آر ایس ایس کے سربراہ یعنی سر سنگھ چالک موہن بھاگوت کی دس سالہ طویل پراسرار خاموشی کا بند آخر اس وقت ٹوٹ گیا جب پانی سر سے اونچا ہوگیا۔ تقریباً 22 ؍ سال قبل وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو گجرات فساد کے بعد اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کو کھلے عام نصیحت کرنی پڑی تھی کہ ”ایک وزیر اعلیٰ کے لیے میرا ایک ہی پیغام ہے کہ وہ راج دھرم کا پالن (اقتدار کی ذمہ داری کو ادا) کریں۔ “گجرات فساد کے بعد اٹل جی نے فساد زدہ ریاست کا دورہ کیا اور ایک ریلیف کیمپ بھی گئے۔ وہاں ایک بے گھر مسلمان کے سوال پر کہ وزیر اعلیٰ کے لیے ان کا کیا پیغام ہے؟ مذکورہ بالا بات کہی گئی تھی۔ اٹل اور مودی میں فرق یہ ہے کہ منی پور فساد کوایک سال اور ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت گیا مگر وزیر اعظم نریندر مودی کو وہاں جانے کی توفیق نہیں ہوئی۔ وہ حقائق سے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔
شتر مرغ والی اس حکمت عملی کا نتیجہ یہ ہوا کہ بی جے پی نےمنی پور کی دونوں نشستیں گنوادیں اور منی پور ہی کیوں آسام اور سکم کے علاوہ سات ریاستوں میں سے اسےایک بھی نشست پر کامیابی نہیں ملی۔ اس کے برعکس کانگریس 4 سے بڑھ کر 7 پر پہنچ گئی۔ یہ چشم کشا نتائج ہیں مگر جس رہنما کی آنکھوں پر نرگسیت کا پردہ پڑا ہو وہ اسے دیکھ نہیں سکتا اور نہ اس سے عبرت حاصل کر سکتا ہے۔ مودی تو اس ٹھوکر کھانے کے بعد بھی نہیں جاگے مگر بھاگوت جاگ گئے۔ وہ سر سنگھ چالک جو پچھلے ایک سال منی پور کے بھیانک فساد پر خاموشی اختیار کیے ہوئےتھے، وہ بھی بولنے لگے کیونکہ اب جبکہ وزیر اعظم کمزور ہوگئے ہیں۔ بھاگوت نے کہا ‘ منی پور پچھلے ایک سال سے امن کی راہ دیکھ رہا ہے۔ پچھلے 10 سالوں سے ریاست میں امن و امان تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے پرانا گن (بندوق) کلچر ختم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ منی پور ابھی تک جل رہا ہے۔ اس پر کون دھیان دے گا؟ اسے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا ہمارا فرض ہے۔ ” یعنی راج دھرم ہے اور وزیر اعظم نریندر مودی اس کو ادا کرنے میں کوتاہی کررہے ہیں۔
اٹل جی نے کہا تھا کہ راج دھرم ایک نہایت ہمہ گیر اصطلاح ہے۔ میں اسی پر عمل کررہا ہوں، عمل کرنے کی کوشش کررہا ہوں۔ یہی وہ انکساری تھی جس کا مودی میں فقدان ہے۔ آگے اٹل جی کہتے ہیں کہ ‘ راجہ یا حکمراں کے لیے رعایا کے درمیان تفریق و امتیاز نہیں ہوسکتا۔ نہ تو پیدائش کی بنیاد پر، نہ ذات پات کی بنیاد پر اور فرقہ کی بنیاد پر۔ “وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی نصیحت پر بڑی ڈھٹائی سے مودی نے مسکراتے ہوئے کہا تھا کہ “ہم بھی وہی کررہے ہیں صاحب۔ ” تعجب کی بات یہ ہے کہ اٹل کی سیاسی مجبوری نے ان سے یہ کہلوایا تھا کہ “مجھے یقین ہے نریندر بھائی یہی کہہ رہے ہیں۔ ” اس سفید جھوٹ نے اس وقت ساری دنیا کو حیران کردیا تھا لیکن اب یہ حال ہے کہ وزیر اعظم مودی کے منہ سے کوئی سچی بات نکل جائے تو لوگوں کو حیرت ہوتی ہے۔ ان کی پوری انتخابی مہم تفریق و امتیاز سے آگے بڑھ کر کھلے عام نفرت انگیزی کے محور پر گھومنے لگی تھی۔
گجرات فساد کے دوسال بعد ایک صحافی نےوزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو لکھنو میں انہیں یاد دلایا تھا کہ گجرات میں جب آپ نے یہ کہا تھا کہ راج دھرم کا پالن ہونا چاہیے تو اس وقت آپ کے چہرے پر رنج وغم کے آثار تھے لیکن حال ہی میں (2004) سپریم کورٹ کہہ رہا ہے کہ راج دھرم ابھی بھی نہیں نبھایا جارہا ہے۔ سپریم کورٹ کے ایسے تبصرے پر مرکزی حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کیا کہیں گے ؟ وہ ایک ایسا زمانہ تھا کہ عدلیہ حکومت پر تنقید کرتا تھا اور میڈیا سوال پوچھتا تھا۔ اب وقت بدل گیا ہے نازک مسائل میں عدلیہ سرکار کے خلاف نہیں جاتا اور میڈیا تو صرف دُم ہلاتا ہے۔ مذکورہ بالا سوال کے جواب میں اٹل جی نے اعتراف کیا تھا کہ اگر یہ صحیح ہے کہ ابھی بھی راج دھرم پر عمل نہیں ہورہا ہے تو یہ غلط ہے۔ ہونا چاہیے لیکن یہ کام بھی نئی دہلی یا پارٹی کے مرکزی دفتر میں بیٹھے ہائی کمان سے نہیں ہوسکتا۔ اس میں بھی گجرات کی عوام کی ذمہ داری کی اہمیت ہے۔ عدالت اپنا کام کررہی ہے۔ اس کا عوام میں کیا ردعمل ہوتا ہے اس پر بہت کچھ منحصر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ تشدد کے دو پہلو ہیں کسی ایک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ پہلا تشدد یعنی گودھرا نہ ہوتا تو دوسرا یعنی فساد بھی نہیں ہوتا۔ اس کے بعد وہ وہ بولتے ہیں “اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم تشدد کے حامی ہیں لیکن جیسا ہمارا سماج اور جیسا نظام ہےاس میں ایسے واقعات ہوتے ہیں، انہیں روکا جانا چاہیے۔ ”
تغیر زمانہ سے یہ ہوا کہ ماضی کا افسوس اب فخر میں بدل گیا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے فخریہ انداز میں اس فساد پر گجرات کے اندر ایک عوامی جلسہ ٔ میں کہا کہ بیس سال قبل ایسا سبق سکھایا کہ پھر تشدد بند ہوگیا۔ ا ب شاہ جی کو ملک کی عوام نے سبق سکھا دیا مگر وہ اور ان کے آقا سیکھنے سے گریز کرتے ہوئے اعلان کررہے ہیں کہ “ہم نہ ہارے تھے، نہ ہارے ہیں اور نہ ہاریں گے۔ ” اس کے برعکس اٹل جی نے انتخابی شکست کے بعد اعترافاً کہا تھا کہ اس کی اہم ترین وجہ گجرات کا فساد تھا۔ ہندوستانی سیاست کے مزاج میں یہ جو فرق واقع ہوا ہے اس کے تناظر میں موہن بھاگوت کا بیان نہایت اہم تبصر ہ ہے۔ انہوں وزارتوں کے تقسیم والے دن (10 جون) کو آر ایس ایس کے کارکنوں کو خطاب کرتے ہوئے ایک تربیتی اجتماع میں کہا کہ ایک “سچے سیوک (خادم) میں غرور و تکبر نہیں ہوتا اور وہ دوسروں کو نقصان پہنچائے بغیر کام کرتا ہے۔ “
اس جملے کے ہر لفظ کے مخاطب وزیر اعظم نریندر مودی ہیں اس لیے کہ دس سال قبل اقتدار کی باگ ڈور سنبھالتے وقت انہوں نے خود کو پردھان منتری (وزیر اعظم) نہیں بلکہ پردھان سیوک (خادمِ اعظم) کے طور پر متعارف کیا تھا۔ اب چونکہ وہی خادم گھمنڈ میں مبتلا ہوکرخود کو خدا سمجھنے لگا ہے اس لیے اسے یہ بتانے کی ضرورت محسوس ہورہی ہے کہ بھیا اصلی سیوک کی تعریف کیا ہے یا وہ کون ہوتا ہے؟ اس طرح موہن بھاگوت نے بلا واسطہ یہ اعلان کردیا کہ مودی جی اصلی سنگھ سیوک نہیں ہیں بلکہ اقتدار کے حصول کی خاطر سنگھ کا چولا اوڑھ رکھا ہے۔ اس لیے موہن بھاگوت کے مطابق وہ حقیقی سیوک نہیں بلکہ جعلی خادم ہیں۔ ایک زمانے میں اڈوانی نے اپنے مخالفین کے لیے جعلی (pseudo) سیکولر کی اصطلاح وضع کی تھی اب موہن بھاگوت نے گویا جعلی سیوک کی اصطلاح ایجاد کی ہے جو من و عن وزیر اعظم نریندر مودی پر صادق آتی ہے۔ موہن بھاگوت کے مطابق ایسے انسان کو سچا سیوک کہلانے کا حق ہی نہیں ہے۔
وزیر اعظم مودی میں یہ خرابی تو دس سال قبل اس وقت ظاہر ہوگئی تھی کہ جب انہوں نے دس لاکھ کا کوٹ پہن لیا تھا اور اپنے لیے 8؍ ہزار کروڑ کا جہاز منگوایا تھا۔ موہن بھاگوت اگر اسی وقت اصلاح کی کوشش کرتے تو آج یہ حالت نہیں ہوتی۔ انہیں یہ نہیں بتانا پڑتا کہ ‘جو حقیقی خادم ہے، جسے حقیقی خادم کہا جاسکتا ہے وہ حدود و قیود کا پاس و لحاظ کرتا ہے۔ وہ وقار کے ساتھ کام تو کرتا ہے مگر اس میں ملوث نہیں ہوتا (یعنی الگ تھلگ رہتا ہے)۔ اس مرتبہ وزیر اعظم اور ان کے حواری اپنے وقار کو پامال کرتے ہوئے شتر بے مہار تو کیا بگڑے ہوئے سانڈ کی مانند ہیں جو منہ میں آئے بک رہے تھے۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت انٹرویو کے اندر ان کی مسلمانوں سے محبت کا اظہار اور عوام جلسوں میں ان پر نفرت کی بوچھار سے ہوتا تھا۔ حال میں ا ختتام پذیر ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے دوران انتخابی مہم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ “یہ الیکشن ایسے لڑا گیا جیسے کوئی جنگ ہو۔ جس طرح سے معاملات ہوئے ہیں، جس طرح سے دونوں فریقوں نے کمر کس کر حملہ کیا ہے، اس سے تفرقہ پیدا ہوگا، معاشرتی اور ذہنی دراڑیں بڑھیں گی۔”
یہ کوئی مستقبل میں وقوع پذیر ہونے والی شئے نہیں ہے بلکہ ماضی قریب کا واقعہ ہے اور تاریخ گواہ ہے کہ جب یہ سب کھلے عام ہورہا تھا تو پورا سنگھ پریوار خاموش تماشائی بنا ہوا تھا بلکہ پسِ پردہ اس کی حمایت کررہا تھا۔ ایک مرتبہ بھی اس نے روک ٹوک کی زحمت نہیں کی۔ اس بار BJP کو چار سو پار تو دور معمولی اکثریت بھی مل جاتی تو سنگھ والے اس کا کریڈٹ لینے کے لیے کمر کس لیتے لیکن چونکہ ناکامی ہاتھ آئی اس لیے دوری بناکر پروچن (پندو نصیحت) جھاڑ رہے ہیں۔ بھاگوت نے کہا، “جب انتخابات ہوتے ہیں تو مقابلہ ضروری ہوتا ہے، اس دوران دوسروں کو پیچھے دھکیلنا پڑتا ہے، لیکن اس کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ “سوال یہ ہے کہ مخالفین کو جیل کی سلاخوں پر بھیج کر یا بینک اکاؤنٹ منجمد کرکے ان حدود کو پامال کرنے والی اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو انہوں نے روکا کیوں نہیں؟ بھاگوت کو اب جاکر خیال آیا کہ “انتخابی مقابلہ جھوٹ پر مبنی نہیں ہونا چاہیے۔ اس انتخابی مہم کے دوران اخلاقی قدروں کا خیال نہیں رکھا گیا۔” سوال یہ ہے کہ اب پچھتائے کا ہوت جب چڑیا چگ گئی کھیت۔
موہن بھاگوت انتخابی عمل کی غرض و غایت پر استفہامیہ انداز میں فرماتے ہیں کہ لوگ کیوں منتخب کیے جاتے ہیں؟ اور پھر جواب دیتے ہیں کہ مختلف معاملات پر اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے ایوانِ پارلیمان میں نمائندوں کا انتخاب ہوتا ہے۔ ان کے مطابق “ہماری روایت اتفاق رائے پیدا کرنے کی ہے۔ ” یہ بات اس لیے یاد دلائی جارہی ہےکیونکہ مودی جی ایک ایسے سخت گیر آمر میں تبدیل ہوچکے ہیں، جو کسی کی نہیں سنتا بلکہ اپنی من مانی کرتا رہتاہے۔ ایسے میں یہ نصیحت وزیر اعظم کے لیے ہے کہ ‘اختلاف رائے کو مخالفت کہنا بند کیجیے۔ ‘ بھاگوت نے پھر سوال کیا کہ “پارلیمنٹ میں دو پارٹیاں کیوں ہوتی ہیں؟ تاکہ کسی بھی مسئلے کے دونوں پہلو سامنے رکھے جا سکیں۔ ” کاش کہ بھاگوت یہ نصیحت اس وقت کرتے جب ایوان پارلیمان میں حزب اختلاف کے مائیک بند کردئیے جاتے تھے۔ یکلخت ڈیڑھ سو سے زیادہ ارکان پارلیمان کو معطل کردیا جاتا تھا اور اڈانی کو بچانے کی خاطر راہل گاندھی و مہوا موئترا جیسے رہنماوں کی رکنیت چھین لی گئی تھی۔ اب جبکہ سانپ گزر چکا ہے لکیر پیٹنے سے کیا حاصل ؟ سچ تو یہ ہے کہ آر ایس ایس اپنی جانبداری سے اپنا اخلاقی مقام گنوا چکی ہے۔
انتخابی پسپائی کا یہ حاصل ہے کہ مودی کو نہ سہی تو کم از کم موہن پر یہ انکشاف ہوا کہ ’’جس طرح ہر سکے کے دو رخ ہوتے ہیں، اسی طرح ہر مسئلے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ اگر ایک پارٹی ایک پہلو پر توجہ دیتی ہے تو اپوزیشن پارٹی کو دوسرے پہلو پر توجہ دینی چاہیے، تاکہ ہم صحیح فیصلے تک پہنچ سکیں۔ ‘‘ لیکن اب تو یہ حال ہے کہ جو اڈانی کا ناقد وہ مودی کا مخالف اور جو مودی کا مخالف وہ ملک کا دشمن کہلاتا ہے، اسے پاکستان جانے کا مشورہ دے دیا جاتا ہے۔ حزب اختلاف کی جیت پر پاکستان میں جشن منائے جانے کی پیشنگوئی کی جاتی ہے، مخالف جماعتوں سے عوام کو متنفر کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ہندوعورتوں سے ان کا منگل سوتر چھین کر مسلمانوں کو دے دیں گے۔ ان کی بھینس اور نل کی ٹوٹی تک نکال کر لے جائیں گے۔ اس تناظر میں بھاگوت فرماتے ہیں کہ “اگر کوئی آپ سے متفق نہیں ہے تو اسے اپنا مخالف کہنا بند کر دیجیے۔ مخالف کے بجائے حزب اختلاف کہیے۔ ” کسی بھی مسئلہ کے دونوں پہلووں کو حزب اقتدار اور حزب اختلاف کے ذریعہ سامنے آنا چاہیے لیکن ملک کی سب سے بڑی حزب اختلاف کے خلاف ’کانگریس مکت (پاک) بھارت‘ کی مہم چلانے والوں پر ان الفاظ کا بھلا کیا اثر ہوگا۔ حزب اختلاف کے خلاف ای ڈی اور سی بی آئی کا بے دریغ استعمال کرنے والے ان باتوں کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں گے۔
انتخابی نتائج کے بارے میں سنگھ سربراہ نے کہا کہ “لوگوں نے اپنا مینڈیٹ دیا ہے اور سب کچھ اس کے مطابق ہونا چاہیے۔” عوام کی رائے تو ہے کہ مل جل کر سرکار بنائی اور چلائی جائے مگر مودی جی نے انہیں پرانے چہروں کو ساری اہم وزارتیں سونپ دیں۔ نائیڈو کوہوابازی پکڑا کر فضا میں اچھال دیا اور نتیش کمار جھک مارتے رہ گئے یعنی ان کا وزیر مچھلی پالنے میں لگا دیا گیا۔ اس پر کوئی واضح گرفت کرنے کے بجائے بھاگوت فرماتے ہیں کہ “یہ کیسے ہو گا؟ کب ہو گا؟ سنگھ ان سب میں نہیں جاتا۔ کیونکہ سماجی تبدیلی سے ہی نظام بدلتا ہے۔” یہی بات ہے تو سارے نیکر دھاری آنکھ موند کمل کو کامیاب کرنے کی خاطر کیوں نکل کھڑے ہوتے ہیں اور بی جے پی کی ہرکوتاہی کا جواز کیوں پیش کیا جاتا ہے؟ بی جے پی کے ساتھ حزب اختلاف کو بھی آڑے ہاتھوں لے کر مصنوعی توازن قائم کرنے کی کوشش کیوں کی جاتی ہے؟ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ پریوار نے یہ محسوس کرلیا ہے کہ بہت جلد حزب اختلاف اقتدار میں آجائے گا اور اس کے ساتھ آر ایس ایس کی شامت بھی آجائے گی کیونکہ دس سالوں کی زیادتی میں وہ بھی شریک کاررہی ہے۔ اس لیے اب صرف بی جے پی کی جانب جھکے رہنے کے بجائے سنگھ دوسروں سے بھی پینگیں بڑھانے کی کوشش کررہی ہے اور یہی ان کی تہذیب ہے جس نےانہیں مغلوں سے لے کر انگریزوں تک سب کا باجگذار بنادیا تھا۔
انتخابی مہم کے دوران ذات پات اور ریزرویشن کے حوالے سے بھاگوت کی ایک ویڈیو وائرل ہونے لگی تو انہیں امسال اپریل کے اندر اس کی تردید کرنی پڑی تھی۔ سنگھ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ ریزرویشن کا مخالف کبھی نہیں تھا حالانکہ یہ سفید جھوٹ ہے مگر بی جے پی کو متوقع نقصان سے بچانے کی خاطروہ ایک پاکھنڈ تھا۔ وزیر اعظم کے بھگوان بن جانے پر بلا واسطہ اشارہ کرتے ہوئے بھاگوت نے کہا کہ “خدا نے سب کو بنایا ہے۔ ۔ ۔” اس کی بنائی ہوئی کائنات کے تئیں ہمارے جذبات کیا ہونے چاہیے؟ یہ سوچنے کی بات ہے۔ وقت کے بہاؤ میں جو بگاڑ پیدا ہوا ہے ان کو سوچ سمجھ کر دور کر نے کی ضرورت ہے۔ اس ملک کے سارے لوگ بھائی بھائی ہیں۔ اس حقیقت کو فکر و عمل میں لانا چاہیے کیونکہ معاشرے کے تئیں یہ سب کی ذمہ داری ہے لیکن سیاسی مفاد کی خاطر جب بھائی کو قصائی بناکر پیش کیا جائے تو اس پر خاموش رہنے والوں کو یہ پروچن کرنے کا حق نہیں ہے۔ بھاگوت کے مطابق خدا کی نظر میں سب ایک ہیں، ان میں کوئی ذات پات نہیں ہے لیکن پنڈتوں نے یہ نظام بنایا، جو غلط تھا لیکن مہاراشٹر میں ان کی ناک کے نیچے بی جے پی سرکار تو منو سمرتی کو نصاب میں شامل کرنا چاہتی ہے۔ ایسے غلطی کی اصلاح ہوگی یا ارتکاب کیا جائے گا؟
بھاگوت کی ان باتوں سے صد فیصد اتفاق رکھنے کے ساتھ یہ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ جب یہ تماشہ ہورہا تھا تو وہ خاموش کیوں تھے ؟ انہوں نے اپنی زبان پر قفل کیوں لگا رکھا تھا ؟ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ پہلے آر ایس ایس میں مودی کی بی جے پی کے سامنے زبان کھولنے کی جرأت نہیں تھی اور اس کی نصیحتوں کو نظر انداز کردیا جاتا تھا۔ انتخابی مہم کے دوران بی جے پی کے صدر کا یہ بیان اس خیال کی تصدیق کرتا ہے کہ جس میں کہا گیا تھا ایک زمانے میں جب پارٹی کمزور تھی تو اسے آر ایس ایس کی حمایت درکار تھی۔ اب و ہ طاقتور ہوگئی ہے اس لیے سنگھ پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کا ایک مطلب یہ ہوتا ہے کہ جس طرح مودی جی نے پارٹی کے اندر اپنے بزرگوں کو مارگ درشک منڈل (رہنما مجلس) میں بھیج کر اپنی جان چھڑا لی تھی اسی طرح کا معاملہ آر ایس ایس کے ساتھ بھی کرنا چاہتے ہیں اور یہی پریشانی بھاگوت سے یہ سب کہلوا رہی ہے۔
سچ تو یہ ہے سنگھ نے سو سال کی محنت سے، نظریہ سے، قطع نظر بے لوث خدمت کی جو شبیہ بنائی تھی اس پر مودی جی نے دس سالہ اقتدار میں پانی پھیر دیا۔ اسی لیے موہن بھاگوت نے انتخابی نتائج کا اندازہ کرکے صد سالہ تقریبات کی منسوخی کا اعلان پہلے ہی کردیا تھا۔ اب اس کو دوبارہ اپنا وقار بحال کرنے میں بہت وقت لگے گا اس لیے کہ زعفرانی چولہ اوڑھنے والے شیکھر گپتا کاپچھلے سال کیا جانے والا یہ تبصرہ درست معلوم ہوتا ہے کہ فی الحال آر ایس ایس جتنی کمزور ہے اتنی کبھی نہیں تھی۔ اسی کمزوری کا شدید احساس موہن بھاگوت کو انتخابی نتائج کے بعد ہوگیا اور اسی لیے وہ ایسی تنقید فرمارہے ہیں کیونکہ اب حالت کہا بھی نہ جائے اور سہا بھی نہ جائے والی ہوگئی۔ آر ایس ایس اگر اپنے آپ کو سنبھال کر اصلاح کی جانب متوجہ نہیں ہوگی تو بہت جلد اس کی ساری محنت بہہ کر خلیج بنگال میں غرق ہوجائے گی۔ موہن بھاگوت کے خطاب کا ایک مقصد اپنی تنظیم کو تباہی وہ بربادی سے بچانا ہے لیکن وہ اگر یہ سعی پہلے کرتے تو فائدہ ہوتا۔ سنگھ سنچالک کی تنقید پر افتخار راغب کا ایک شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے؎
بے اعتباریوں کا ہے سیلاب ہر طرف
پانی میں سڑ رہا ہےکمل اعتبار کا
(مضمون نگار نیوکلئیر کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں اور معروف کالم نگار ہیں۔)