فیصد ترقی بھی کرلے تو یہ بڑی خوش قسمتی کی بات ہوگی”۔
1961ء کے بعد سے، دولت میں نچلے 50 فیصد کا حصہ تقریباً آدھا رہ گیا ہے، جب کہ اوپر ی10 فیصد دولت تقریباً 50فیصد بڑھ گئی ہے۔ دولت میں سب سے اوپر 1 فیصد کا حصہ تقریباً 180 فیصد بڑھ گیا ہے۔ عالمی معیشتوں میں، ہندوستان نے 1961ء کے بعد اوپر کے1 فیصد کی معیشت میں سب سے زیادہ اضافہ دیکھا ہے۔ 1990ء کی دہائی کے بعد سے نو لبرل اقتصادی پالیسیوں نے صورتحال کو مزید خراب کر دیا ہے۔ کووڈ کے دوران ہندوستان کارپوریٹس کو ارب پتی بنانے کی پالیسی سے پیچھے نہیں ہٹا جس کے بعد ثابت ہوگیا کہ یہ پالیسیاں عوامی زندگی کے تحفظ میں بھی مکمل طور پر ناکام ہیں۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ “ہندوستان برطانوی راج سے کارپوریٹ راج میں چلا گیا ہے”۔ آکسفیم کی رپورٹ کے مطابق ارب پتیوں کی تعداد 2020ء میں 102سے بڑھ کر2020ء میں 166ہو گئی ہے۔ مختصر یہ کہ بھارت اس وقت شدید غربت، بے روزگاری، عدم مساوات، مہنگائی، روپے کی قیمت میں کمی، زرمبادلہ کے کم ہوتے ذخائر، بڑھتا ہوا تجارتی خسارہ اور کرنٹ اکاؤنٹ میں خسارہ جیسےشدید اقتصادی مسائل سے دوچار ہے۔ ایسے میں ملک کے معاشی اداروں میں مزید تبدیلی سے معیشت کو درپیش بحران میں ایک بار پھر اضافہ ہوگا۔
ان قلیل مدتی اور طویل مدتی بحرانوں پر قابو پانے کے لیے ملک میں معاشی اداروں کی خودمختاری، خود کفالت اور جمہوریت کا تحفظ لازمی ہے ۔ اسی طرح، اقتصادی اداروں میں ہونے والی ترقی کے ذریعے ملک کے پائیدار ارتقاء کو یقینی بنانا چاہیے۔ باہمی امدادکے اداروں، آر بی آئی، اسٹیٹ بینک، کمرشیل بینک، NABARD، یونین اور ریاستی حکومت کے درمیان ہم آہنگی کو یقینی بنانا بھی ضروری ہے۔ مرکزی حکومت پر مسائل سے نمٹنے اور جی ایس ٹی کے نفاذ کے نتیجے میں مالی بحران کا شکار ریاستوں کی مدد کرنے کی بھاری ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ نیتی آیوگ جیسی ایجنسیوں کو ملک میں وسائل کو مؤثر انداز میں مختص کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ وسائل کی تنظیم کےنئے اور متبادل ذرائع ، ترقی اور توسیع کے عمل کو تیز کریں گے۔ اسی طرح ملک میں سود پر مبنی مالیاتی ڈھانچے سے پیدا ہونے والے بحران پر قابو پانے کے لیے غیر سودی متبادلات کو بھی نافذ کیا جانا چاہیے۔
– ڈاکٹر نسرین الیاس