بریانی: مسلمانوں کا ہندوستان کو تحفہ

شہاب رومی

ان دنوں ملک کے مختلف حصوں میں بریانی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہے۔ ان میں حیدرآبادی، لکھنوی اور کلکتہ کی بریانی بہت مشہور ہے۔

سالِ رواں کے آغاز میں ایک خوشگوار خبر پڑھنے کو ملی۔ روزنامہ ’مِنٹ‘ کے مطابق 31/ دسمبر 2022ء کے موقع سے سُوِگّی (جو ایک آن لائن فوڈ ڈیلیوری ایپ ہے) پر سب سے زیادہ بریانی آرڈر کی گئی۔ 3.5 لاکھ آرڈر کے ساتھ بریانی پہلے نمبر پر رہی۔ اسی طرح زوماٹو نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹ پر لکھا کہ ”بریانی نے اس سال بھی اپنے آپ کو ثابت کردیا کہ وہ گریٹیسٹ آف آل ٹائم ہے۔“ ایک رپورٹ کے مطابق 2019 میں عالمی سطح پر ’چکن بریانی‘ کو سب سے زیادہ لوگوں نے ہندوستانی فوڈ کے طور پر آن لائن تلاش کیا۔ چنانچہ یہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ بریانی ہندوستانی کھانوں میں امتیازی مقام پر فائز ہے اور ہندوستانی عوام کی پہلی پسند ہے۔ یہ اعداد و شمار اگر نہ بھی ہوں تو کوئی بھی شخص ہندوستان کے مختلف حصّوں میں گھوم پھر کر اس کی مقبولیت کا مشاہدہ کرسکتا ہے۔ 

ذائقے کا یقین ہے بریانی

ذوق کی ہم نشیں ہے بریانی

تم پلاؤ پہ جان دیتے ہو

تم نے کھائی نہیں ہے بریانی

ہو کڑائی مٹن کی یا سجّی

ان سے بڑھ کر کہیں ہے بریانی

(وجیح سانی)

بریانی کے تعلق سے کئی ذاتی کہانیاں یاد آتی ہیں۔ آج کے دور میں کسی بھی خاص و عام موقع پر جس طرح بریانی بنائی اور تناول کی جاتی ہے، ہمارے بچپن میں اس طرح کا رواج نہیں تھا۔ بریانی صرف خاص خاص موقعوں پر بنائی جاتی تھی۔ اس کے بنانے کے لیے بڑا اہتمام کیا جاتا تھا۔گھر کی خاتونِ خانہ اسے بنانے کے لیے اور تمام افراد اسے تناول کرنے کے لیے بڑے ذوق و شوق سے انتظار کرتے۔ بریانی کی خوشبو جوں جوں چولہے پر چڑھے برتن میں سے آنے لگتی، بھوک تیز سے تیز تر ہونے لگتی اور کھانے کا اشتیاق اور بڑھنے لگتا۔ گوکہ اب نہ بریانی کی خوشبو ویسی رہی جو راہ چلتے مسافر کا راستہ روک لے، اور نہ وہ بے مثال ذائقہ رہا جو انگلیاں چاٹنے پر مجبور کردے۔ اس کے باوجود بریانی کی حکمرانی آج بھی ہندوستانی عوام و خواص کے دلوں پر قائم ہے۔ ہندوستان کے مختلف حصوں میں دوست و احباب، فیملی کے ساتھ خاص موقعوں پر تناول کی گئی بریانی، اس کا شاندار ذائقہ، دوستوں کے قہقہے، عمر گزشتہ کی کتنی خوشگوار یادیں بریانی سے وابستہ ہیں۔

بریانی کی کہانی بھی بڑی دلچسپ ہے۔ بریانی، فارسی لفظ برنج بمعنی چاول سے نکلا ہوا ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ فارسی لفظ ’بریاں‘ سے نکلا ہوا ہے، جس کا مطلب بھوننا یا گھی میں چرب کرکے کسی چیز کو تلنے کو کہتے ہیں۔ چوں کہ بریانی میں گوشت کو مسالوں کے ساتھ تل کر چاول میں شامل کیا جاتا ہے اس لیے اس کا نام بریانی پڑگیا۔

بریانی کے تعلق سے ایک کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ بریانی کی تخلیق کا سہرا ملکہ ممتاز محل کو جاتا ہے۔ ایک مرتبہ مغل فوج کی بیرکوں کے دورے پر ملکہ ممتاز محل نے فوجیوں کو عدم غذائیت کا شکار پایا۔ ملکہ نے مغل باورچیوں سے درخواست کی کہ ایسی ڈش تیار کی جائے جو جلدی بن جائے اور ہر طرح کی غذائیت سے بھرپور ہو۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں بریانی وجود میں آئی۔

کِرس ڈھلون لکھتی ہے کہ بریانی کو مغلیہ دور میں اتنا اعلیٰ درجہ حاصل تھا کہ پنجاب کے نوابین بریانی کی مختلف اقسام تناول کرتے وقت مخصوص قسم کی پگڑی باندھتے تھے۔ 

بریانی کی تاریخ کے تعلق سے تین نظریات پائے جاتے ہیں۔ ویر سنگھوی کے مطابق ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے یہاں بریانی پائی جاتی تھی۔ یہ موقف کمزور ہے۔ کِرس ڈھیلون کے مطابق بریانی کی ابتدا ایران میں ہوئی اور اسے ہندوستان میں متعارف کروانے کا سہرا مغلوں کے سر بندھتا ہے۔ تیسرا نظریہ وشوناتھ شینائے دیتے ہیں۔ جن کے مطابق بریانی عرب تاجروں کے ذریعے جنوبی ہندوستان کے کالی کٹ شہر میں متعارف کروائی گئی۔ 

ان دنوں ملک کے مختلف حصوں میں بریانی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہے۔ ان میں حیدرآبادی، لکھنوی اور کلکتہ کی بریانی بہت مشہور ہے۔ پرتیبھا کرن لکھتی ہیں کہ صرف حیدرآباد میں چالیس قسم کی بریانیاں بنائی جاتی ہیں۔

پلاؤ اور بریانی کے درمیان کونسی ڈِش سب سے زیادہ مزیدارہے۔ اس پر بھی برسوں سے بحث چلی آرہی ہے۔ عبدالحلیم شرر لکھتے ہیں کہ، ”دہلی میں بریانی کا زیادہ رواج ہے اور تھا، مگر لکھنؤ کی نفاست نے پلاؤ کو اس پر ترجیح دی۔“ اس کے برعکس عاشقانِ بریانی، بریانی کے آگے پلاؤ کو کچھ نہیں سمجھتے اس سلسلے میں ایک مزیدار قطعہ پڑھنے میں آیا۔ پاکستانی صحافی مدیحہ انور چودھری لکھتی ہے کہ ان کے نانا گھر میں پلاؤ پکنے پریہ قطعہ پڑھا کرتے تھے۔

جہاں بھی پلاؤ پکایا گیا ہے

زمین سے فلک تک بھپارا گیا ہے

اسی غم میں شیطان مارا گیا ہے

کہ مومن پہ یہ کیا اتارا گیا ہے

آج کے دور میں جب ہندوستان میں مسلمانوں کے تشخّص پر سوال اٹھایا جارہا ہے، بریانی، اپنی خوشبو، بے مثال ذائقے، اپنی نفاست و نزاکت سے ہندوستان میں مسلمانوں کی شاندار میراث، مثبت تعمیری کردار اور ان کے کنٹریبیوشن کا کھلا ثبوت دیتی ہے۔ پرتیبھا کرن اپنی کتاب ’بریانی‘ میں لکھتی ہیں ”اگر خدائی کھانے جیسی کوئی چیز واقع ہے تو بلا شبہ وہ بریانی ہے۔ کوئی بھی ڈش اس کی شان و شوکت، ذائقہ، نزاکت اور نفاست میں مماثل نہیں ہوسکتی۔ برصغیر ہند پر مسلمانوں کا بڑا قرض ہے کہ انھوں نے بریانی اور پلاؤ کو یہاں متعارف کروایا۔“ مسلمانوں نے کھانے پکانے کے عمل کو محض پیٹ بھرنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ اُسے ایک فن کی حیثیت دی اور اس فن کو انتہائی بلندی پر لے گئے۔ اس فن میں انہوں نے ایسے ایسے تجربات کیے کہ لوگ حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ اس کی کئی دلچسپ مثالیں عبدالحلیم شرر نے اپنی کتاب میں ”گزشتہ لکھنؤ“ میں بیان کی ہیں۔

افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ خود مسلمانوں میں‘ مختلف شعبہ جات میں‘ مسلمانوں کئے ذریعے کیے گئے شاندار کارناموں اور ان کے تعمیری کردار کے تعلق سے عدم آگہی پائی جاتی ہے۔ علم و ادب، فنون لطیفہ، فن تعمیرات، جدوجہد آزادی و سماجی اصلاح غرض کونسا ایسا میدان ہے جہاں مسلمانوں کی چھاپ نہ پائی جاتی ہو۔ برادرانِ وطن کے درمیان ملک کی ترقی و تعمیر میں مسلمانوں کے بے مثال کردار کو نمایاں کرنے کی آج اشد ضرورت ہے۔ ندا فاضلی کے اشعار ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں۔

اتنا سچ بول کہ ہونٹوں کا تبسّم نہ بجھے

روشنی ختم نہ کر آگے اندھیرا ہوگا

روشنی کی بھی حفاظت ہے عبادت کی طرح

بجھتے سورج سے چراغوں کو جلایا جائے

حوالہ جات:

۱) Cris Dhillon: The New Curry Secret

 Pratibha Kiran: Biryani (2

3) ہندوستان میں مشرقی تمدن کا آخری نمونہ: عبد الحلیم شرر

4) مسلم عہد کا تعلیمی، تہذیبی اور ثقافتی ورثہ: پرویز اشرفی

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں