انبیاء ورسل کے شب و روز، ان کی دعوتی جدوجہد اور اس راہ میں آنے والے مصائب و مشکلات کاقرآن مجید کی روشنی میں مطالعہ کریں تو یہ بات بہت روشن ہو کر سامنے آتی ہے کہ انبیاؑ کو غیر معمولی آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، انھیں دعوتِ توحید سے روکنے کے لیے ہر طرح کے حربے اختیار کیے گئے، ڈرایا دھمکایا، مارا ستایا حتیٰ کہ وطن سے ہجرت کرنے پربھی مجبور کیا گیا ہے۔ امام الانبیاحضرت ابراہیمؑ کو ان تمام مراحل کا سامنا کرنا پڑا، انھیں معمولی زد وکوب کرنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ انھیں آگ میں جھونک دیا گیا، وطن سے ہجرت کرنا پڑی، بیوی بچوں کو بے آب وگیاہ میدان میں تن تنہا چھوڑ نا پڑا، اللہ تعالی کے حکم کی بجا آوری میں یبٹے کی قربانی جیسی اہم آزمائش سے گزرنا پڑا۔
آزمائش میں کھرے اترے
حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کی زندگی کا ہردور قربانی، آزمائش، مشکلات اور اللہ تعالیٰ کے ہرحکم پر لبیک کہنے سے عبارت ہے۔ سنِ شعور کو پہنچے تو تلاش حق کی جستجو ہوئی، باپ کو بت فروش اور بت گر دیکھا، اسی طرح کا ماحول ان کے پورے سماج کا تھا، ہر شخص خدا ئے واحد کو چھوڑ کر بے جان پتھروں کی پوجا کرتا تھا۔ اس بت پرستی نے انہیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ان کے اندر یہ سوال پیدا ہوا کہ
کیا ان اصنام کی پوجا کی جاسکتی ہے، جس کا انہوں نےاپنے والد آزر کے سامنے برملا اظہار کیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ لِأَبِيهِ آزَرَ أَتَتَّخِذُ أَصْنَامًا آلِهَةً ۖ إِنِّي أَرَاكَ وَقَوْمَكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ (الانعام:74)
“ابراہیم ؑ کا واقعہ یاد کرو جب کہ اس نے اپنے باپ آزر سے کہا تھا؛ کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تو تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں۔”
اسی طرح ا ن کی قوم ستاروں، سورج چاند اور کائنات کے مظاہر کی بھی پوجا کرتی تھی، جس کا تذکرہ قرآن مجید نے بڑے دلکش انداز میں کیا ہے۔ ان آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات کی کو ئی چیز یا کوئی ہستی پرستش کے لائق نہیں ہے؛ کیوں کہ دنیا کی ہر چیز ناپائدار اور ختم ہونے والی ہے، سوائے خدائے واحد کی ذات کے۔ اسی کی ذات لا زاول ہے اور لائق عبادت و پرستش بھی۔ ستاروں اور دوسرے مظاہر فطرت پر غور کرکے حضرت ابرہیم علیہ السلام نے ان کی حقیقت پوری قوم کے سامنے واضح کر دی اور ببانگ دہل پوری قوم سے کہا کہ یہ سب خدا نہیں ہو سکتے۔ یہ اعلان ہی اپنے مذہبی گھرانے اورقوم سے کھلی مخالفت اور کھلی جنگ تھی۔ اب یہیں سے حضرت ابراہیم ؑ کی قربانی کا آغازہوتا ہے۔ نبوت سے سرفراز ہوئے تو اپنے باپ کو راہِ راست پر لانے کی ہر ممکن کوشش کی اور ان کے سامنے بتوں کے بے بس، بے ضرر اور غیر نفع بخش ہونے کو بیان کیا۔ اندازِ تخاطب میں اپنائیت ہے، اظہارِ محبت ہے اور اس جذبہ کا اظہار ہے جو انسان اپنے کسی قریب ترین کو سمجھانے اور بجھانے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہوئے کرتا ہے۔ صراط ِ مستقیم پر لانے کے لیے انھیں عذاب ِ الیم سے بھی ڈرایا۔
یہی دعوت جب اپنی قوم کو دی تو پوری قوم ان کے قتل کے درپے ہوگئی اور انھیں آگ میں جھونک دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت وعنایت سے اس آگ کو ان کے لیے ٹھنڈا کر دیا۔ قرآن مجید میں اس کا بڑےدل نشیں پیرائے میں تذکرہ کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قَالُوا حَرِّقُوهُ وَانصُرُوا آلِهَتَكُمْ إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ - قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ (الانبیاء :68-69)
“انھوں نے کہا: جلا ڈالو اس کو حمایت کرو اپنے خدا ؤں کی اگر تمھیں کچھ کرنا ہے۔ہم نے کہا “اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر۔”
اپنے باپ، قوم اور بادشاہِ وقت کو دعوت توحید دی، خدا کی بندگی کی طرف بلا یا، لیکن جب وہ اس کے لیے آمادہ نہ ہوئے اور ان کی جان کے درپے ہو گئے تو وہاں سے ہجرت کرگئے۔
بڑھاپے میں بیٹے کی ولادت ہوئی، اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا کہ اسے بے آب و گیاہ میدان میں چھوڑ آؤ تو اللہ تعالیٰ کے اس حکم کو بسر وچشم قبول کر تے ہوئے اور اللہ پر توکل کرتے ہوئے انھیں وہاں چھوڑ دیا۔ بچہ جب دوڑ دھوپ کی عمر کو پہنچ گیا تو خواب میں دیکھا کہ اسے ذبح کر رہے ہیں، تو باپ اور بیٹے دونوں نے رب کی مرضی کے آگے سر تسلیم خم کردیا۔ حضرت ابراہیم ؑ کا اپنے بیٹے کی قربانی دینے کا فیصلہ اور رب کی رضا کے آگے اپنی عزیز ترین شئے جو ان کے بڑھاپے کا سہارا تھی، اسے بھی اللہ تعالیٰ کی خاطر قربان کردینے کے لیے تیار ہو گئے۔یہ جذبہ اللہ تعالیٰ کو اتنا پسند آیا کہ رہتی دنیا تک کے لیےان کے اس جذبہ اور سر تسلیم خم کرنے کے عمل کو اللہ تعالیٰ نےسنت کے طور پر جاری کر دیا۔ قرآن مجید میں با پ بیٹے کے اس واقعے کو نہایت دل پذیر انداز میں نقل کیا گیا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَىٰ فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَىٰ ۚ قَالَ يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّهُ مِنَ الصَّابِرِينَ (الصافات :102)
“وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کو پہنچ گیا تو (ایک روز ) ابراہیمؑ نے اس سے کہا :بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا تیرا کیا خیال ہے؟اس نے کہا، اباجان، جوکچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاء اللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے۔”
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیمؑ کو مختلف آزمائشوں میں مبتلا کیا، وہ ہر طرح کی آزمائش میں ثابت قدم رہے اور خدا کے ہر فیصلے پرصدق دل اور یقین محکم کے ساتھ عمل پیرا ہوئے۔قرآن مجید میں ان کی آزمائشوں کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ (البقرۃ: 124)
یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا اور وہ ان سب میں پورا اتر گیا۔”
مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ؒ (م 1979ء)اس آیت کی تفسیر میں رقم طراز ہیں: “قرآن میں مختلف مقامات پر ان تمام سخت آزمائشوں کی تفصیل بیان ہوئی ہے، جن سے گزر کر ابراہیم ؑ نے اپنے آپ کو اس بات کا اہل ثابت کیا کہ انھیں بنی نوع انسان کا امام و رہنما بنایا جائے۔ جس وقت حق ان پر منکشف ہوا، اس وقت سے لے کر مرتے دم تک ان کی پوری زندگی سراسر قربانی ہی قربانی تھی۔ دنیا میں جتنی چیزیں ایسی ہیں، جن سے انسان محبت کرتا ہے، اُن میں سے کوئی چیز ایسی نہ تھی، جس کو حضرت ابراہیم ؑ نے حق کی خاطر قربان نہ کیا ہو۔ اور دنیا میں جتنے خطرات ایسے ہیں، جن سے آدمی ڈرتا ہے، اُن میں سے کوئی خطرہ ایسا نہ تھا، جسے انھوں نے حق کی راہ میں نہ جھیلا ہو۔” ( تفہیم القرآن جلداول ص110 )
حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائش کا تذکرہ قرآن مجید کی درج ذیل سورتوں اور آیات میں ہوا ہے۔الصفٰت :106، الانبیاء:63، ابراہیم:37، الممتحنۃ:4، النحل :123
حنیفاً مسلماً
حضرت ابراہیم ؑ کی سیرت کے حوالے سے قرآن مجید میں حنیفاً مسلماً اور وما کان من المشرکین کے الفاظ آئے ہیں۔ یہ دونوں الفاظ ان کی شخصیت، ان کا اللہ کی ذات پر ایمان، اللہ سے تعلق، اللہ کے لیے یکسوئی اور اللہ کے لیے ہر طرح کی قربانی دینے سے عبارت ہیں۔
حینف کا لفظ مکمل یکسو ہوجانے کے لیےآتا ہے اور مسلماً سر تسلیم خم کرنے پر دلالت کرتا ہے۔ یہی ان کی شخصیت کا سب سے جامع اور اہم تعارف ہے۔ ان کی زندگی میں آنے والی ہر آزمائش، ہر مشکل اور ہر مرحلے میں کھرا اُترنے کی صلاحیت دراصل ان کی اللہ تعالیٰ سے کمٹمنٹ کا نتیجہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے اپنے آپ کو ہر طرح سے کاٹ کر اسی کا ہو کر رہ جانے والی صفت کا مظہر ہے۔
شرک سے بے زاری
حضرت ابراہیم ؑ کی دوسری صفت شرک سے بے زاری اور نفرت کی تھی۔ انھوں نے اپنے گھر بت فروشی دیکھی تو سخت بیزار ہوئے۔ بت خانے میں تمام چھوٹے بتوں کو توڑ کر بڑے بت کے گلے میں کلہاڑی ڈال دی۔ ابراہیم ؑ کا یہ اقدام معمولی قسم کانہیں تھا۔ انھیں اس کے سخت نتائج کا انداز ہ تھا، وہ قوم کے سامنے جوابدہی کے لیے تیار تھے۔اپنے موقف پر ایسا غیر متزلزل یقین یقیناً انبیاء کی شخصیت کا لازمی وصف ہوتا ہے۔ابراہیم ؑ نے اپنی قوم کو بت پرستی اور شرک سے روکنے کے متعدد طریقے اختیار کیے۔ انھوں نے ہر ممکن کوشش کی کہ قوم شرک اور بت پرستی سے باز آجائے۔
ہمارے یہاں بالعموم حضرت ابراہیمؑ کی سیرت کے تذکرے میں قربانی کے واقعے کو خصوصیت سے بیان کیا جاتا ہے اور اسے ہی ان کی زندگی کا اہم حصہ قرار دیا جاتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اشارے پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کے لیے بغیر کسی تردد اور حزن و غم کے فوراً آمادہ ہوگئے اور بیٹے حضرت اسماعیل ؑ نے بھی باپ کی نیک دعا اور صالح تربیت کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ ابا جان جو رب کی جانب سے حکم ہوا ہے، اسے کر گزریے آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیں گے۔ آپ مجھے جم جانے والوں میں پائیں گے، میرے قدم پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ بلاشبہ یہ واقعہ بھی ابراہیم ؑ کی بے نظیر قربانی اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو بسر وچشم قبول کرنا ان کی شخصیت کا بہت روشن پہلو ہے۔
درس ابراہیمیؑ
بہ حیثیت مجموعی جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی کا آغاز واختتام اسی طرح کی قر بانیوں سے ہوا۔ جب وہ اللہ تعالیٰ کے امتحان میں کھرے اترے تو ان پر انعامات کی بارش ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی ذریت میں انبیاء کو مبعوث کیا، انہیں امام الانبیاء کا لقب عطا کیا، آخری نبی حضرت محمدﷺ کو ان کے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ کی نسل میں پیدا کیا۔
سیرت ابراہیم ؑ کا سبق یہی ہے کہ اللہ کی خاطر جینے مرنےکا فیصلہ کیا جائے، اسی کے لیے عبادت ہو، اسی کے آگے جھکا جائے۔ اس کے ہر فیصلے کو من وعن قبول کیا جائے، ہر طرح کی آزمائش میں ثابت قدمی کا ثبوت دیا جائے۔ قرآن مجید کی اس آیت کو حرزِ جاں بنانا چاہیے۔ارشاد باری ہے:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿١٦٢﴾
”کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے۔“
یہی درس ابراہیمی ہے، یہی مقصد محمدی ؐ بھی اور یہی تمام انبیاء کا مقصد بعثت بھی رہا ہے۔ لہذا امت مسلمہ بھی اللہ تعالی کی راہ میں آنے والی ہر پریشانی و مشکلات کا سامنا کرے، گھبرائے نہیں، پیچھے نہ ہٹے، جم کر مقابلہ کرے۔ بچ کر نہ نکلے بلکہ قربان ہونے اور قربانی دینے کا جذبہ پیدا کرے۔
(مضمون نگار ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی، علی گڑھ میں ریسرچ فیلو ہیں۔)