حج اور عیدِ قرباں ابراہیمؑ کو یاد کرنے کاخاص موقع ہے۔ ابراہیمؑ کا شمار خدا کے جلیل القدر اور بزرگ انبیا میں ہوتا ہے۔ بنو اسماعیل اور بنو اسحاق، جو کہ آپؑ کی نسل ہیں، ان میں درجنوں انبیا اور رسول پیدا ہوئے۔ اسی مناسبت سے آپ کو ابو الانبیا کے لقب سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔ بعض علما کی رائے ہے کہ پہلی مکتوب وحی اور شریعت آپ پر نازل ہوئی تھی (اس سے پہلے وحی مستقل کتابی شکل میں انسانوں کو نہیں دی گئی تھی بلکہ زبانی تعلیمات کی شکل میں دی جاتی تھی)۔اسے قرآن میں صحف ابراہیم یعنی ابراہیمؑ کے صحیفے کے نام سے بیان کیا گیا ہے۔ جن انبیا کا ذکر قرآن میں کثرت سے آیا ہے، ان میں ابراہیمؑ دوسرے نمبر پر ہیں کہ آپؑ کا ذکرقرآن میں 69 دفعہ آیا ہے۔ آپؑ کے بچپن اور نوجوانی کے حالات، خدا کی تلاش، حق کی جستجو، دعوت کے انوکھے تجربے، زندگی بھر طرح طرح کی آزمائشیں وغیرہ، قرآن میں تفصیل سے آپؑ کے حالات بیان ہوئے ہیں۔ آپؑ کے حالات کے علاوہ قرآن نے آپؑ کے صفات پر بھی مفصل گفتگو کی ہے۔ آپؑ کی حنیفیت، علم و حق کی جستجو، خدا کے آگے مکمل سرافگندگی، ایمان و توکل، شکر، صبر، استقامت، حوصلہ و عزیمت، نرم دلی اور تواضع، بردباری اور حلم، وغیرہ کا ذکر ہے۔ آپ پیکرِ حسنات تھے، چنانچہ قرآن آپؑ کو سورۃ الممتحنہ میں اسوۂ حسنہ سے تعبیر کرتا ہے، جو کہ قرآن میں صرف ابراہیمؑ اور محمدؐ کے لئے آیا ہے۔
اس حوالے سے ابراہیمؑ کے اسوہ کے کچھ منفرد پہلو جو عموماً گفتگو کا موضوع نہیں بنتے، قارئین کے غور و فکر کے لئے پیشِ خدمت ہیں۔ موجودہ حالات کے پیشِ نظر ابرہیمؑ کے اسوے کے دو پہلو خاص ہماری توجہ چاہتے ہیں۔ ایک ہے ان کا علمی مزاج اور دوسرا ہے قربانی کا جذبہ۔ گو کہ یہ دونوں دو الگ الگ متفرق چیزیں محسوس ہوں، لیکن دونوں میں بڑا گہرا تعلق ہے۔ اس سے پہلے کہ ان پر گفتگو کریں، ذرا علمی مزاج سے مراد کیا ہے اس کی مختصر تشریح پیش کی جاتی ہے۔
اسی انسان میں سب کچھ ہے پنہاں
مگر یہ معرفت دشوار بھی ہے
کہنے کے لئے علمی مزاج واضح بات معلوم ہوتی ہے، لیکن یہ اتنی سیدھی سادی بات نہیں ہے۔ مزاج کا تعلق فرد کی نفسیات سے بہت گہرا ہوتا ہے اور افرد سے اجتماعیت کی نفسیات بنتی ہے اور پھر یہی اجتماعی نفسیات فرد کے مزاج اور روئیوں کو ترتیب دیتی ہے۔ دراصل نفسیات ایک ایکو سسٹم کے مانند ہوتی ہے۔ جیسا مزاج ہوگا اسی طرح اس سے جڑی صفات فرد کے اندر پیدا ہوں گی اور پھر انہیں صفات کے مطابق رویئے ظاہر ہوں گے۔ مثال کے طور پر خوف اور ہمت کو لے لیں۔ خوف کسی مشکل کے متعلق اندیشوں سے پیدا ہوتا ہے۔ اور اگر اس مشکل کے متعلق انسان لاعلم ہو تو اندیشوں کے ایک لا متناہی سلسلے میں مبتلا ہوجاتا ہے اور خوف اس پر طاری ہوجاتا ہے۔ خوف اپنے آپ میں کوئی شئے نہیں ہے بلکہ وہ عدمِ علم کا نتیجہ ہے۔ جب مسئلے کا ادراک اور اس کو حل کرنے کا علم نہ ہو تو انسان کو مسئلے سے نمٹنے کا راستہ دکھائی نہیں دے گا چنانچہ لاعلمی اس کے اندر خوف کی کیفیت پیدا کردے گی۔ اس سے آگے، علم کے نہ ہونے کی وجہ سےحل سجھائی نہیں دیتا اور واضح حل نہ ہونے کی شکل میں انسان ہمت جٹا نہیں پاتا۔ ہمت نہ ہو تو مشکلوں کا سامنا کرنے کے لئے اس کے اندر نہ حوصلہ پیدا ہوگا اور نہ ہی ڈٹے رہنے کے لئے صبر و استقامت کے اوصاف اور نہ ہی مقصد کے حصول کے لئے قربانی کا جذبہ۔ کم علمی یا لاعلمی کے نتیجے میں وہ مسئلے کو علم کی بنیاد پر حل کرنے کے بجائے جذبات سے حل کرنا شروع کردیتا ہے۔ جذبات کا ہونا ایک فطری بات ہے لیکن علم کا فقدان اس کو جذباتیت میں مبتلا کردیتا ہے۔ جب تک جذبات کو علم سے توازن نہیں دیا جائے گا، تب تک انسان نری جذباتیت میں مبتلا رہے گا اور خود کا خسارا کرتا رہے گا۔
اس کے برعکس اگر اسی مشکل کے متعلق اس کو علم حاصل ہوجائے کہ مشکل کی نوعیت کیا ہے اور اس کو سر کرنے کے لئے کیا کیا جتن کیے جاسکتے ہیں، تو اس کے خوف کی کیفیت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اسی خوف کی کیفیت میں کمی کا نام ہمت ہے۔ ہمت یہ نہیں ہے کہ خوف سے انسان آزاد ہوگیا ہے، بلکہ خوف کے علی الرغم انسان اس کو سر کرنے کا جگرا اپنے اندر پیدا کرلیتا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ خوف اور ہمت کا تعلق اصلاً علم سے ہے۔ چنانچہ اگر کسی کو کسی فرد یا اجتماعیت کے اندر ہمت پیدا کرنی ہو تو اس کا طریقہ یہ نہیں ہوگا کہ دھواں دھار تقریر کرکے جذبات ابھارے جائیں۔ اس کا حاصل سوائے کچھ وقتی جذباتی ابال کے اور کچھ نہیں ہوگا۔ اگر پائیدار ہمت پیدا کرنی ہو تو پھر اس کا واحد ذریعہ علمی مزاج کی تربیت ہے۔ علمی مزاج کی موجودگی میں انسان مستقل نئی معلومات کی تلاش میں کوشاں رہتا ہے اور نتیجتاً متنوع زاویہ ہائے نظر سے متعارف ہوتا ہے، جس سے اسے حل کے نئے راستوں اور طریقوں کا پتا چلتا ہے۔ اس کی وجہ سے اس کے اندر مسائل کا ادراک پیدا ہوتا ہے اور ان کو حل کرنے کی تجاویز علمی بنیادوں پر بنانے لگتا ہے۔ مسئلہ اور حل کا علم ہی اس کے اندر مشکلوں کا سامنا کرنے، ڈٹے رہنے اور مقصد کے حصول کے لئے ایثار کے جذبات ابھارتا ہے۔ انہیں کیفیات کو ہم ہمت، صبر، استقامت اور قربانی سے تعبیر کرتے ہیں۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری محسوس ہوتی ہے کہ علمی مزاج محض مطالعہ کتب کے شوق کا نام نہیں ہے۔ مطالعہ کتب تو ایک اچھی خاصی تعداد کرتی ہی ہے، نہ ہی علمی مزاج رائج الوقت تعلیمی نظام سے حاصل کی ہوئی ڈگریوں سےمترادف ہے جو کہ محض خواندگی بڑھانے اور ہنر کار ی کا ذریعہ ہے۔ علمی مزاج کے لئے تین خصوصیات ضروری ہیں:
الف) تجسس یعنی کسی بھی چیز کو لے کر معلومات اور جانکاری بڑھانے کی مسلسل اور انتھک کھوج، چاہے گرتا ہوا سیب ہی کیوں نہ ہو۔ آ سان الفاظ میں ہر چیز کے متعلق کیوں اور کیسے کا سوال۔
ب) اپنے موجودہ فہم کے دائرے کو وسیع کرنے کی مستقل اور منظم جستجو، جس سے کسی بھی چیز یا مسئلہ کو دیکھنے، سمجھنے یا حل کرنے کے لئے اپنی مخصوص معلومات کے دائرے سے باہر کے علم کی روشنی میں سمجھنے کی شعوری کوشش۔ آسان الفاظ میں دوسرے اس کو کیسے دیکھتے یا سمجھتے ہیں یہ سوال۔
ج) علم سے استبداد اور تسلط کی کاٹ کرنا۔ علم اور قوت و تسلط کا گہرا رشتہ ہے۔ علم ہی انسان کو صحیح غلط کا شعور اور معاملات کا فہم و ادراک فراہم کرتا ہے، جس سے ظلم کا خاتمہ اور انصاف کا قیام ممکن ہے۔ اسی لیے استبداد و تسلط ہمیشہ علم دشمن اور جہالت پرور ہوتے ہیں۔کن چیزیں کو علم کا درجہ ملے گا، کن لوگوں کو علم تک رسائی کی اجازت ہوگی، تحقیق و معلومات کی دریافت کی اجازت کن لوگوں کو ہوگی، علم کے حصول و نشر کے ضوابط کیا ہوں گے، ان سب کے طے کرنے میں قوت کے مراکز کا گہرا ہاتھ ہوتا ہے۔ چنانچہ جس مکتبِ فکر اور جن مفادات کا تسلط قوت کے مراکز پر ہوگا، انہی کے ایما پر ’علم‘ طے ہوگا اور علم تک رسائی۔ اسی لئے قوت، استبداد و تسلط کے لئے علم کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرتی ہے۔اس لئے ضروری ہے کہ علم کو استبداد کی کاٹ کے لیے استعمال کیا جائے۔ باالفاظِ دیگر، علم کسے فائدہ پہنچ رہا ہے؟ یہ سوال۔
اس اعتبار سے دیکھا جائے تو ملتِ اسلامیہ بالعموم اور تحریکاتِ اسلامیہ بالخصوص آپ کو ایک علمی بحران میں مبتلا ملیں گی۔ افرادِ ملت ہوں کہ تحریکات کے کارکن، ان میں علم کے تئیں نہ تجسس و کھوج رہتی ہے، نہ اپنے مخصوص دائرہ علم کے آگے جاننے کی خواہش اور نہ ہی علم کو ظلم و استبداد کے ازالے اور عدل و انصاف کے قیام کے لئے استعمال کرنے کی کوئی نمایاں کوشش۔ یہی علمی بحران اور علمی مزاج کا فقدان ملتِ مسلمہ کی پچھڑے پن کی بنیاد ہے۔ جب تک اس کو حل نہیں کیا جاتا، ملت کی زبوں حالی کا مداوا ممکن نہیں۔
علمی مزاج کے متعلق مذکورِ بالا تین خصوصیات کی روشنی میں دیکھیں تو ہم ابراہیمؑ کو علمی مزاج کی حامل شخصیت پائیں گے۔ آپؑ کے زندگی کے واقعات اس پر روشنی ڈالتے ہیں۔ سورہ انعام میں خدا کی تلاش کا واقعہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپؑ اپنے دائرہ فہم سے باہر علم کے متلاشی تھے اور آپؑ کے اندر علم کے لئے تجسس تھا۔اسی طرح سورہ البقرہ میں مذکور بادشاہِ وقت سے مناظرہ ہو یا پھر سورہ الانبیاء میں مذکور اپنی قوم کو دعوت دینے کا منفرد انداز، یہ تمام واقعات اس بات پر دلالت دیتے ہیں کہ آپؑ نے جہالت، ظلم، استبداد اور تسلط کی کاٹ کے لئے علم کا سہارا لیا۔
استبداد و تسلط کے خلاف آواز اٹھانا اتنا آسان کا م نہیں ہے۔ اس کے لئے قربانی ضروری ہے۔ اسی طرح بڑے مقاصد کے حصول کے لئے ذاتی مفادات کا نظرانہ لازمی ہے۔ اس اعتبار سے بھی ابراہیمؑ کی زندگی ایک طویل قرباینوں کی داستان رہی ہے۔ اللہ نے آپؑ کو گھر سے، رشتہ داروں سے، وطن و ملک سے، کاوشوں کی بے مرادی سے، اولاد سے، غرض ہر اعتبار سے آزمایا۔ لیکن آپؑ ہر موڑ پر صبر، شکر، توکل اور عزیمت کے پیکر ثابت ہوئے۔ یہاں تک کہ اللہ نے آپؑ کو اپنا خلیل چن لیا۔ خدا سے محبت کس طرح ہونی چاہیے، ابراہیمؑ سے سیکھنا چاہیے۔
محبت صلح بھی ہے، پیکار بھی ہے
یہ شاخِ گل بھی ہے، تلوار بھی ہے
موجودہ وقت میں ابراہیمؑ کے اسوے سے ہم کو کئی اسباق ملتے ہیں۔ ایمان و توکل، صبر و استقامت، شکر و قناعت، حلم و خیر خواہی، عدل و انصاف کی علم برداری، عظیم مقاصد کے لیے قربانی، یہ صفات ہیں جو ہمیں اپنے اندر پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ ان تمام صفات کا تعلق علمی مزاج کے پروان چڑھانے سے ہے۔ علم کے بغیر ایمان، توکل، صبر، استقامت ممکن نہیں۔ جذبات پر قابو پانے سے ہی انسان حلم، بردباری، خیر خواہی، قناعت، قربانی دے سکتا ہے اور جذبات پر قابو علم سے ہی ممکن ہے۔ علم ہی کے ذریعہ سے استبداد و تسلط کا مقابلہ اور عدل و انصاف کا قیام ممکن ہے۔ آج کے حالات کا سامنا کرنے کے لئے اسوۂ براہیمی کے اتباع میں ہمیں علمی مزاج اور قربانی کا جذبہ ہمارے اندر پیداکرنا ہوگا۔