مسلم نوجوانوں کو اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ان کا اور ملک کی ڈیڑھ ارب عوام کا مستقبل مشترک ہے اور اس مشترک مستقبل میں ان کا معاشی مستقبل، سماجی مستقبل اور سیاسی مستقبل بنیادی طور پر مشترک ہے۔ان کا معاشی مستقبل نوے کروڑ غیر مسلموں کے معاشی مستقبل سے الگ نہیں سمجھا جا سکتا۔ مسلمانوں کے مستقبل کا ایسا کوئی مطالعہ جو محض مسلمانوں کو سامنے رکھ کر کیا گیا ہو اس کا فائدہ بہت محدود ہوگا۔ گزشتہ ستر سالوں سے مسلمان دانشوروں کی اکثریت اپنے مسائل کا اسی اعتبار سے مطالعہ بھی کرتی آئی ہے اور اسے حل کرنے کی کوشش بھی کرتی رہی ہے۔ مسلم نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو مسلمانوں کے مسائل کے سلسلے میں بےحد سنجیدہ اور سرگرم ہے لیکن ان کے غور و فکر اور مطالعہ کا نقطہ نظر مشترک نہیں ہے۔ انہیں باقی ملی جماعتوں کی طرح اپنے مسائل کا بالکل خصوصی اور علیحدہ طریقے سے غور و فکر کرنے کی عادت ہوئی ہے۔ اس رویہ کے دو بڑے نقصانات ہوئے ہیں، پہلا تو یہ کہ سیاسی اور سماجی مسائل کے فہم میں ان کے یہاں افراط اور تفریط داخل ہو گئی ہے۔ دوسرا، مسائل کو سمجھنے کے لئے وہ دنیاوی اصول جن کی تربیت غیر مسلموں کو حاصل ہے، مسلمان نوجوان اس منہج کی ٹریننگ سے دور رہ جاتے ہیں۔ نتیجتاً، وہ سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کے بہت سارے اچھے مواقع میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ملک کے سیاسی اور سماجی مسائل میں قابل قدر مداخلت کرنے والوں میں چند ایک ہی مسلمان ہیں۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے مسائل پر بہتر علمی گفتگو کرنے والے بیشتر غیر مسلمان ہی ہیں۔
ہندوستانی مسلمان ایک جمہوری معاشرے کے شہری ہونے کی وجہ سے اس ملک کے تمام مسائل میں سرگرم شرکت کے ساتھ شامل ہوں اور نظر آئیں۔ آپ دیکھیں کہ اگر اس ملک میں پانچ ہزار ماہرینِ معاشیات ہیں تو اس میں مسلمانوں کی تعداد کوئی ایک دو فیصد ہی ہے۔ حالانکہ اقلیت میں رہنے والی قوموں کو اس طرح کے میدانوں میں زیادہ دلچسپی کا اظہار کرنا چاہئے تھا اور اپنی آبادی کے تناسب سے بھی زیادہ نظر آنا چاہئے تھا۔ اسی طرح سے ملک ایک زبردست ٹیکنالوجی انقلاب سے گزر رہا ہے۔ پالیسی کی سطح سے لے کر انڈسٹری کی سطح تک یہ تبدیلی بے حد جامع ہے۔ معاشرے کا قبلہ بدل دینے کی طاقت رکھنے والے انٹرنیٹ میں مسلم نوجوانوں کی مؤثر شرکت آج بھی بہت مختصر ہے۔ ہر دن نئے ایپ بیسڈ خدمات کے تجربات ہو رہے ہیں جو پیسے بھی کماتے ہیں اور عوام سے وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ اسی طرح سے تعلیم ایک انڈسٹری کے طور پر ملک کے چاروں کونوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ ہزاروں سرمایہ داروں نے اپنا سرمایہ اس میدان میں لگا دیا، ہزاروں نوجوانوں نے اپنے آپ کو تعلیم کے میدان میں لگا کر نہ صرف معاشی طور پر زبردست کامیابی حاصل کی بلکہ لاکھوں طلبہ کے سوچنے سمجھنے اور دیکھنے کا نظریہ بدل دینے والی تعلیم بھی عام کی۔ مختصر سا سوال ہے کہ اس انقلاب میں ایسا کیا کام تھا جو مسلم نوجوان نہیں کر سکتے تھے؟ مشنری اسکولوں کے بعد ملک میں کوالٹی تعلیم کے نام پر اب بیشتر آر ایس ایس کے اسکولوں نے سبقت حاصل کر لی ہے۔ جو صرف ہندوؤں کے لئے نہیں بلکہ سبھی کے لئے ہیں اور کمرشیل ہیں۔ مسلمان بھی نجی اسکول اور نجی تعلیمی اداروں میں کمرشیل نقطہ نظر سے ملک کے مڈل کلاس کی ضرورتوں کو پورا کرنے والے ادارے قائم کر سکتے تھے جہاں وہ پیسا بھی کماتے اور مسلمانوں کے بہترین نوجوانوں کو روزگار کے ساتھ اچھے مواقع بھی دیتے۔ یہاں تک کہ صحت کے میدان میں بھی مسلمان متوجہ ہوکر معاشی ضرورتیں پوری کر سکتے تھے لیکن اس میدان میں بھی گزشتہ دس سالوں میں ابھرنے والی سبھی نئی کمپنیوں میں مسلمانوں کی کمپنیاں واقعی بہت کم ہیں۔ اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ کسی بھی معاشرے میں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک دو چار فیصد افراد ہی ہوتے ہیں۔ ہندوستان میں بھی اتنے ہی ہوں گےلیکن وہ دو چار فیصد صرف برادران وطن میں سے ہوں گے ، ایسا ضروری نہیں تھا۔ مسلم نوجوانوں میں تحقیقی اور تخلیقی رجحان کا فروغ پانا، آنٹرپرینرشپ کا رجحان فروغ پانا، نئے تجربات کرنا اور نئے حل پیش کرنا ایک بنیادی ضرورت تھی اور حکمت عملی کے لحاظ سے ملی ضرورت بھی تھی، لیکن اس ضرورت میں مسلمان نوجوان پیچھے کیوں کر رہ گئے؟
ضرورت اس بات کہ ہے کہ مسلمان نوجوان سبھی قسم کے تحفظات کو توڑ کر اپنے حوصلوں کو بلند کریں۔ ایسا کوئی کام نہیں ہے جس میں مسلمان نوجوان نمایاں خدمات انجام نہیں دے سکتے،البتہ سرگرم اور متحرک نوجوان اپنے آپ کو محض ملی جماعتوں میں محدود کرنے اور ان کے مناصب میں اپنی پوری عمر کھپانے کے بجائے انہیں ملی خدمات اور ملک کے نمایاں مواقع کے درمیان ایک مناسب توازن قائم کرنا ہوگا۔ ایک کامیاب تاجر، کامیاب تخلیق کار، نمایاں سائنس داں، نمایاں صحافی، ایک مشہور شاعر یا سماجی کارکن ہر حال میں اپنی اپنی جماعت کے لئے بھی مفید ہوگا اور حسب ضرورت خوب وقت بھی دے سکتا ہے لیکن اس کے لئے ملت کے سبھی نوجوانوں کو سماجی سطح پر میسر مواقع میں سرگرمی سے حصّہ لینا ہوگا۔ نوجوان اپنے اصل میدان کار کو چھوڑ کر ملی جماعتوں کے اندر قید ہو کر نہ رہ جائیں کہ وہ اپنی جماعتوں کے باہر کی دنیا کو دیکھنے اور اس میں حصّہ لینے سے دوری بنالیں۔ کوئی ماہر نفسیات ہے تو صرف اپنی تحریک کے لوگوں کے لئے ہی کیوں ہو؟ کوئی ماہر تفسیر ہے تو اپنی جماعت کے لوگوں کے درمیان محدود کیوں رہے؟ کوئی ماہر تعلیم ہے تو صرف اپنے گروپ کے درمیان ہی کیوں؟ کوئی ماہر اقتصاد ہے تو وہ اپنی جماعت اور تنظیم کے باہر کیوں اپنی صلاحیتوں کا اعتراف نہیں کراتا ہے؟ میرے ایک تحریکی دوست تھے اکثر تحریکی رسائل میں لکھتے رہتے تھے میں نے ان سے کہا کہ آپ کے مخاطب ملت کے سارے نوجوان کیوں نہیں ہیں؟ آپ اردو کے معروف اخبارات میں کیوں نہیں لکھتے؟ مسلم نوجوانوں کے لئے پہلا مشورہ ہے کہ آپ کے مخاطب اور آپ کا میدان کار صرف آپ کا کمفرٹ زون نہیں ہونا چاہئے۔
ملی اور تحریکی جذبہ رکھنے والے نوجوانوں میں ایک عام پریشانی یہ ہے کہ ان کو اپنی جماعتوں کی سرگرمیوں کو منعقد کرنے اور ان سرگرمیوں کو محض ایک ایونٹ کے طور پر لینے کی عادت ہو جاتی ہے، نتیجہ کے طور پر اپنی سرگرمیوں کے ذریعے وہ کون سے طویل مدتی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے یہ بھول جاتے ہیں اور سرگرمی خود ایک مقصد اور کامیاب ہونے کی علامت بن جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک تحریکی نوجوان کا کردار ایونٹ مینیجر سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہے اور اس کے لئے اسے اس بات کا بار بار ادراک کرنا ہوگا کہ ہندوستان جیسے معاشرے میں اپنے مقاصد کو بہتر سے بہتر طریقے سے حاصل کرنے کے سب سے موثر اور کم مہنگے راستے کون سے ہیں۔ یہ بات اب سبھی حلقوں کے درمیان زیر بحث آنے لگی ہے کہ بیشتر ملی تنظیمیں اور قائدین اپنی جماعت کے لئے حکمت عملی پر مبنی کوئی وژن نہیں رکھتے اور محض رسمِ اذان کی ادائیگی کرتے رہنا کافی سمجھتے ہیں۔ یہ سوچ دنیا کی سب سے غیر مفید سوچ ہے اور صلاحیتوں اور وسائل کی بربادی کا سبب بھی۔ آپ ہم سے پوچھیں کہ ایک تحریک جسے اسلام کے فلسفہ اقتصاد پر اعتماد ہے اس کے لئے کیا اسٹریٹجک سوچ ہے؟ تو میرے خیال میں اس تحریک کو یہ عزم کرنا ہوگا کہ اگلے دس بیس سالوں میں ایسے ماہرینِ اقتصادیت نکلیں جنہیں حکومتی سطح پر بھی اور اہم پالیسی اداروں میں بطور ماہر بلایا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے انہیں اپنے درمیان موجود لوگوں کو اس جانب متوجہ کرانا ہوگا۔ اگر کسی جماعت کا مقصد ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی جان و مال کا تحفظ یقینی بنایا جائے تو ظاہر ہے کہ محض جلسے اور اخباری بیانات تو اس کے لئے کافی نہیں ہوں گے۔ انہیں پولیسی اصلاحات سے لے کر نیشنل سیکورٹی کی سطح تک کے مسائل پر معلومات بھی اور اس میں اپنے مثبت تعاون کی شکلوں کے بارے میں بھی فکرمند ہونا ہوگا۔ لیکن عملا ًایک بڑی تصویر پر غور و فکر کی عادت نہیں ڈالی جاتی جس کے نتیجے میں ان تنظیموں کی بڑی اہم سرگرمیاں بھی بالکل بے اثر اور بے نتیجہ رہ جاتی ہیں۔
ذرا غور کرنے کے بعد آپ بھی اس نتیجے تک پہنچیں گے کہ ملت اسلامیہ میں اپنے مسائل کو لے کر اور اپنی مستقبل سازی کو لے کر ایک وقتی، کام چلاؤ جسے انگریزی میں ایڈھاک اور ٹرانزیکشنل اپروچ کہتے ہیں، اس کا چلن عام ہے۔ یہ طرز فکر سبھی مکاتبِ فکر، سبھی مدارس اور تنظیموں میں رائج ہے۔ مثال کے طور پر مسلم پرسنل لا بورڈ کے گزشتہ پچاس سال کے سفر کا مشاہدہ کریں تو آپ سمجھیں گے بہت شہرت اور سرگرمی کے باوجود یہ اہم ترین تنظیم روز کماؤ اور روز کھاؤ کے اصول پر کام کرتی ہے۔ ایسے بہت سے مسائل جن کے بارے میں کوئی بھی یہ کہ سکتا ہے کہ آنے والے چند سالوں میں یہ شدت اختیار کریں گے اور ان کی بہتر تیاری ابھی سے کرنا ضروری ہے لیکن ان تنظیموں کے یہاں مستقبل کے مسائل کا تجزیہ کرنا اول تو زیادہ ضروری نہیں اور بحالت مجبوری اس کے لئے ضروری وسائل وقف کرنے کی کسی کو فکر بھی نہیں۔ ہندوستان میں انگریزی اور ہندی میڈیم مدراس کا قیام اب تک ایڈوانس لیول پر نظر آتا اگر اصحابِ مدارس کو محسوس ہوتا کہ بدلتے حالات میں دین کی خدمت کی زبان اور عوام کون ہیں۔ آنے والے زمانے میں کن موضوعات کی مہارت ضروری ہے اس کا اندازہ آج ہر قوم کو ہے۔ اسٹریٹجک تھنکنگ کا عمل قوموں کی اجتماعی حیات کے لئے ناقابل نظر انداز فریضہ ہے اور اس کے لئے بہتر سے بہتر افراد کو وقف کرنا اور ان سے مستقبل کے مسائل کو سمجھنے کا کام لینا ایک مستقل ضرورت ہے۔
ہندوستان میں ملی کاموں کے طور طریقوں پر نظر رکھنے والے یہ دیکھ سکتے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان ملک میں تاریخ، فلسفہ، سماجیات، سماجی عمل، سیاسی افکار، معاشیات، میڈیا اینڈ کلچرل اسٹڈیز، پبلک پالیسی، سمیت تمام اہم مضامین میں صرف برائے نام موجود ہیں۔ کسی زندہ و جاوید قوم کے لئے یہ صورتحال انتہائی شرمناک ہے۔ اگر بحیثیت ملت ان مضامین میں ہونے والے مذاکروں اور مباحثوں میں ہم محض سامعین ہیں تو ہمیں یہ شکایت نہیں ہونی چاہئے کہ یوگندر یادو اور رام چندر گوہا بار بار مسلمانوں سے ہمدردی کے باوجود ہمیشہ ان کے نقطہ نظر کو سمجھنے میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں۔ وجہ بہت صاف ہے کہ یہ اہم ترین مفکرین جن فورمز میں اکیڈمک اور علمی مباحث میں مصروف ہوتے ہیں وہاں مسلمان مفکرین سرے سے موجود ہی نہیں ہیں جو ان کی فکر سازی میں، ان کے طریقہ استدلال، طرز تحقیق کو اور معلومات کو چلینج کرسکے۔
مسلم نوجوانوں کو یہ چیلنج قبول کرنا ہوگا کہ وہ ملک کی جمہوری گفتگو میں، علمی و فکری فورمز ، تھنک ٹینکس اور پالیسی ریسرچ کے مراکز میں اپنی غیر حاضری کو فوری طور پر ختم کریں گے۔ ان فورمز میں اپنی علمی صلاحیتوں کے ساتھ شرکت کریں گے، وہاں سیکھیں گے اور اپنی بات بھی رکھیں گے۔ مسلم نوجوانوں کو یہ بھی فیصلہ لینا ہوگا کہ اگرچہ سیاسی سماجی مذاکرات کے فورم آپ کو اچھی تنخواہیں اور بہت ہی پر کشش معاشی مستقبل نہیں دے سکتے لیکن ایک بڑی سماجی مصلحت کے لئے انہیں قربانیاں دینی ہوں گی۔ ظاہر ہے کہ کوئی بھی سیاسی مفکر بے روزگار نہیں ہے لیکن سبھی سیاسی مفکرین فوری طور پر کارپوریٹ کی پر کشش تنخواہوں کی لالچ سے بلند ہو کر ہی یہاں تک پہنچے ہیں۔ مسلم نوجوانوں کو سمجھنا ہو گا کہ یہ عمل کسی تنظیم کے کہنے اور حکم دینے سے نہیں ہوتا ہے اور یہ خدمت کسی تنظیمی کام کی طرح انجام نہیں دی جا سکتی۔ تنظیمیں آپ کو وقتی مدد دے سکتی ہیں اور حوصلہ افزائی کر سکتی ہیں لیکن علمی اور فکری فورمز میں خود کو ثابت کرنا بنیادی طور پر ہر نوجوان کی ذاتی جد و جہد اور عزائم پر مبنی ہے۔ جب تک ہندوستان میں ایک ہزار سے زائد ماہرینِ معاشیات اور دو تین ہزار سے زائد ماہرین سماجیات اور سیاسیات مسلمانوں کے درمیان سے میدان عمل میں نظر نہیں آتے اس وقت تک افکار اور پالیسیز کے مطالعے میں ایک متوازن فکر کا پیدا ہونا محض اغیار کے کرم اور بخشش پر مبنی ہے۔ ظاہر ہے کہ فکری لڑائیاں دوسروں کے وسائل پر لڑنے والے لوگ کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ مسلم نوجوانوں کو یہ چیلنج قبول کرنا چاہئے کہ ہندوستان کے مستقبل کی ہر علمی اور فکری بحث میں ملک کی ہر اہم سیاسی اور معاشی ڈیبیٹ میں ان کی رایوں کو بھی توجہ حاصل ہوگی۔ یہ صرف مسلمانوں کو سماجی انصاف دلانے کے لئے نہیں بلکہ خود برادران وطن کو بھی اور بین الاقوامی فکری جنگ میں اپنے افکار کو نمایاں مقام دلانے کے لئے ضروری ہے۔
ایک ایسی دنیا جس میں اب سارے مذاہب اور ساری زبانیں تمام تہذیبیں اور کلچر بغیر کسی سرحد اور رکاوٹ کے ایک دوسرے سے مکالمہ کر رہی ہیں، ایک ایسی مشترک دنیا میں مسلم نوجوان ایک نئے طرز فکر اور ایک نئی فکری پیش کش کے بغیر نہ خود اپنے لیے اور نہ ہی دوسروں کے لئے مفید ثابت ہو سکتے ہیں۔
– عمیر انس