بزم ریحان – جولائی اگست 2024

حبیبہ فیصل

پہیلیاں1۔ جتنا زیادہ ہو اتنا کم نظر آتا ہے بتائیں کیا؟2۔ جب سے ہے دنیا آباد ایک ایسا بھی ہے استاد بنا کتاب وہ علم پڑھائے کچھ نہ کچھ سب کوسکھائے3۔ وہ کونسا پھل ہے جو ہم خرید نہیں سکتے؟ 4۔ وہ کونسی چیز…

پہیلیاں

1۔ جتنا زیادہ ہو اتنا کم نظر آتا ہے بتائیں کیا؟

2۔ جب سے ہے دنیا آباد

 ایک ایسا بھی ہے استاد

 بنا کتاب وہ علم پڑھائے 

کچھ نہ کچھ سب کوسکھائے

3۔ وہ کونسا پھل ہے جو ہم خرید نہیں سکتے؟ 

4۔ وہ کونسی چیز ہے جو ہمیں پڑھنے اور لکھنے میں مدد دیتی ہے لیکن نہ وہ قلم ہے اور نہ کاغذ؟

5۔ وہ کونسی جگہ ہے جہاں لوگ جیت کے بجائے ہار مانگتے ہیں؟

6۔ ذرا سوچ کر بتائیے کہ وہ کون سا اندھیرا ہے جو روشنی سے بنتا ہے؟

7۔ دنیا میں ہیں ہم دو بھائی

بھاری بوجھ اٹھانے والے

پاؤں تلے دب جانے والے

لیکن یہ ہے بات نرالی

دن بھر تو ہم بھرے ہوئے ہیں

رات آئے تو بالکل خالی

8۔ جانے کس شے کا ہے سایا

بادل سا بن کر لہرایا

اڑتا جائے، اڑتا جائے

طرح طرح کی شکل بنائے

پکڑو تو وہ ہاتھ نہ آئے

جوابات: 

  1. اندھیرا (2) وقت (3) محنت کا پھل (4) عینک (5) پھولوں کی دکان (6) سایہ (7) جوتے (8) دھواں

تارے زمیں پر

سچائی کی خوشبو

حبیبہ فیصل

عمر اور نورالعین بھائی بہن ‌تھے۔ عمر‌میں جھوٹ بولنے کی خراب عادت تھی مگر نورا جھوٹ نہیں بولتی تھی۔ دادی اماں کا روز کا معمول تھا فجر کی نماز کے بعد دونوں کو اپنے پاس بٹھایا کرتی تھیں۔ انہیں اچھی اچھی باتیں بتاتیں، قرآن اور حدیث کی تعلیمات سکھاتیں، صحابہ کے قصے سناتیں۔ نورا کو ہر صبح بے صبری سے دادی کے پاس بیٹھنے کا انتظار رہتا تھا جب کہ عمر تساہل برتتا تھا۔ان دونوں کے والدین بھی انہیں اچھی نصیحتیں کرتے اور ان کی اچھی عادتوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے لیکن انہیں فضول خرچی بالکل پسند نہیں تھی۔ اس لیے جیب خرچ کے لیے انہیں ایک مخصوص رقم ہی ملتی تھی لیکن عمر اسکولی سرگرمیوں کے نام پر جھوٹ بول کر امی ابو سے مزید پیسے لے لیا کرتا تھا اور باہر سے لالی پاپ، چپس اور چوینگم وغیرہ جیسی چیزیں خریدتا جو صحت کے لیے مضر ہوتیں۔ نورا اسے بار بار ٹوکتی رہتی مگر عمر پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ اسی طرح ایک دن ایسے ہی عمر سائنسی نمائش کے نام پر امی سے پیسے لینے جا رہا تھا۔ نورا نے اسے سمجھانے کی بہت کوشش کی مگر وہ نہ مانا۔ “نورا خبر دار! جو تم نے اس بارے میں امی کو بتایا، ورنہ۔۔۔۔” عمر نے نورا کو آنکھیں دکھاتے ہوئے تنبیہہ کی۔ نورا نے ایک اور مرتبہ سمجھانے کی کوشش کی۔ “لیکن بھائی دادی جان کہتی ہیں جھوٹ بولنے والوں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں کرتے اور۔۔۔” نورا کی بات عمر نے درشتی سے کاٹ دی۔ “بس کردو نورا مجھے اور نہیں سننا۔ میں امی‌کے پاس جا رہا ہوں اور تم میرے پیچھے مت آنا۔” یہ کہہ کر عمر کمرے سے باہر آیا اور باورچی خانے میں امی کے پاس چلا گیا۔ چہرے پر جعلی معصومیت سجائے اس نے پیسے کا مطالبہ کیا۔ حسب معمول امی نے اس کی بات پر یقین کرکے اسے پیسے دے دیے۔ نورا دیوار کی اوٹ سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ جب عمر واپس آیا تو نورا نے اسے انگلی دکھا کر کہا، “یاد رکھنا بھائی ایک دن جھوٹ بولنے کی بری سزا ملے گی کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے ناراض ہے۔” عمر نے بے فکری سے کہا، “تم اپنا کام کرو نورا، میری دادی اماں بننے کی کوشش مت کرو، سمجھیں؟” عمر نے بھی اس کی نقل اتاری۔ اس طرح عمر کی جھوٹ بولنے کی عادت بڑھتی گئی اور اب اسے جھوٹ بولتے ہوئے ذرا بھی جھجھک اور ڈر محسوس نہیں ہوتا تھا۔

اسکول میں ان دنوں سائنسی نمائش کی تیاریاں عروج پر تھیں اور کلاس میں ٹیچر نے اعلان کیا کے نمائش کے لیے تمام بچوں کو سو روپے جمع کروانے ہیں تاکہ نمائش کے لیے پراجیکٹ تیار کیے جاسکیں اور پراجیکٹ کے نمبرات فائنل رزلٹ میں شامل کیے جائیں گے۔ عمر پیسے مانگنے کا کوئی نیا بہانہ سوچنے لگا کیونکہ نمائش کے نام پر کل ہی تو پیسے مانگے تھے۔ گھر آ کر وہ پیسوں کے تعلق سے بھول گیا۔ دوسرے دن عمر کے پیسے نہ لانے پر یاددہانی کے لیے ٹیچر نے عمر کی امی کو فون کیا اور بتایا کہ یہ پراجیکٹ کتنا اہم ہے۔ عمر کی والدہ حیران ہوئیں مگر انہوں نے ٹیچر کے سامنے ظاہر نہیں کیا۔ جب عمر اسکول سے گھر واپس آیا تو انہوں نے عمر کو بلایا اور صاف لفظوں میں پیسوں کے تعلق سے پوچھا۔ اب عمر کے جھوٹ کا راز افشاں ہو چکا تھا۔ عمر کے چہرے پر گھبراہٹ طاری ہو گئی۔ “عمر مجھے تم سے یہ امید نہیں تھی۔” سخت لہجے میں کہتے ہوئے انہوں نے اپنا منہ پھیر لیا۔ عمر کو انہیں ایسے دیکھتے ہوئے کافی دکھ ہوا اور اس نے شرمندگی سے اپنی نگاہیں جھکالیں۔ عمر کا جھکا سر دیکھ کر امی نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور نرمی سے سمجھانا شروع کیا “بیٹا تم نے فرشتوں کے بارے میں پڑھا ہے نا؟” ان کے اچانک سے اس طرح سوال کرنے پر عمر نے چونک کر ان کی طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں کہا “جی، دادی جان نے بتایا تھا، وہ اللہ تعالی کی بہت پیاری اور نورانی مخلوق ہے اور انہوں نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب ہم اللہ سے دعا کرتے ہیں تو وہ ہماری حفاظت کے لیے ہمارے ساتھ رہتے ہیں۔” امی بولیں، “اچھا تو تم چاہتے ہو کہ اللہ کے اتنے پیارے فرشتے تم سے دور ہو جاؤ؟” عمر نے جھٹ سے نفی میں سرہلایا۔ “مگر وہ تم سے تو دور چلے گئے ہوں گے کیونکہ جب ہم جھوٹ بولتے ہیں تو جھوٹ کی بدبو سے فرشتے بہت دور چلے جاتے ہیں انہیں اس سے سخت نفرت ہے۔” یہ سن کر عمر کے چہرے پر پریشانی چھاگئی وہ روہانسا ہوگیا۔ “کیا تم چاہتے ہو کہ فرشتے دوبارہ تمہارے پاس آ جائیں؟” عمر کی دھندلائی آنکھیں چمکیں اور وہ پوری توجہ سے بات سننے لگا۔ “تو پھر اپنے آپ سے ایک وعدہ کرو کہ آئندہ تم کبھی جھوٹ نہیں بولو گے اور اس کے لیے اللہ سے معافی مانگو گے، ساتھ دعا بھی کرو گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ جس طرح جھوٹ بولنے والے سے ناراض ہوتے ہیں اسی طرح وعدہ خلافی کرنے والے سے بھی ناراض ہوتے ہیں۔” عمر ایک دم سے بولا، “کیا سچائی میں خوشبو ہوتی اور کیا خوشبو سے فرشتے واپس آجائیں گے؟” امی نے ہاں میں سر ہلایا اور کہا “سچائی میں وہ خوشبو ہے جس سے اللہ تعالی، فرشتے اور انسان سبھی آپ کو پسند کرتے ہیں۔” “میں اللہ تعالی سے معافی مانگ لوں گا اور دعا بھی کروں گا کہ وہ دوبارہ فرشتوں کو میرے پاس بھیج دیں۔ مگر میں نے پراجیکٹ کے لیے پیسے نہیں دیے ہیں اب مجھے اچھے مارکس نہیں ملیں گے۔” عمر نے پھر دکھی ہو کر پریشانی بیان کی۔ یہ سن کر امی نے اسے مسکرا کر دیکھا اور کہا “جب تم کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا ہے تو تمہاری سزا بھی ختم، تم فکر نہ کرو میں نے ٹیچر کو پیسے دے دیے ہیں۔” یہ سن کر عمر کا چہرہ کھل اٹھا۔ نورا جو عمر کو ڈھونڈتی ہوئی آئی تھی اس نے بھی امی اور عمر کی تمام گفتگو سن لی۔ اسے خوشی ہوئی کہ عمر کو سمجھ میں آگیا کہ جھوٹ بولنا گناہ ہے اور اس سے اللہ تعالی ناراض ہوتے ہیں۔ اسے پتہ چل چکا تھا کہ جھوٹ بولنے کا انجام ہمیشہ برا ہی ہوتا ہے۔ عمر نے ارادہ کرلیا کہ آئندہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولے گا۔ اور اپنے دوستوں کو بھی یہ بات بتائے گا کہ فرشتے تو جھوٹ کی بدبو سے دور ہوجاتے ہیں۔

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں