زہرا اور علی تہران کے مضافات میں رہنے والے غریب ننھے بہن بھائی ہیں۔ زہرا کے پھٹے جوتوں کی مرمت کر وا کہ واپس لوٹتے علی سے جوتے کھو جاتے ہیں۔ جوتے 8 سالہ علی سے ،غلطی سے گم ہوئے ہیں وہ کیسے ذمہ دار ہو سکتا ہے؟۔ لیکن 6 سالہ زہرا کرے تو کرے کیا ؟۔ اب بہن بھائی میں جوتوں کی تلاش کے ساتھ شروع ہوتی ہے، معصومانہ مصالحت، بھولی بھالی مفاہمت اور خوبصورت مذاکرات ۔ نئے جوتوں کی فرمائش نہیں ہوتی کیونکہ باپ کی معمولی مزدوری اور گھر کی معاشی حالت کا اندازہ ان معصوموں کو بخوبی ہوتا ہے۔ شاید خدا غریبی میں پلنے والے بچوں کو مال کے بدلے سمجھ داری زیادہ دے دیتا ہے۔
ایک دن اچانک اسکول میں زہرا کی نگاہ ایک بچی پر پڑتی ہے جو بالکل، کھوئے ہوئے جوتوں کے مماثل گلابی جوتے پہنے ہوتی ہے۔پھر خوداری کے پردے ، امید کی کرن ڈھانک دیتے ہیں۔
‘بچہ ہائے آسمان’ فارسی زبان کی ایرانی فلم ہے، جو مجید مجیدی نے 1997 میں بنائی تھی۔ مجیدی کا شمار دنیا کے بہترین فلم ہدایت کاروں میں ہوتا ہے۔ مجیدی حساس اور دلوں کو چھونے والی فلمیں بنانے کے لئے مشہور ہیں۔سن 1997 میں یہ فلم مشہور زمانہ اکیڈمی ایوارڈ(آسکر) کے لئے نامینیٹ بھی ہوئی تھی ۔ ننھے بچوں کی معصوم اداؤں کو احساسات کے پردے پر حد درجے فطری انداز میں شاز ہی کسی فلم میں دکھایا گیا ہے۔ اس فلم کا عنوان حساسیت اور معصومیت ہے۔ فلم کے اختتام پر ضرور آپ کی آنکھوں سے دو موتی پکار کر کہیں گے کہ “بچے جنت کے پھول ہوتے ہیں”۔