دارالمصنفین شبلی اکیڈمی

تعارف و خدمات

فیض الرحمٰن اقدس

دارالمصنفین ایشیا کا ایک منفرد اور ممتاز علمی و تحقیقی ادارہ ہےجو بھارت کے مشہور شہر اعظم گڑھ (ریاست اترپردیش) میں واقع ہے۔

دارالمصنفین ایشیا کا ایک منفرد اور ممتاز علمی و تحقیقی ادارہ ہےجو بھارت کے مشہور شہر اعظم گڑھ (ریاست اترپردیش) میں واقع ہے۔ برصغیر کے مسلمانوں کی علمی و فکری تاریخ میں اس کی خدمات اور زریں کارنامے ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مولانا شبلی کی بصیرت اور ان کے تلامذہ کی انتھک جد و جہد نے اس ادارہ کو علم ودانش کا ایک اہم مرکز بنادیا ہے۔ اس ادارے کی ایک صدی سے زائد عرصہ پر محیط تاریخ گواہ ہے کہ یہ خطہ تحقیق و تفحیص کی کاشت کے لیے نہایت زرخیز ہے جس نے اپنی کوکھ سے ایسے علماء، فضلاء، مصنفین اور اربابِ علم و دانش کو جنم دیا، جن کا خواب علامہ شبلی نے دیکھا، عملی تعبیر سید سلیمان ندوی نے فراہم کی اور جس پر خطہ ہندوستان بجا طور پر فخر اور ناز کرتا ہے۔ اس ادارے کی کوششوں سے نہ صرف اسلامی تاریخ و تہذیب کی بہت سی نادر و نایاب معلومات محفوظ ہوئیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ پورے برصغیر میں علمی و تحقیقی مذاق پیدا کرنے میں دارالمصنفین کا کردار بہت نمایاں ہے۔ علامہ شبلی کے شروع کیے ہوئے اس مشن نے علمی سطح پر نہ صرف یہ کہ اسلامی علوم کے فروغ میں کردار ادا کیا بلکہ مغربی محققین کے باطل تصورات کا بھی دندان شکن جواب دیا۔ آج بھی یہ ادارہ علمی تحقیق اور اسلامی ثقافت کے فروغ میں اپنا فریضہ ادا کر رہا ہے اور ان شاءاللہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی ایک روشن مثال کے طور پر موجود رہے گا۔

تاسیس
شبلی نعمانی نے محسوس کیا کہ اسلامی علوم کی نشر و اشاعت اور جدید دور کے مقتضیات کے مطابق کام کے لیے ایک ایسا ادارہ درکار ہےجہاں اسلامی علوم و فنون کی تحقیق و تدوین کی جاسکے۔ اس ادارہ کا پورا علمی و تعلیمی خاکہ مولانا شبلی نے اپنی زندگی ہی میں مرتب کر دیا تھا۔ انہوں نے اس کے لیے اپنا ذاتی باغ اور بنگلہ وقف کیا، اعزا ء سے بھی اس کی خاطر زمینیں وقف کرائیں، اپنی اور احباب کی 6 یا 7 الماریوں پر مشتمل کتا بیں مہیا کیں، دار الضيوف تعمیر کرایا، زیرِ تربیت طلبہ کے لیے کرایہ پر بنگلہ لیا، مولوی ابوالحسنات صاحب کا خود انتخاب کیا۔گوکہ یہ ادارہ ان کی زندگی میں پوری طرح قائم نہ ہوسکا مگر چونکہ خاکہ تیار ہوچکا تھا چنانچہ ان کی وفات کے تین روز بعد یعنی 21 نومبر 1914ء کو ان کے تلامذۂ عزیز نے امام حمیدالدین فراہی کی دعوت پر سید سلیمان ندوی کی موجودگی میں علامہ شبلی کے غیر مکمل کاموں اور منصوبوں کی تکمیل کے لیے ایک عارضی مجلس اخوان الصفا کے نام سے قائم کی، جس کے پرنسپل علامہ فراہی، مینیجر مولانا سید سلیمان ندوی اور مولانا عبد السلام ندوی، مولانا مسعود علی ندوی اور مولانا شبلی متکلم ندوی رکن قرار پائے۔ یہی عارضی مجلس اخوان الصفا گویا دارا لمصنفین کا نقطہ آغاز ہے، جس نے دارالمصنفین کے تخیل کو عملی قالب میں ڈھال کر علم و ادب کی ایسی قلم رو قائم کی جس کی ضیاء پاشی آج تک قائم ہے۔

Source: Darul Musannefin Shibli Academy

25 مئی 1915ء کو دارالمصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کا پہلا اجلاس ہوا جس میں حمید الدین فراہی، سید سلیمان ندوی اور مسعود علی ندوی نے مل کر درج ذیل اشخاص کو ارکان اساسی منتخب کیا:
مولانا حمید الدین فراہی، مولانا سید سلیمان ندوی، مولانا مسعود علی ندوی، مولانا شبلی کے خلف، الرشید حامد نعمانی، مولانا حبیب الرحمن خان شیروانی، نواب سید علی حسن خاں لکھنو، پروفیسر شیخ عبدالقادر پونہ، ڈاکٹر شیخ محمد اقبال لاہور، نواب عماد الملک سید حسین بلگرامی حیدر آباد، مولانا عبد الله عمادی، مولانا عبد الماجد دریا بادی۔

اغراض و مقاصد
دارالمصنفین کے قیام کا بنیادی مقصد اسلامی تاریخ، ثقافت اور علوم پر تحقیق اور ان موضوعات پر علمی کتب و رسائل کی اشاعت کرنا تھا۔ اس ادارے کا منشور تھا کہ اسلامی تاریخ اور ثقافت کو مستند اور تحقیقی بنیادوں پر دنیا کے سامنے پیش کیا جائے اور مغربی محققین کی جانب سے پھیلائے گئے غلط تصورات کا رد کیا جائے۔

چنانچہ 1951ء میں مجلس اخوان الصفا نے ”دار المصنفین شبلی اکیڈمی“ اعظم گڑھ کے نام سے اس ادارہ کی رجسٹری کروائی اور اس کے درج ذیل مقاصد متعین کئے:

  • ملک میں اعلیٰ مصنفین اور اہل قلم کی جماعت پیدا کرنا۔
  • بلند پایہ کتابوں کی تصنیف و تالیف اور ترجمہ کرنا۔
  • ان کی اور دیگر علمی وادبی کتابوں کی طبع و اشاعت کا انتظام کرنا۔

ان مقاصد کی حصول یابی کے لیے دارالمصنفین کے کاموں کو مختلف شعبوں میں تقسیم کیا گیا جن میں اہم شعبے یہ ہیں:

  • دار التصنیف
  • دار الاشاعت
  • دار الطباعت
  • دار الكتب
  • شعبہ رسالہ معارف
  • شعبہ تعمیرات
  • شعبہ کمپیوٹر
  • شعبہ مراسلات

مؤرخہ 10 اگست 2021ء میں راقم الحروف نے اپنے ایک نہایت عزیز ساتھی برادر آصف جاوید فراہی کے ہمراہ اس ادارہ کی زیارت کا شرف حاصل کیا۔ ادارہ کے رفیق مولانا فضل الرحمن اصلاحی صاحب نے بڑی خندہ جبینی سے استقبال کیا اور ادارہ کی وسیع و عریض لائبریری جو شبلی منزل میں واقع ہے، کا تفصیلی دورہ کرایا اور اس سے وابستہ تاریخ کا ایک اجمالی تعارف دیا ۔ علم و فکر کےاس حسین تاج محل دارالمصنفین کو دیکھ کر بجا طور سے یہ بات پوری دیانتداری کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ یہ ادارہ اپنے مقاصد و اہداف کے حصول میں پوری طرح کامیاب رہا ہے۔ ناجانے کتنے مصنفین اور اہل قلم اس کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے اور سینکڑوں اشخاص نے ان سے علمی و قلمی تربیت حاصل کی۔

Source: Darul Musannefin Shibli Academy

اہم خدمات

دارالمصنفین نے اپنی تاریخ میں کئی اہم خدمات انجام دی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

  • تحقیقی کتب کی اشاعت: دارالمصنفین نے اسلامی تاریخ، ادب، اور علوم پر کئی اہم کتب شائع کی ہیں۔ ان میں مولانا شبلی نعمانی کی ”سیرت النبی“ اور ”الفاروق“ جیسی شاہکار کتابیں شامل ہیں۔
  • سیرت النبی: مولانا شبلی نعمانی نے اس عظیم تصنیف کا آغاز کیا تھا، جو ان کی وفات کے بعد سید سلیمان ندوی نے مکمل کی۔
  • المامون: یہ کتاب عباسی خلیفہ مامون الرشید کی زندگی پر مبنی ہے اور اسلامی تاریخ کے مطالعے میں ایک اہم ماخذ ہے۔ یہ کتاب اسلامی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہے۔
    اس کے علاوہ علامہ سید سلیمان ندوی کی ”خطباتِ مدراس“ اور ”ارمغانِ حجاز“ بھی دارالمصنفین کی اہم اشاعتوں میں سے ہیں۔

اس ادارہ کی تمام ہی کتابیں اپنے دلکش انداز نگارش، بیانیہ کی معروضیت، لہجے کے اعتدال اور تحقیق و تجزیہ کی میزان پر پورا اترنے کی وجہ سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں اور تشنگانِ علم کو دعوتِ مطالعہ دیتی ہیں۔

  • علمی مخطوطات: دارالمصنفین نے مختلف نادر و نایاب مخطوطات کی تحقیق و تدوین کی ہے، جنہیں علمی دنیا میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ عربی مخطوطات میں کتاب الجمل، شرح نہج البلاغہ، کتاب المیزان، احیاء العلوم اور فتاوی عالمگیری اور فارسی مخطوطات میں اکبر نامہ، مونس الارواح، سر اکبر روضۂ تاج محل، کلیات کلیم، ظفر نامہ امیر تیمور، تاریخ فرشتہ، قصص العجائب، تزک جہانگیری، سفینۃ الاولیاء تذکرہ مخزن الغرائب، مرآۃ العالم، فرہنگ جہانگیری، کلمۃ الحقائق، مدارج النبوۃ قابل ذکر ہیں۔
  • کتب خانہ: دارالمصنفین کا کتب خانہ انتہائی وسیع اور متنوع ہے، جس میں مختلف زبانوں کی نایاب کتابیں اور مخطوطات شامل ہیں۔ یہ کتب خانہ محققین اور طلباء کے لیے ایک قیمتی اثاثہ ہے۔
  • رسالہ معارف: علامہ شبلی نے دارالمصنفین کا جو خاکہ تجویز فرمایا تھا اس میں ایک علمی رسالہ کا اجرا ءبھی شامل تھا جس کا نام ‘معارف’ ان ہی کا تجویز کیا ہوا ہے لیکن رسالے کے اجراءسے پہلے ہی ان کا وقتِ آخرآگیا اس لیے یہ رسالہ ان کے عزیز شاگرد مولانا سید سلیمان ندوی کی ادارت میں شائع ہوا۔ معارف کا پہلا رسالہ جولائی 1916ء میں منظر عام پر آیا اوراس کی منفرد اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس وقت سے اب تک اس کی اشاعت بلاتاخیر جاری ہے، اس عزت و فخر میں اردو کا کوئی رسالہ معارف کا شریک و سہیم نہیں ہے۔ یہ رسالہ دارالمصنفین کا ترجمان اور اس کے مقاصد کا نقیب ہے، جو ملک کے سنجیدہ، مستند اور مشہور اہل قلم کی توجہات کا مرکز ہے۔ ملک کے مشاہیر اور نامور اہل قلم نے اسے جو مقام بلند دیا اس کا اندازہ مولانا ابوالکلام آزاد کے مراسلہ کی درج ذیل تحریر سے کیا جاسکتا ہے۔
    ”معارف کے متعلق آپ کیا کہتے ہیں۔ صرف یہی ایک پرچہ ہے اور ہر طرف سناٹا ہے۔ بحمدللہ مولانا شبلی مرحوم کی تمنائیں رائیگاں نہ گئیں اور صرف آپ کی بہ دولت ایک ایسی جگہ بن گئی جو خدمت علم و تصنیف کے لیے وقف ہے۔“
    ڈاکٹر اقبال مرحوم نے اس رسالہ کے متعلق یہ خیال ظاہر کیا تھا کہ: ”یہی ایک ایسا رسالہ ہے جس کے پڑھنے سے حرارت ایمانی میں ترقی ہوتی ہے۔“
    معارف صدی سیمینار کے موقع پر افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر محمد اجمل ایوب اصلاحی نے نہایت مبسوط اور وقیع کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے فرمایا ”معارف کی حیثیت دائرۃ المعارف اور اس کے شذرات کی حیثیت گنجینۂ معارف کی ہے۔“

سچی بات یہ ہے کہ جس زمانے میں معارف نکلا، علمی و تحقیقی مضامین لکھنے والے بہت کم تھے۔معارف نے درجنوں لکھنے والے پیدا کردیے۔

سمینارز، ورکشاپس اور لیکچرز: ادارے کی جانب سے دارالمصنفین میں عظیم الشان مذاکرات و خطبات منعقد کرائے جاتے رہے ہیں جن کی افادیت، اہمیت اور یاد سے مسلسل علمی دنیا محفوظ و مستفید ہو رہی ہے اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری بلکہ اس میں تیزی آگئی ہے اور سالانہ سیرت سمینار کا آغاز بھی کیا گیا ہے۔
اس قسم کے سمیناروں کی پہلی کڑی دار المصنفین کے جشن طلائی 1965ء کو قرار دیا جا سکتا ہے، اس کے بعد آل انڈیا اسلامک اسٹڈیز کا نفرنس 1969ء، اسلام اور مستشرقین سمینار 1982ء، رابطہ عالم اسلامی سمینار 1995ء، علامہ شبلی سمینار 2004ء، شبلی صدی سیمینار، دارالمصنفین صدی سیمینار، معارف صدی سیمینار۔

توسیعی و یادگاری خطبات میں زیادہ تر علامہ شبلی کے افکار و نظریات پر مشتمل ہیں۔

قصہ مختصر یہ کہ دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، علامہ شبلی نعمانی کے خوابوں کی تعبیر ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف ان کے علمی و تحقیقی مقاصد کو آگے بڑھا رہا ہے بلکہ نئی نسل کے محققین کو بھی علمی کاموں کے لیے رہنمائی فراہم کر رہا ہے۔ اس کی خدمات اور کارنامے علمی دنیا میں ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔

(مضمون نگار جامعہ ہمدرد یونیورسٹی، نئی دہلی میں بی یو ایم ایس کے طالب علم ہیں)

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں