ہیگ گروپ کی تشکیل: عالمی سطح پر فلسطین کی بڑھتی حمایت کا نمایاں مظہر

محمد مدثر
جولائی 2025

یہ دنیا کی پہلی ایسی نسل کشی (Genocide) ہے جسے ساری دنیا لائیو دیکھ رہی ہے۔

 اسرائیل کی جانب سے غزہ میں مسلسل جاری نسل کشی پچھلے چند مہینو ں سے اپنی انتہا پر پہنچ چکی ہے۔ اب وہ ہتھیاروں کے ساتھ پانی و غذا کی قلت کے ذریعے غزہ کو سطح ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ غزہ میں پچھلے چار ما ہ سے غذائی اشیاء و ادویات کی آمد پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹوں کے مطابق امدادی سامان سے لیس تقریباً 6000 گاڑیاں (ٹرکس) مصر و اردن کے سرحدوں پر روکی ہوئی ہیں۔ ان ٹرکوں کو غزہ تک پہچانے میں آج دنیا کا ہر ملک ناکام ہو چکا ہے۔

دی گارڈین کے مطابق پچھلے 24 گھنٹوں میں اسرائیل کےحملوں میں 72 فلسطینی جان بحق ہوگئے، ساتھ ہی بھوک کی وجہ سے 15 لوگــ جس میں دیڑھ ماہ کا نومولود بچہ بھی شامل ہےــ شہید ہو گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ریلیف ورک ایجنسی (UNRWA) کے مطابق بھوک وغذا کی قلت سے مرنے والوں کی تعداد 1000 تک پہنچ چکی ہے۔ یواین آر ڈبلیو اے کے سربراہ نے اس صورتحال پر اپنی بے بسی ظاہر کر تے ہوئے کہا کہ ایجنسی کے افراد بھی غذا کی قلت کی وجہ سے انتہائی کمزور ہو گئے ہیں اور ان پربے ہوشی کا غلبہ طاری ہوتا ہے۔ انہوں نے غزہ کی افسوس ناک صورت حال کی تصویر کشی کر تے ہوئے کہا کہ” زمین پر غزہ کو جہنم بنا دیا گیاہے”۔

یہ دنیا کی پہلی ایسی نسل کشی (Genocide) ہے جسے ساری دنیا لائیو دیکھ رہی ہے۔ لیکن عالمی قوتوں اور مغربی ایشیاء کے مسلم ممالک کی حالت زار کا کیا ہی کہنا کہ وہ انتہا درجے کی بے حسی و سنگ دلی میں ڈوبے ہوئے ہیں اور نسل کشی کو روکنے سے معذور ہیں۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ عالمی قوتیں اور مغربی ایشیاء کے چند مسلم ممالک بھی اس نسل کشی میں برابر کے شریک ہیں۔

چند روز قبل القسام بریگیڈ کے ترجمان کی ویڈیو منظر عام پر آئی، جس میں انہوں نے غزہ کے ساتھ اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی مسلسل جارحیت پر دنیا کی خاموشی کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نےاس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ دنیا کے طاقتور ممالک نے اسرائیل کو ہتھیار پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جس سے غزہ کی نہتی عوام پر بم اور گولیاں برسائی جارہی ہیں۔ فلسطینی (عوام ) پانی و ادویات سے محروم ہیں اور بھوک سے مر رہے ہیں۔ ابوعبیدہ نےعرب اور مسلم ممالک کی دھوکہ دہی کی مذمت کر تے ہوئے مسلم دنیا کے قائدین، اشرافیہ اور علماء کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم خدا کے سامنے اس حال میں حاضر ہو ں گے کہ تم ہر یتیم، بیوہ اور بے گھر بچوں کے مخالف رہے۔

ایک طرف جہاں فلسطین کے ارد گرد موجود مسلم ممالک(1) کا ایمان سرد پڑ چکا ہے، وہیں دوسری طرف جنوبی دنیا کے ممالک اس نسل کشی، ظلم کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے لئے میدان عمل میں آگئے ہیں۔ چاہے وہ جنوبی افریقہ کا بین الاقوامی عدالت انصاف میں گہار لگانا ہو یا چند ممالک کا مل کر ہیگ گروپ تشکیل دینا، اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ دنیا میں کچھ ایسے باضمیر سربراہانِ مملکت بھی موجود ہیں جو اس سنگین ظلم کے خلاف آواز اٹھارہے ہیں۔

اسی سال کے جنوری مہینے میں گلوبل ساؤتھ(2) کے چند ممالک نے مل کر ایک گروپ تشکیل دیا جس کا نام ہیگ گروپ (Hague Group) رکھا گیا۔ یہ گروپ اسرائیل – فلسطینی تنازعہ کے سلسلے میں بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) اور بین الاقوامی فوجداری عدالت (ICC) کے فیصلوں کے تحفظ ا ور انہیں برقرار رکھنے کے لئے تشکیل دیاگیا ہے۔ یعنی اس کا مقصد اسرائیل کو آئی سی سی اور آئی سی جے کےسامنے جوابدہ بنانا ہے۔ اس گروپ کی شروعات نوممالک سے ہوتی ہے، جس کے سربراہی اجلاس میں اس بات کو دو ٹوک انداز میں بیان کیا گیا کہ (یہ گروپ)”فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو ختم کرنے ، فلسطینی عوام کی حقِ آزادی اور ان کی آزاد ریاست فلسطین کے قیام کے حصول کے لئے اپنی حمایت و تائید جاری رکھے گا۔”

16/ جولائی 2025 کو اس گروپ کی ایک ہنگامی میٹنگ کولمبیا کے دارالحکومت بوگوٹا (Bogota) میں منعقد ہوئی ، جس میں دنیا بھر سے 30 ممالک کے نمائندگان نے شرکت کی(3)۔ ہیگ گروپ نے اس سربراہی اجلاس میں اسرائیل کے خلاف ایک مشترکہ بیان جاری کیا، جس پر 12 ممالک نے دستخط کیے، ان میں بولیویا، کیوبا، انڈونیشیا، عراق، لیبیا، ملیشیا، نامیبیا، نکاراگوا، عمان، گرینیڈائنز، سینٹ ونسنٹ اور جنوبی افریقہ شامل ہیں۔ یہ مشترکہ بیان کل چھ نکات پر مشتمل ہے، جس کا خلاصہ یوں ہے کہ یہ بارہ ممالک :

  • اسرائیل کو اسلحہ، گولہ بارود، فوجی ایندھن اور متعلقہ فوجی سازوسامان کی فراہمی یا منتقلی کو روکیں گے۔
  • کسی بھی بندرگاہ پر جہازوں کی نقل و حرکت،ٹھہراؤ (ڈاکنگ) اور سروسنگ کو روکیں گے، ان تمام صورتوں میں جہاں ہتھیاروں، گولہ بارود، فوجی ایندھن اور متعلقہ فوجی سازوسامان اسرائیل لے جانے کے لیے جہاز کے استعمال ہونے کا واضح خطرہ ہو۔ یعنی اسرائیل کو اسلحہ منتقل کرنے والے جہازوں پر پابندی۔
  • (ان ممالک کے) پرچم والے جہاز اسلحے، گولہ باروداورفوجی ایندھن لے جانے سے روکیں گےاور اس ممانعت کی عدم تعمیل کے لیے مکمل جوابدہی کو یقینی بنائیں گے۔
  • تمام عوامی معاہدوں کا فوری جائزہ شروع کریں گے، تاکہ سرکاری اداروں اور فنڈز کو فلسطینی سرزمین پر اسرائیل کے غیر قانونی قبضے اور اس کی غیر قانونی موجودگی کی حمایت کرنے سے روکا جا سکے۔
  • تمام متاثرین کے لیے انصاف اور مستقبل میں ہونے والے جرائم کی روک تھام کو یقینی بنانے(کے لیے کوشاں رہیں گے) ، جس میں بین الاقوامی قانون کے تحت مضبوط، غیر جانبدارانہ اور آزاد تحقیقات اور قانونی کارروائیوں کے ذریعےانتہائی سنگین جرائم کرنے والوں کے لیے احتساب کو یقینی بنانا(شامل ہے)۔
  • مقبوضہ فلسطینی علاقے میں ہونے والے بین الاقوامی جرائم کے متاثرین کے لیے انصاف کو یقینی بنانے(کے لیے کوشاں رہیں گے)۔ قومی قانونی فریم ورک اور عدلیہ میں جہاں قابل اطلاق ہو، عالمی دائرہ اختیار کے مینڈیٹ کی حمایت کریں گے۔ یعنی مقبوضہ فلسطین میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرنے والا کوئی اسرائیلی فوجی ان بارہ ممالک میں کہیں چلاجائے تو وہیں پر وہ ملک اس فوجی پر کارروائی کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ جب ان بارہ ممالک نے ہتھیاروں سے اسرائیل کی مدد نہیں کی تو پھر انہوں نے ایسا فیصلہ کیوں کیا۔۔؟ یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہےکہ آنے والے دنوں میں ہیگ گروپ کے ساتھ ان ممالک کے بھی جڑنے کا امکان ہے جنہوں نے اسرائیل کو ہتھیار مہیا کئے ہیں۔ گلوبل ساؤتھ کے ممالک کا دنیا کے بیشتر سمندری علاقے پر اختیار ہے، جہاں سے جہازوں کو گزرنا ہوتا ہے۔ ا ن نکات پر جیسے ہی عمل شروع ہوگا ویسے ہی اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والوں کے ہاتھ رک جائیں گے۔ درج بالاچھ نکات میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ اسرائیل کا وہ فوجی جس نے نسل کشی میں اپنا کردار ادا کیا ہے،اگر ان بارہ ممالک میں کہیں چلا جائے تو وہاں کی حکومت کو اختیار ہے کہ وہ اس پر کارروئی کرے۔ اس معاملے میں دنیا کے دوسرے ممالک نے کارروائی شروع کر دی ہے۔ جیسےمالدیپ نے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں پر اپنی سرزمین میں داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔

گذشتہ تقریباً دو سال کے عرصے میں بظاہر اسرائیل اپنا زمینی رقبہ بڑھانے میں کامیاب ہوا ہے۔ لیکن وہیں وہ دن بدن دنیا بھر میں الگ تھلگ ہوتا جارہا ہے۔ جس کی جیتی جاگتی مثال ہیگ گروپ کے قیام کاعمل میں آنا ہے۔ہیگ گروپ کی اس کارروائی کے بعد بھی دنیا بھر میں یہ عام تاثر پایا جا رہا ہے کہ اسرائیل اس کے بعد بھی اپنی حیوانیت جاری رکھے گاکیوں کہ دنیا کے بڑے ممالک اس کی پشت پناہی میں لگے ہوئے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ بات یاد رکھنا چاہیے کہ جنوبی افریقہ میں نسل پرست حکومت (Apartheid Regime) کا اختتام زبردست اندونی مزاحمت اور بین الاقوامی سطح پر ترقی پذیر ملک کے دباؤ ہی سے شروع ہوا تھا۔ ہندوستان وہ پہلا ملک تھا جس نے اپارتھائیڈ کے خلاف عالمی آواز اٹھائی، اور جنوبی افریقہ کے ساتھ سفارتی تعلقات کو ختم کیا تھا۔ وقت کے ساتھ دنیا کے طاقت ور ممالک نے بھی اس اپارتھائیڈ حکومت پر پابندیاں عائد کیں۔ جس کے نتیجے میں جنوبی افریقہ میں اپارتھائیڈ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ امید کی جاسکتی ہے کہ آنے والے وقت میں اسرائیل کی نسل پرست حکومت کا بھی اختتام ہوجائے گا۔

بیان کے گئے چھ نکات پر عمل درآمد 20 ستمبر تک کے لئے موخر کیا گیا ہے۔ کیوں کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پچھلے سال ستمبر میں اسرائیل کو خبردار کیا تھا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی سے بازآجا ئے اور اگر وہ اپنے اس ظالمانہ فعل سے باز نہیں آئے گا تو اقوام متحدہ کے ممالک اسرائیل پر قانونی کارروائی کر نے کا اختیار رکھتے ہیں۔ ہیگ گروپ یہ امید کر رہا ہے کہ آنے والے ستمبر ماہ میں اس کے ساتھ دنیا کے دیگر ممالک (بشمول یوروپی ملکوں کے) بھی ساتھ آئیں گے اور کثیر الجہتی کے ساتھ اسرائیل کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

بلجیم (Belgium) کی حالیہ کارروائی اس کی ایک زبردست مثال ہے۔ بلجیم میں دو اسرائیلی فوجی ایک موسیقی فیسٹول میں شامل تھے۔ اطلاع ملنے پربلجیم کے حکام نے غزہ میں بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزامات کی بنیاد پراسرائیلی فوج کے ان دو ارکان سے پوچھ گچھ کی ہے۔ حالاں کہ بلجیم ان بارہ ممالک میں شامل نہیں ہے۔ لیکن وہ جنیوا کنوینشن کا حصہ ہے، جس کی بنا پر اس نے ان اسرائیلی فوجیوں پر کارروائی کی ہے۔

اسی کے ساتھ ایک بڑی پہل یوروپی ممالک(4) اور جاپان کی جانب سے دیکھی جاسکتی ہے۔ جس میں اٹھائیس ممالک نے مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے غزہ میں شہریوں سمیت معصوم بچوں کی بے دردی سے قتل وغارت کی مذمت کی ہے اوراسرائیل سے غزہ پر جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ نیز فرانس کے صدر نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ ستمبر کے ماہ میں ہونے والی یو این جنرل اسمبلی میں فلسطین کو ایک ریاست کی حیثیت سے تسلیم کریں گے۔ان تمام کارروائیوں پر ایک عام اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ یہ بیان بازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے جبکہ یہی لوگ نسل کشی کے پشت پناہ بھی ہیں۔ لیکن بدلتے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہوتی ہے کہ یوروپی ممالک کی عوام میں اسرائیل کے خلاف غصہ و نفرت بڑھتا جارہا ہے، اور اس عوامی دباؤکے نتیجے میں ان ممالک کےسربراہان، اسرائیل کے ساتھ گٹھ جوڑ ہونے کے باوجود، اس کے خلاف بیانات جاری کرنے پر مجبور ہورہے ہیں۔ اسرائیلی لابی امریکہ کی طرح یوروپی ممالک( بالخصوص بر طانیہ) میں بھی سرگرم ہے۔ لیکن وہ یوروپ پر اس طرح حاوی نہیں ہے جس طرح امریکہ پر حاوی ہے۔ مستقبل میں یوروپ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف مزید پختہ کارروائی کے امکانات واضح نظر آرہے ہیں۔ جس کی بنا پر اسرائیل کی راہیں تنگ ہونے کا قوی امکان ہے۔

اسرائیل کے خلاف تمام بین الاقوامی قانونی کارروائیوں کا سہرا جنوبی افریقہ کے سر جاتا ہے جس نے سب سے پہلے آئی سی جے میں اسرائیل کے خلاف نسل کشی کامقدمہ دائر کیا تھا۔ جنوبی آفریقہ کی مثال اس شعر کی مانند ہے کہ

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

 

1) یمن اور لیبنان اس سے مستثنیٰ ہیں۔

2) گلوبل ساؤتھ یعنی ترقی پذیر معیشتوں کا ایک خطہ، جس میں افریقہ، لاطینی امریکہ اور کیریبین، ایشیا (اسرائیل، جاپان اور جنوبی کوریا کو چھوڑ کر)، اور اوشیانا (آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کو چھوڑ کر) شامل ہیں۔

3) 30 ریاستیں جن میں قابل ذکر چین، برازیل، اسپین، میکسیکو، ترکی، بنگلہ دیش اور قطر شامل ہیں۔

4) یوروپی ممالک میں قابل ذکر آسٹریلیا، فرانس، اٹلی، اسپین اور برطانیہ وغیرہ۔

 

 

(مضمون نگار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی حیدر آباد میں ریسرچ اسکالر ہیں)

حالیہ شمارے

وقف ترمیمی قانون: مضمرات اور مطلوب جدوجہد

شمارہ پڑھیں

علمی معیار کی بلندی

شمارہ پڑھیں