آخرت اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے۔ انسان کی زندگی سے اگر آخرت کا تصور نکال دیا جائے تو وہ ایک آزاد، خود مختار، سرکش اور ظالم حیوان بن جاتا ہے۔ اس کے بعد دنیا میں کسی بھی خیر کو اپنانے کا جواز اور کسی بھی ظلم و شر سے باز رہنے کا اصل محرک انسان کے پیش نظر نہیں رہ جاتا۔ انسان کا اپنا نفس کسی حد تک برائی پر ملامت ضرور کرتا ہے لیکن اس کے ہوائے نفس انتہائی قوی ہوتے ہیں جو اسے ہر ظلم اور طغیانی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ رات کے اندھیرے میں یا تنہائی کے عالم میں جب کوئی بھی نگاہ انسان پر نہ ہو تب برائی سے رکنا، یا طاقت رکھتے ہوئے کمزوروں پر ظلم سے باز آنا اسی وقت ممکن ہے جب اس کے دل میں یہ خوف ہو کے آخرت کے روز اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ہر عمل کا حساب دینا ہے۔
اللہ تعالی اپنے کلام میں کہیں اختصار کے ساتھ تو کہیں تفصیل سے آخرت کی جھلکیاں پیش کرتا ہے۔ جب بندہ آخرت کے متعلق ان آیات کا مطالعہ کرتا ہے تو گویا وہ آخرت کے مناظر کا عینی شاہد بن جاتا ہے۔ جب وہ ہولناک مناظر اپنی تمام تفصیلات کے ساتھ بندے پر عیاں ہوتے ہیں تو دل انتہائی خوفزدہ، نفس مضطرب اور روح کانپ اٹھتی ہے۔ انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہےکہ کاش میں مٹی ہوتا یا کوئی جانور ہوتا تاکہ آخرت کے محاسبہ سے بچ جاتا۔
آخرت کے مراحل
آخرت کے لامتناہی سفر کا آغاز قیامت سے ہوتا ہے۔ ابتدا میں اللہ تعالی کے حکم سے ایک صور پھونکا جائے گا۔ جس کے نتیجے میں ساری کائنات فنا ہو جائے گی۔ جن مربوط و مستحکم قدرتی مناظر کا ہم ہر روز مشاہدہ کرتے ہیں ان کاسارا نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ دوسرے مرحلے میں دوبارہ صور پھونکا جائے گا تب سارے انسان حشر کے ایک چٹیل میدان میں انتہائی دشوار کن حالات میں اپنے رب کے حضور اٹھ کھڑے ہوں گے۔ یہ وہ موقع ہوگا جہاں ہر نفس وحشت زدہ ہوگا اور اس خیال میں بدحواس ہوگا کہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے گا۔ تیسرا مرحلہ حساب و کتاب کا ہوگا جہاں انسان کے اعمال تولے جائیں گے اور آخری مرحلہ جزا و سزا کا ہوگا جہاں احسن اعمال کے بدلے جنت اور نافرمانیوں کے بدلے جہنم کا فیصلہ کیا جائے گا۔
آخرت کی قرآنی تعبیرات
اللہ تعالی قیامت کو النَّبَاِ الۡعَظِیۡمِ (ایک بڑی خبر) کہتا ہے۔ جس طرح میڈیا کسی اہم خبر کی طرف لوگوں کی توجہ حاصل کرنے اور اس کی اہمیت کو بڑھانے کے لیے ‘بریکنگ نیوز’ کہتے ہیں۔ حقیقی معنی میں انسان کے لیے سب سے بڑی بریکنگ نیوز قیامت ہوگی جس دن انسان کی مہلت عمل ختم ہو جائے گی۔ ایک جگہ اللہ تعالی قیامت کو الطَّآمَّۃُ الۡکُبۡرٰی (ایک بڑی آفت) سے تعبیر کرتا ہے۔ یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی آفت ہوگی۔ کئی زلزلے اور طوفان وارد ہوئے، مختلف وبائی امراض کی آفت میں دنیا مبتلا ہوئی لیکن اپنی تباہی و بربادی کے اسکیل میں یہ تمام آفتیں آخرت کے مقابلے میں بہت ہی محدود ثابت ہوں گی۔ قیامت کی آفت ساری کائنات کے مٹنے کا سبب ہوگی۔
قیامت کو اللہ تعالی یَوۡم الدِّیۡنِ(انصاف کا دن) کہتا ہے۔ اللہ تعالی عادل ہے۔ انصاف کو پسند کرتا ہے۔ موجودہ تناظر میں ہماری نظر غزہ کے مظلوم و محکوم مسلمانوں پر پڑتی ہے جن پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں، پچھلے پانچ مہینوں سے لگاتار ان کا قتل عام کیا جا رہا ہے اور پوری دنیا مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی صفت عدل کا تقاضہ یہ ہے کہ ایسے ظالموں کو سخت ترین سزا دی جائے۔
قرآن میں قیامت کو یَوۡمُ التَّغَابُنِ (وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا) کہا گیا ہے۔ دنیا میں بعض دفعہ اہل ایمان ناکام اور کفار کامیاب نظر آتے ہیں۔ کبھی حق مغلوب اور باطل غالب اور توانا نظر آتا ہے۔ مظلوم مایوس اور ظالم خوشحال نظر آتا ہے۔ لیکن قرآن کی رو سے یہ دنیا کامیابی اور ناکامی کی ضامن نہیں ہے۔ اصل ہار جیت کا دن تو آخرت کا دن ہے جہاں کی کامیابی اور ناکامی مستقل اور پائیدار رہنے والی ہے۔
مجرمین کا حال
قیامت کے روز مجرمین کی نفسیاتی کیفیت کو اللہ تعالی اس طرح پیش کرتا ہے۔
- قُلُوۡبٌ یَّوۡمَئِذٍ وَّاجِفَۃٌ۔ کچھ دل ہوں گے جو اس روز خوف سے کانپ رہے ہوں گے۔ (النازعات :8)
- اَبۡصَارُہَا خَاشِعَۃٌ۔ نگاہیں ان کی سہمی ہوئی ہوں گی۔ (النازعات :9)
- خَاشِعَۃً اَبۡصَارُہُمۡ تَرۡہَقُہُمۡ ذِلَّۃٌ۔ ان کی نگاہیں نیچی ہوں گی، ذلت ان پر چھا رہی ہوگی۔ (القلم: 43)
- یَقُوۡلُ الۡکٰفِرُ یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا۔ اور کافر پکار اٹھے گا کہ کاش میں خاک ہوتا۔ ا لنبا: 40
- نَادَوۡا یٰمٰلِکُ لِیَقۡضِ عَلَیۡنَا رَبُّکَ ؕ قَالَ اِنَّکُمۡ مّٰکِثُوۡنَ۔ وہ پکاریں گے، اے مالک (جہنم کے داروغہ)، تیرا رب ہمارا کام ہی تمام کر دے تو اچھا ہے۔ وہ جواب دے گا، تم یوں ہی پڑے رہوگے۔ (الزخرف :77)
درج بالا آیات قیامت کے روز مجرمین کی بے بسی، محکومی، خوف ودہشت، حسرت ویاس کی ترجمانی کرتی ہیں۔ دنیا میں تو یہ لوگ خدا بن بیٹھے تھے اور حق سے انکار کی روش پر نفسانی خواہشات کی اطاعت کے ساتھ گامزن تھے کہ یکایک یوم عسیر (سخت دن) نے انہیں آ دبوچا۔ یقینا اللہ تعالی کا فرمان ہے: اِنَّ بَطۡشَ رَبِّکَ لَشَدِیۡدٌ۔ درحقیقت تمہارے رب کی پکڑ بڑی سخت ہے۔ (البروج: 12)
آخرت کی زندگی میں مجرموں کو ان نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم رکھا جائے گا جو انہیں دنیا میں عطا کی گئی ہیں۔ مثلاً ٹھنڈا پانی ہمارے لیے بہت بڑی نعمت ہے جس کے بغیر انسانی زندگی ناقابل تصور ہے۔ وہ ہماری پیاس بجھاتا اور سکون فراہم کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جہنم میں پیاس کی کیفیت کو تو برقرار رکھے گا لیکن اس کے بجھانے کے لیے کھولتے ہوئے چشموں کا پانی اور زخموں سے رستہ ہوا بدبودار پیپ مہیا کرے گا جس سے وہ پیاس کبھی نہ بجھ سکے گی۔
دنیا میں ہماری بقا کے لیے اللہ تعالیٰ نے ہمہ اقسام کی سبزیاں، اناج، پھل اور میوے مہیا کیے ہیں جو ہمیں توانائی بخشتے اور بھوک کے ازالے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ لیکن دوزخیوں کو ہمیشہ کے لیے ان لذیذ غذاؤں سے محروم رکھا جائے گا۔ بھوک کا داعیہ تو ہوگا جس کو مٹانے کے لیے خار دار درخت دیا جائے گا۔
لَاٰکِلُوۡنَ مِنۡ شَجَرٍ مِّنۡ زَقُّوۡمٍ۔ تم شجر زقوم کی غذا کھانے والے ہو۔ (الواقعہ: 52) زقوم کا درخت ایک خاردار درخت ہے جو غذا کی نالی کو چیرتا ہوا پیٹ میں جائے گا جس کی خصوصیت یہ ہوگی۔ لَا یُسۡمِنُ وَ لَا یُغۡنِیۡ مِنۡ جُوۡعٍ۔ جو نہ موٹا کرے نہ بھوک مٹائے۔ (الغاشیہ :7)
سب سے اذیت ناک چیز آگ ہوگی جو ان کا مقدر ہوگی۔ آگ ان مجرمین کا اوڑھنا بچھونا اور ہمیشہ کے لیے ان کی رفیق ہوگی۔ دنیا میں اگر آگ ذرا سا چھو جائے تو انسان شدید تکلیف محسوس کرتا ہے مگر آخرت میں آگ ہی دوزخیوں کا مسکن ہوگی۔ آگ کی تفصیل کو اللہ تعالی درج ذیل آیت میں بیان کرتا ہے:
- وَ مَاۤ اَدۡرٰکَ مَا ھیَہۡ۔ نَارٌ حَامِیَۃٌ۔ اور تمہیں کیا خبر کہ وہ کیا چیز ہے؟ بھڑکتی ہوئی آگ۔ (القاریہ: 10)
- الَّذِیۡ یَصۡلَی النَّارَ الۡکُبۡرٰی۔ ثُمَّ لَا یَمُوۡتُ فِیۡہَا وَ لَا یَحۡیٰی۔ (جو بڑی آگ میں جائے گا۔ پھر نہ اس میں مرے گا اور نہ جیے گا۔ (الاعلیٰ:13)
- اِنَّہَا تَرۡمِیۡ بِشَرَرٍ کَالۡقَصۡرِ۔ کَاَنَّہٗ جِمٰلَتٌ صُفۡرٌ۔ (وہ آگ محل جیسی بڑی بڑی چنگاریاں پھینکے گی، جو اچھلتی ہوئی یوں محسوس ہوں گی گویا کہ وہ زرد اونٹ ہیں۔ (المرسلات: 33)
- فَالَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا قُطِّعَتۡ لَہُمۡ ثِیَابٌ مِّنۡ نَّارٍ۔ ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا ان کے لیے آگ کے لباس کاٹے جاچکے ہیں۔ (الحج: 20)
- یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ۔ جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے۔ (الاحزاب: 66)
خلاصہ کلام
آخرت کی یاد اور جواب دہی کا احساس ہی وہ ذریعہ ہے جو نفس کو لگام لگانے پر قادر ہے۔ یہ چیز اگر نظروں سے اوجھل ہو جائے تو انسان دنیا میں ظلم و نا انصافی اور نافرمانی کی تمام حدود کو توڑتا ہے۔ دوسرے ہم عصر انسانوں کے حقوق غضب کرتا ہے۔ تمام زندگی نفس کا غلام بنا پھرتا ہے۔ ایسے انسان سے حقیقی معنی میں کسی بھی قسم کے خیر کی توقع نہیں کی جاسکتی۔ انسان لاکھ کوشش کرلے، کئی خود ساختہ نظریات گھڑ لے نت نئے قوانین وضع کرلے لیکن عقیدہ آخرت کے بغیر امن و سکون، مساوات و اخوت اور حقیقی آزادی کی منزل کو وہ کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ اس کی مثال اس مسافر کی سی ہے جو اپنی منزل کی مخالف سمت میں سفر کرے اور یہ گمان کرے کہ وہ منزل کو حاصل کرلےگا۔
اہل ایمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہردم آخرت کی فکر کو تازہ رکھیں۔ جواب دہی کے احساس کو اپنے افعال اور افکار پر غالب رکھیں۔ امید اور خوف کے ساتھ اللہ کی بندگی کو بجا لائیں۔ امید اس بات کی کہ اللہ تعالی ہماری کوتاہیوں سے درگزر کرے گا، ہماری کوششوں کو قبولیت عطا کرتے ہوئے محض اپنی رحمت سے آخرت کی کامیابی سے سرخ رو کرے گا۔ خوف اس بات کا کہ کہیں ہماری سعی و جہد اللہ کے نزدیک قابل قدر نہ ٹھہرے اور ہماری کوتاہیوں اور بد اعمالیوں کے نتیجے میں دوزخ ہمارا مقدر نہ بن جائے۔ انسان کی حقیقی کامیابی یہ ہے کہ وہ دوزخ کی آگ سے بچا لیا جائے اور جنت میں داخل کر دیا جائے۔ یہ دنیا کی زندگی تو آزمائش کے پرچے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔