مجھے شائستہ لہجہ اور شستہ اردو بولتے ہوئے سائنس دان بہت اچھے لگتے ہیں ،کیونکہ وہ کمیاب ہوتے ہیں۔ اس لئے، میں سنٹر فار اسلامک ا سٹڈیز اینڈ ریسرچ، گرین ٹیمپل ٹن کالج، آکسفورڈ یونیورسٹی برطانیہ میں ” مسلم معاشروں میں صحت عامہ، سائنس اور ٹیکنالوجی ” پر کام کر رہے دنیا کے بہترین وائرولوجیسٹ ڈاکٹر شاہد جمیل کو سننا پسند کرتا ہوں ۔کووڈ -19کے دوران ہندوستان میں وائرس کے متعلق بولی جانے والی معتبر ترین آوازوں میں سے ایک ڈاکٹر جمیل کا شمار ، ہندوستان میں وائرس پر کام کرنے والے چنندہ سائنس دانوں میں ہوتا ہے ۔ وائرس کے شعبے میں، ملک کی بہت سی تحقیقات کی باقائدہ بنیاد انہوں نے ہی ڈالی ہے۔
شاہد جمیل سن 1957 کو ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے نانا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور ادب اردو کی ‘ ترقی پسند تحریک ‘ کے روح رواں پروفیسر عبدالعلیم تھے۔علی گڑھ کے اعلیٰ ادبی و تعلیمی ماحول میں پرورش اور واشنگٹن سے پی۔ایچ۔ڈی حاصل کرنے والے شاہد جمیل ، دو دہوں سے زیادہ عرصہ، انٹرنیشنل سینٹر فار جینیٹک انجینئیرنگ اینڈ بایو ٹیکنالوجی کے دہلی سنٹر کے ذمہ دار رہ چکے ہیں۔ڈاکٹر جمیل ایک انٹرویو میں کہتے ہیں کہ پوسٹ ڈاکٹریٹ کے بعد جب وہ سن 1988 میں ہندوستان آئے تو ان کے ایک سپر وائزر نے ان سے کہا کہ، ” تم اگر چاہو تو ہیپا ٹائٹس بی (Hepatitis-B) کو اپنی تحقیق کا موضوع بنا سکتے ہو لیکن اس پر جتنا کام ہونا تھا وہ سب ہو چکا ہے ۔اس لئے اگر تم ایک نئی بیماری Hepatitis-E پر کام کروگے تو افادیت کا زیادہ امکان ہے “۔اس نئی بیماری کے بہت کم نمونے دستیاب تھے اور محققین اور حکومت کی زیادہ توجہ بھی اس پر نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے اس چیلینج کو قبول کرتے ہوئے ایک نئی ریسرچ پر کام کرنا شروع کیا اور یوں اس تحقیق میں ہندوستان کے بانی محقیقین میں آپ کا شمار کیا جانے لگا۔
کورونا وائرس کی جینومک تحقیق کے لئے حکومت ہند نے جب مختلف لیبس کا ایک مشاورتی گروپ(INSACOG ) بنا یا تو اس کی صدارت کے لئے نظر انتخاب شاہد جمیل پر پڑی جو اس وقت اشوکا یونیورسٹی کے ایک شعبے کے ڈائریکٹر تھے۔ انھیں سن 2000 میں میڈیکل سائنسز میں خدمات کے لیے ملک کے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اعلیٰ ترین اعزاز “شانتی سوروپ بھٹناگر پرائز” سے نوازا جا چکا ہے۔ ڈاکٹر جمیل ہندوستان کی معتبر سائنس اکیڈمیوں کے رکن ہیں۔ آپ ایک عرصۃ ہیلتھ سائنسس میں تعلیمی امداد کی رفاہی انجمن Wellcome Trust کے سی۔ای۔او بھی رہ چکے ہیں۔ انہیں جس وقت محسوس ہوا کہ ان کا وہاں سیکھنے سکھانے کا عمل کم ہو رہا ہے تو انہوں نے آکسفورڈ میں اپنے لئے نئی راہ تلاش کرلی۔
اپنے شعبے میں احسان ،چیلینج کو تن آسانی پر فوقیت، ترجیحات سے مزین زندگی اورذوقِ رہ نوردئ شوق ، شاہد جمیل کی شخصیت کے عناوین ہیں۔