ٹیکنالوجی کے دریا میں کشتئ مطالعہ

فراست فصیح ملا

اس  دور میں کتابوں سے تعلق بنائے رکھنا اور بزمِ مطالعہ کو سجائے رکھنا  فقۂ تمدن میں فرضِ عین قرار پاتا ہے۔


تمدنِ انسانی میں علم کی ترویج و ترسیل کا واحد ذریعہ کتاب رہا ہے۔ الٰہی ہدایات  کی وحی ہو یا علوم کی تشکیل تجدید اور احیاء،  سب کتاب ہی کی شکل میں تصنیف ہوئی ہیں۔ اللہ کے پیغامبر معاشرے کی تشکیل کرتے ہوئے جو رہنمائی فرماتے وہ بھی کتاب ہی کی شکل میں اگلوں تک پہنچی ہیں۔ تمدن کی تشکیل و آرائش کتابوں ہی کی بنیاد پر ہوتی رہی ہے۔

مطالعہ انسان کو ان ساری صلاحیتوں اور علوم سے آراستہ کرتا ہے جن سے وہ مخلوقات عالم سے ممتاز بھی ہوتا ہے اور اس امتیاز کا ادراک بھی رکھتا ہے۔ مطالعہ  اذہان کو تخیل کی بلندی بھی عطا کرتا ہے اور تصور کی وسعت بھی۔ مطالعہ مختلف زاویہ ہائے نظر سے تعارف بھی کرواتا ہے اور نقطہ نظر فراہم بھی کرتا ہے۔ انسانی رویہ اپنے مخصوص حالات کا اور  ذہن محدود مشاہدات کا اسیر ہوتا ہے۔ مطالعہ انسان کو آزادی فراہم کرتا ہے جس سے اس کی انسانیت کی تکمیل  ہوتی ہے۔

تمدن کی ترقی عالم اشیاء کی اساس ہے۔ بیسویں صدی میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی غیر معمولی ترقی نے ایک ڈیجیٹل عالَم کی تخلیق کی ہے۔ ڈیجیٹل دور معلومات کے اژدہام کا نام ہے۔ معلومات کی اشاعت و ترسیل کے نئے اور انوکھے ذرائع تخلیق  ہوئے ہیں جبکہ  اکیسویں صدی نے عوام کی بڑی تعداد تک آ لات کی فراہمی کی ہے۔ مشہور مفکر ضیاء الدین سردار کے بقول تاریخِ عالم میں پہلی مرتبہ دنیا اس رفتار سے بدل رہی ہے کہ جس نے ’عمومیت‘ اور ’معمول‘ کے معنی بدل دئے ہیں اس لیے ہم اس کو ما بعد عمومیت کا دور  (Post Normal Times) کہتے ہیں ۔

تہذیبوں پر جدیدیت کے گہرے اور طویل المدت نقوش اور مابعد جدیدیت کے نو آموختہ اثرات نے صدیوں پرانے انسانی رویوں اور طبیعتوں کو اثر انداز کیا ہے۔ روز مرہ میں ترقیاتی اڑان کی سبک رفتار تبدیلی اور رابطے کے ذرائع میں بے پایاں تغیرات نے جہاں انسانی زندگی کی بہتری کے لیے بے شمار خدمات انجام دی ہیں وہیں اس نے تصورِ  زندگی اور احساسِ وقت کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ زندگی  کی  تیز گامی اور وقت کی تنگی کا احساس،  واقفیت کو آگہی اور جانکاری کو مربوط مطالعہ پر فوقیت اسی کے مظاہر  ہیں۔ ان سب تبدیلیوں کے ساتھ انسان کا کتب سے جو تمدنی رشتہ تھا اس کی تفہیمِ نو ہوئی ہے۔ ڈیجیٹل دور میں علوم کی  ’ابروے  پیوستہ‘ کے بجائے سرسری معلومات کی ’زلفِ پریشاں‘ میں زیادہ دلچسپی نظر آتی ہے۔ بشارتوں اور تمثیلات کے بجائے تازہ خبر کی خواہش ہوتی ہے۔

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز ایک تازہ خبر خلق خدا چاہتی ہے

اس دور میں کتابوں سے تعلق بنائے رکھنا اور بزمِ مطالعہ کو سجائے رکھنا  فقۂ تمدن میں فرضِ عین قرار پاتا ہے۔ ویڈیو اس دور کا غالباً سب سے زیادہ  تخلیق پانے والا  اور تصریف ہونے والا ٹول یا ذریعہ ہے۔ یہ بات ہمارے ذہن نشین ہو کہ معلومات کی ترسیل کا کوئی ذریعہ کسی دوسرے ذریعہ کا متبادل نہیں ہوسکتا۔ ویڈیو فارمیٹ کی غیر معمولی رسائی نے کتاب کو ویڈیو سے بدلنے کی ایک شدید خواہش کو جنم دیا ہے۔ ویڈیو کسی موضوع پر معلومات کو تصویروں یا متحرک تصویروں کو سبک رفتار مناظر کے ذریعہ ترتیب دینے کا نام ہے۔ اس سے بے شک اس مخصوص موضوع کے تحت معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ لیکن وہ سارے مقاصد فوت ہوجاتے ہیں جس کے لیے مطالعہ ہوتا ہے۔ کتاب فرد کو سوچنے پر آمادہ کرتی ہے،۔فرد کتاب سے گفتگو کرتا ہے۔ کتابیں دوست ہوتی ہیں۔ کتاب فطرتِ انسانی کا مظہر ہوتی ہے۔ حکمت کا حصول مقاصدِ مطالعہ میں سب سے اہم ہے جو صرف کتاب سے ممکن ہوتا ہے۔

ہم کسی شئے کو نا گزیر کہتے ہیں تو اس کی اہمیت بتانے کی ضرورت نہیں محسوس کرتے کیونکہ اس کی ناگزیریت ہی اس کی اہمیت ہوتی ہے۔ اسی طرح مطالعہ ذہن انسانی کے لیے ناگزیر ہے۔ مطالعہ کے بغیر جوابات کی تلاش ، کتاب کے بغیر افکار و نظریات کا درک خام خیالی ہے۔  اسکولوں اور درسگاہوں کے دور میں ہم سب کا تعلق ایک باقاعدہ سلسلۂ تعلیم سے ہوتا ہے جہاں کچھ مخصوص مضامین کا تعارف اور کچھ بنیادی معلومات کی فراہمی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ادبِ عالم اور علومِ انسانی کے  بحر زقار میں اور بھی مضامین عشق اور عناوین  علم ہوتے ہیں جن کا فہم و ادراک ہمیں خیر امت کے منصبِ عظمیٰ پر  فائز کرواتا ہے۔ تحریک اسلامی علوم کی تدوین اور معاشرہ کی تشکیل نو کا نصب العین رکھتی ہے اس کے افراد کا کتابوں سے وہی تعلق مطلوب ہے جو مچھلی کا پانی سے ہوتا ہے۔ شوق ِکتب اور ذوقِ مطالعہ سے ہمیں اشیاء ، افکار ونظریات، حالات و واقعات کو دیکھنے، پرکھنے کا فہم عطا ہونا چاہئے جسے ہم تصور حیات و کائنات  کہتے ہیں۔ یہ ہمارے ریسپانس کے لیے چراغ راہ بھی ہو اور ہمارے  بیانیہ(Narrative & Discourse) کی  وجہ تسمیہ اور وجہ جواز بھی۔

سعادت اللہ حسینی  ’’سنگ ہائے میل‘‘ میں رقم طراز ہیں،  ’’کہ مطالعہ چار مرحلوں میں مکمل ہوتا ہے۔
۱۔ بیانیہ مرحلہ۔ Descriptive  Phase: (ٹیکسٹ کی وضاحت)
۲۔ تعبیری مرحلہ۔ Interpretive Phase:  (تشریح، کنٹکسٹ کو سمجھنے کی کوشش)
۳۔ تنقیدی مرحلہ۔ Critical Phase: (تنقید، اختلاف، بحث)
۴۔ تخلیقی مرحلہ۔ Creative Phase: (اپنے خیالات کی تشکیل)

بیانیہ مرحلے میں قاری کتاب پڑھتا ہے۔ تعبیری مرحلہ میں وہ متن کو سمجھنے اور مصنف کے منشاء کی تعبیر وتشریح  کی کوشش کرتا ہے۔ تنقیدی مرحلہ میں وہ مصنف کے خیالات اور اس کے دلائل کو جانچتا اور پرکھتا ہے اور ان کا تنقیدی جائزہ لیتا ہے اور تخلیقی مرحلہ میں کتاب  کے مشتملات سے استفادہ کرتے ہوئے اور اپنے حالات و مسائل پر غور کرتے ہوئے، اسے نئے خیالات اور آئڈیا ز سوجھتے ہیں۔ ‘‘

مطالعہ سے مراد گہرا، مربوط اور منظم مطالعہ ہے۔ فرانسس بیکن کہتا ہے ’’کچھ کتابیں صرف چکھنے کی ہوتی ہیں اور کچھ نگل لینے کی۔ کچھ ہی کتابیں چبانے اور ہضم کرنے کی ہوتی ہیں۔‘‘ مطالعہ میں ہمیشہ قرآنِ حکیم اور سیرتِ نبیٔ معلم کو  اساس  کی حیثیت حاصل ہو ۔ شعر ،ادب او ر لٹریچر کا مطالعہ خدا، زندگی اور کائنات کی خوبصورتی کو اپریشیٹ کرنا سکھاتا ہے۔اسلامی تاریخ و روایات کے ذخیرہ  اور جدید  اسلامی لٹریچر سے استفادہ اطمینان قلب بھی دیتا ہے اور راستہ بھی دکھاتا ہے۔ اپنے پیشہ اور مخصوص  شعبہ علم سے متعلق کتابیں احسان کے سفر پر آمادہ کرتی ہیں۔ تحریکی لٹریچر تو ہمارا رفیق منزل ہونا چاہئے۔ جاہلی افکار و نظریات کی سمجھ کے بغیر ہم دعوت اللہ کا کام بھی اور تدوین علم بھی انجام نہیں دے سکتے ہیں۔

کتابوں کے ساتھ تنظیموں کے ترجمان رسائل کو ان کے غیر متبدل افکار اور ان کی بدلتی پالیسیوں کی تصریح و تتشریح کی محفل بھی کہہ سکتے ہیں۔ رسائل میں ترجیحات اور طریقۂ کار پرگفتگو کا یہی سلسلہ تنظیموں کو زندہ بھی رکھتا ہے اور متحرک بھی۔ تنقیح و تنقید  کی روایت تحریکوں کو توانائی فرہم کرتی ہے۔ رفیق منزل  پچھلے 35 سال سے طلبہ کی اخلاقی اور فکری تربیت میں اہم رول ادا کرتا رہا ہے۔ ہندوستان کے طلبہ رہنماء، جید علماء اور محققین کی تحریریں، نو جوانوں کے اخلاقی اور تعلیمی  مسائل کو  مفروضہ بنانے ، اسے سمجھنے، اسے گفتگو کا موضوع بنانے سے لیکر اسے حل کے مراحل تک میں،  رہنمائی کی کوشش کرتے رہے ہیں۔

عالمی تنظیموں OECD ،GED وغیرہ کی جانب سے کئے گئے مختلف سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ وقت مطالعہ کرنے والے ہندوستانی ہیں جو  ہفتے میں اوسطاً ۱۰ گھنٹے کتاب پڑھتے ہیں ۔API  کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ ہندوستان کی  پبلیشنگ انڈسٹری 2019ء میں 500 بلین روپئے کی تھی ۔ نیشنل بک ٹرسٹ کی 2010ء کی رپورٹ کہتی ہے کہ ہندوستان میں اُس سال 90,000  کتابوں کے ٹائٹل شائع ہوئے تھے ۔ 2022ء کی تعداد کا اندازہ ہم خود لگا سکتے ہیں۔ گفتگو سمیٹتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے  کہ ڈیجیٹل دور میں مندرجہ بالا سارے حقائق کے بعد بھی مطالعہ کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ دراصل اقراء والی امت ہے جو مطالعہ سےاحتراز کرتی ہے۔ فکری تحریکیں ہیں  جو فقدانِ مطالعہ سے پریشان ہیں۔

حوالہ جات:

  1. سعادت اللہ حسینی (2000)؛ سنگ ہائے  میل؛ وہائٹ ڈاٹ پبلیشرز؛ ص 61.
  2. Sardar Ziauddin; The Post Normal Times Reader ; Centre for Postnormal Policy & Futures Studies.

  3. Bacon Francis ; The Essays; Charles Scribner’s Sons; p.234.

  4. “World Reading Habits in 2020”, available at; “https://geediting.com/world-reading-habits 2020/”

  5. “Value Proposition of the Indian Publishing” (PDF). May 202, available at; “https://assets.ey.com › topics › strategy › 2021/08.”

  6. “Book Market in India” (PDF). November 30, 2013. Archived from the original (PDF) on 2015-04-25. Retrieved March 9, 2015.

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں