دعوتِ دین اور راہِ حق کا فریضہ سب سے پہلے انبیاء کرامؑ نے سر انجام دیا جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کرم سے نوازا اور وقتا فوقتا مختلف قوموں کی فلاح و بہبود کے لئے مبعوث کیا۔ ان کے بعد اس بھاری بوجھ کو ان کے سچے جانشینوں نے اپنے کندھوں پر اٹھایا۔ یہ وہ برگزیدہ شخصیات تھیں جو پیکرِ علم و عمل اور صدق و اخلاق کا کامل نمونہ تھیں۔ ہر بندۂ مومن میں یہ خصوصیت موجود ہوتی ہے کہ ہمیشہ حق کی گواہی دیتا ہے اور اپنے انفرادی عمل، خانگی تعلقات، سماجی معاملات اور سیاسی و ملکی سرگرمیوں سے یہ بات ثابت کرتا ہے کہ دینِ حق ہی سے پاکیزہ کردار اور مستحکم خاندان وجود میں آتے ہیں۔ دعوتی میدان میں تمام تر دار و مدار داعی کی شخصیت پر ہوتا ہے۔ وہ خود جتنا متحرک ہوگا دوسروں کو بھی اسی نسبت سے متحرک کر سکے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا، “مَنْ دَلَّ عَلَی خَیْرٍ فَلَہٗ مِثْلُ أَجْرِ فَاعِلِہِ” (جس نے خیر کی طرف رہنمائی کی، اس کے لیے عمل کرنے والے کے مثل اجر ہے۔) ایسا نمونہ کامل بننے کے لئے ایک داعی کو اپنے اندر ان چند صفات کو اپنانا ازحد ضروری ہے۔
ذاتی اصلاح:
جو باشعور افراد اپنی زندگی کے حقیقی مشن کو بخوبی سمجھ لیں اور دعوتِ دین کے مقدس فریضہ کو انجام دینے کا عزم کر لیں تو خدا تک کے سفر کا آغاز اپنی ذات کی اصلاح سے ہوگا۔ جب تک اپنی شخصیت میں اعلیٰ صفات پیدا نہ ہو جائیں گی تو مخاطب کی ذہن سازی و تربیت میں تبدیلی لانا ممکن نہ ہو سکے گا۔ یوں ذاتی اصلاح اس دعوتی مشن کا اول پڑاؤ قرار پایا۔
سیرت و کردار:
حضرت سید علی ہجویریؒ فرماتے ہیں، “جو شخص خدا کے احکام مخلوق تک پہنچانے کا فرض اپنے ذمہ لے اسے سنت کی حفاظت کرنا پڑتی ہے۔” یہ ایک چھوٹا سا قول اپنے اندر معنی و مفہوم کے بے پایاں سمندر کو سمیٹے ہوئے ہے۔ جس کسی خوش قسمت کے دل میں اس عظیم دعوت کا شوق جاگے تو اس بات کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے کہ اس کے اپنے قول و عمل میں کسی قسم کا تضاد نہ ہو۔ اپنے سیرت و کردار کو قرآن و سنت کے مطابق ڈھالنا مطلوب ہے۔ منصب و مرتبے کا حقیقی شعور و علم ہونا ضروری ہے۔ نبیﷺ کے جانشین ہونے کے ناطے دعوتِ دین، شہادتِ حق اور تبلیغ کا وہی فریضہ انجام دیتے رہیں۔ لہٰذا وہی داعیانہ تڑپ پیدا کرنے کی کوشش کیجیے۔
ہُوَ اجۡتَبٰىکُمۡ وَ مَا جَعَلَ عَلَیۡکُمۡ فِی الدِّیۡنِ مِنۡ حَرَجٍ ؕ مِلَّۃَ اَبِیۡکُمۡ اِبۡرٰہِیۡمَ ؕ ہُوَ سَمّٰىکُمُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ ۬ ۙ مِنۡ قَبۡلُ وَ فِیۡ ہٰذَا لِیَکُوۡنَ الرَّسُوۡلُ شَہِیۡدًا عَلَیۡکُمۡ وَ تَکُوۡنُوۡا شُہَدَآءَ عَلَی النَّاسِ ۚ
(اسی نے تمہیں برگزیدہ بنایا ہے اور تم پر دین کے بارے میں کوئی تنگی نہیں ڈالی، دین اپنے باپ ابراہیمؑ کا قائم رکھو اسی اللہ نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے۔ اس قرآن سے پہلے اور اس میں بھی تاکہ پیغمبر تم پر گواہ ہو جائے اور تم تمام لوگوں کے گواہ بن جاؤ)۔
قرآن سے گہرا شغف:
ایک بہترین داعی بننے کے لئے یہ ضروری وصف ہے کہ وہ کتابِ الٰہی کی تفکر و تدبر سے تلاوت کرے۔ جب کسی موضوع سے متعلق گفتگو کا ارادہ رکھتے ہوں چاہے وہ تقریری ہو یا تحریری، تو اس سے متعلق آیات یکجا کیجئے اور حسبِ منشا ایک ترتیب قائم کریں تاکہ اس موضوع سے متعلق قرآن کے نقطۂ نظر کو واضح کرسکیں۔ قرآنی قصص و حکایات کا مکمل علم ہونا بھی ایک اہم وصف ہے تاکہ وہ ان میں پوشیدہ عبرت و نصیحت، تاریخی شخصیات کے خدو خال اور بےشمار علمی، فکری اور قانونی اسرار و حقائق کے سمندر سے سیراب ہو سکے۔ اسی سے متصل صفت جو ایک داعی کو اپنانا ہوگا وہ ہے قرآن کے پیش کردہ رول ماڈلز کے نقشِ پا اختیار کرنا۔ یہ سیکھنا ہوگا کہ کس طرح زندگی کے نازک موڑ پر اپنے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھا جائے۔ ہمارے سامنے ایک مثال اس پاکباز و پاکدامن نوجوان کی ہے جو شرم و حیا اور اطاعت و حکمت کا پیکر تھا جسے ہر اوچھے ہتھکنڈوں سے بہلانے پھسلانے کی سعی کی گئی مگر اس حسن و جمال کے مجسم اور فرشتہ صفت نبی (حضرت یوسفؑ) نے اپنے داعیانہ معیار کو گرنے نہیں دیا۔ اسی طرح داعی کو ایک اور وصف کو اپنانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے خیالات و افکار کے موقف کی تائید میں قرآنی آیات سے عمدہ استدلال پیش کرے۔ مزید یہ بھی لازم ہے کہ غلط تاویل و تحریفِ کلام سے اجتناب برتے۔ ضعیف و موضوع روایات سے دامن کشاں رہے۔ ایک اچھا داعی بننے کی خاطر کمزور اور فاسد آراء و اقوال سے گریز لازمی ہے۔ اگر ان امور کا خیال نہیں رکھا جائے تو بڑے بگاڑ پیدا ہونے کے امکانات ہیں۔
سنت پر عمل کا اہتمام:
رسول اکرمﷺ مجسم قرآنی اخلاق کا پیکر تھے۔ ایک داعیٔ دین پر لازم ہے کہ ہمیشہ سنت پر عمل پیرا ہو اور اس مشن کے ہر موڑ پر رسول اللہﷺ کی سنت کو پیشِ نظر رکھیں۔
ادبی رجحان:
دین کے داعی کے لئے جہاں یہ بات اہمیت کی حامل ہے کہ اس کا دینی مطالعہ اچھا ہو اسی طرح یہ بات بھی اہم ہے کہ وہ زبان و ادب پر بھی گہری نظر رکھتا ہو۔ وہ اس کی باریکیوں اور نزاکتوں سے آشنا ہو۔ داعی کی نوکِ زبان پر نظم و نثر کا ایک بہترین ذخیرہ ہو۔ برمحل اشعار، اچھے نثر نگاروں کے منتخب جملے، ادبی شہ پارے، حکمت و نصیحت سے لبریز اقوال، اچھے خطیبوں کی اثر انگیز باتیں، عمدہ محاورے اور تشبیہات وغیرہ یہ سبھی چیزیں زبان و ادب کے پہلو سے ایک داعی کے لئے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔
حسن اخلاق:
ارشادِ نبویﷺ ہے، “إِنَّ مِنْ خِيَارِكُمْ أَحْسَنَكُمْ أَخْلَاقًا” (تم میں سب سے بہتر وہ شخص ہے، جس کے اخلاق سب سے بہتر ہیں۔(صحیح بخاری: 5027) اعلیٰ اخلاقی صفات اپنائے بغیر انسان دعوت دین کا اعلیٰ نمونہ پیش کرنے سے قاصر ہے۔ حسن اخلاق کے سلسلے میں اس سے بڑی اور کیا بات ہو سکتی ہے کہ قرآن داعی اولﷺ کو اس وصف سے متصف گردانتا ہے۔ عمدہ اخلاق کے ہمراہ داعی میں جذبۂ صبر و استقامت بھی موجود ہو۔ جب وہ ایک عظیم مقصد لے کر اٹھا ہے تو اس راہِ حق میں درپیش ہر دکھ درد، اذیت و تکلیف، آزمائش و امتحان کو جھیلنے اور اس پُرخطر گھاٹی کو عبور کرنے کی ہمت و سکت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ دردمندی اور خیر خواہی کے وصف کو اپنانا ہوگا۔ اپنی شخصیت کو نرم خوئی سے آراستہ کرنا ہوگا۔ دانائی و حکمت سے فیصلے و اختیارات لینے ہوں گے۔ اس راہِ خیر میں ‘لاتقنطوا من رحمۃ اللہ’ کے دامن کو تھامے رکھنا شرطِ لازم ہے۔ تعلق باللہ کو مزید مضبوط بنانا بھی اہم صفت ہے۔ ایک اچھا داعی وہ ہوتا ہے جو زندگی کے ہر معاملات میں امر بالمعروف و نھی عن المنکر کا فریضہ انجام دے۔
علم الحدیث کے ساتھ ساتھ اصولِ فقہ سے واقفیت پیدا کرنا بھی لازم و ملزوم ہے۔ ایک کامیاب داعی بننے کے لئے اسلامی طرزِ زندگی کا بالکل خالص و کھرا مطالعہ مطلوب ہے۔ یہ مطالعہ ایسا ہونا چاہئے کہ اس میں اسلام اپنی کامل اور ہم آہنگ صورت میں نمایاں ہو سکے۔ ایک کامیاب داعی کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اپناتا ہے اور مخاطب کے مزاج و معلومات کے مطابق اپنا مدعا پیش کرتا ہے۔ قوم و ملت کی بے لوث خدمت کیجئے اور اپنی کسی خدمت کا صلہ بندوں سے طلب نہ کرنا بھی داعیانہ وصف ہے۔ داعی معاشرے میں ایک صدر کی حیثیت رکھتا ہے تو اسے ہر افراط و تفریط سے پاک، خدا کی سیدھی شاہراہ پر اعتدال کے ساتھ قائم رہنا ہے کیونکہ امت مسلمہ کوئی عام امت نہیں بلکہ اسے خدا نے امتیازی شان بخشی ہے۔
قرآن میں داعی کے مخصوص عمل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے گروہ کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے۔
“كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ- وَ لَوْ اٰمَنَ اَهْلُ الْكِتٰبِ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ وَ اَكْثَرُهُمُ الْفٰسِقُوْنَ (آل عمران: 110)
“تم بہترین امت ہو جو لوگوں (کی ہدایت ) کے لئے بنائی گئے ہو، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو اور اگر اہلِ کتاب (بھی) ایمان لے آتے تو ان کے لئے بہتر تھا، ان میں کچھ مسلمان ہیں اور ان کی اکثریت نافرمان ہیں۔
اگر داعیانہ اوصاف کو ہم نے اپنانے میں غفلت یا کوتاہی برتی تو روز قیامت اس بات کا کیا جواب ہوگا کہ بلِّغوا عنِّي ولو آيةً (میری طرف سے لوگوں کو پہنچا دو، اگرچہ ایک آیت ہی ہو)
(مضمون نگار بی اے ایل ایل بی سال اول کی طالبہ ہیں۔)