درد منت کشِ دوا نہ ہو، تب ادب تخلیق پاتا ہے ۔ ورنہ درد و غم سے مبرا سماج میں کون شعر لکھے گا اور کون ناول پڑھے گا۔ مسٹر واٹسن کی پریشانی بھی کچھ یہی ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ وہ ادب تخلیق کرے لیکن نئی دنیا کے نئے شہر لندن میں کو ئی شخص پریشان نہیں ہوتا۔ ہر انسان خوش اور ہر ذرہ پر سکون ہوتا ہے۔
سن 1932 ء لکھی گئی اس ڈیسٹوپِین ناول میں، آلڈس ہیکس لی نےایک ایسے وقت کا تصور دیا ہے جس میں دنیا کا ایک حصہ ٹیکنالوجیکل اڑان کے منتہا پر ہوتا ہےاور ٹیکنالوجی انسانی زندگی کے ہر پہلو پر محیت ہوتی ہے۔ جہاں جینیاتی طریقوں سے لیباریٹری میں بچوں کی پیدائش کی جاتی ہے۔ خاندان دقیانوسی سمجھا جاتا ہے اور اس کاتصور ختم کر کے آزاد نفسانی خواہشات کی حکومت قائم کی جاتی ہے۔ نسل پرستی (Racism) کا ایسا نظام بنایا جاتا ہے جس میں بچوں کو ٹریننگ کے مراکز(Conditioning Centre) میں جانوروں کی طرز پر سدھایاجاتا ہے اور نفسیاتی طریقوں سے نسلی نابرابری کی تربیت دی جاتی ہے۔ اعلیٰ حکام ، سب سے اونچی ذات الفا (Alpha) سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ایپسیلون(Epsilon)، صفائی پر معمور سب سے نچلی ذات کا گروہ ہوتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ کہ، تمام طبقات اپنے درجوں اور کاموں میں خوش ہوتے ہیں۔شوقِ کمال اور خوفِ زوال ہی ختم ہوجائے تو کیا کہئے گا۔خود کو کمتر سمجھنا ایپسیلون کی اور دوسروں کو کمتر سمجھنا اعلیٰ ذات کی نفسیات میں شامل ہوتا ہے۔
https://whitedotpublishers.com/product/technology-aur-hum/
اس نئی دنیا سے باہر کے علاقوں کو وحشیوں کے علاقے (Savage Land) کا خطاب دے دیا جائے گا ۔ وحشی علاقے سے نئی دنیا کی طرف آنے والے جان (John) اور ورلڈ کنٹرولر مصطفیٰ مونڈ ،کے درمیان ہونے والے شاندار مکالمے قاری کو بار بار پڑھنے پر اکساتے ہیں ۔ حیرت ہوتی کہ کیسے انیسویں صدی کے اوائل ہی میں فن کار یہ اندازہ کر لیتا ہے کہ سرمایہ داری کے منتہا پر جاکر ، سکون کی تلاش کتنی اہم ہو جائے گی۔ باشندوں کو پر امن رکھنے اور سکون و خوشی دینے کی خاطر اس نئی دنیا کے لوگوں کو سوما (Soma) نام کی گولیاں حکومت کی جانب سے بطور راشن دی جاتی ہیں۔لوگ ہر غیر متوقع موڑ پر ، غصہ ، پریشانی کی ابتدا ہی میں اور جذبات کی ہلکی سی بھی ہلچل ہی پر ‘سوما ‘ کی گولی کھاکر پرسکون ہو جاتے ہیں۔ حکماء کہتے ہیں کہ آج کے دور کا ‘ سوما’ سوشل میڈیا ہے۔ ہر کوئی ، ہر کچھ دیر بعد واٹس ایپ اور انسٹا گرام کھول کر گویا سکون ہی تلاشتا ہے۔
یہ ناول انگریزی ادب کی اب تک لکھی گئی پسندیدہ ترین ناولوں میں سے ایک ہے۔سرمایہ دارانہ نظام، جدیدیت،سیکیولارائزیشن، اور مغربی تہذیب پر فکشن کی زبان میں شاید ہی کوئی ایسی تنقید کر پائے۔ اس کتاب کی کتنی ہی پیشن گوئیاں ایسی ہیں جو ٹیکنالوجی نے ، کئی دہے گزرجانے کے بعد سچ کر دکھائی ہیں اور کتنی ہی تعبیر کی دہلیز پر کھڑی ہیں۔ بلاشبہ ادبیات عالم میں یہ ناول ایک شاہکار کی حیثیت رکھتا ہے۔
از: فراست فصیح ملا