ارشادِ ربانی ہے: “یاد کرو کہ جب ابراہیمؑ کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزما یا۔” اللہ تعالیٰ اپنے خلیل کو یکے بعد دیگرے آزمائشوں سے تو گزارتا رہا لیکن کبھی تنہا نہیں چھوڑا۔ قوم نے آگ کے الاؤ میں اچھالا تو رب کائنات نے اسے گلزار بنا دیا۔ عزیز ترین شئے کی قربانی کاخواب سچ کر دکھانے کی خاطر اپنے بیٹے کو لٹایا تو جنت سے ہدیۂ تہنیت بھیج کر بچالیا۔ ابتلاء و آزمائش کی وجہ یہ بتائی گئی کہ: “اور وہ اُن سب میں پورا اتر گیا، تو اس (اللہ) نے کہا: “میں تجھے سب لوگوں کا پیشوا بنانے والا ہوں۔” اس میں یہ سبق ہے کہ رب کائنات اپنے پسندیدہ بندوں کو پیشوائی عطا کرنے سے قبل آزمائش کی بھٹی سے گزارتا ہے۔ اس سے ان کے اوصاف حسنہ کھل کر دنیا والوں کے سامنے آجاتے ہیں۔ لوگوں کے لیے کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا آسان ہوجاتا ہے اور ان کا دل گواہی دینے لگتا ہے کہ امامت و قیادت کا حقدار تو یہی آزمائشوں میں کامیاب ہونے والے لوگ ہیں۔
حضرتِ ابراہیمؑ کی آخری آزمائش میں ان کے بیٹے اسماعیلؑ بھی پورے اترے۔ ویسے بھی اولاد کی فکر مندی ایک فطری جذبہ ہے اس لیے ابراہیم ؑ نے سوال کیا: “کیا میری اولاد سے بھی یہی وعدہ ہے؟” جواب دیا گیا: “میرا وعدہ ظالموں سے متعلق نہیں ہے۔” یعنی ملت ابراہیمی ؑ کے افراد کے حق میں امامت و قیادت مشروط ہے۔ وہ اگر آزمائشوں کے دوران کمزوری و کوتاہی کا مظاہرہ کرکے اپنے آپ پر ظلم کا ارتکاب کریں تو انہیں پیشوائی سے نوازا جانا تو دور الٹا محروم کردیا جائے گا۔ سورہ صافات میں حضرت ابراہیم ؑ کی دونوں قربانیوں کا اجمالاً ذکر کرنے کے بعد ارشادِ ربانی ہے: “اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔ سلام ہے ابراہیمؑ پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔ یقیناً وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا۔” امت کے افراد ہر نماز میں حضرت ابراہیم ؑ اور آل ابراہیم ؑ پر دورود و سلام بھیجتے ہیں۔ ان کی ندا پر لبیک کہتے ہوئے دنیا بھر سے خانۂ کعبہ کا قصد کرکے حج کیا جاتا ہے اور قربانی کا فریضہ جہاں اللہ کی عبادت ہے وہیں خلیل اللہ کو خراج عقیدت بھی ہے۔
سورۃ الممتحنہ میں ارشادِ قرآنی ہے: “بیشک تمہارے لئے ابراہیمؑ میں اور اُن کے ساتھیوں میں بہترین نمونہ ہے۔” آیت کے اس ٹکڑے پر اکثر لمبی چوڑی گفتگو ہوتی ہے لیکن باقی حصہ نظر انداز ہوجاتا ہے۔ آگے فرمایا: “جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا: ہم تم سے اور اُن بتوں سے جن کی تم اللہ کے سوا پوجا کرتے ہو کلیتہً بیزار (اور لاتعلق) ہیں، ہم نے تم سب کا کھلا انکار کیا ہمارے اور تمہارے درمیان دشمنی اور نفرت و عناد ہمیشہ کے لئے ظاہر ہوچکا، یہاں تک کہ تم ایک اللہ پر ایمان لے آؤ، مگر ابراہیمؑ کا اپنے باپ سے یہ کہنا کہ میں تمہارے لئے بخشش طلب کروں گا، مگر یہ کہ میں تمہارے لئے اللہ کے حضور کسی چیز کا مالک نہیں ہوں۔ اے ہمارے رب! ہم نے تجھ پر ہی بھروسہ کیا اور ہم نے تیری طرف ہی رجوع کیا اور (سب کو) تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔” اسوۂ ابراہیمی کا غالب ترین پہلو کفر و شرک کی بنیاد قائم دین اور نظامِ باطل سے مکمل بیزاری کا اظہار ہے۔
بت شکنی کے بعد یکسوئی کے ساتھ رجوع الی اللہ سیرت ابراہیمیؑ کا سب ابھرا ہوا پہلو ہے۔ آذر کے لیے قرآن حکیم میں باپ کا الفاظ استعمال ہوا ہے لیکن بعض مفسرین چچا قرار دیتے ہیں کیونکہ اس لفظ کے دونوں معنیٰ مستعمل ہیں۔ آذر نمرود کا مقرب ترین کاہن اور بت تراش تھا۔ اس کے ذریعہ حضرت ابراہیمؑ بھی نمرود کے دربار میں اونچا مقام حاصل کرکے عوام کی فلاح و بہبود کے کام کرسکتے تھے لیکن انہوں نے بت پرستی کی بنیاد پر قائم باطل نظام سے مصالحت کرکے عیش و آرام کی زندگی بسر کرنے کے بجائے اس کو چیلنج کرکے آزمائشوں کو گلے لگا لیا اور بالآخر عالمِ انسانیت کی امامت کے منصب پر فائز کیے گئے۔ حضرت ابراہیمؑ کے اسی نظام باطل کو اکھاڑ پھینکنے والے اسوہ کی جانب اشارہ کرکے علامہ اقبال قوم کو بیدار فرماتے ہیں؎
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے صنم کدہ ہے جہاں لاالہ الی اللہ
حضرت ابراہیمؑ کی زندگی کا ایک پہلو تو یہ ہےکہ ابطالِ شرک کی خاطر بت شکنی کے بعد برضا و رغبت آتشِ نمرود کے لیے تیار ہوگئے لیکن ارشادِ ربانی یہ بھی ہے کہ: “حقیقت میں ابراہیمؑ بڑا حلیم اور نرم دل آدمی تھا۔” یہ تعریف و توصیف قوم لوط کے معاملہ میں ابراہیمؑ کی حجت سے متعلق ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: “(فرشتوں نے کہا) “اے ابراہیمؑ، اس سے باز آ جاؤ، تمہارے رب کا حکم ہو چکا ہے اور اب ان لوگوں پر وہ عذاب آکر رہے گا جو کسی کے پھیرے نہیں پھر سکتا۔” اس جواب سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابراہیمؑ قوم لوط کی خاطر مزید مہلت کے طالب تھے۔ یہ عذاب کے فرشتے حضرت ابراہیمؑ کے لیے بڑی بشارت لے کر آئے تھے۔ ارشادِ حق ہے: “اور دیکھو، ابراہیمؑ کے پاس ہمارے فرشتے خوشخبری لیے ہوئے پہنچے، کہا تم پر سلام ہو۔ ابراہیمؑ نے جواب دیا تم پر بھی سلام ہو پھر کچھ دیر نہ گزری کہ ابراہیمؑ ایک بھنا ہوا بچھڑا (ضیافت کے لیے) لے آیا مگر جب دیکھا کہ ان کے ہاتھ کھانے پر نہیں بڑھتے تو وہ ان سے مشتبہ ہو گیا اور دل میں خوف محسوس کرنے لگا۔ اُنہوں نے کہا “ڈرو نہیں، ہم تو لوطؑ کی قوم کی طرف بھیجے گئے ہیں “ابراہیمؑ کی زوجہ بھی کھڑی ہوئی تھی وہ یہ سن کر ہنس دی پھر ہم نے اسحاقؑ کی اور اسحاقؑ کے بعد یعقوب کی خوشخبری دی۔ وہ بولی “ہائے میری کم بختی! کیا اب میرے ہاں اولاد ہوگی جبکہ میں بڑھیا پھونس ہوگئی اور یہ میرے میاں بھی بوڑھے ہو چکے؟ یہ تو بڑی عجیب بات ہے۔”
تفسیرِجلالین کے مطابق اس وقت ابراہیم ؑ کی عمر 120سال اور حضرت سارہؓ کی عمر 90 سال تھی۔اس کے جواب میں “فرشتوں نے کہا “اللہ کے حکم پر تعجب کرتی ہو؟ ابراہیمؑ کے گھر والو، تم لوگوں پر تو اللہ کی رحمت اور اُس کی برکتیں ہیں، اور یقیناً اللہ نہایت قابل تعریف اور بڑی شان والا ہے۔ پھر جب ابراہیمؑ کی گھبراہٹ دور ہو گئی اور (اولاد کی بشارت سے) اس کا دل خوش ہو گیا تو اس نے قوم لوط کے معاملے میں ہم سے جھگڑا شروع کیا۔” اس تناظر میں حضرت ابراہیمؑ کی اس دعا کو دیکھیں: “اے پروردگار، مجھے ایک بیٹا عطا کر جو صالحوں میں سے ہو۔” اپنے خلیل کی دعا کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے شرف قبولیت سے نوازا۔ فرمانِ ربانی ہے: “ہم نے ان کو ایک حلیم (بردبار) لڑکے کی بشارت دی۔” اس عنایت کے ساتھ یہ حکم بھی ملا کہ ننھے اسماعیلؑ کو والدہ حضرت حاجرہ ؓ کے ساتھ بے آب و گیا صحرا میں چھوڑ دیا جائے۔
حدیث رسولﷺ کا مفہوم ہے جب آپؑ حضرت حاجرہ کو چھوڑ کر جانے لگے تو انہوں نے اپنے خاوند کو آواز دے کر پوچھا، اے ابراہیم ہمیں کس کے پاس چھوڑے جارہے ہو؟حضرت ابراہیمؑ نے جواب دیا اللہ کے پاس۔ حضرت حاجرہ ؓ کی زبان سے نکلا میں اللہ کے ساتھ رہ کر راضی ہوں۔ چلتے چلتے مزید پوچھا کیا اللہ نے آپ کو ایسا کرنے کا حکم دیا ہے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام بولے ہاں یہ سن کر حضرت حاجرہ ؓ کی رضا یقین میں بدل گئی اور انھوں نے کہا: یہ بات ہے تو اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ حضرت ابراہیم ؑ نے ثنبہ پہنچ کر دعا کی: “پروردگار، میں نے ایک بے آب و گیاہ وادی میں اپنی اولاد کے ایک حصے کو تیرے محترم گھر کے پاس لا بسایا ہے۔ پروردگار، یہ میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ لوگ یہاں نماز قائم کریں، لہٰذا تو لوگوں کے دلوں کو اِن کا مشتاق بنا اور انہیں کھانے کو پھل دے، شاید کہ یہ شکر گزار بنیں۔”
آزمائش کا یہ سلسلہ اس طرح دراز ہواکہ: “وہ لڑکا جب اس کے ساتھ دوڑ دھوپ کرنے کی عمر کو پہنچ گیا تو (ایک روز) ابراہیمؑ نے اس سے کہا، “بیٹا، میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں، اب تو بتا، تیرا کیا خیال ہے؟” اللہ تبارک و تعالیٰ نے تو وحی کے ذریعہ حکم نہیں دیا بلکہ خواب دکھایا مگر حضرت اسماعیلؑ نے اس کو سن کر جواب دیا: “ابا جان، جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے اسے کر ڈالیے، آپ ان شاءاللہ مجھے صابروں میں سے پائیں گے” یعنی سعادت مند بیٹے نے اس خواب کو حکم کا درجہ دیا۔ آگے ارشادِ قرآنی ہے: “آخر جب اِن دونوں نے سر تسلیم خم کر دیا اور ابراہیمؑ نے بیٹے کو ماتھے کے بل گرا دیا تو اور ہم نے ندا دی کہ “اے ابراہیمؑ تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں یقیناً یہ ایک کھلی آزمائش تھی” اور ہم نے ایک بڑی قربانی فدیے میں دے کر اس بچے کو چھڑا لیا اور اس کی تعریف و توصیف ہمیشہ کے لیے بعد کی نسلوں میں چھوڑ دی۔” یعنی سنت ابراہیمیؑ کو تاقیامت جاری فرما کر خوشخبری سنائی “سلام ہے ابراہیمؑ پر ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں۔” حضرت ابراہیمؑ کی سیرت پر علامہ اقبال کا یہ شعر تاقیامت زندہ و تابندہ رہے گا؎
آج بھی ہو جو براہیم کا ایماں پیدا آگ کر سکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
(مضمون نگار نیوکلئیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں اور معروف کالم نگار ہیں۔)