فکشن: وقت گزاری یا انقلابِ فکر کا داعی؟

ڈاکٹر خان یاسر

رہی بات سطحی پن یا گہرائی و گیرائی کی تو فکشن کے زمرے میں ایسی کتابیں شامل ہیں جن کی گہرائی بڑی بڑی فلسفیانہ کتابوں کو شرمسار کردینے کے لیے کافی ہے۔

سوال:
عام رائج خیال کے مطابق فکشن اور نان فکشن کے درمیان تفریق اس طرح کی جاتی ہے کہ فکشن کو کم گہرا اور سطحی سمجھا جاتا ہے اور نان فکشن اس کے برعکس۔ کیا تفریق کا یہ پیمانہ درست ہے؟ نیز فکشن کے میدان (پڑھنے، لکھنے) میں کیا پیش رفت ہو سکتی ہے؟ (ضحیٰ ملاحت، اورنگ آباد)

جواب:
”اتفاق میں برکت ہے اور افتراق میں تباہی“- یہ نان فکشن ہے۔ فکشن یہ ہے کہ کسان کے بیٹے لکڑیوں کے گٹھے کو نہ توڑ سکے، الگ الگ لکڑیاں بآسانی توڑ دیں۔ ”کشش ثقل وہ قوت ہے جس کی وجہ سے زمین تمام اجسام کو اپنی طرف کھینچتی ہے“- یہ نان فکشن ہے۔ فکشن یہ ہے کہ نیوٹن کے سر پر سیب گرا اور اس نے قوانین کشش ثقل دریافت کرلیے۔

ان دو مثالوں سے یہ بات عیاں ہے کہ فکشن اور نان فکشن میں فکر اور آئیڈیا کی سطح پر کسی فرق کا پایا جانا لازمی نہیں ہے۔ فرق دراصل فکر کے طریقۂ ترسیل یا ڈیلیوری میں ہے۔ بجائے خود وہ فکر کیسی مفید یا مضر اور مبنی بر حق یا سراسر جہالت ہو، یہ فی الوقت موضوع بحث نہیں ہے۔ اسی طرح یہ موقع فکشن و نان فکشن کی تقسیم، حدود اور ایک دوسرے کی سرحدوں میں دراندازی کے مختلف ادبی تجربات پر گفتگو کا بھی نہیں ہے۔

رہی بات سطحی پن یا گہرائی و گیرائی کی تو فکشن کے زمرے میں ایسی کتابیں شامل ہیں جن کی گہرائی بڑی بڑی فلسفیانہ کتابوں کو شرمسار کردینے کے لیے کافی ہے۔ کون کمبخت ابن طفیل کی ”حی بن یقظان“ کو محض فکشن کہہ کر نظر انداز کرسکتا ہے؟ دوستووسکی، ٹالسٹائی اور کافکا کا فکشن بھی کئی مشکل سوالات چھیڑ کر ذہن کو دعوت فکر دیتا ہے۔ جارج آرویل اور آئن رینڈ کے نظریاتی فکشن نے کمیونزم پر جو ضرب لگائی ہے، کہا جاسکتا ہے کہ، وہ بڑے بڑے تحقیقی اداروں کے نتائج فکر اور سیکڑوں تنقیدی کتب خانوں میں قید علمی مباحث سے زیادہ کاری ہے۔ دوسری طرف ایسے نان فکشن کی بھی دنیا میں کوئی کمی نہیں جو انتہائی سطحی اور محض الفاظ کی بازیگری پر مشتمل وسیلۂ تضیع اوقات ہے۔

البتہ یہ بات ضرور ہے کہ فکشن ایک خیالی دنیا بساتا ہے۔ اس خیالی دنیا میں آج لوگ عموماً کچھ سیکھنے نہیں بلکہ زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ذرا فاصلہ بنانے اور کھوجانے کے لیے داخل ہوتے ہیں۔ پہلے اخلاقی پند و نصائح کے لیے فکشن سے بڑا کام لیا جاتا تھا، لیکن اب اس پر تفریح اور انٹرٹینمنٹ کا مذاق (یا بدمذاقی) حاوی ہے۔ لہٰذا کہانی اگر الف لیلہ یا ہیری پوٹر جیسی تصوراتی نہ ہو تو بھی قلب و ذہن کے لیے روح افزا ثابت نہیں ہوتی۔ رومانوی، فحش، پاپولر اور پلپ فکشن کا مطالعہ تو وہ انسان کر ہی نہیں سکتا جسے ذوق سلیم کی ہوا ذرا سا چھو کر بھی گزری ہو۔ بدنصیبی یہ ہے کہ اسی کی جنس کے بازار میں مانگ ہے اور یہی کوڑیوں کے بھاؤ دستیاب بھی ہے، چنانچہ ’ذوق مطالعہ‘ رکھنے والوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کے لیے مطالعہ زندگی اور حقیقت سے فرار یا خواب آور گولیوں کے مصداق ہے جس میں مقصدیت (یا کم از کم کسی اعلیٰ مقصد) کا فقدان ہے۔ اس کے برعکس نان فکشن حقیقی دنیا اور اس کے مسائل سے تعرض کرنے کا دعوے دار ہے؛ معلومات کی فراہمی سے لے کر تجزیہ و تحقیق تک کے مقاصد کا رفیق ہے۔ لیکن یہ دونوں زمرے اتنے وسیع ہیں کہ ان سے متعلق کوئی ایسی عمومی بات کہنا مشکل ہے جس میں کوئی استثنا نہ ہو۔

میں ہمیشہ سے کہتا رہا ہوں کہ بچوں کو مطالعہ کی رغبت دلانے کے لیے مائل خیر آبادی اور افضل حسین وغیرہ کی کہانیاں دوا کا نہیں آب حیات کا حکم رکھتی ہیں۔ نوجوانوں میں ذوقِ مطالعہ کی آبیاری کے لیے ڈپٹی نذیر احمد کے اصلاحی ناول اور نسیم حجازی و عنایت اللہ التمش کے تاریخی ناول بھی کارگر ہیں۔ خوگرِ مطالعہ کے لیے دو باتوں کا التزام البتہ ضروری ہے، اولاً یہ کہ مطالعہ صرف اور صرف فکشن تک محدود ہوکر نہ رہ جائے؛ اور ثانیاً یہ کہ معیار سے کسی قسم کا سمجھوتہ نہ ہو۔ خیال رہے کہ معیار میں زبان و ادب بھی شامل ہے اور فکر و اخلاق بھی۔

فکشن کا میدان بہت وسیع ہے۔ اہمیت اور اثر پذیری کے اعتبار سے بھی فکشن اپنا ایک خصوصی مقام رکھتا ہے۔ لہٰذا ہمارے درمیان کچھ لوگ ایسے ضرور ہونے چاہیں جو معیاری فکشن لکھ سکتے ہوں۔ اس ضمن میں جو طلبہ و طالبات افسانے اور کہانیاں لکھنے کا شوق رکھتے ہیں، انھیں مختلف زبانوں کے معیاری فکشن کا مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ ان کا ذوق بلند ہو نیز بااثر فکشن کی بنیادی خصوصیات اور فکشن میں کامیاب تجربات سے ان کی شناسائی ہوسکے۔ ایرک سِلبن نے فکشن پر اپنی ایک (نان فکشن) کتاب میں ظلم کی مزاحمت اور انقلاب کی آمد میں فکشن کے اہم کردار پر بحث کی ہے۔ اس کردار کو سمجھنے اور سماجی تبدیلی کے اسلامی مشن میں فکشن کے قوائے تسخیرِ دل و جاں کے کماحقہ استعمال کی ضرورت شدت سے محسوس ہوتی ہے۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں