قسط-1
بھارت کا معاشی پس منظر
بھارت کل 3287363 مربع کیلومیٹر میں پھیلا ہو ا28 ریاستوں اور 8 علاقہ زیر مرکز پر مشتمل جس کی کل آبادی تخمینا ایک ارب چالیس کروڑ ہے اورجودنیا کا رقبہ کے اعتبار سے ساتواں اور آبادی کے اعتبار سے اب پہلے نمبر کاملک مانا جاتاہے ۔ یہ ایک وفاقی عوامی جمہوریہ ہے جو15 اگست 1947 کوبرٹش نوآبادیاتی تسلط سے آزاد ہو ا۔
انگریزوں کی آمد سے قبل اٹھارہویں صدی میں بھارت دنیا کا ایک خوشحال ملک مانا جاتاتھا۔ عالمی معیشت میں جس کی کل جی ڈی پی 23% ہو اکرتی تھی اور بین الاقوامی تجارت میں بھارت کاحصہ27٪ تھا۔ انگریزی عہد میں بھارت کا اس قدر استحصال ہو اکہ جب انگریزوں نے اس ملک کو چھوڑا تو بھارت کی جی ڈی پی 4% رہ گئی تھی اور عالمی تجارت میں بھارت کا حصہ گھٹ کر محض2% رہ گیاتھا۔غرض دوسوسال کی انگریزی حکومت نے بھارت کو خوشحال سے کنگال بنادیا۔ لہذا بھارت کی آزادی کے بعد سب سے بڑا چیلنج بھارت کی پامال شدہ معیشت کی تعمیر نو تھا، جس کا آغاز آزادی کے ساتھ ہوگیا۔ 1947ء میں جب انگریزوں نے ملک چھوڑا تھا اس وقت بھارت کی کل جی ڈی پی محض 2.7 لاکھ کروڑ تھی جوپچھلے پچھتر سالوں میں بڑھ کر 273.8لاکھ کروڑ ہوگئی ہے۔
آزادی کے بعد سے لے کر اب تک بھارت معاش کے میدان میں کئی اتار چڑھاؤ سے گزرا ہے اوروقت وقت پر اس کی معاشی پالیسیوں میں دور رس تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں جس کا جاننا نہ صرف یہ کہ دلچسپ اورمعلومات افزاء ہوگابلکہ بھارت کے معاشی ارتقاء اور اس کے مسائل کو سمجھنے میں بھی مددگار ہوگا۔
یورپ میں نشاۃ ثانیہ، سائنسی اورصنعتی انقلاب کی وجہ سے جوبیداری آئی اور اس کی معاشی اور عسکری قوت میں اضافہ ہو اتو یورپی استعمار بڑے بڑے تجارتی اورجنگی بحری بیڑے لے کر ایک طرح سے ساری دنیا میں نکل پڑے۔ شروع میں انہوں نے سواحلی علاقوں میں تجارتی اور صنعتی مراکز کاقائم کئے پھر ملک کی اندرونی سیاسی صورتحال کا فائدہ اٹھاکر اس ملک کے حکمراں بن بیٹھے۔ ایشیا، افریقہ اور لیٹن امریکی ممالک کے ساتھ انہوں نے یہی کیاکہیں پرتگالی، کہیں ڈچ، کہیں فرانسیسی اور کہیں انگریزی حکومت کاقیام عمل میں آیا۔ اس طرح گویا اس وقت کی پوری معلوم دنیا پر یورپی سامراج کاقبضہ ہوگیا جس کے نتیجے میں دنیابھر میں استعماری، نوآبادیاتی، سرمایادارانہ اورجاگیردارانہ نظام قائم ہوگیا۔ یہ تمام نظام سرکاری سرپرستی میں لوٹ کے فلسفے پر قائم تھا جس کی روح استحصال تھی۔ جب ان کاظلم واستحصال حد سے بڑھنے لگا تو اس کے رد عمل میں آزادی کی تحریکیں شروع ہوئیں، ابتداءً یہ تحریکیں مسلح بغاوت کے ذریعہ آزادی حاصل کرنا چاہتی تھیں۔ مگر جلدی ہی یہ محسوس ہوگیاکہ یہ حکمت عملی صحیح نہیں ہے۔بھارت میں بیسویں صدی کے اوائل سے ان تحریکوں نے پرامن، جمہوری اور عدم تعاون کی حکمت عملی اختیا رکی اور عام عوام کو ساتھ لے کر آزادی کی جدو جہد شروع کی۔ سیاسی آزادی کے اہم محرکات میں معاشی آزادی سب سے اہم محرک تھا۔
بیسویں صدی کے اوائل میں یورپی حکومتوں کے درمیان برتری کی جنگ شروع ہوگئی۔ جس کے نتیجے میں دوعالمی جنگیں ہوئیں۔ان عالمی جنگوں میں اگرچہ اتحادی گروہ کو محوری گروہ پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ مگر اس نے اندرونی طور پر ان کو اتنا کمزور کردیاکہ وہ ایک بڑی عالمی حکومت کابوجھ اٹھانے سے قاصر نظر آنے لگے دوسری جانب اندرون ملک آزادی کی تحریک زور پکڑنے لگی تھی۔ نتیجہ کے طور پر دونوں جانب سے پرامن نقل اقتدار کی کوشش شروع ہوئی۔
اسی درمیان مارکسی فلسفہ کوشرف قبولیت حاصل ہونے لگی اور اسے سرمایہ دارانہ نظام کے بدل کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ 1917ء میں روس میں بالیشویک انقلاب اور 1949ء میں چین میں سرخ انقلاب کے بعد اس نظریہ کو ایک زمین فراہم ہوگئی اور باضابطہ کمیونسٹ حکومت کا آغاز ہوا۔ اس نظام کے تحت ذرائع پیداوار کو ریاست کی ملکیت میں لے لیا گیا۔ بادشاہت یا جمہورت کے مقابلے مزدوروں کی ڈکٹیٹر شپ قائم کی گئی اور تیسرا قدم یہ اٹھایا گیاکہ سنٹرلائنزپلاننگ کے ذریعہ معاشی ترقی کاخاکہ پیش کیا گیا۔ روس کے ڈکٹیٹر جوزف اسٹالن نے1928ء میں منصوبے بند ترقی کا آغاز کیا۔ ابتدا ءً یہ تجربہ کامیاب رہا کہ ساری دنیا کے نوآزاد ملکوں کو لگنے لگا کہ یہی تیز رفتار معاشی ترقی کا صحیح طریقہ ہے۔
بھارت میں تحریک آزادی کے جتنے بڑے رہنما تھے، ان کی غالب اکثریت مغرب کی بڑی بڑی یونیورسیٹیوں سے فارغ تھی۔ جنہوں نے ہندوستان میں ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی تھی وہ بھی انہیں اداروں کے فارغین تھے جومغربی طرز تعلیم کے تحت چلائی جارہی تھی بھارت میں سب سے پہلے سر۔ ایم۔وِسویسوَرایا نے 1934ء میں منصوبہ بندی کا تصور پیش کیا اور انہوں نے بھارت میں منصوبہ بند معیشت پرایک کتاب لکھی جس میں مزدوروں کو زراعت سے نکال کر صنعت میں لگانے کی تجویز تھی اور دس سال میں قومی آمدنی دوگنا کرنے کا خاکہ تھا۔
بھارت میں منصوبہ بندی کی تاریخ اور اس کاآغاز
بھارت میں آزادی سے قبل ہی اس بات پر غور و خوض شروع ہوگیا تھاکہ آزاد بھارت میں معاشی ترقی کاماڈل کیاہوگا۔ ان کے سامنے ترقی کاجوبھی ماڈل تھاوہ مغرب سے مستعار تھااور وہ اسی کے مطابق آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ 1935ء میں کانگریس نے جواپنی معاشی تجویز پاس کی اس میں منصوبہ بند ترقی کی بات کی گئی تھی 1938ء میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کی صدارت میں نیشنل پلاننگ کمیٹی بنائی گئی۔ اس کے بعد 1944ء میں چھ مشہور معاشی ماہرین اور صنعت کاروں نے مل کر 1944ء میں بمبئی پلان کا خاکہ پیش کیا۔ ایم ان رائے نے 1945ء میں عوامی منصوبہ پیش کیا۔پھر گاندھی پلان اور 1950ء میں سرواودے پلان، جے پرکاش نارائن نے پیش کیا۔ حکومت ہند نے جنگ کے بعد تعمیر نوکے لئے 1941ء-1946ء کا منصوبہ مرتب کیا۔ پھرجب عبوری حکومت قائم ہوئی تو ا س نے 1946ء میں مشاورتی پلاننگ بورڈ قائم کیا ۔ پھر جب ملک آزاد ہوگیا تو 15مارچ 1950ء میں بھارت میں نیشنل پلاننگ کمیشن کاقیام عمل میں آیا۔
منصوبہ بندی کے سلسلے میں یہ تاریخی تسلسل اس بات کا غماز ہے کہ اس وقت لوگ منصوبہ بند ی کوترقی کالازمہ سمجھتے تھے۔ ارتھر لیوس کاقول ہے کہ “یا تو آپ منصوبہ بندی کریں یا پھرتباہ ہونے کے لئے تیار ہوجائیں۔” لہذ اجن ملکوں نے کمیونزم کوبحیثیت نظریہ حکومت تسلیم نہیں بھی کیاتھاانہوں نے تیز رفتار معاشی ترقی کے لئے منصوبہ بندی کو ایک لازمی ضرورت تسلیم کیا اور تیسری دنیا کے نو آزاد ممالک نے منصوبہ بندی کی راہ اختیار کی۔یہاں تک کہ انگلینڈ اور امریکہ جیسے سرمایہ دار ملکوں نے بھی بعض میدانوں میں جزوی منصوبہ بندی کی اہمیت کو تسلیم کیا اور معیشت کے کئی سیکٹر کو سرکاری تحویل میں لے کر ترقی دینے کی کوشش کی۔
آزاد ہندوستان کے معاشی عزائم
جواہر لال نہرونے15 اگست 1947ءکو بھارت کی آزادی کے موقع پرتقریر کرتے ہوئے کہاتھاکہ “بھارت کی خدمت کامطلب ان لاکھوں لوگوں کی خدمت ہے جواب تک استحصال کاشکاررہے ہیں اس کامطلب غربت،، جہالت، بیماری،اورمواقع کی عدم یکسانیت کوختم کرناہے۔۔۔۔۔اور ہر آنکھ کے آنسو پوچھنا ہے۔” یہ تووہ وعدہ تھا جس کا عہدکرکے آزاد ہندوستان کاسفر شروع ہواتھا۔ آج جب آزادی کے پچھتر سال گزر چکے ہیں ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ یہ مقاصد کہاں تک پورے ہوئے ہیں اورکتنے باقی ہیں۔اسی طرح پتہ چلے گا کہ ہم اپنی جدو جہد میں کتنے کامیاب ہوئے ہیں۔
کانگریس جو آزادی کاہراول دستہ تھی وہ کوئی نظریاتی جماعت نہیں تھی بلکہ مختلف الخیال لوگوں کاپلیٹ فارم تھا جن کا صرف ایک نکتہ پر اتفاق تھاکہ بھارت کوآزاد کرانا ہے۔ان کے سماجی اورمعاشی نظریات الگ الگ تھے کوئی بائیں بازو کا دلدادہ تھاتو کوئی دائیں بازو کا۔ خود گاندھی اور نہرو کے معاشی خیالات میں اختلاف تھا۔ نہرو شروع ہی سے فیبن سوشلزم کے مداح تھے۔ لہذا ان کے نزدیک بھارت کی معاشی بہتری کے لئے صرف معاشی ترقی کافی نہیں تھی بلکہ معاشی اور سماجی ترقی کے لئے socialist pattern of society کاقیام ضروری ہے۔یہ اصطلاح دوسرے پانچ سالہ منصوبہ کاپارٹ بنی جس کی تعریف یہ کی گئی کہ,
“Socialist pattern of society means that the basic criterion for determining the line of advance must not be private profit but social gain and that the pattern of development and the structure of socio- economic relations shoud be so planned that they result not only in appreciable increases in national income and employment but also in greater equality in income and wealth.”
بھارت کی صنعتی پالیسی
ان مقاصد کے حصول کے لئے دوطرفہ جد وجہد شروع کی گئی۔ پہلا آزادی کے فورا بعد 16اپریل 1948ء کو پہلی صنعتی تجاویز وضع کی گئی۔ دوسری طرف دستور ساز اسمبلی میں بھارت کا جو دستور وضع کیا جارہاتھاا س کے افتتاحیہ میں انصاف بمعنہ سماجی،معاشی و سیاسی اور برابری بہ معنی درجہ اورمواقع کی برابری کو بنیادی اہمیت دی گئی۔ جس کی گونج ہمیں بنیادی حقوق اور ریاست کے رہنما اصولوں کے دفعات میں سننے کوملتی ہے۔ بنیادی حقوق میں برابری کاحق اور استحصال کے خلاف ویسے حقوق ہیں جس کی خلاف ورزی قابل تعزیر ہے۔ رہنما اصولوں میں گزارے کے معنی مناسب ذرائع، تمام مادی وسائل کی تقسیم اس طرح ہوگی کہ تمام لوگوں کافائدہ ہو۔ دولت کے انجماد پر روک۔ ایک طرح کے کام کے لئے عورتوں اورمردوں کویکساں مزدوری،بچوں کاتحفظ، مزدوروں کو اتنی مزدوری جوان کی کفالت کرسکے، لوگوں کے تغذیہ، ان کے معیار زندگی کو بڑھانا اور عوامی صحت پر دھیان اورسماجی فلاح کوبڑھانا وغیرہ۔
یہ وہ اہداف تھے جس کوسامنے رکھ کر بھارت نے آزادی کے بعد تعمیرو ترقی کامنصوبہ بند پروگرام بنایا۔ اس سے قبل کہ ہم منصوبہ بند ترقی کا جائزہ لیں ایک نظر 1948ء اور 1956ء کے صنعتی پالیسی کے خصوصیات پر ڈالتے چلیں۔ 1948ء کے صنعتی پالیسی میں پبلک سکٹر کادائرہ محدود تھا جو 1956ء میں وسیع ہوگیا۔1948ء کی پالیسی میں صنعتوں کو چار خانوں میں بانٹا گیا تھاجبکہ1956ء میں تین خانوں میں 1948ء کے پالیسی میں بنیادی صنعتوں کودس سال بعد سرکاری تحویل میں لینے کی بات کی گئی تھی 1956ء میں یہ بات ختم کردی گئی۔ 1948ء کی پالیسی نجی سکٹر کے مفاد کے خلاف تھی جبکہ 1956ء میں اسے مناسب فروغ دینے کی وکالت کی گئی۔ 1948ء میں صنعتوں کی خانہ بندی سخت تھی، 1956ء میں اتنی سخت نہیں تھی۔ 48 19ء میں کوآپریٹیو سکٹر پر کوئی زور نہیں دیا گیا تھا جبکہ 1956ء کی پالیسی میں اس سکٹر کے فروغ پر زور دیا گیا۔مختصر یہ کہ ان دونوں صنعتی پالیسیوں کالب ولباب یہ تھا کہ بھارت میں نجی صنعت اور اجارہ داری پر روک لگے اور بھارت میں ملی جلی معیشت جسے Mixed Economyکہتے ہیں، کاآغاز کیاجائے۔ اس پالیسی کے تحت نجی صنعتوں کا دائرہ کار متعین کردیا جائے کہ کن شعبوں میں وہ صنعت لگا سکتی ہیں۔ اس کے ساتھ جوسرکاری سکٹر ہے جس کوعوامی سکٹر کہا جاتاہے اسے معیشت میں کمانڈنگ ہائٹس حاصل ہوں گے یعنی یہی صنعتیں ملک کی معاشی ترقی کی رفتارمتعین کریں گی اور کچھ صنعتیں وہ ہوں گی جس میں پبلک اور پرائیوٹ سکٹر دوونوں کی ساجھیداری ہوگی جس کوJointsector کہتے ہیں۔ ان پالیسی دستاویزات کے زیر سایہ بھارت کی معاشی ترقی کاسفر شروع ہوتاہے۔
– پروفیسر سید ابوذر کمال الدین