داستان خاک و خون

جویریہ ارم

یہ اٹھارویں صدی کے آفتاب کی کہانی ہے جو مشرق سے طلوع ہوا، مغربی سامراجی اندھیروں سے لڑتے لڑتے غروب (شہید) ہوگیا۔ یہ حکایت ان گمنام سپاہیوں کی ہے جو اس کے مشن میں اس کے ساتھ تھے

یہ داستان خاک و خون اس ہستی کی ہے جس کو صحیح مقام دینا تاریخ پر واجب ہے، یہ اٹھارویں صدی کے آفتاب کی کہانی ہے جو مشرق سے طلوع ہوا، مغربی سامراجی اندھیروں سے لڑتے لڑتے غروب (شہید) ہوگیا۔ یہ حکایت ان گمنام سپاہیوں کی ہے جو اس کے مشن میں اس کے ساتھ تھے، ان دلیروں کی ہے جن کے خون کا آخری قطرہ اس سرزمین ہندوستان میں جذب ہوگیا مگر ان جانبازوں کے نام، ان کے حالات  اورافکار تاریخ میں جگہ نہ پا سکے۔ یہ کہانیاں ایسی ہیں کہ جب لکھی جائیں تو راقم کے آنسوؤں سے اوراق کی سیاہی مٹ جائے اور جب پڑھی جائے تو اس کے اوراق زندہ ضمیر قاریوں کے اشکوں کی تاب نہ لاسکے۔

نور محمد غازی اس دستہ کا ایک عام سپاہی ہے۔ جس کا کمان دار16 سالہ فتح علی ٹیپو ایک بیدار مغز اولوالعزم نوجواں جو اپنے باپ حیدر علی کو اپنی دلیری، ذہانت، علم و حکمت سے نہایت کم عمری میں میسور کی ناقابلِ تسخیر قوت بنارہا تھا۔ وہی نور محمد ٹیپو اور حیدر علی کی قیادت میں 1767ء تا 1769ء کی پہلی اینگلو-میسور جنگ میں انگریزوں کو ٹیپو کماندار کے ہمراہ ہراتا، رگیدتا ہوا مدراس میں انگریزوں کے قلعے تک لے گیا جہاں پہنچ کر انگریزی سامراجی طاقتوں کو ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔  دوسری طرف نور محمد کے اپنے گھر میں اس کی اپنی پیاری بیوی زندگی اور موت کی کشمکش میں زندگی کی جنگ ہار جاتی ہے، اس کا بڑا بیٹا فاتح محمد اپنے بہن بھائیوں کےلئے ماں اور باپ سب کچھ بن جاتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ باپ کی زندگی ایک عظیم مقصد میں صرف ہورہی ہے۔ فاتح محمد اپنے بہن بھائیوں سے بے پناہ محبت رکھتا ہے خاص طور پر صفیہ۔ فاتح محمد کے لئے اس کے والد نور محمد اور ٹیپو  آئیڈیل ہیں اور جوان ہوتے ہی وہ سلطان فتح علی ٹیپو کے لشکر کا سپاہی بن جاتا ہے۔

1799ء کی صبح دروازے کی چوکھٹ پر کھڑے نور محمد اشک بار ہیں، روتے روتے ان کی داڑھی آنسوؤں میں تر ہوچکی ہے ان کی لخت جگر صفیہ بخار سے بے حال، لکڑی کے صندوق سے ہاتھ کی لکھی کتابیں  دیکھتی جاتی اور روتی جاتی ہے۔ صفیہ کی ہچکیاں بند ہی نہیں ہوتی ۔ باپ سے مزید اب دیکھا نہیں جارہا۔ آنسوؤں کو صاف کر کے وہ پوری ہمت کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتے ہیں اور اپنی عزیزہ صفیہ جو بچپن سے اپنے پیارے بڑے بھائی فاتح محمد کے ساتھ اپنے بہن بھائیوں کا خیال رکھتی ہے، اس ذہین سمجھدار صفیہ کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہیں۔  صفیہ نظر اٹھا کر اپنے باپ کی طرف دیکھتی ہے جیسے شکوہ کررہی ہو کہ یہ کیا ہوگیا اور اب آگے کیا ہوگا لیکن صرف اپنی زبان سے”ابا” ہی کہہ پاتی ہے۔

نور محمد غازی اپنی نورِ نظر سے کہتے ہیں،”صفیہ شہید زندہ ہیں اور اپنے رب کے پاس اپنا رزق پارہے ہیں۔ تمہارا بھائی اس دنیا سے بہتر مقام پر ہوگا اور ہمارے سلطان فتح علی ٹیپو بھی اس دنیا سے بہتر مقام پر ہوں گے”۔”ابا میں سمجھتی ہوں کہ وہ بہتر مقام پر اللہ سے اپنا رزق پارہے ہوں گے، اپنی ماں جیسی شفقت دینے والے بھائی سے جدائی نے میری آنکھوں کو نافرمان بنا دیا ہے۔ وہ ذہن کی ہر ڈھارس کا انکار کررہی ہیں”۔صفیہ نے آہستہ سے بولا۔ ابا بولے “میری پیاری صفیہ شہادت تو ان کی آرزو تھی، یہ نہ بھولو”۔”ابا ان کی تمنا تو پوری ہوگئی مگر ان کے خواب ادھورے رہ گئے،ہمارے خوا ب کبھی اب پورے نہیں ہوں گے، میمونہ اب ان کی دلہن بن کر اس گھر نہیں آئیں گی۔ اب یہ دیکھئے یہ کتابیں جو سلطان کے کتب خانے سے وہ لکھ لکھ کر لاتے تھے وہ نت نئے ہتھیار جن کی وہ مشقیں کرتے تھے۔ اب ان کا کیا ہوگا؟” صفیہ نے افسردہ لہجے میں کہا۔ “وہ اس دنیا سے بہتر مقام پر ہوگا اور ہمارے سلطان فتح علی ٹیپو بھی اس دنیا سے بہتر مقام پر ہوں گے۔”

نور محمد نے بیٹی کو یوں بھائی کی چیزیں ہاتھ میں لے کر زار و قطار روتے دیکھا تو روکنا مناسب نہیں سمجھا۔ وہ پھر بولی، ” ابا ہماری کوئی تاریخ نہ تھی ،ہم کچھ بھی نہ تھے۔ ہمارے ٹیپو سلطان نے چند سالوں میں تعلیم کو عام کیا، صنعتیں بنائیں، مدرسے قائم کئے، ذات پات کے نسلی تفاخر کو ختم کردیا۔ عدل و انصاف قائم کیا، زمین سرسبز ہوگئی، سلطنت میں زمین کا کوئی ٹکرا بھی بنجر نہیں ہے یہ سب کچھ اب ختم ہوجائے گا؟ سلطان کے قلعہ سے ان کے ہتھیار ان کی مصنوعات نایاب کتابیں سب لوٹ کر انگریز لے گئے۔ اب اس فلاحی ریاست کے خواب کا کیا ہوگا اب اس مٹی پر ہمارا کوئی مستقبل نہیں۔”

نور محمد جو بہ مشکل ہی بیٹھ پارہے تھے کہنے لگے،”میری پیاری صفیہ معرکہ حق و باطل تاقیامت جاری رہے گا اور لوگ اپنا اپنا کردار ادا کرتے چلے جائیں گے۔ انبیاء و خاتم النبین محمدﷺبھی تو چلے گئے، صحابہ اکرامؓ بھی گئے ان کے بعد کے لوگوں نے کام جاری رکھا اور آگے بھی جاری رہے گا۔اپنی زمینو ں پر باوقار زندگی، آزادی مساوات، عدل و انصاف کے لئے تمہارے سلطان اور ان کے جانباز لشکر نے اپنے خون کے ایک ایک قطرے کو اس سرزمین کے حوالے کرکے اس مٹی کو مقدس کردیا ہے۔ اللہ نے ان سے جو خدمت لینی تھی،  لے چکے اور اب بچ جانے والوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سلطان نے علم کی شمع جلائی تھی انہیں بجھنے نہ دینا، تمہیں اور علم سیکھنا ہے اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کو سکھانا ہے۔ صنعت و حرفت، طبعیات وکیمیاء اور طب کے میدانوں میں اس قوم کو آگے بڑھتے رہنا ہے۔”

“مگر ابا جان جنگ آزادی کے سارے مجاہدین تو شہید ہوگئے”۔ چھوٹی زینب کب پیچھے سے آئی اور غور سے باتیں سُن رہی تھی صفیہ اور نور محمد غازی نے دیکھاہی نہ تھا۔ صفیہ نے اشارے سے زینب کو اپنے پاس بلایا اور اپنے پہلو میں بٹھایا۔ ابا جان کہنے لگے “زینب بیٹا ضرور اس زمین سے ظلم کے خلاف جدوجہد پھر شروع ہوگی، جنگ آزادی کا آخری مجاہد نہیں مرا ہے بلکہ مجاہدین کا اول دستہ شہید ہوا ہے اس زمین پر کئی مجاہدین آئیں گے اور ظلم کو مٹانے کے لئے جہاد جاری رہے گا۔ اس کی کمک ہمیں ہی فراہم کرنی ہے۔ جب تک دنیا باقی ہے، اس وقت کے ظالم حکمرانوں سے لڑتے رہیں گے۔ تم سب اپنا کردار نبھاؤ”۔

زینب بولی “ابا جان کیا اصحاب الاخدود کی طرح ہم بھی مار دئیے جائیں گے؟” صفیہ نے فوری کہا “میری پیاری زینب اصحاب الاخدود تو فلاح پا گئے اور ابدی جنتوں میں داخل ہوں گے، ہر مذموم طاقت کا ٹھکانہ دوزخ ہے”۔ صفیہ نے اپنی چھوٹی بہن کو پیار سے سمجھایا پھر اپنے والد کی طرف متوجہ ہوئی اور بولی “اباجان اب جبکہ سلطان ٹیپو رہے نہ ہی ان کے وفادار جانثار، کیا ہماری ان زمینوں پر دعویداری کمزور نہیں ہوگئی؟نور محمد  نے جواب دیا ”  جس مٹی میں ہمارے اسلاف ہمارے سلطان، ہمارے فتح محمد کی قبریں ہیں ان کا لہو ہے اس سرزمین پر ہماری دعویداری بڑھ گئی ہے ،کم نہیں ہوئی”۔

اباجان کی باتوں نے صفیہ کو نیا حوصلہ دیا۔ اُس نے آنسو پونچھے، اباجان میں آپ کی تازہ مرہم پٹی کرتی ہوں، آپ آرام سے بیٹھیں میں ابھی گرم پانی لاتی ہوں۔ پھر اس نے اٹھ کر کتابیں محراب میں رکھیں اور تیزی سے زینب کو لے کر کمرے سے باہر چلی گئی۔

نور محمد نے سرد آہ بھری۔ دل ہی دل میں یاد کرنے لگے کہ کیسے اللہ نے انہیں معجزتی طور پر زندہ رکھا۔ سری رنگاپٹنم کی آزادی کی جنگ 4مئی 1799ء میں جہاں چند غداروں کی وجہ سے ٹیپو سلطان شہید کردئیے گئے،  پوری جانفشانی سے لڑتے رہے۔ نور محمد زخموں سے چور چور قلعہ کے ایک کونے میں کئی دنوں تک بے ہوش پڑے رہے، انہیں مردہ سمجھ کر انگریزوں نے دھیان نہ دیا، ان کے لئے ایک عام سپاہی کس اہمیت کا حامل ہوسکتا تھا۔ ان کی ساری توجہ سری رنگا پٹنم کے قلعہ میں موجود بیش بہا کتابوں، جنگی سازو سامان ،ہتھیاروں، دستاویزات اور دولت پر مرکوز تھی۔ نور محمد سوچنے لگے کہ اللہ نے انہیں ضرور اس لئے زندہ رکھا کہ ابھی ان سے اللہ نےخدمات لینی ہیں، وہ حتی المقدور کوشش کریں گے کہ اپنے نورچشم فتح محمد، اپنے سلطان کے بے شمار ساتھیوں کے مشترکہ خواب کو پورا کرنے کی سعی و جہد کریں گے، نئی نسلوں کو اس سرزمین پر ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے کا سبق دیں گے۔

کہانی کار: جویریہ ارم

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں