تن آسانی نہیں، سخت کوشی کا مہینہ ہے رمضان

محمد مدثر

یوں محسوس ہوتا ہے گویا تقویٰ کی ایک بادِ صبا تھی جو رمضان میں چھوکر چلی گئی۔

رمضان کی فضیلت

رمضان المبارک امت مسلمہ کے لیےایک عظیم نعمت ہے، کیونکہ یہی وہ مہینہ ہے جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا، جو رہتی دنیا تک کے لیے ہدایت ورہنمائی کا کام انجام دے گا۔ اسی نعمت پر اظہار تشکر کے لئے روزے فرض کئے گئے ہیں، جس کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا گیا ہے۔ رمضان کا مہینہ ماہِ صیام، ماهِ صبر، ماهِ مواسات، ماهِ غفران اور ماہِ قرآن ہے، اس مہینے کو ہر اعتبار سے فضیلت دی گئی ہے۔ ماہ رمضان کے روزوں کا ثواب اللہ تعالی نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور کہا ہے  کہ ‘روزہ میرے لیے ہے، میں  ہی اس کا اجر دوں گا’۔ اس ماہ میں کیا جانے والا صدقہ دوسرے ماہ کے بالمقابل کئی گنا زیادہ اجر کا مستحق ہے۔اس ماہ میں قیام اللیل گناہوں کو بخشوانے کا ذریعہ ہوتا ہے جبکہ آخری عشرہ کی طاق راتوں میں کی جانے والی عبادتوں کا ثواب ہزار مہینوں سے زائد قرار دیا گیا ہے۔

امت مسلمہ کا المیہ

موجودہ عہد میں امت مسلمہ کا یہ  المیہ بن چکا ہے کہ اس کے افراد  رمضان المبارک کو بہت آرام و سہولت سے گزارنے کے عادی ہوچکےہیں۔ امت مسلمہ کا ہر عام و خاص اور خصوصاً نوجوان طبقہ رمضان میں عام دنوں کے بالمقابل کم محنت کرنے کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔روزے کے نام پر دیر تک سوئے رہنا، مساجد میں فرائض کی ادائیگی کے بعد گپ بازی کرنا اور رمضان المبارک کی راتوں کو مختلف النوع مشروبات و کھانوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے گزارا جاتا ہے۔

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ مسلم معاشرہ رمضان المبارک کو رسمی و روایتی انداز سے گزار رہا ہے، جس کی وجہ سے امت مسلمہ میں کوئی خاص تبدیلی واقع  نہیں ہو رہی ہے۔ رمضان سے پہلے جو حالت زار تھی، رمضان کے بعد اسی حالت میں واپسی ہوتی ہے۔  یوں محسوس ہوتا ہے گویا   تقویٰ کی ایک  بادِ صبا تھی جو  رمضان میں چھوکر چلی گئی۔

ان حالات کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ صحابہ نے “کتب علیکم الصیام ” کی آیت کو جس طرح سمجھا اور اہل عرب “صوم وصیام” کو اپنی روز مرہ کی زندگی میں جس طرح استعمال کرتے تھے، امت کا بڑا طبقہ اس  مفہوم سے  ناواقف ہے یا پہلو تہی کررہا ہے۔ لہذا اگر ہم ان تاریخی حقائق کو جانیں گے تو امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والا رمضان ہماری زندگی میں تبدیلی کا باعث بنے گا۔

آج کے مسلم معاشرے میں ایک عام تاثر یہ پایاجاتا ہے کہ ہمارے اسلاف رمضان المبارک میں صرف فرائض و نوافل، تلاوت قرآن و اذکار، صدقہ و خیرات اور قیام اللیل و دیگر عبادات میں مشغول رہتے تھے۔ بلاشبہ قرون اولیٰ میں ان عبادتوں پر پابندی سے عمل کیاجاتا تھا۔ لیکن جو چیزیں ہماری نظروں سے اوجھل ہوچکی ہیں وہ یہ  ہیں کہ عہد نبویﷺ میں ان تمام عبادات کے  ساتھ رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عملی میدان و میدان کارزار میں ہمہ تن مصروف رہتے تھے۔ پیش نظر مضمون میں صوم کی لغوی و اصطلاحی تعریف کے ساتھ احادیث، سِیَر اور تاریخ کی کتب کے ذریعہ سے رمضان المبارک میں پیش آنے والے غزوات و معرکوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان واقعات کے ذکر کا مطلوب و مقصود اس بات کا  افشاں کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور اسلاف رمضان المبارک میں دیگر عبادتوں کے ساتھ اور بھی محاذوں پر مصروف عمل رہتے تھے۔ مدنی عہد کے رمضان پر نظر ڈالیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ گویا صحابہ کے تمام ہی رمضان میدان جنگ میں گزرے ہوں۔ ان واقعات سے یہ ذہن نشین کرنا مقصود ہے  کہ رمضان کیسی محنت و ریاضت چاہتا ہےاور ہم رمضان میں روزے اور عبادات کے نام پر کیسی تن آسانی اور سہولت پسندی کا شکار ہو گئے ہیں۔

لفظ صوم کے معنی اور معنویت

صوم (روزہ) لفظ کا مصدر صوماً و صیاماً، یعنی “روزہ رکھنا اور رکنا ” ہوتا ہے۔ زمانہ جاہلیت میں عرب روزہ نہیں رکھتے تھے،  بلکہ وہ “صوم ” لفظ کا استعمال اپنے گھوڑوں کے لئے استعمال کرتے تھے۔ عربوں کے درمیان وقتاً فوقتاً آپس میں جنگیں ہوا کرتی تھیں۔  اسی مناسبت سے وہ اپنے گھوڑوں کو بھوک و پیاس  برداشت کرنے کی تربیت سے گذارتے تھے،تاکہ مستقبل میں پیش آنے والے بڑےمعرکوں میں بھوک و پیاس کی زیادہ سختی برداشت کرسکیں۔دور نبوت میں جب قرآن کریم کی آیت “کتب علیکم الصیام” (تم پر روزے فرض کئے گئے)نازل ہوئی تو اس وقت کا معاشرہ اس بات کو سمجھ گیا کہ قرآن کسی بڑے مقصد کی تیاری کے لئے روزے کی فرضیت کا اعلان کر رہا ہے، جیسے وہ اپنے گھوڑوں کے ساتھ کیا کر تے تھے۔

رمضان المبارک میں پیش آئےغزوات و سَرَایا

رسول ﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں روزے کی فرضیت کے بعد کل نو (9) رمضان المبارک گزارے اور ان نو سالوں میں رمضان المبارک جہاد سے عبارت نظر آتا ہے۔ رمضان کے دوران   کئی جنگیں ہوئیں، جن میں غزوات اور سر ایا دونوں  شامل ہیں ۔

حق و باطل کی پہلی جنگ جس میں اللہ رب العزت نے کفر  پر کاری ضرب لگائی ، یعنی غزوہ بدر، ماہ رمضان میں ہی  لڑی گئی ۔ اسلام کی تیسری بڑی جنگ،غزوہ خندق جو مسلمانوں کے لئے سخت ترین جنگوں  میں سے ایک ثابت ہوئی تھی،  ماہ شوال میں شروع ہوئی۔ تاریخ کی کتب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں نے خندق کی کھدائی ماہ رمضان سے ہی شروع کردی تھی۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ماہ رمضان میں غزوہ کے لیے گئے۔ فتح مکہ بھی ماہ رمضان میں ہواتھا۔ اسی طرح جب رسول اللہ ﷺ غزوہ تبوک سے واپس ہوئے تب رمضان شروع ہوچکا تھا۔ ان کے علاوہ ذیل میں اس حوالے سے مزید شواہد درج کیے جارہے ہیں۔

سَرِیہ حمزہ ابن عبد المطلب : ہجرت کے پہلے سال ہی رمضان المبارک کے مہینے میں رسول اللہﷺ نے حضرت حمزہ کو مقام عیص کی جانب تیس سواروں کے ساتھ روانہ کیا۔ یہاں پر ابو جہل سے سامنا ہوا لیکن کچھ وجوہات کی بنا پر جنگ نہیں ہوئی۔

سریہ زید بن حارثہ : یہ سریہ زید بن حارثہ کی قیادت میں بجانب ام قرفہ بمقام وادی القریٰ میں پیش آیا، اس لڑائی میں مسلمانوں کو فتح نصیب ہوئی۔ یہ واقعہ رمضان المبارک 6 ھ میں پیش آیا۔

سریہ عبداللہ بن عیتک: یہ سریہ رمضان المبارک 6ھ خیبر میں پیش آیا۔ ابو رافع سلام بن الحقیق نے رسول ﷺ سے جنگ کے لیے ایک بڑا مجمع تیار کیا تو رسولﷺنے عبد اللہ بن عیتک کی سربراہی میں فوج روانہ کی، جس میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور ابو رافع قتل ہوا۔

سریہ غالب بن عبد الله اللیثی : سریہ غالب بن عبد الله اللیثی رمضان المبارک 7ھ میں پیش آیا۔ رسول ﷺ نے غالب بن عبد اللہ کی سربراہی میں ایک چھوٹی ٹکڑی کو المیفعہ کی جانب روانہ  کیا اور  مسلمان کامیابی کے ساتھ لوٹے۔

سریہ علی بن ابی طالب : سریہ علی بن ابی طالب رمضان 10ھ میں پیش آیا۔ رسول ﷺنے حضرت علی کی قیادت میں یمن کی طرف فوج کو روانہ کیا، یمن کے قبیلوں نے حضرت علی کی دعوت پر اسلام قبول کیا۔

غزوہ المریسیع: یہ غزوہ المریسیع مقام پر پیش آیا۔ اس غزوہ کے لئے رسول ﷺ دو شعبان کو روانہ ہوئے تھے اور مدینہ منو رہ کی طرف واپس اٹھائیس روز بعد رمضان کے چاند کے وقت تشریف لائے۔

نوٹ: جس دن جنگ ہونے کے امکانات ہو تے اس دن نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ روزہ نہیں رکھتے تھے۔

رمضان المبارک میں وقوع پذیر ہونے والے غزوات اور سرایا کے مطالعے سے یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی منصوبہ بند طریقے سے گزاری جائے اور اس منصوبہ پر سختی سے عمل کیا جائے۔ جیسے نبی کریمﷺ اور صحابہ  کرام کا معاملہ یہ رہا کہ رمضان سے پہلے شعبان میں جو جنگی اقدامات کئے جارہے تھے، رمضان میں انہیں جاری رکھا گیا۔  ایسا بالکل نہیں ہوا کہ رمضان آتے ہی ان کاموں کو مؤخر کیا  گیا  اور شوا ل کے مہینے میں ان پر عمل در آمد کیا گیا ہو۔ ان واقعات سےہمیں یہی سبق ملتا ہے کہ روزے کی حالت میں ہم بحیثیت طالب علم اپنے علمی و تحقیقی کاموں میں مصروف رہیں، بحیثیت تاجر و بحیثیت ملازم اپنی تجارت و ملازمت کے کاموں میں کوتاہی نہ برتتے ہوئے اسے ادا کریں اور اسی طرح دیگر کاموں کو بھی اپنے وقت پر مکمل کریں۔ بظاہر یہ باتیں عملی طور پر بڑی مشکل معلوم ہوتی ہیں۔ لیکن نبی کریم ﷺ اور صحابہ کی زندگی کو دیکھیں اور عزم کرلیں  کہ ہمارے رمضان بھی جہدمسلسل سے گزریں گے۔ روزے کی حالت میں جسمانی کمزوری  کا بہانہ بناتے ہوئے کاموں کو ٹالنے کے بجائے اللہ رب العزت کی طرف سے عنایت ہونے والی روحانی طاقت پر نظر جمائی جائے تو ان شاءاللہ رمضان سے حقیقی طو رپر فیض یاب ہونے میں مدد ملے گی۔

ایک اور اہم نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ انسانی مزاج محنت و مشقت کے بالمقابل سستی و کاہلی کی طرف جلدی راغب ہوتا ہے اور یہ کیفیت رمضان میں روزے کی حالت میں کسی قدر اور بڑھ جاتی ہے۔  اس کے نتیجے میں انسان اپنا وقت فضول کا موں میں خرچ کرتا ہے مثلاً؛ ٹی وی و موبائل پر وقت کا زیاں کرنا اور دوستوں کے ساتھ مل کر گپیں ہانکنا، جن کی وجہ سے   فرد کے غیبت اور چغلی جیسی تباہ کرنے والی برائیوں  میں ملوث ہو جا نے کے امکانات  بڑھ جاتے ہیں۔  جو روزے جیسی عظیم عبادت کی روح کو بھی ختم کردیتی ہیں۔ ان تمام چیزوں کا تدارک اسی میں ہے کہ رمضان کو بامقصد منصوبہ بندی کے ساتھ گزارا جائے۔ تعلیمی، معاشی،گھریلو  و دیگر ذمہ داریوں  کو ادا کرنے کے ساتھ اپنا وقت قرآن مجید کی تلاوت، حفظ اور تدبر میں لگائیں، مسنون دعاؤں کو یا د کرنے کا اہتمام کریں اور اچھی کتابوں مثلاً سیرت نبویﷺ، سیرت صحابہ و صحابیات اور حقوق اللہ و حقوق العباد کا مطالعہ کریں۔

خلاصہ

 اللہ تبارک و تعالیٰ نے رمضان المبارک کا روزہ ایک عظیم الشان مقصد کے لئے فرض کیا ہے۔ یہ امت مسلمہ کو ایک بڑے جہاد کی تیاری کے لئے، قرآن سے غیر معمولی رغبت پیدا کرنے کے لئے، تقویٰ، صبر، شکر جیسی صفات اور  جہاد بالنفس اور جہاد بالسیف، جیسے عظیم کاموں کے لئے تیار کرتا ہے۔ آج مسلم معاشرے کا رمضان عہد نبوی ﷺ کے رمضان سے بالکل الٹ نظر آتا ہے۔ ہم  رمضان،روزے اور عبادات کے نام پر عملی زندگی کی جدوجہد سے پیچھے نظر آتے ہیں ۔ جبکہ شہادت علی الناس اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی تکمیل کے لیے عہد نبوی ﷺکے رمضان میں امت مسلمہ نے جو غزوات اور سر ایا لڑیں، ان  سے واضح سبق ملتا ہے کہ ہمارا ہر رمضان شہادت علی الناس کی جد وجہد کے لیے تیز تر ہو، نہ کہ عام دنوں کے مقابلہ میں رمضان زیادہ سستی اور کاہلی سے گزرے۔ عہد نبوی ﷺ کا رمضان عملی سر گرمی اور جہاد کار زار سے عبارت تھا۔ جہاں رسول ﷺ کی جانب سے گذارا گیا رمضان  قیام اللیل، تلاوت قرآن اور صدقہ و خیرات وغیرہ سے عبارت ہے وہیں غزوات اور سرایا سے بھی۔ مسلم معاشرہ روایتی انداز میں اپنے آباء و اجداد  سے چلے آر ہے رمضان سے اعلان برات کر کے سیرت کی روشنی میں روزے کی اصل روح کو سمجھتے ہوئے رمضان گزارے تو ان شا ء اللہ مسلم امت میں عین تبدیلی واقع ہو گی ،  امت مسلمہ اپنے مقصد پر گامزن ہوگی اور شہادت علی الناس اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کو کما حقہ ادا کرسکے گی۔

حالیہ شمارے

عام انتخابات کے نتائج 2024 – مستقبل کی راہیں

شمارہ پڑھیں

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں