موسم گل تھا۔
جنید ،لو یہ دیکھو! جنید۔!
ارے! رکو بھائی مجھے کچھ دِ کھ رہا ہے۔
کیا ہے؟ دکھاؤ میں نے بھی دیکھنا ہے۔
جنید نے مجھے دے دیا۔ میں سر اوپر کئے اس میں دیکھنے لگا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ آنکھوں کے سامنے کچھ جاندار سے گھوم رہے تھے، یہ تو جُرثومے تھے جسے بغیر خُرد بین نہیں دیکھا جا سکتا تھا۔ مائکرو سکوپ یا خردبین (خوردبین) وہ چیز ہے، جس کی مدد سے انتہائی خُرد (باریک یا چھوٹے )جاندار دیکھے جا سکتے ہیں۔
اچھا جنید ۔!یہ بتاؤ کہ یہ کونسا جُرثومہ ہے۔
میں نہیں جانتا بھائی۔ تم ہی بتا دو۔
ہم م م.. یہ ’’پیارا میشیم‘‘ (Paramecium) ہے۔ پانی میں پائے جانے والا جرثومہ جس کی جسامت 0.05 تا 0.32ملیّ میٹر کی ہوتی ہے۔ اس طرح کے جرثوموں کو صرف خردبین ہی سے دیکھا جا سکتا ہے۔
خردبین کو 1665 ء میں رابرٹ ہوک (Robert hook) نامی انگریزی ماہر طبیعات نے ایجاد کیا تھا۔ اس کے بعد اسے Van Leeuwenhoek نے صحیح شکل دی تھی اور یہی شخص ہے جس نے جُرثومہ کو پہلی مرتبہ خردبین میں دیکھا اور اسے جُرثومہ نام دیا۔ جیسے جیسے زمانے بدلتے گئے اسی طرح خردبین بھی تیار ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ اس نے دس سے زائد شکلیں اختیار کرلی۔ جن کی قیمتیں ۵۰۰۰ سے لے کر کروڑوں تک ہیں۔
کیا تم جانتے ہو کیشؤ یہ چیز کیا ہے جسے ہم ہاتھ میں لئے، پانی میں موجود باریک شئے کو جانچ رہے ہیں۔
ارے! میں تو پوچھنا ہی بھول گیا۔ بتاؤ نا کہ یہ چیز کیا ہے آخر۔
کیشؤ ۔! اسے ہم ’’فولڈسکوپ‘‘ ’’FOLDSCOPE‘‘ کہتے ہیں۔
فولڈسکوپ کو 2012 میں منو پرکاش (Manu Prakash) اور ان کے شاگرد جِم نے لانچ کیا تھا۔ منو پرکاش بتاتے ہیں کہ جب وہ تحقیقات کے سلسلے میں فیلڈ سٹیشن پر جاتے تو وہاں اکثر خردبین، شیشے کےپیچھے خانوں میں سجے ملتے گویا وہ تزئین کی کوئی شئے ہوں۔ خردبین جب سے ایجاد ہوئی ہے اس وقت سے وہ نازک، وزنی، بڑی حجم والے اور مہنگے ہی دستیاب ہوتے ہیں جن کی کافی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے۔ تب انہوں نے سوچنا شروع کیا کہ کس طرح سائنس کو آسان اور روز مرہ کا حصہ بنایا جا سکتا ہے اور خرد بین جیسی چیزوں کو عام افراد اور بچوں کے ہاتھوں تک فراہم کیا جا سکتا ہے۔
اپنے ایک ٹی۔ای۔ڈی (TED) خطاب میں پرکاش بتاتے ہیں کہ میڈیکل سائنس کے مطابق دنیا کی اکثر بیماریاں، جرثوموں کی مرہونِ منت ہوتی ہیں،۔محض ملیریا کے جرا ثیم سے ہر سال دس لاکھ افراد موت کا نوالہ بن جاتے ہیں جس میں بہت سوں کی تشخیص بھی نہیں ہو پاتی۔ پرکاش کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم کو تحقیقات کے دوران پتا چلا کہ ، کینیا کے ایلیکس، بنگلادیش کی فاطمہ، ہندوستان کے نوجوت اور یوگانڈا کی جولیا اور ان جیسے نہ جانے کتنے ہزار بچوں کو ملیریا ٹیسٹ کے نتائج کے لئے مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اس طرح ایک ایسا خردبین تیار ہوا جسے بچے اپنے جیب خرچ سے خرید سکتے ہیں اور تہہ کر کے جیب میں بھی رکھ سکتے ہیں ۔ اس طرح سے ہر کوئی، نہ صرف جراثیم کی نشاندہی کر سکتا ہے بلکہ قدرت کی خوردبینی دنیا کے عجائبات کا معائنہ اور خالق کی خلاقیت کا عینی شاہد بھی بن سکتا ہے۔
فولڈسکوپ کو ، کاغذ کو معنی خیز شکل میں تہہ کرنے کے فن’اوریگیمی‘ (Origami) کو استعمال کر کے بنایا گیا ہے۔ یہ دبیز کاغذ سے بناہوتا ہے اس لئے ٹوٹتا نہیں ہے اور نہ وزنی ہوتا ہے۔اس کی دیکھ بھال کی بھی کوئی خاص ضرورت نہیں ہوتی اور یہ محض ۵۰ امریکی سینٹ یا ۴۰ روپئے میں دستیاب ہوتا ہے۔فولڈسکوپ میں جدید خردبین کی ساری خصوصیات بھی موجود ہیں اور اس میں سارے تجرباتی مشاہدات بھی کئے جا سکتے ہیں ۔منو پرکاش اور انکی لیب نے محض ۲۰۲۰ میں ۱ لاکھ فولڈسکوپ بنائے اور تقسیم کئے۔
تو کیشؤ ۔!یہ ہے فولڈسکوپ کی کہانی۔
جنید۔! سچ میں یہ حیرت انگیز ہے۔
ہاں، ہاں کیشؤ ۔!سچ میں حیرت انگیز۔
اور تو اور کیشؤ اب اسکولوں میں بھی FOLDSCOPE آ چکا ہے جیسے یہ جو میرے پاس ہے وہ ہمارے خالد سر نے مجھے دی ہے ۔
جنید۔جنید۔! (تیسرا لڑکا بھاگتے ہوئے آیا)
تمہارے ابو تمہیں بلا رہے ہیں۔
چلو کیشؤ ۔! پھرمیں چلتا ہوں، پھر کبھی ملاقات کریں گے نئی معلومات کے ساتھ۔
اچھا چلو میں بھی چلا۔