مرکزی حکومت نے وقف ایکٹ میں ترمیم کے ضمن میں اقدامات شروع کردیے ہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق حکومت کی جانب سے ایک مجوزہ بل مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کو بھیجا گیا ہے جس کا مقصد اس کا جائزہ لینااور اس کے عملی نفاذ کے متعلق فیصلہ کرنا بتایا گیاہے۔ اس اقدام سے مختلف سیاسی اور مذہبی جماعتوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔
وقت کی تاریخ
اوقاف کے حوالے سے سب سے پہلے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ ’اوقاف‘ کسے کہتے ہیں اور اس کی تاریخ کیا ہے؟ آئیے، ان سوالات کا گہرائی سے جائزہ لیں۔
’وقف‘ کی ابتداء حضرت محمد ﷺ کے زمانے سے ہوتی ہے۔ رسول اللہ ﷺنے جائیدادوں کو خیرات میں دینے کے عمل کی حوصلہ افزائی کی تاکہ اسے فروخت نہ کیا جاسکے بلکہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کمیونٹی کو فائدہ ہو۔ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سب سے پہلے قیمتی زمین وقف کے طور پر ہبہ کی تھی۔ اس کے بعد سے یہ مسلم ہو گیا تھا کہ وقف میں مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے اللہ کے نام پر عطیہ کی گئی کسی بھی منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کو شامل کیا جا سکتا ہے۔ ان جائیدادوں کا مقصد معاشرے کی فلاح و بہبود ہے، جس کا واحد مالک اللہ رب العزت ہے۔
ہندستان میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی مسلمانوں نے اپنی املاک کو وقف کرنا شروع کر دیا تھا۔ تاہم، خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عمل مسلم حکمرانوں کے عہد میں شروع ہوا، بطور خاص فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت ( 1351ء سے 1388ء) میں عوام کی جانب سے وقف کردہ جائیدادوں کو منظم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ فیروز شاہ تغلق کے دور حکومت ہی میں ہندستان میں وقف ناموں کی تخلیق کا رواج فروغ پایا۔ کہا جاتا ہے کہ فیروز شاہ تغلق نے اپنے دور حکومت میں ایک ہسپتال بنایا تھا، اس میں معالجین و اطبا کا تقرر کیا گیا اور ادویات فراہم کی گئی تھیں۔ بڑی تعداد میں متعدد افراد نے اپنی جائیدادیں ہسپتال کی مدد کے لیے وقف کردی تھیں۔ اس ہسپتال کے ذریعے سب کے لیے مفت علاج کو یقینی بنایا گیاتھا۔ مزید برآں، مشہور مدرسہ فیروز شاہی اسی دور میں دہلی میں قائم کیا گیا تھا، جو اپنے وقت کے بہترین تعلیمی اداروں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ اس کام میں مدد کے لیےمختلف اوقاف قائم کیے گئے اور ان کی آمدنی کو مدرسے میں داخلہ لینے والے طلبہ کی فلاح و بہبود اور روزگار کے لیے مختص کیا گیا۔
شیر شاہ سوری (1529ء تا 1540ء) کے دور میں وقف کے نظام میں مزید بہتری دیکھنے میں آئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ کسی گاؤں والوں نے شیر شاہ سوری سے اپنے گاؤں میں ایک مسجد کی تعمیر کے سلسلے میں مدد کے لیے رابطہ کیا تو بادشاہ نے اس کے بجائے انہیں ہدایت کی کہ وہ خود مسجد تعمیر کریں اور اس مقصد کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا عطا کیا۔ گاؤں والوں کو مسجد اور اس کی وقف املاک کی حفاظت اور نگرانی کی ذمہ داری سونپی گئی تھی، جب کہ تمام اخراجات اور آمدنی کا محتاط ریکارڈ رکھا جاتا تھا۔ تاریخی واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ شیر شاہ کے دور حکومت میں تقریباً 1700 مسافر خانوں (ریسٹ ہاؤسز) کا قیام عمل میں لایا، جس میں ملک کے دور دراز سے آنے والے مسافروں کو رہائش اور کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔ یہ مسافر خانے وقف نظام کے تحت چلائے جاتے تھے۔
شہنشاہ جلال الدین اکبر (1556ء تا 1605ء) نے بھی وقف کے نظام کو بہتر بنانے کی کوشش کی، خاص طور پر وقف املاک کی دیکھ بھال پر توجہ مرکوز کی۔ ان زمینوں پر عالی شان عمارتیں تعمیر کی گئیں، جن کے ذریعےوقف املاک کو مزید مالا مال کیا گیا۔ اس طرح وقت گزرنے کے ساتھ وقف کا نظام سارے ملک میں پھیل گیا اور عوامی بہتری اور سماجی فلاح و بہبود کے لیے ان کااستعمال کیا جانے لگا۔
برطانوی عہد میں وقف
برطانوی نوآبادیاتی دور میں بھی مسلمان اپنی زمینیں وقف کرتے رہے۔ جہاں ایک طرف انہوں نے اپنے آپ کو ہندوستان کی آزادی کے مقصد کے لیے وقف کیا، وہیں دوسری طرف ملک کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی املاک کو بھی وقف کر دیا۔ مہاتما گاندھی کی تحریک ِعدم تعاون کے دوران مسلمانوں کی جانب سے وقف اراضی پر متعدد اسکول، کالج اور ادارے قائم کیے گئے۔ ملک کے نوجوانوں میں تعلیم، مذہبی بیداری اور تربیت کو فروغ دینے کے لیے مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کے علاوہ، مسلمانوں نے وقف بھی قائم کیے جن سے حاصل ہونے والی آمدنی مجاہدین آزادی کی حمایت کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ آج بھی کئی ریاستوں میں کانگریس پارٹی کے دفاتر مسلمانوں کی جانب سے عطیہ کی گئی زمینوں پر قائم ہیں۔ مثال کے طور پر پٹنہ میں صداقت آشرم مولانا مظہر الحق کی زمین پر قائم ہے۔
ہندستان میں وقف قانون کی تاریخ 1810ء سے شروع ہوتی ہے۔ ابتداً وقف املاک کی نگرانی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ قاضیوں (ججوں ) کے ذریعے کی جاتی تھی۔ تاہم مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد اوقاف کی حالت خراب ہونے لگی اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قوانین بنائے گئے۔ 1810ء میں کلکتہ کے فورٹ ولیم کے ما تحت علاقوں کے لیے ایک قانون منظور کیا گیا تھا، اس کے بعد 1817ء میں فورٹ سینٹ جارج، مدراس کے علاقوں کے لیے اسی طرح کا قانون منظور کیا گیا تھا۔
1818ء میں وقف املاک کی نگرانی بورڈ آف ریونیو اور بورڈ آف کمشنرز کو سونپی گئی۔ اس کے بعد 1863ء میں تمام سابقہ قوانین کو منسوخ کر دیا گیا اور مذہبی اوقاف کو متولیوں کے دائرہ اختیار میں رکھ دیا گیا جب کہ حکومت نے بقیہ وقف املاک کا انتظام برقرار رکھا۔ اس قانون سازی نے مذہبی وقف اور خیراتی وقف کے درمیان فرق قائم کیا۔ مزید برآں، 1890ء کے چیریٹیبل انڈومنٹ ایکٹ نے خیراتی وقف جائیدادوں کو ٹرسٹ کے طور پر گردانا اور ان کی مستقل دیکھ بھال کے تصور کو ختم کر دیا۔
وقف املاک کو ختم کرنے کا عمل برطانوی راج میں شروع ہوا تھا۔ وقف املاک کو نہ صرف ذاتی اثاثوں کے طور پر فروخت اور منتقل کیا گیا بلکہ انگریزوں نے ایسی پالیسیاں بھی نافذ کیں جن کی وجہ سے ان کی تباہی اور ان پر تسلط کی راہیں ہموار ہوئیں۔ 1873ء میں بامبے ہائی کورٹ نے ’وقف علی الاولاد‘ کے خلاف فیصلہ جاری کیا، جو آنے والی نسلوں کے لیے قائم کردہ وقف کی ایک قسم ہے۔ اس فیصلے کو بعد میں 1894ء میں پِریوی کونسل نے برقرار رکھا۔ تاہم جب اسی طرح کا معاملہ کلکتہ ہائی کورٹ میں آیا تو جسٹس عامر علی نے وقف بل کے حق میں فیصلہ سنایا۔ ان کے برطانوی ساتھیوں نے اس فیصلے کی مخالفت کی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ برطانوی ججوں کی اس مخالفت نے ملک میں وقف بل کے لیے احتجاج کو جنم دیا، جس سے مسلمانوں کی تشویش میں اضافہ ہوا۔
الہٰ آباد یونیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شفاعت احمد خان کی اردو کتاب ’مملکت ہند میں مسلم اوقاف کا انتظام‘ اس دور پر روشنی ڈالتی ہے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ ہندوستان میں بہتر وقف قوانین کا مطالبہ برطانوی حکمرانی کے دوران 1875ء کے اوائل میں ابھرا تھا جب قانون سازی کے ذریعے سے وقف املاک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ سرسید احمد خان نے 1875ء میں وقف کے زیر اہتمام آل انڈیا ایجوکیشنل کانفرنس قائم کی۔ 1887ء میں کانفرنس کے سالانہ اجلاس کے دوران ہندوستان میں وقف سے متعلق ایک قرارداد پیش کی گئی۔ اسی طرح کی قرارداد 1903ء میں بھی پیش کی گئی تھی۔ اس کے بعد مختلف ریاستوں اور صوبوں میں وقف بل پیش کیے گئے۔
1910ء میں ہندوستان میں مسلمانوں کو تبدیلی کا موقع اس وقت ملا جب بیرسٹر سر علی امام نے حکومت ہند میں وزیر قانون کا عہدہ سنبھالا۔ انہوں نے اپنے قانونی ساتھیوں کے ساتھ وقف کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، جس سے اہم پیش رفت ہوئی۔ قابل ذکر ہے کہ کلکتہ کے ایک مشہور وکیل خان بہادر مولوی محمد یوسف نے امپیریل کونسل میں وقف بل پیش کیا تھا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس وقت ہندوستان میں ’وقف علی الاولاد‘ سے متعلق کوئی خاص قانون سازی نہیں ہوئی تھی۔
2/ مارچ 1911ء کو سر علی امام نے وقف بل پیش کیا جس میں اس معاملے پر مسلمانوں کے جذبات کو اجاگر کرنے کی اہمیت پر زور دیا گیا۔ انہوں نے وقف سے متعلق اسلامی قانون کے بارے میں غلط فہمیوں کا حوالہ دیتے ہوئے خدشہ ظاہر کیا کہ بل پیش کرنے میں ناکامی مسلم برادری میں عدم اطمینان کا باعث بن سکتی ہے۔ سر علی امام نے برطانوی حکومت کے سامنے اس بل کی انتھک وکالت کی اور بالآخر امپیریل کونسل سے منظوری حاصل کی۔ اس کے نتیجے میں 7/ مارچ 1913ء کو ’مسلم وقف ویلیڈنگ ایکٹ 1913‘ نافذ کیا گیا۔ اس کے بعد سے وقف ایکٹ میں لگاتار ترمیم کی جا رہی ہے، جن میں سب سے حالیہ ترمیم 2013ء میں ہوئی تھی۔ فی الحال وقف ایکٹ کے آئینی جواز کو چیلنج کرنے والی ایک عرضی سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے۔
عدالت نے زور دے کر کہا ہے کہ وقف ایکٹ ایک ریگولیٹری فریم ورک کے طور پر کام کرتا ہے جس کا مقصد وقف املاک کی حفاظت کرنا ہے۔ اس قانون کو منسوخ کرنے سے صرف تجاوزات کرنے والوں کو فائدہ ہو گا۔ مزید برآں، عدالت نے واضح کیا کہ وقف بورڈ ایک قانونی ادارہ ہے اور وقف املاک کا مالک نہیں ہے۔
آزادی کے بعد وقف بورڈ
وقف ایکٹ پہلی بار 1954ء میں پارلیمنٹ میں نافذ کیا گیا تھا لیکن بعد میں اسے منسوخ کر دیا گیا تھا۔ 1995ء میں پی وی نرسمہا راؤ کی قیادت والی کانگریس حکومت کے تحت اسے دوبارہ متعارف کرایا گیا تھا، جس نے وقف بورڈ کو اراضی کے حصول کے وسیع اختیارات دیے تھے۔ یو پی اے حکومت کے تحت 2013ء میں مزید ترامیم نے وقف بورڈ کو اضافی خود مختاری اور اختیار فراہم کیا۔
وقف بورڈ ایک ریاستی سطح کا قانونی ادارہ ہے جو اسلامی قانون کے تحت مذہبی یا خیراتی مقاصد کے لیے عطیہ کردہ جائیدادوں کے انتظام اور نگرانی کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ ”وقف“ کی اصطلاح کا مطلب ہے ’اللہ کے نام پر‘، جس کا استعمال ان زمینوں کے حوالے سے کیا جاتا ہے جو افراد یا اداروں کی ملکیت نہیں بلکہ مسلم کمیونٹی کے لیے بطور امانت رکھی گئی ہیں۔ ان میں مساجد، مدارس، قبرستان، عیدگاہیں اور مقبرے شامل ہیں۔ ہندوستان میں 30 وقف بورڈ ہیں، جن کا صدر دفتر عام طور پر ریاستی دارالحکومتوں میں ہوتا ہے، اور وہ سنی وقف بورڈ اور شیعہ وقف بورڈ میں تقسیم ہوتے ہیں۔
یہاں یہ عرض کر دینا بھی ضروری ہے کہ ہندستان میں کل 32 ریاستی سطح کے وقف بورڈ ہیں۔ اس کے علاوہ، ایک مرکزی وقف کاونسل موجود ہے، جو ملک بھر میں وقف املاک کے تحفظ کے لیے ذمہ دار ایک خود مختار ادارہ ہے۔
سنی اور شیعہ وقف بورڈوں کے درمیان فرق کے بارے میں وقف ایکٹ کی دفعہ 13 (2) میں علیحدہ بورڈوں کے قیام کے معیار کا تعین کیا گیا ہے۔ اگر کسی ریاست میں شیعہ وقف املاک کی تعداد اس ریاست کی تمام وقف املاک کے 15 فیصد سے زیادہ ہے، یا اگر شیعہ وقف جائیدادوں سے حاصل ہونے والی آمدنی اس ریاست کی تمام وقف املاک سے ہونے والی کل آمدنی کے 15 فیصد سے زیادہ ہے، تو ریاستی حکومت کو گزٹ میں نوٹیفکیشن کے ذریعے ایک علیحدہ شیعہ وقف بورڈ قائم کرنے کا اختیار حاصل ہے۔
فی الحال ہندوستان کی صرف دو ریاستوں بہار اور اتر پردیش میں الگ الگ شیعہ وقف بورڈ موجود ہیں۔
افعال اور ذمہ داریاں
سینٹرل وقف کونسل کی ویب سائٹ کے مطابق، وقف بورڈ مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو وقف املاک کے انتظام کے بارے میں مشورہ دیتا ہے۔ اس کی ذمہ داریوں میں درج ذیل امور شامل ہیں:
- جائیداد کا انتظام: وقف املاک کا نظم و نسق، کھوئی ہوئی جائیدادوں کی بازیابی اور کم از کم دو تہائی بورڈ کے اتفاق کے ساتھ منتقلی کی منظوری۔
- قانونی نگرانی: وقف املاک کے تحفظ اور بازیابی اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے قانونی مشورہ فراہم کرنا۔
- آمدنی کا انتظام: اس بات کو یقینی بنانا کہ وقف املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی اسلامی اصولوں اور عطیہ دہندگان کی خواہشات کے مطابق استعمال کی جائے۔
- مذہبی اور سماجی مدد: مساجد، قبرستانوں، درگاہوں، اسکولوں، ہسپتالوں اور دیگر سماجی بہبود کے اداروں کی مدد کرنا۔
- تعلیمی اور فلاحی پروگرام: غریبوں بالخصوص خواتین کو ہنر مند بنانے اور بااختیار بنانے کے لیے اسکیموں پر عمل درآمد۔
کارپوریٹ ڈھانچہ
وقف بورڈ کارپوریٹ ادارے ہیں جن کی مستقل جانشینی اور ایک مشترکہ مہر ہے۔ وہ جائیداد حاصل کرسکتے ہیں اور رکھ بھی سکتے ہیں۔
سینٹرل وقف کاونسل
اسے 1964ء میں قائم کیا گیا۔ سینٹرل وقف کاونسل وقف بورڈ کے معاملات پر مرکزی حکومت کو مشورہ دیتی ہے۔
اختیارات کی توسیع
1995ء کے وقف ایکٹ نے اصل 1954 ء ایکٹ کی جگہ لی، جس سے وقف بورڈ کے اختیارات میں نمایاں اضافہ ہوا۔ یو پی اے حکومت کے تحت 2013ء کی ترامیم نے ان کی خود مختاری میں مزید اضافہ کیا، جس سے زیادہ مضبوط انتظامیہ اور وقف املاک کے تحفظ کی اجازت دی گئی۔
موجودہ بحث اور مجوزہ ترامیم
مودی حکومت کی مجوزہ ترامیم نے تنازعہ کو جنم دیا ہے۔ حالیہ کابینہ کے اجلاس میں مبینہ طور پر وقف ایکٹ میں تقریباً چالیس تبدیلیوں کو منظوری دی گئی تھی، اور یہ بل جلد ہی پارلیمنٹ میں پیش کیا جا سکتا ہے۔ دیگر تبدیلیوں کے علاوہ، ان ترامیم کا مقصد وقف بورڈ کی جائیدادوں کو وقف کے طور پر نامزد کرنے کے اختیار کو منسوخ کرنا ہے۔
اپوزیشن رہنماؤں نے مجوزہ ترامیم پر تنقید کی ہے۔ سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے بی جے پی پر وقف بورڈ کی جائیدادوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے کا الزام لگاتے ہوئے الزام لگایا کہ بی جے پی اور آر ایس ایس اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے آئین کے ساتھ کھلواڑ کررہے ہیں۔ انہوں نے ترامیم پر عوامی بحث کے فقدان اور ملک کے سیکولر اور جمہوری تانے بانے پر ان کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا۔
کانگریس لیڈر اور سابق وزیر وقف محمد عارف نسیم خان نے الزام لگایا کہ حکومت وقف بورڈ کی جائیدادوں کو اپنے ساتھیوں میں تقسیم کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ مجوزہ بل وقف املاک کے لیے قائم قانونی تحفظات کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بورڈ کے اندر شفافیت اور صنفی تنوع کو بڑھانے کے لیے وقف ایکٹ میں ترمیم کرنے کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔ بی جے پی لیڈر اجے آلوک سمیت کچھ سیاسی لیڈروں کا استدلال ہے کہ بورڈز میں بہتری کی ضرورت ہے، جب کہ دیگر، جیسے اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسد الدین اویسی، ان ترامیم کو ایک بڑے ”ہندوتوا ایجنڈے“ کے حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔
وقف بورڈ مسلم مذہبی اور سماجی زندگی کو سپورٹ کرنے کی ذمہ داری کے ساتھ اہم جائیدادوں کا انتظام کرنے والے طاقتور ادارے ہیں۔ ان کے وسیع اختیارات اور حالیہ توسیع نے بحث کو جنم دیا ہے اور اصلاحات کا مطالبہ کیا ہے۔ مودی حکومت کی طرف سے مجوزہ ترامیم اس جاری بحث میں تازہ ترین پیش رفت ہیں، جس سے ہندوستان میں وقف املاک کے انتظام پر اہم اثرات مرتب ہوں گے۔