پردے کے پیچھے کیا ہے؟ چارپائی کے نیچے کیا ہے؟ موٹے استاذ کا وزن کتنا ہے؟ دوست کے موبائل کا پاس ورڈ کیا ہے؟ پڑوسی کی تنخواہ کتنی ہے؟ پڑوسن کی عمر کتنی ہے؟ باس کے اپنی بیوی سے تعلقات کیسے ہیں؟ فلاں کی شادی لو میرج ہے یا ارینجڈ میرج؟ فلاں ویب سیریز میں قاتل کون ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہیں تجسس کی عام اور رائج مثالیں! ڈارون کے نظریۂ ارتقاء پر ایمان لانا تو مشکل ہے، جس کی رو سے بندر انسان بنے ہیں، لیکن اس قسم کا تجسس ارتقائے معکوس کے ایک پراسرار ذہنی و قلبی عمل کے ذریعہ انسانوں کو متجسس بندروں (Snooping Monkeys) میں ضرور تبدیل کردیتا ہے۔
توکیا تجسس فی نفسہ کسی بری خصلت کا نام ہے؟ غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ انسان میں تجسس کا جذبہ ایک فطری داعیہ ہے۔ یہ جاننے، سیکھنے، ڈھونڈنے اور دریافت کرلینے کی ایک ایسی پیاس کا نام ہے جو انسان کو چین نہیں لینے دیتی۔ ہاں، دیگر جذبوں کی طرح اس جذبے کا بھی ایک پہلو مثبت ہے اور دوسرا منفی۔ متجسس تو ہم ہیں ہی لیکن یہ ہمارے اختیار میں ہے کہ اس تجسس کو لوگوں کے ذاتی کوائف اور خانگی رازوں کی خفیہ جانکاری حاصل کرنے کا وسیلہ بنائیں یا نشتر تحقیق کے ذریعہ ستاروں کے جگر چاک کریں، آفاق و انفس کے چھپے ہوئے رازوں، اللہ کی سنتوں و قوانینِ اسباب و علل کو دریافت کریں اور میدان علم میں فتح و کامرانی کے عَلَم نصب کریں۔
ابو ریحان محمد ابن احمد البیرونیؒ کی زندگی اس بات کا ثبوت ہے کہ تجسس کی یہ جبلی خصلت جب ٹھکانے سے استعمال کی جاتی ہے تو غریب گھر میں پیدا ہونے والا عام سا انسان تلاش حق اور جستجوئے علم میں سرگرداں رہ کر افق علم پر ایک روشن آفتاب کی صورت میں کچھ یوں نمودار ہوتا ہے کہ دنیا ہزار سال بعد بھی اسے بطور ایک Polymath یاد رکھنے پر خود کو مجبور پاتی ہے۔
البیرونی کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک یونانی فاضل ان کی بستی میں آیا۔اس کے علم و فضل کا حال سن کر انھیں استفادے کا اشتیاق ہوا۔ البیرونی روز اس کے پاس جانے لگے۔ وہ اپنے ساتھ مختلف بیج، دانے، پودے اور پھل وغیرہ لے جاتے اور ان کے نام و دیگر خصائص سے متعلق جانکاری حاصل کرتے۔ بڑے ہوکر انھوں نے مختلف پودوں، جڑی بوٹیوں اور دواؤں پر کتاب بھی لکھی۔ ان کا مشاہدہ بڑا گہرا تھا۔ اپنے مشاہدات کے ذریعہ مثلاً وہ اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ پھولوں میں پنکھڑیوں کی تعداد ۷ یا ۹ کبھی نہیں ہوتی۔
جب محمود غزنویؒ کے ساتھ البیرونی ہندوستان آئے تو ان کے تجسس نے انھیں ہندوستان میں بسنے والوں کے رہن سہن، رسوم و رواج، علوم و فنون اور مذہب وتہذیب کے گہرے مطالعے پر اکسایا۔ لیکن یہ کام آسان نہ تھا۔مسلمان حملہ آور تھے، مقامی لوگ خوفزدہ اور غصے میں تھے، ایسے میں کسی مسلمان کا مقامی دانشوران کو تلاش کرنا اور ان کا تعاون حاصل کرنا جوئے شیر لانا تھا۔ علاوہ ازیں برہمنوں کو گھٹّی میں یہ بات پلادی جاتی ہے کہ علم ان کی موروثی جاگیر ہےجس سے استفادے کا حق تو خود ہندوؤں کی دیگر ذاتوں کو نہیں ہے کجا یہ کہ کوئی مسلمان ملیچھ (ناپاک) اسے حاصل کرے۔ البیرونی نے ان تمام مشکلات کا حکمت و استقامت سے سامنا کیا۔ ان کی حکمت کی ایک مثال یہ ہے کہ وہ علم کے شوق میں جہاں جہاں پہنچتے وہاں پہلے حصول علم کی کوشش کرنے اور ناکام ہونے کے بجائے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کردیتے۔ اس سے لوگ بالخصوص اہل علم بڑے پیمانے پر متاثر ہوتے اور ان کے قریب آجاتے۔ اس طرح البیرونی کے علم و فضل کی دھاک قائم ہوئی اور انھیں ’’ودیا ساگر‘‘(علم کا سمندر)کہا جانے لگا۔ یوں تعصبات کے بادل چھٹے اور رفتہ رفتہ وہ حصول علم کے اپنے مقصد میں کامران ہوئے۔ البیرونی کی استقامت کے ثبوت میں ان کی انتھک محنت کو پیش کیا جاسکتا ہے۔انھوں نے ہندوؤں سے تعلقات استوار کیے، سنسکرت زبان سیکھی، بڑی تگ و دو سے ہندو فلسفے، مذہب اور مختلف علوم و فنون پر کتابوں کو اکٹھا کیا۔ ہندوؤں کی مذہبی کتب وید، پران، رامائن، مہابھارت، بھگود گیتا، منوسمرتی، پتنجلی، کپلا کی سنکھیا و دیگر کتابوں کا عرق ریزی سے مطالعہ کیا۔ریاضی و فلسفے میں آریہ بھٹ اور ناگرجنا و دیگر مفکرین کی کتب سے استفادہ کیا۔ تیرہ سال کی محنت اور تحقیقی کاوشوں کے بعد ’’کتاب الہند‘‘ منظر عام پر آئی۔ اس کتاب میں پرائمری سورسز کے مطالعے اور عینی مشاہدات کے بل بوتے پر ہندوؤں کے مذہبی عقائد، رسوم و رواج، سماجی حالات بالخصوص ذات پات کا چلن، عورتوں کی صورتحال وغیرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ ان مختلف نکات پر وہ یہودی، عیسائی، پارسی، یونانی اور اسلامی تہذیب و عقائد کے ساتھ تقابلی مطالعہ بھی کرتے چلتے ہیں جس سے ان کی دقت نظر اور وسعت مطالعہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔یہ سارا کام بغیر کسی مذہبی تعصب کے سراسر علمی بنیادوں پر انجام پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں دنیا کا پہلا انتھروپولوجسٹ (ماہر بشریات) بھی کہا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے صرف ہندوستانی مذاہب کا گہرا مطالعہ کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ سب سے پہلے البیرونی نے اپنے وطن کے مذاہب مثلاً زرتشتیت کا مطالعہ کیا۔ پھر اس دائرے کو وسیع کرتے ہوئے یونانی عیسائیت، رومی عیسائیت، یہودیت، مانی ازم، یونانی اساطیر، ستارہ پرستی، عرب اصنام پرستی وغیرہ کا تجزیاتی مطالعہ بھی کیا۔
البیرونی پر حصول علم کی ایسی دھن سوار تھی کہ انھوں نے پرائمری سورسز سے استفادے کے لیے متعدد زبانیں سیکھیں۔ فارسی، عربی اور ترکی پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا۔ یونانی، سریانی، عبرانی اور شامی زبانیں سیکھ کر انھوں نے توریت، زبور اور انجیل نیز یہودی و عیسائی مذاہب اور ان کے مختلف فرقوں کی اہم کتب کا مطالعہ کیا تھا۔ جیسا کہ ذکر ہوا، انھوں نے سنسکرت زبان بھی سیکھی تھی ۔ اور اس زبان میں ایسی دستگاہ حاصل کی کہ گیتا کا عربی میں منظوم ترجمہ بھی کیا۔ ہندوستان اور ایران کی مقامی بولیوں کو بھی سیکھا تاکہ لوگوں سے گفتگو اور علمی مواد کی فراہمی میں بعد زبان حائل نہ ہو۔نیز رائج ترجموں میں اغلاط کے پیش نظر چند یونانی کتب کا عربی میں ترجمہ کیا۔
البیرونی کے ساتھ اس بابرکت تجسس نے عمر بھر وفا کی۔ جب ان پر نزع کا عالم طاری تھا تو فقیہ ابوالحسن علی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ البیرونی کی نظر جیسے ہی ان پر پڑی تو وہ ان سے جدات فاسدہ (وراثت کا ایک مسئلہ) سے متعلق سوال پوچھنے لگے۔ ابوالحسن علی خاموش رہے، اس تکلیف میں البیرونی کو مشقت میں ڈالنا اور ریاضی کا ایک مسئلہ سمجھانا انھیں مناسب نہیں معلوم ہوا۔ البیرونی ان کی اس کشمکش کو سمجھ گئے، انھوں نے کہا:’’بھئی کچھ بولتے کیوں نہیں! کیا اس مسئلے کو جان کر مرنا دنیا سے جاہل رخصت ہونے سے بہتر نہیں؟‘‘ان کے اصرار پر فقیہ نے مذکورہ مسئلے کو بیان کیا۔ البیرونی نے اس مسئلے کو اچھی طرح سمجھ لیا۔ ابھی فقیہ ابوالحسن وہاں سے رخصت ہو کر کچھ ہی دور گئے کہ البیرونی کے گھر سے رونے کی آوازیں آنے لگیں جس سے انھیں معلوم ہوگیا کہ البیرونی کا انتقال ہوگیا ہے۔
یوں البیرونی نے ہوش کی آنکھیں کھولنے سے لے کر زندگی کی آخری سانسیں لینے تک اپنے تجسس کو تلاش حق کا ہتھیار بنایا جس کا نتیجہ تھا کہ انھوں نے علم کی کسی ایک شاخ میں نہیں بلکہ فلسفہ، مذہب، بشریات، تاریخ، طبیعیات، مابعدالطبیعات، تقابل ادیان، ریاضی، تقویم، تہذیب، لسانیات،عمرانیات، ادب، انشا، شعر و شاعری، جغرافیہ، ارضیات، فلکیات، علم الابدان، علم الادویہ، معدنیات، علم کیمیا، علم نجوم و ہیئت، دست شناسی، علم نباتیات اور مثلث پیمائی(Trigonometry)وغیرہ میں درک حاصل کیا اور ہر فن میں اول درجہ کی تصانیف یادگار چھوڑیں۔ اپنے انتقال سے تقریباً پندرہ سال قبل اپنے ایک دوست کو لکھے گئے خط میں انھوں نے اپنی ۱۱۴/کتابوں کا تذکرہ کیا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی کل تصانیف کی تعداد ڈیڑھ سو سے دو سو کے درمیان ہے۔ وہ صرف عام معنوں میں ایک Polymath، ودیا ساگر، اور علامۃ الدہر نہ تھے بلکہ علوم کی مختلف شاخوں پر ان کے اثرات کا یہ عالم ہے کہ انھیں علم بشریات، انڈولوجی (ہندیات)اور تقابل ادیان کے ساتھ ساتھ جدید ارض پیمائی (Geodesy) کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ انھوں نے پنجاب کے ایک چھوٹے سے قصبے میں اپنی ریاضیاتی ذہانت کو بروئے کار لا کر زمین کی پیمائش کے اعداد و شمار اس قدر درست پیش کیے کہ آج انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے۔
کاش ہم (اور ہمارا تعلیمی نظام) تجسس و دیگر جبلی جذبات کی صحیح رخ پر پرورش و پرداخت کرے! بچوں میں سوال و تجسس کے فطری داعیوں کو کچلا نہ جائے، انھیں غلط رخ نہ ملے، ان کی صحیح نہج پر تربیت ہو تو بعید نہیں کہ اپنے معصوم سوالوں سے گتھم گتھا ہوتے ہوتے وہ وقت کے البیرونی بن کر ابھریں۔
(مضمون نگار، انڈین انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک اسٹڈیز اینڈ ریسرچ، نئی دہلی میں فاصلاتی و آن لائن تعلیم کے ڈائرکٹر ہیں۔)