نیٹ امتحان میں اول مقام حاصل کرنے والی طالبہ آمنہ عارف سے خصوصی بات چیت
(میڈیکل کے داخلہ امتحان NEET UG کا شمار ملک کے اہم ترین داخلہ امتحانات میں ہوتا ہے۔ مختلف وجوہات کے سبب مجموعی طور پر نیٹ امتحان اور اس کے نتائج پر سماج کی توجہ بھی جمی ہوتی ہے، خصوصاً طلبہ اور والدین کی توجہات بلاشبہ جذباتی اور احساساتی سطح پر اس سے وابستہ ہوتی ہیں۔4/جون 2024ء کو اس اہم اور پیچیدہ امتحان نیٹ یوجی 2024 کے نتائج منظر عام پر آئے، جس میں جملہ دولاکھ چالیس ہزار سے زائد طلبہ نے حصہ لیا اور کُل سڑسٹھ (67) طلبہ نے ملکی سطح پر اول مقام (AIR-1) حاصل کیا ہے، جس میں آٹھ مسلم طلبہ شامل ہیں۔ ممبئی سے تعلق رکھنے والی طالبہ، آمنہ عارف کڑی والا نے NEET UG 2024میں ملکی سطح پر امتیازی نشانات کے ساتھ مقام اول پاتے ہوئے کامیابی کا سنگ میل طےکیا۔ ماہنامہ رفیق منزل کو دیے گئے انٹرویو میں آمنہ نے اپنے احساسات، تجربات، امتحان کی تیاری میں پیش آمدہ مشکلیں اور ان کو کیسے آسان کیا جاسکتا ہے؟ وغیرہ جیسے اہم اور مختلف گوشوں پر روشنی ڈالی اور طلبہ کے لیے رہنماء خطوط فراہم کیے۔ ملاحظہ ہو عبد الخالق سبحانی کی جانب سے آمنہ عارف کڑی والا کالیا گیا انٹرویو)
رفیق منزل: السلام علیکم و رحمتہ اللہ، سب سے پہلے ہم آپ کو اس کامیابی پر مبارک بادپیش کرتے ہیں، آپ کی محنتیں رنگ لائی اور آپ نے اپنے والدین، اساتذہ اور اپنے سماج کو فخر محسوس کروایا۔ سب سے پہلے آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں۔
آمنہ: وعلیکم السلام! بہت شکریہ۔ میرے والد نوکری کرتے ہیں، والدہ گھر سنبھالتی ہیں، میری دو بڑی بہنیں ہیں جو کہ شادی شدہ ہیں اور چھوٹے بھ ہیں جنہوں نے ابھی اپنی دسویں مکمل کی ہے۔ میں نے دسویں جماعت تک کی تعلیم مدیحہ اسکول سے حاصل کی اور سائنس گروپ سے میٹھی بائی کالج سے بارہویں تک کی تعلیم مکمل کی۔
ر۔م: نتائج آنے پر والدین اور اساتذہ کا کیا تاثر رہا؟
آمنہ: سب سے پہلے تو والدین کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ سچ میں یہی نتائج آئیں ہیں!!، اس لیے بھی یقین نہیں ہوپارہا تھا کہ ہمارے خاندان میں کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، میں پہلی ڈاکٹر رہوں گی اپنے خاندان میں، ان شاءاللہ۔ چنانچہ والدین بہت خوش ہوئے خوب بدھائیاں دیں۔ میرے اساتذہ بھی پہلے سے بےحد خوش تھے کیوں کہ جب ہم نے Answer Key آنے کے بعد میرے جوابات کا جائزہ لیا تھا تبھی اساتذہ نے کہہ دیا تھا کہ تم کو اچھے نمبر آئیں گے اور امید ہے کہ تم ٹاپ آؤ گی۔
ر۔م: کیا آپ نے اپنے اسکول اور کالج کے دنوں ہی سے ٹاپ کیا ہے؟ یا اوسط درجے کے طلبہ میں آپ کا شمار ہوتا تھا؟
آمنہ:الحمدللہ شروعات ہی سے میں پڑھائی کی جانب بہت سنجیدگی کے ساتھ متوجہ رہتی ہوں۔ اس لیے میرا ریکارڈ پہلے ہی سے اچھا رہا ہے۔
ر۔م: آپ نے کب اور کیسے یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو نیٹ امتحان دینا ہے اور ڈاکٹری کی پڑھائی کرنی ہے؟اس کے پیچھے کیا محرکات تھے؟
آمنہ: دسویں جماعت اچھے نشانات سے پاس کرنے کے بعد میں نے گیارہویں جماعت میں سائنس گروپ کا انتخاب کیا، البتہ میرے ذہن میں یہ بات واضح نہیں تھی کہ مجھے نیٹ امتحان میں حصہ لینا ہے یا ڈاکٹری کی لائن میں آگے بڑھنا ہے۔ لیکن جیسا کہ میں بتاچکی ہوں خاندان میں بھی کوئی ڈاکٹر نہیں ہے، والدین کا بھی اصرار تھا کہ پڑھائی میں اگر اچھی ہو تو کوشش کرنی چاہیے نیز خدمت خلق کا بھی جذبہ تھا۔ چنانچہ دھیرے دھیرے ذہن کھلتا گیا ۔ بارہویں جماعت کے دوران کورونا وائرس بھی پھیل چکا تھا، اسی اثنا میں نے فیصلہ کیا اور میرے پرنسپل سر نے کوچنگ وغیرہ کے حوالے سے میری رہنمائی کی اور میں نے اکسلنٹ ماسٹر اکیڈمی میں داخلہ لیکر وہاں سے نیٹ کی کوچنگ کا آغاز کیا۔ یہ میرا دوسرا اٹیمپٹ تھا، لاک ڈاؤن کے وقت بھی میں نے ایک ایٹمپٹ کیا تھا۔
ر۔م: امتحان کی تیاری کے دوران کیا دشواریاں اور رکاوٹیں آپ کو درپیش تھیں؟ اور آپ نے کیسے انہیں دور کرنے کی کوشش کی؟
آمنہ: جی ہاں دشواریاں تو رہی ہیں۔ ذاتی طور مجھے جو چیلنج درپیش رہا وہ بیک وقت تینوں سبجکٹس پر یکساں توجہ دینا یا تیاری کے حوالے سے ان میں توازن برقرار رکھنا، میرے لیے یہ تھوڑا مشکل تھا۔ اس مشکل کو دور کرنے کے لیے میں نے دو چیزوں پر خاص کام کیا۔ ایک، پابندی کے ساتھ رویژن (Revision) کرنا اور دوسرا، کوچنگ سنٹر پر ہفتے میں دو دفعہ الگ الگ سبجکٹ کے مختلف ابواب کا پریکٹس ٹسٹ ہوتا تھا، جس سے سبق پختہ بھی رہتا تھا اور سوالات کے جوابات لکھنے کی رفتار بھی تیز ہوتی جاتی تھی۔
ہم نے ابتدائی تعلیم اردو میڈیم سے حاصل کی تھی، لیکن یہ وجہ کوئی بڑی رکاوٹ اس لیے نہیں بن پائی کہ ہمارے اساتذہ نے اس پہلو سے کافی تعاون کیا اور اس بات کا خاص خیال بھی رکھا ۔ کلاس میں شریک سب طلبہ بھی انگریزی میڈیم سے نہیں تھے، اس لیے اساتذہ نے کلاس میں ایک ایسا ماحول پروان چڑھایا تھا کہ ہم طلبہ ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے۔
بسااوقات تمام تر کوششوں کے بعد بھی یہ خدشہ اور خوف رہتا تھا کہ ہم پاس ہو پائیں گے؟ یا نہیں؟لیکن اساتذہ ہمیشہ یقین دلاتے تھے کہ “صرف تم اکیلے ہی اس خوف سے دوچار نہیں ہو بلکہ سب طلبہ کو ایسے خدشات اور خیالات آتے ہیں، ایسا ہوتے رہتا ہے کوئی بات نہیں، ایسے میں اپنے کسی بڑے سے بات کرلو، ٹیچر سے بات کرو۔ اس سے دل ہلکا ہوگا”۔
ایک چیز یہ بھی کہ، شروعات میں مجھے پریکٹس ٹسٹ میں کم نمبر آتے تھے۔ لیکن جیسے جیسے میں بار بار ٹسٹ د یتی گئی میرے نمبر بہتر ہونے لگے اور آپ سے آپ اپنے اندر ایک اعتماد پیدا ہونے لگا، لیکن شروعات میں یہ کیفیت نہیں تھی۔ تیاری کے دوران ہی چیزیں سمجھ میں آتی ہیں اور سیکھتے جاتے ہیں کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں؟ وغیرہ۔
والدین کا اس دورانیے میں بہت تعاون رہا۔ انہوں نے میری بہت حوصلہ افزائی کی۔ میری والدہ کہتی تھیں کہ “تم کوشش کرتی رہو، اگر تم اپنے طور پر صحیح معنوں میں کوشش کروگی تو یقیناً پاس ہوجاؤ گی”۔
ر۔م: تیاری کے دوران آپ کا نظام الاوقات (Time Management) کیا ہوتا تھا؟ کس طرح تعلیم پر توجہ اور دیگر امور میں توازن برقرار رکھتی تھیں
آمنہ: صبح فجر کے وقت ہی میں بیدار ہوجاتی تھی، نماز ادا کرنے کے بعد ہی سے میری تعلیمی مصروفیات کا آغاز ہوجاتا تھا۔ سب سے پہلے کچھ گھنٹے گزرے دنوں کا سبق Revise کرتی تھی، اس کے بعد کل چھے گھنٹے کی کوچنگ کلاسس ہوتی تھیں، پھر گھر آئے بعد پڑھنے کا شڈیول متعین نہیں تھا لیکن کم از کم تین چار گھنٹے میں پڑھنے کی کوشش کرتی تھی۔ رات میں وقت پر سونے کا معمول تھا؛ بھرپور نیند اور مناسب غذا کے ساتھ معاملے میں کسی بھی قسم کی رعایت یا مصلحت سے کام نہیں لینا چاہیے۔ اپنی دلچسپی اور شوق کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے، اگر آپ اس کو چھوڑ دیں گے تو پورا دن پڑھائی بھی نہیں کرپائیں گے۔ ذہنی سکون اور تفریح بھی ضروری ہے، بسااوقات پرھائی کا من نہیں کرتا تو آیک آدھ فلم دیکھ لینا یا ذہنی فراغت کا کچھ اور سامان کرنا چاہیے۔ میرا شوق یا مشغلہ یہ ہے کہ میں گھریلو کاموں میں ہاتھ بٹاتی ہوں، مجھے پکوان سے دلچسپی ہے، آنلائن نیوز پڑھنا اچھا لگتا ہے۔
ر۔م: آپ نے موبائل کا استعمال، سوشل میڈیا وغیرہ کو اپنی توجہ پھیرنے سے (یا Distraction بننے سے) کیسے روکے رکھا؟
آمنہ:دیکھیے میرے خیال میں سوشل میڈیا سب سے بڑا Distraction ہے۔ بہرحال، میرا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ نہیں ہے۔ البتہ موبائل کا میں استعمال کرتی ہوں، موبائل کا مثبت استعمال بہت فائدہ مند چیز ہے، کبھی کبھار میں موبائل کی مدد سے اپنے سبجکٹ کے مشکل موضوعات کو سیکھنے کی کوشش بھی کرتی تھی۔
ر۔م: آپ کی اس کامیابی کے پیچھے سب سے اہم رول کس چیز نے ادا کیا یا اس کامیابی کا راز کیا ہے؟
آمنہ: عزم! اگر آپ نے فیصلہ کیا ہے کہ مجھے امتحان دینا ہے، تو پورے عزم کے ساتھ مکمل اسی کے لیے یکسو ہوجائیے۔ اگر آپ میں عزم ہے تو ان شاءاللہ آپ کامیاب ہوں گے۔
ر۔م: آخری سوال یہ ہے کہ آپ ہمارے قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
آمنہ: سب سے پہلے طلبہ سے یہ کہوں گی کہ عام طور سے کوئی بھی امتحان اتنا مشکل نہیں ہوتا ،ہم اپنے ڈر، اپنے خدشات سے (یا بغیر محنت کیے) اس کو مشکل بنادیتے ہیں۔ آپ کو پرعزم اور کامل یکسو ہوکر اپنے ہدف کی جانب مسلسل آگے بڑھنا ہے۔
والدین سے میں یہ گزارش کروں گی کہ جب طالب علم میں کچھ حاصل کرنے کا عزم ہو تو اس کا بھرپور تعاون کیجیے۔ والدین کا یہ تعاون ہی طالب علم کی نصف سے زائد مشکلوں کو آسان اور الجھنوں کو دور کردیتا ہے۔