غالب ہے اب تعلیم پر معبودِ حاضر کا اثر

مجاہد الاسلام مخدومی حسام الدین

پیش نظر مضمون میں بھارت کے نظام تعلیم کا تاریخی پس منظر، اس کے کمزور پہلو اور اس کا حل پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

انسانی سماج میں علم کی بہت اہمیت ہے۔ انسانی تاریخ گواہ ہے کہ قوموں کے عروج و زوال کا محرک ہمیشہ علم رہا ہے۔ علم کی ترویج کے لیے جو تعلیم دی جاتی ہے، جو نظام کھڑا کیا جاتا ہے وہ ایک مشین کی مانند ہے جو خام مال کو پائیدار اور کارآمد مال میں تبدیل کرتی ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ  جس طرح کا نظام ہوگا اسی نوعیت کے افراد تیار ہوں گے۔ ملک عزیز کا بھی  ایک اپنا تعلیمی نظام ہے جو کچھ خوبیوں کے ساتھ کئی خامیاں بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔  اس تحریر کا مقصد انہی قابل توجہ پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔

تاریخی پہلو

بھارت کے  تعلیمی نظام کو مکمل سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد اور قیام کے پس منظر کو سمجھنا ضروری ہے۔ بھارت میں  باقاعدہ منظم تعلیمی نظام  کی شروعات انگریزوں نے کی۔ ملک پر قبضہ کرنے کے بعد ان  کے سامنے دو بڑے چیلنجز تھے۔ پہلا مسئلہ  بھارتیوں کے ساتھ ترسیل و تبادلہ خیال(کمیونیکیشن)کا تھا۔ دوسرا،  چونکہ انگریزوں نے معاشی استحصال کی غرض سے  حکومت قائم  کی تھی لہٰذا انہیں بڑے پیمانے پر تعلیم یافتہ مزدوروں کی ضرورت تھی۔ ان اغراض کو پورا کرنے کے لیے انہیں ایک تعلیمی نظام کی ضرورت تھی۔ لہذا چنندہ ماہرین  تعلیم اور مفکرین کو اس کام کے لیے مختص کیا گیا۔ اس طرح ملک  کو باضابطہ طور پر ابتدائی تعلیمی نظام 1835 ء میں انڈین ایجوکیشن  ایکٹ 1835ء کی صورت میں ملا۔ گزرتے وقت کے ساتھ اس میں  کافی ترمیم کی گئی اور وسیع پیمانے پر یہ ایکٹ 1854ء  میں انڈین ایجوکیشن ایکٹ  1854ء    کے طور پر نافذ ہوا۔  تھامس ببینگٹن میکولے کو بھارتی تعلیمی نظام کا بانی مانا جاتا ہے،  جس نےمغربی اور انگریزی تعلیم کے نفاذ  کا نظریہ پیش کیا اور اسے باضابطہ نافذ کرنے کی جدوجہد بھی کی۔ ہنٹر کمیشن اور سیڈلر کمیشن نے اس نظام کو مزید وسیع کرنے اور گہرائی تک پہنچانے کا کام کیا۔ تھامس بی میکولے، سر چارلس ووڈ، سر مائیکل ای سیڈلروہ کلیدی افراد تھے جنہوں نے ایک  باضابطہ تعلیمی نظام کی صورت گری کی ۔لارڈ ولیم بینٹنک، جو اس وقت بھارت کے گورنر جزل تھے،  نے مجوزہ نظام کی عملی بجاآوری کے لیے مضبوط کام کیا۔

جن مقاصد کے لیے یہ نظام  کھڑا کیا گیا تھا  وہ ان ہی حکمرانوں کے الفاظ سے واضح ہو جاتا ہے۔ میکولے  نے کہا تھا، ”مغربی تعلیم ایک ایسی نئی نسل کی تخلیق کرے گی جو رنگ و نسل کے اعتبار سے بھارتی ہوگی، لیکن ذوق، آراء، اخلاق، عقل اور ذہنیت کے اعتبار سے فرنگی ہوگی“۔ لارڈ ولیم بینٹنک کے الفاظ تھے، ”ہم کوشش کریں کہ ایک ایسی نسل تشکیل دیں جو ہمارے اور ہمارے زیر حکومت کروڑوں لوگوں کے درمیان ترجمان کا کردار ادا کرے۔ ایس نسل جو رنگ و نسل میں بھارتی ہو لیکن ذہنیت اس کی فرنگی ہو“۔ لارڈ کرزن  جو 1899ء  سے 1905ء  کے درمیان بھارت کے وائسرائے تھے،  نے کہا تھا ”میرا خیال ہے کہ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہ ہوگی کہ بھارت کا پورا مستقبل عوام کی تعلیم کو بہتر بہانے کے اس سوال پر منحصر ہے، جس تعلیم کو ہم نے دیا ہے۔ اس نے کیا کیا؟ اس نے ہمیں کلرکوں کی فراہمی کی ہے۔ اس نے ہمیں پولیس کی فراہمی کی ہے۔ اس نے اس سے زیادہ کچھ نہیں کیا۔“ اس دور کے ان کلیدی کرداروں  کے بیانات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ بھارتی تعلیمی نظام کس مقصد کے تحت نافذ کیا  گیاتھا۔ اس کے بعد مزید صراحت کی ضرورت  باقی نہیں رہ جاتی ۔

بھارتی تعلیمی نظام میں بہت سی بنیادی اور اصولی خرابیاں ہیں جس کی طرف عام طور پر توجہ نہیں دی جاتی ہے۔ انہیں ہم یکے بعد دیگرے  موضوعِ بحث موضوع بنائیں  گے۔

بھارتی تعلیمی نظام کے کمزور پہلو

1۔ الحادی بنیادیں   
چونکہ بھارت کا تعلیم نظام مغرب ہی کا عطا کردہ ہے اس لیے اس میں ہر وه خامی پائی جاتی ہے جو مغرب کے تعلیمی نظام میں موجود ہے۔ فرانس کے انقلاب کے بعد یورپ میں مذہب بیزارگی کا ایک بڑا سیلاب اٹھا، جس کے نتیجے میں  زندگی کے ہر گوشہ سے مذہب کو بے دخل کیا جانے لگا۔ تعلیم سے بھی مذہب کی بنیادوں کو نکال دیا گیا اور محض طبعی تعلیم باقی رہ گئی۔روسو کو جدید تعلیم کا امام مانا جاتا ہے۔فریڈرک ہربرٹ، روسو، وائٹ ہیڈ  جیسے مفکرین نے تعلیم سے مذہبی بنیادیں نکالنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم کی بنیاد اب الحاد بن گئی۔الحاد کو بنیاد بنائے جانے کے بعد حصول علم کی پہلی سیڑھی سے لے کر آخری سیڑھی تک طالب علم کائنات کی سچائی سے، انسان کے بنائے جانے کے مقصد سے پوری طرح نابلد رہتا ہے۔ اس کے ذہن میں یہی سوچ رہتی ہے اور  جدید تعلیم یہی سوچ پروان چڑھاتی ہے کہ چند اتفاقات ہیں جو یکے بعد دیگرے وقوع پذیر ہورہے ہیں اور اسی طرح یہ نظام چل رہا ہے۔ اس کا کوئی چلانے والا خالق و مالک نہیں ہے۔ انسان خود قادر ہے کہ اپنی عقل کے اعتبار سے نظام  بنائے، انسان ہی میں سے کوئی ایک سب کا حاکم ہو اور وہی اپنی حاکمیت نافذ کرے۔

چونکہ اس تعلیمی نظام کا ایک حصہ مسلم طلبہ بھی تھے۔ لہذا دانشوروں اور دینی حلقوں میں  بھی یہ مدعا زیر بحث رہا۔ مسلم معاشرے میں جدید تعلیم کے حوالے سے  دو الگ الگ نظریات رائج ہوگئے۔ پہلا یہ کہ مسلم طلبہ کو جدید تعلیم دی جائے اور ساتھ ہی اسلامیات کے کچھ اسباق بھی پڑھا دئیے  جائیں تاکہ ان کا  اسلام سے ربط بنا رہے۔ اسی نظریہ کی بناء پر سرسید احمد خان نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی۔ دوسرا نظریہ  وہ تھا جس کی بنیاد پر مدارس قائم   تھے۔ یہ اس بات پر مبنی تھا کہ  طلبہ کو جدید تعلیم سے مکمل طور پر قطع تعلق رکھا جائے اور تعلیم خالص دینی علوم اور فقہ کی دی جائے۔

پہلا طریقہ تعلیم وقتی طور پر بہتر ضرور تھا۔ لیکن اس سے دوررس نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے۔ اس میں طالب علم،  علم کا وہ بیشتر حصہ حاصل کرتا جس کی بنیاد ہی الحاد ہوتی۔ معاشی اصول، معاشرتی اور قانونی ضوابط سب وہی پڑھائے جاتے جو انسانوں ہی کے ایجاد کردہ ہیں۔ اور برائے نام اسلامیات کی کچھ کتابیں اضافی طور پر پڑھا دی جاتیں جس سے یہ گمان کیا جانے لگا کہ طلبہ اسلام ہی کے پیروکار رہیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ طلبہ پر جدید تعلیم کا اثر زیادہ ہوا اور اسلام محض ایک ضمیمہ بن کر رہ گیا۔ چونکہ اسلام کے اصول پوری دلیل کے ساتھ پڑھائے نہیں گئے اورتدریسی اعتبار سے  دونوں علوم میں جدید علوم کو مرکزی جگہ دی گئی ، لہذا اسلام کو لے کر شکوک و شبہات جنم لینے لگے۔ اسلام کو محض اعتقادات اور رسومات کا مجموعہ سمجھا گیا۔ اس تعلیم سے طلبہ اسلام سے قریب ہونے کے برخلاف اسی پر سوالیہ نشان کھڑا کرنےلگے۔ نتیجتاً علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سےبڑی تعداد میں  کمیونزم  اور جدید نظریات ہی کے پیروکار نکلے۔

 دوسرا طریقہ تعلیم مدارس کا تھا ، جس میں خالص دینی علوم پر توجہ دی گئی۔ طلبہ کو محض قرآنیات اور فقہ کی تعلیم تک محدود رکھا گیا‌۔اس کی وجہ سے طلبہ جدید تعلیم اور جدید نظریات سے نابلد رہتے۔ اسلام کے معاشی، معاشرتی اور قوانین کے اصولوں پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اسلام کو بحیثیت آفاقی نظام پیش کرنے میں کمی رہی۔ جدید نظریات کا تنقیدی جائزہ لے کر اسلام کی بنیاد پر مدلل رد تیار کرنے، اسلامی فکر کو بحیثیت نظام پرزور اور مدلل انداز میں پیش کرنے سے مدارس قاصر رہے۔ جدید نظریات کا تنقیدی اور تقابلی جائزہ کرتے ہوئے  ان کی اصولی خرابیاں اجاگر نہیں کی گئی۔ نتیجتاً مدارس کی تعلیم فقہی مسائل اور مسلکہ مباحث ہی میں الجھ کر رہ گئی۔ توقع یہ تھی کہ مدارس نہ صرف امت بلکہ ملک کی رہبری کریں گے اور  اسے عدل و انصاف کے اصولوں پر چلائیں گے، اس کے  برخلاف نتیجہ یہ نکلا کہ فارغین مدارس مسجد کی امامت اور مکاتب میں تدریس ہی  کےکاموں  پر اکتفاء کرنے لگے۔ دینی اور دنیوی علوم جیسی دو اصطلاحات نے جنم لیا۔ دینی اور دنیوی علوم کو علیحدہ تصور کیا جانے لگا۔ دین اور دنیا ایک دوسرے سے  آزاد عناصر بن گئے۔ دونوں میں کوئی ربط قائم نہ کیا جاسکا۔ اس تصور سے پھر وہی نتیجہ برآمد ہوا کہ اسلام محض چند اعتقادات اور رسومات کا مجموعہ ہے۔ اسے بدلتی دنیا سے کوئی سروکار نہیں۔ معاشرے کے  تحت الشعور میں یہ بات جاگزیں رہی  کہ ترقی مقصود ہوتو جدید علوم حاصل کرنا ضروری ہے۔

 یہ نظریہ اپنے آپ میں اسلام کی روح کے منافی ہے۔ اسلام میں دینی اور دنیوی علوم جیسی کوئی اصطلاح نہیں ہے۔ ہر وہ علم جو اللہ کی رضا اور انسانی فلاح و بہبود کے لیے حاصل کیا جائے و دینی علم ہے۔ شرط یہ ہے کہ وہ اسلام کے اصولوں کے خلاف نہ ہو۔

بھارتی تعلیمی نظام کی الحادی بنیاد ، وہ بڑا اصولی مسئلہ ہے جس کا شکار دوسری قومیں ہو نہ ہو، لیکن امت مسلمہ اس کی کاری ضرب کا شکار ہوئی۔

2۔ مقصد تعلیم
بھارتی تعلیم نظام میں دوسرا بڑا نقص مقصد کے حوالے سے  ہے۔ تعلیم کا اصل معیار یہ ہے کہ طالب علم کے  اخلاق و کردار میں بہتری ہو اور معاشرے کی کمان وہ لوگ سنبھالیں جو اخلاق و کردار میں اعلیٰ ہوں۔ تعلیم کے ذریعے صالح افراد تیار ہوں  اور ایسے نظام کی سربراہی کریں جس میں غیر اخلاقی عوامل پنپنے نہ پائے۔ ہمارے ملک کی صورتحال سے سبھی بخوبی واقف ہیں۔ بڑے بڑے تعلیم یافتہ آفیسرکرپشن میں ملوث ہیں، بوڑھے ماں باپ کواولڈ ایج ہوم میں بھیجنے والوں کی بڑی تعداد انہی لوگوں کی ہے جو تعلیم یافتہ کہلاتے  ہیں۔ دھوکہ دہی، فریب اور مکاری کو معیوب سمجھا ہی نہیں جاتا ہے۔این سی آر بی  کی رپورٹ کے مطابق 2020ء  میں گرفتار ہونے والے ایسے  مجرموں کی تعداد %17 تھی، جو  گریجویٹ یا  پوسٹ گریجویٹ تھے۔ 2010ء  کے بعد یہ شماریات %10 بڑھے ہیں۔ سنٹر فار سوشل جسٹس کی رپورٹ کے مطابق 2010ء  سے 2019ء  کے درمیان کرپشن میں ملوث %45 تعلیم یافتہ افراد تھے۔ای ڈی کی رپورٹ کے مطابق  2015ء   سے 2020ء کے درمیان منی لانڈرنگ کے معاملات میں ملوث  %30 افراد تعلیم یافتہ   تھے۔

بھارتی تعلیمی نظام میں اخلاق کبھی مقصد کا جز  رہا ہی نہیں۔ اگر کسی درجہ میں  رہا بھی تو بس کتابی حد تک موجودرہا۔ اخلاقیات سے متعلق چند اسباق پڑھا دیے جاتے ہیں،  جو محض اپنا تحریری اثر رکھتے ہیں، طالب علم کی زندگی میں وہ راسخ نہیں ہو پاتے۔ اخلاقی قدروں کی کمی دراصل  تعلیم کی پہلی ہی بنیاد کا صریح رد عمل ہے۔ اخلاقی تعلیم مذہب ہی کے ذریعے ممکن ہے۔ اخلاق اور مذہب دونوں ایک دوسرے سے  باہم مربوط ہیں۔ کسی بھی نظام سے مذہب کو نکال دیا جائے تو اس کا واضح رد عمل یہی ہوتا ہے کہ اس نظام سے اخلاقی قدریں بھی چلی جاتی ہیں۔ جب تعلیمی نظام سے مذہب ہی کو نکال دیا گیا تو وہ کون سے اصول باقی رہیں گے جن کی بنیاد پر اخلاقی تعلیم دی جا سکے گی؟

اسی نکتہ کو اس وقت کے بڑے مغربی مفکرین نے بھی سمجھا اور وہ اس کے اعتراف کے لیے مجبور ہوئے۔برٹرینڈ رسل جیسے انتہا پسند دہریے کو بھی یہ قبول کرنا پڑا اور اس کے یہ الفاظ تھے کہ ”اگر سائنسی تہذیب کو برتر تہذیب بنانا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ معلومات میں اضافے کے ساتھ ساتھ حکمت میں بھی اضافہ ہو۔ حکمت سے میری مراد زندگی کی غایات کا صحیح تصور ہے مگر یہ وہ شے ہے جس کو سائنس مہیا نہیں کر سکتی۔“ شیٹو بریون نے کہا تھا ”تعلیم مذہبی بنیادوں کے بغیر ایسی ہے گویا انسان کو ذہین شیطان بنایا جاتا ہو“۔ جی کے کیسٹرٹن کے مطابق ”میں پہلے یہ خیال کرتا تھا کہ سیکولر تعلیم ترقی کی راہ ہے، لیکن اب میں یہ سمجھنے لگا ہوں کہ یہ طلبہ کو اخلاقی طور پر بے راہ کرتی ہے، ان میں زندگی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ایک رہنمائی کی کمی ہوتی ہے“۔ لیو ٹالسٹائی نے کہا تھا ”تعلیم کا مقصد مکمل شخصیت کو تراشنا ہوتا ہے۔ اورسیکولرائزیشن  روح کو عدم توجہ کی طرف لے جاتا ہے۔ اخلاقی بنیاد کے بغیر علم ایک تباہ کن قوت بن سکتی ہے“۔ والٹیر، جان اسٹورٹ مل، جین-پال سٹر جیسے کئی مفکرین جو کبھی لامذہبی تعلیم کے حامی اور  مبلغ تھے،  اس کے نتائج سے دوچار ہوکر وہ بھی اعتراف کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اس نظام کا مقصد جب اخلاق نہیں رہا تب حکومت کی جانب سے تعلیمی نظام کا مقصد یہی قرار پایا کہ تعلیمی مزدور تیار کیے جائیں  جو تعلیم حاصل کرنے کے بعد  ایک نوکری پر اکتفا کرلیں‌۔

 اس کے متوازی ،تعلیم کے حصول کے لیے طلبہ کے جانب سے بھی مقصد یہی رہا کہ ذریعہ معاش کا حصول ہو۔ علامہ اقبال نے اس کا نقشہ کچھ یوں کھینچا کہ

عصر حاضر ملک الموت  ہے تیرا، جس  نے
قبض کی روح تری دے کے تجھے، فکر معاش

تعلیم حاصل ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ کچھ پیسے کما لیے جائیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جس طرف زیادہ معاشی فائدہ ہوتا ہے وہاں مسابقت خوب بڑھ جاتی ہے۔ یہ دوڑ  مزید آگے بڑھ کرغیرصحت مند مسابقت کا رخ اختیار کر لیتی ہے۔ جس سے طلبہ ذہنی بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔  طلبہ ایک ہی دھارے کی طرف بڑی تعداد میں بہتے چلے جاتے ہیں۔ ہم سبھی دیکھتے آئے ہیں کہ بھارتی تعلیم نظام کاسائنس اسٹریم کی جانب جھکاؤ زیادہ ہے۔ طلبہ دوسرےاسٹریم کو چاہ کر بھی اس لیے نہیں اختیار کرپاتے کیونکہ وہاں معاشی وسائل کی کمی ہوتی ہے۔ نظام ایسا بن گیا ہے کہ مخالف سمت میں جانا حد درجہ دشوار ہے۔ لہذا ایک طالب علم کو نہ چاہتے ہوئے اس بہاؤ کا حصہ بننا پڑتا ہے۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ تعلیم کو معاش کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ تعلیم کے ذریعے صالح، با اخلاق و باکردار قائدین تیار کرنا مقصود نہیں رہا۔ اخلاقی قدریں نہ ہونے کی بنیادی وجہ تعلیمی نظام سے مذہب کو نکال دیا جانا  ہے۔اس طرح  سارے مسائل باہم مربوط ہیں۔

3۔ دیگر اسباب
یہ چند اصولی مسائل ہیں جن سے تعلیمی نظام دوچار ہے۔ ایسی کئی ضمنی خامیاں ہیں جن کی جڑیں کہیں نہ کہیں الحادی بنیاد اور مقصد کی کمی سے جا کر ملتی ہے۔ انہیں بھی ذکر کیے دیتے ہیں :
ماہر تعلیم بتاتے ہیں کہ  کسی بھی تعلیمی نظام کو  دو مقاصد کے تحت چلایا جاسکتا ہے،  اول یہ کہ طلبہ کے اندر صلاحیتوں کو پروان چڑھانا مقصود ہو۔ دوم یہ کہ طلبہ کو چھانٹنا مقصود ہو۔ ہمارا نظام دوسرے مقصد کے تحت کام کرتا ہے۔ طلبہ کو مستقل الگ الگ مسابقتی امتحانات کے ذریعے چھانٹا جاتا ہے۔ تعلیم اس لیے نہیں دی جاتی کہ صلاحیتیں پروان چڑھے ،بلکہ اس لیے دی جاتی ہے کہ وہ مخصوص امتحانات میں  کامیاب ہوسکیں۔  محض حافظہ امتحان میں اعلیٰ نشانات کا ذریعہ بن گیا ہے۔   امتحان سے محض  ایک دن قبل سارا مواد اکٹھا کیا جائے اور اگلے روز پیپر میں اگل دیا جائے تو بھی  قابل لحاظ مارکس مل جاتے ہیں۔ اس طرح جسے جتنے زیادہ مارکس ملے،  اسے اتنا کامیاب مانا جاتا ہے۔ کامیابی کا پیمانہ صلاحیتیں نہیں بلکہ مارکس بن چکے ہیں۔ تعلیم کا مکمل دارومدار اچھے مارکس اور اچھی جاب پر ہے،  جس نے یہ حاصل نہیں کیا گویا اس نے کچھ حاصل نہیں کیا۔

یہ اسی نظام تعلیم کا ثمرہ ہے کہ  12 سال  کا ایک طالب علم لینگویج کا کوئی مضمون پڑھتا ہے لیکن اس کے باوجود وہ اس زبان کو روانی سے سیکھ نہیں پاتا۔ نصاب ایسا  ہے جو اصل زندگی سے مطابقت ہی نہیں رکھتا۔ بچپن سے  ریاضی کے مختلف ضابطے (فارمولے) پڑھتے آئے ہیں، جیسے

ہوتا ہے۔ لیکن اصل عملی زندگی میں اسے استعمال کہاں کرنا ہے کوئی نہیں جانتا۔ نصاب بھی وہی ہے جو مختصر رد و بدل کے ساتھ صدیوں سے چلا آرہا ہے۔ بدلتے دور کے ساتھ اس میں تبدیلیاں دیکھنے نہیں ملتی۔ ہر طالب علم کو اس کی استعداد اور دلچسپی کا خیال کیے بغیر یکساں نصاب پڑھایا جاتا ہے‌۔ یہی وجہ ہے کہ آج  طلبہ نظام تعلیم کا جامد حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

 تعلیم نہ ہی سیاست میں زیر بحث ہے اور  نہ ہی جی ڈی پی میں اسے معنی خیز حصہ ملا ہے۔ یوں تو بھارت میں سرکاری طور پر تعلیم کوغیر نفع بخش (نان پرافٹ)شعبہ مانا جاتا ہے۔ لیکن زمینی حقیقت یہ ہے کہ آج بھی زیادہ منافع تعلیمی شعبے  میں ہے۔ مختلف مسابقتی امتحانات کاٹیوشن کلچر عام ہے، جس کے نتیجے میں تعلیم ایک کاروبار بن چکی ہے۔ حکومت کی طرف سے اس پر کوئی اقدامات نہیں لیے جاتے۔ نئی تعلیمی پالیسی 2020ء  میں بہت سی تبدیلیاں کی گئی ہیں،  بہت سے مثبت پہلو بھی ہے۔جی ڈی پی میں تعلیم کا حصہ %3 سے بڑھا کر  %6 کیا گیا ہے۔ اس روایتی تعلیم کو بدلنے کے لیے بہت محنت اور وقت درکار ہے۔این ای پی  2020ء  میں مقصد پر کچھ درجہ توجہ ضرور دی گئی لیکن الحادی بنیاد ہنوز قائم ہے۔ درحقیقت این ای پی  2020ء کی اصل اساس  تعلیم کو ہندوتوا تہذیب کی جانب موڑنا ہے۔ ایسی تعلیم دی جائے جس کے ذریعے خاص نظریے کے حامل افراد ہی تیار کیے جا سکیں۔ ضمنی تبدیلیوں سے کچھ مسائل حل ضرور ہو جائیں گے، لیکن جڑ جب تک قائم رہے گی نئے مسائل کے سوتے پھوٹتے رہیں گے۔

حل

اس تحریر کا مقصد مایوس کرنا نہیں ہے بلکہ ان اصولی مسائل کی طرف توجہ دلانا ہے جو عام طور پر زیر بحث نہیں آتے۔ اس نظام کا ہم حصہ ہیں تو ظاہر ہے ہمارے ہی ذریعے نظام بدلا بھی جا سکتا ہے۔ میری نظر میں درج ذیل چیزوں کوبروئے کار لا کر تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔

اول یہ کہ ہم جان چکے ہیں کہ یہ نظام الحادی بنیاد پر کھڑا ہے۔ عمارت کی بنیاد ہی اگر کمزور ہو تو اوپری عمارت میں رد و بدل کرنا لاحاصل ہے۔ لہذا ہمیں ایسے نظام کو قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہوگی جس کی بنیاد خالص دین پر ہو۔ طالب علم جب علم حاصل کرکے نکلے تب وہ خدا کی وحدانیت اور تقویٰ کے لحاظ سے پختگی اختیار کر چکا ہو۔ تعلیم اول سے لے کر آخر تک قرآنی اور اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ معاشی، سماجی اور قانونی اصول وہی پڑھائے جائیں جو شریعت محمدی سے ثابت ہیں۔  ہمارا ایمان ہے کہ عدل و انصاف قائم کرنے کی طاقت اگر کہیں ہے تو وہ محض دین اسلام میں ہے۔ دنیوی علوم اور دینی علوم جیسی کوئی تفریق نہ ہو۔  جدید علوم، سائنس اور ٹیکنالوجی اور ریسرچ کی تعلیم بھی حاصل کی جائے مگر وہ خالص اسلامی اصولوں پر مبنی ہو۔ ایسا نظام جس کا مقصد نیک و صالح افراد تیار کرنا ہو جو دنیا کی سربراہی کرسکیں۔ جس کا مقصد محض ذریعۂ معاش کا حصول نہ ہو بلکہ اس کے ذریعے  سماج کی فلاح و بہبود اور ملک کی عروج و ترقی مقصود ہو۔ ایسا نظام جو محض تعلیمی مزدورتیار نہ کرے بلکے نوجوان قائدین اور رہنماء تیار کرے‌۔ طلبہ اخلاق کردار میں اعلیٰ ہو اور اسلام کا آفاقی تصور پیش کرتے ہو۔

یہ نظام صرف ایک تصوراتی نظام نہیں ہے۔ ماضی میں اس طرح کے نظام نافذ ہوئےہیں۔ دور نبوی ﷺ کے بعد جو علم کا سلسلہ عروج چلا، تاریخ گواہ ہے کہ روم، قیصر و کسریٰ جیسی بڑی بڑی طاقتیں اس نظام کے آگے سربسجود ہوگئی۔ قیادت اور تعلیمی کمان اس دور کے سپرپاور سے منتقل ہوکر بغداد، مصر اور دمشق کے ہاتھ آئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ علم کے متلاشی دور دراز سے تشریف لاتے اور اسلام کی کرن ان کے قلب و ذہن میں پیوست ہوجاتی۔ ابن خلدون، ابن الہشیم، الفارابی، ابن سینا جیسے سیکڑوں نام ہیں جنھوں دنیا کا رخ بدل دیا۔ آج دنیا میں جو ترقی ہے،اس کی  بنیاد انہیں سائنسدانوں کی عطا کردہ ہے۔ تعلیم کے ذریعے باکردار لوگ تیار ہونا تبھی ممکن ہے جب اس کی بنیاد دین پر ہو، اس کے بغیر اخلاقی قدریں روح سے خالی ہی رہیں گی۔ ایک شخص کی شخصیت میں وہ رسوخ نہیں کرپائے گی۔ یہ نظام ہر بندہ مومن اور ہر صاف گو شخص کے ذہن میں ہونا چاہئے۔ اسے اسی مقصد کے تحت ہمہ وقت انفرادی و اجتماعی طور پر کوشاں رہنا چاہئے۔ یہ نظام طویل مدتی کوششوں کا طالب ہے۔ اس ملک میں اس کا نفاذ خیالی ضرور لگتا ہے، لیکن ناممکن نہیں ہے۔ یہی ایک صریح راستہ ہے جو تمام مسائل کا حل فراہم کرسکتا ہے۔ یہ بات قابل قبول ہے کہ اس نظام کے قیام تک موجودہ رائج تعلیمی نظام سے قطع تعلق نہیں کیا جاسکتا۔ کچھ کوششیں ہیں جنہیں دوران جدوجہد اختیار کیا جاسکتا ہے:

اول یہ کہ جدید علوم حاصل ضرور کیے جائیں مگر انہیں قران و حدیث کی کسوٹی پر پرکھا جائے۔جدید نظریات اور اسلامی نظریے کا تقابلی جائزہ لیا جائے تاکہ ایک طالب علم واضح طور سے سچائی سے واقف ہو جائے۔ اسلام خود ایک نظریہ ہے۔ قرآن میں الله نے مسلسل غور و فکر کی ترغیب دلائی ہے۔ ایک طالب علم  اسلام کے اصولوں پر جتنا غور کرے گا، حق و انصاف کے ستون اس پرواضح ہوتے چلے جائیں گے۔ وہ یہ واضح طور پر جان لیتا ہے کہ إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ کہ ”الله کے نزدیک دین صرف اسلام ہی ہے۔“ (سورہ آل عمران: 19) پھر وہ زمانے کے پر فریب نعروں سے مستثنیٰ ہو جاتا ہے۔ علم حکمت کے خزانے دین اسلام میں بھر پور موجود ہیں، شرط یہ ہے کہ اسے تلاش کیا جائے۔

دوم یہ کہ موجودہ نظام طالب علم کو اچھے مارکس دلا سکتا ہے مگر صلاحیتیں پیدا نہیں کر سکتا۔ طالب علم کو ’اپنے من میں ڈوب کر پاجا سراغ زندگی کے مصداق ہونا ہوگا۔ اسے اپنی شخصیت کی کھوج کرنی ہوں گی۔ وہ پوشیدہ صلاحیت ڈھونڈ نکالنی ہوں گی جس سے وہ اپنے آپ کو اس روایتی نظام میں علیحدہ کھڑا کر پائے۔ غلامانہ ذہنیت سے نکلنے کے لیے خودی کی تلاش ضروری ہے۔ جو تخلیقی صلاحیتیں موجود ہیں انہیں مزید ابھارنا ہوگا۔ جامد حصول کنندہ نہ رہتے ہوئے تنقیدی سوچ پیدا کرنی ہوگی۔

 انفرادی و اجتماعی طور پر کوشش رہے کہ تعلیم  معاشرے کا ایک اہم موضوع بنے، اس کی جانب بھی توجہ دی جائے۔ جو تنظیمیں تعلیمی تبدیلیوں کے لیے کام کر رہی ہیں، ان سے  ربط بنایاجا سکتا ہے۔ ہر ممکن کوشش رہے کہ تعلیم بھی ایک سیاست کا ایک موضوع‌ بنے۔ تبھی جاکر کوئی ٹھوس تبدیلی ممکن ہے۔

حکومت سے یہ توقع رہے گی کہ طلبہ کو ان کی استعداد اور دلچسپی کے مطابق پڑھایا جائے۔ تعلیم کا مقصد چھانٹنا نہ ہو بلکہ صلاحیتوں کا ارتقاء مقصود ہو۔ امتحانات میں تبدیلی لائی جائے، امتحانات نشانات پر مبنی نہ ہو بلکہ مختلف زاویوں سے طلبہ کی نشوونما کو پرکھا جائے۔ کتابی تعلیم کے مقابلے میں عملی تعلیم پر توجہ ہو۔ ہراسٹریم میں تعلیم کے مساوی مواقع حاصل رہیں۔ بدلتے دور کے مطابق نصاب بھی بدلا جائے تاکہ ہر نئی آنے والی ٹکنالوجی سے طلبہ کو واقف کرایا جاتا رہے۔ تخلیقی صلاحیتیوں کی بھرپور پذیرائی ہو۔ غیر صحت مند مسابقت پر قابو پایا جائے۔ یہ ساری تبدیلیاں ایوانوں اور حکمرانوں کے  ذریعے ممکن ہے۔ سیاست اور ایوانوں میں اس پر بات تبھی ممکن ہوگی جب یہ سماج کی ضرورت ہوگی۔ سیاست سماج کی ضروریات  ہی  پرچلتی ہے۔ سماج ایک فرد سے بنتا ہے، انفرادی طور پر بھی اور سماجی طور پر بھی تعلیم کو موضوع بنانا ہوگا۔ تبھی جاکر یہ بات اوپری سطح تک جاسکے گی۔ ورنہ گزرتے وقت کے ساتھ وہی مسائل دہرائے جاتے رہیں گے۔

خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقّی سے مگر
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ

اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتابوں اور مقالوں سے استفادہ کیا گیا ہے:

  1. تعلیمات ۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی
  2. مغربی فلسفہ تعلیم کا تنقیدی مطالعہ – پروفیسر سید محمد سلیم
  3. آغاز اسلام میں مسلمانوں کا نظام تعلیم (عہد بنی امیہ تک) – پروفیسر سید محمد سلیم
  4. عصری تعلیم گاہوں کے نصاب اور نظامِ تعلیم پر بے لاگ تبصرہ اور اہل اسلام کیلئے مفید مشورے – مولانا مفتی محمد شعیب الله خاں

https://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1464414222%2004-Asri%20Talim%20Gahon%20Ke%20Nisab_MDU_07_July_2005.htm

  1. A minute to acknowledge the day when India was ‘educated’ by Macaulay.

https://www.indiatoday.in/amp/education-today/gk-current-affairs/story/a-minute-to-acknowledge-the-day-when-india-was-educated-by-macaulay-1160140-2018-02-02

  1. Thomas Babington Macaulay 1800–59 English politician and historian – Oxford Refrence

https://www.oxfordreference.com/display/10.1093/acref/9780191826719.001.0001/q-oro-ed4-00006891#:~:text=Take%20thou%20in%20charge%20this%20day!&text=Could%20scarce%20forbear%20to%20cheer.&text=We%20must%20at%20present%20do,in%20morals%2C%20and%20in%20intellect.

  1. Macaulay’s View of Western Superiority Still Holds Back the Indian Education System

https://m.thewire.in/article/education/lord-macaulay-superior-view-western-hold-back-indian-education-system/amp

  1. SECULARIZATION AND SCHOOLING – Greg Forster, Ph.D.

https://ocpathink.org/post/analysis/secularization-and-schooling

  1. Secular Schools: inherent limitations?

https://taborasj.wordpress.com/2015/09/20/secular-schools-inherent-limitations/

  1. https://nuhafoundation.org/home/blog/bloggingentries/2012/youth/education_without_values_a_cattley/

(مضمون نگار ایم آئی ٹی اورنگ آباد میں بی۔ٹیک مصنوعی ذہانت اور ڈیٹا سائنس سال سوم کےطالب علم ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں