بنگلہ دیش کاحالیہ طلبائی احتجاج بڑے پیمانے پر توجہ کا مرکز بنا رہا، جو حکومت اور اس کی پالیسیوں کے خلاف نوجوانوں میں پائے جانے والے گہرے غصہ و اضطراب کو ظاہر کرتا ہے۔ متنازعہ کوٹا سسٹم کی بحالی سے سلگ اٹھا یہ احتجاج، حکومت، کرپشن اور انصاف کی جدوجہد کے وسیع تر مسائل کو نمایاں کرتے ہوئے ایک معنی خیز تحریک کی شکل اختیار کرچکا ہے۔
بنگلہ دیش میں 1972ء میں متعارف کردہ کوٹا سسٹم، آئندہ سالوں میں متعدد تبدیلیوں سے دوچار رہا۔ اس کا حالیہ ورژن سول سروس کی %56 نوکریوں کو مختلف گروپوں کے لیے مختص قرار دیتا ہے: 1971ء کی جنگ کے مجاہدین آزادی کی نسلوں کے لیے %30، خواتین کے لیے %10، حاشیہ زدہ اضلاع کے لیے %10، مقامی آبادی کے لیے %5 اور عذر کے حامل افراد کے لیے %1۔ منسلک وقار، تحفظ اورفائدوں کی بناء پر سول سروس کی نوکریوں کے متلاشی بکثرت ہوتے ہیں، جس کے سبب کوٹا سسٹم ان لوگوں کے لیے ایک متازعہ مسئلہ بن جاتا ہے جو درج بالا زمروں میں شامل نہیں ہوتے۔
اس استدلال کی بنیاد پر کہ کوٹا سسٹم لیاقت کے معیار(meritocracy) کو نقصان پہنچارہاہے، 2018ء میں بنگلہ دیش کی پبلک یونیورسٹیوں کے طلبہ نے اس کے خلاف احتجاج شروع کیا۔ وہ خصوصی طور پر مجاہدین آزادی کی نسلوں کے لیے 30 فیصد تحفظات کے ناقد تھے۔ ان احتجاجات کی شدت نےبظاہر طلبہ کے مطالبات کو خاطر میں لاتے ہوئے حکومت کو کوٹا سسٹم منسوخ کرنے پر مجبور کیا تھا۔
حالانکہ 5/جون 2024ء کو بنگلہ دیش کی ہائی کورٹ نے سابقہ تنسیخ کو غیر دستوری قرار دیتے ہوئے کوٹا سسٹم کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ فوری طور پر طلبہ میں غصہ و برہمی کا سبب بنا جو ڈھاکہ یونیورسٹی سے شروع ہونے والے اور فی الفور ملک بھر میں پھیلنے والے احتجاجات پر منتج ہوا۔ ابتداً حکومت اور برسراقتدار پارٹی کے سیاست دانوں نے کہا کہ (کوٹا سسٹم کی) بحالی کا یہ فیصلہ عدالتی ہے اور ان کی دسترس سے باہر ہے۔ لیکن جولائی 14 کو وزیر اعظم شیخ حسینہ کے متنازعہ بیان، (جس میں کہا گیا کہ) احتجاجی مجاہدین آزادی کے بالمقابل رضا کاروں ( 1971ء کی جنگ آزادی میں پاکستانی فوج سے اشتراک کرنے والوں) کی نسلوں کو ترجیح دے رہے ہیں، نے غصہ کو مزید بھڑکادیا۔ طلبہ اپنے اختلاف کو نمایاں کرتے ہوئے اس قسم کے نعروں کے ساتھ سڑکوں پر اتر آئے، ”کون ہوں میں؟ کون ہو تم؟ رضا کار، رضاکار“۔
طلبہ کے غصے اور بے چینی کے پس منظر کا اندازہ کرنے کے لیے اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں ‘رضاکار’ کی اصطلاح متنازعہ (یا توہین آمیز) کیوں ہے۔ 1971ء کی جنگ آزادی کے دوران ‘رضاکار’ پاکستامی فوج کے ساتھ تعاون کرنے والے لوگ تھے۔ انہیں ملکی تاریخ کے بدترین غدار کے طور پر جانا جاتا ہے۔ رضاکار کے طور پر نشان زد کیا جانا سخت توہین سمجھی جاتی ہے، جس سے بغاوت اور ظلم کی یادیں تازہ ہوجاتی ہیں۔ حسینہ کے ریمارک، جس میں کہا گیا کہ احتجاجیوں نے مجاہدین آزادی کے بالمقابل رضاکاروں کو ترجیح د ی ہے، نے طلبہ میں غصہ و ناراضگی کو جنم دیا، جسے انہوں نے ایک غیر منصفانہ اور اشتعال انگیز الزام گردانا ہے۔
حالیہ دور میں جماعت اسلامی کے مختلف قائدین کو جنگی جرائم کے الزام میں پھانسی دئیے جانے کی وجہ سے بھی بنگلہ دیش میں رضاکار کی اصطلاح تنازع کا موضوع رہی ہے۔ یہ قائدین بشمول عبد القادر ملا (جنہیں 2013ء میں پھانسی دی گئی) ، محمد قمر الزماں (2015ء)، مطیع الرحمان نظامی (2016ء) اور میر قاسم علی (2016ء) کو ایک ایسی (عدالتی) کاروائی کے ذریعے سزا دی گئی، جس پر کئی نے غیر منصفانہ اور سیاسی طورپر محرک شدہ ہونے کے حوالے سے تنقید کی ہے۔ ان قائدین میں سب سے زیادہ مقبول ،علامہ دلاور حسین سعیدی،جنہیں 2013 میں عمر قید کی سزا سنائی گئی، ایک نمایاں ہستی رہے جن کے (عدالتی) ٹرایل اور فیصلے نے اندرون ملک اور بین الاقوامی مبصرین میں قابل لحاظ تنازعہ اور بحث کو شروع کیا تھا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ مقدمات (ٹرائلس) جنگی جرائم کے معاملے میں انصاف کی آڑ میں سیاسی مخالفین کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیے گئے۔
حسینہ کے رضاکاروالے ریمارک کےبعد ڈھاکہ یونیورسٹی ہاسٹل کے ہزاروں طلباء سڑک پر نکل آئے اور نعرے لگانے لگے ”کون ہوں میں؟ کون ہو تم؟ رضا کار، رضاکار۔۔۔کس نے کہا؟ کس نے کہا؟ -آمر۔ آمر“۔ جبکہ حکومت اور چند میڈیا ذرائع نے طلبہ کے ان نعروں کو مسخ کرکے پیش کیا۔انہوں نے نعرے کے محض پہلے حصہ کو بیان کرتے ہوئے الزام لگاناشروع کیا کہ (طلبہ اپنے آپ کو) رضاکار کے طور پر بیان کررہے ہیں۔ اس غلط پیش کش نے صورتحال کو مزید بھڑکادیا، چنانچہ سیاست دانوں نے اس غلط بیانی کو بنیاد بناتے ہوئے سخت بیانات دیے اور دھمکیاں دیں۔
احتجاج کرنے والے طلبہ پر پولیس کاکریک ڈاؤن سخت بےرحمی سے عبارت تھا، قانون کے نفاذ کی ایجنسیوں ، جن کے ساتھ اکثر برسراقتدار پارٹی کی طلبائی ونگ بنگلہ دیش چھاتر لیگ کے ممبرشامل تھے، نے بھیڑ کو ہٹانے کے لیے کثیر قوت کا استعمال کیا۔ غیر مسلح طلبہ کے خلاف پولیس کے ذریعے لاٹھیوں، آنسو گیس اور پانی کے کینن کے استعمال کی رپورٹیں اور ویڈیوز سوشل میں کثرت سے شئیر کی گئی۔ خواتین کے بشمول کئی احتجاجیوں کو کسی وجہ کے بغیر مارا گیا اور حراست میں لیا گیا ہے۔ متشددانہ کارروائی کے نتیجے میں کئی طلبہ شدید طور پر زخمی ہوئے ہیں۔ مخاف آواز کو دبانے کے مقصد سے کیا گیا انتطامیہ کا سخت ردعمل طلبائی تحریک کے غصے اور عزائم میں مزید اضافے ہی کاسبب بنا ہے، جس سے پُرامن مظاہروں سے نپٹنے کے لیے حکومت کا جابرانہ رویہ مزید اجاگر ہوگیا ہے۔ ان جارحانہ کارروئیوں کے باوجود مظاہرین کا عزم باقی رہا،جس کے نتیجے میں 18 جولائی کو ملک گیر سطح پر بند (شٹ ڈاؤن ) کا اعلان کیا گیا۔
خانگی یونیورسٹیوں کا بھی اس احتجاج میں شامل ہونا ایک خلاف معمول بات رہی، جو روایتی طورپر سیاسی معاملات میں کم شامل ہوتی تھیں۔ (احتجاج کے ) اس پھیلاؤ نے مختلف سماجی طبقات میں موجود بے اطمینانی کو اجاگر کیا ہے، چنانچہ امیر پس منظر رکھنے والے طلبہ بھی تحریک میں شامل ہوئے ہیں، جس سے سرکاری اور خانگی یونیورسٹی ایکٹوزم کے درمیان کا فرق کم ہوا ہے۔
حالیہ احتجاج کی ایک منفرد بات یہ رہی کہ طلبہ اور کلچرل گروپوں نے مضبوط جذبات کے ساتھ انقلابی بنگالی ترانے تخلیق کیے انہیں بکثرت پھیلایا۔ یہ ترانے بہت جلد ڈیجیٹل پلیٹ فارمس پر وائرل ہوگئے، جس سے تحریک کے پیغام کو وسعت ملی۔ ‘کانداری ہوشیار’ جیسے کلاسک اور قاضی نذرالاسلام، شکانت بھٹاچاریہ اور خودی رام بوشو کی دیگر نظموں اور ترانوں کو احتجاج کے مناظر کے ساتھ ایڈٹ کیا گیا، جس سے ایک ایسا پراثر مواد تخلیق ہوا جو عوام میں گونج اٹھا اور جس نے طلبائی مطالبات کی ثقافتی وتاریخی معنویت کو اجاگر کیا۔
جولائی 2021ء کو بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ نےکوٹا مسئلہ پر اپنا فیصلہ سنایا۔ کورٹ نے مجاہدین آزادی کے کوٹا کو 30 فیصد سے 5 فیصد تک محدود کردیا اور کہا کہ حکومت ضرورت کے مطابق اس میں تبدیلی کرسکتی ہے۔ نئی تقسیم اس طرح ہوگی: 93 فیصد میرٹ کی بنیاد پر، 5 فیصد مجاہدین آزادی کے لیے اور 2 فیصد دیگر کے لیے۔ گرچہ یہ فیصلہ بظاہر طلبہ کے حق نظر آتا ہے، لیکن یہ کوٹا تعین کرنے میں کورٹ کے رول پر سوالات کھڑے کرتا ہے، جو بنیادی طور پر پارلیمنٹ کی ذمہ داری سمجھی جاتی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں عدالتوں نے اکثر حکومت کی کٹھ پتلی کے طور پر کام کیا ہے، کچھ لوگ یہاں تک کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے اصلاً راست حکومت کے دفاتر ہی سے جاری ہوتے ہیں۔
کورٹ کے فیصلے کے باوجود طلبہ نے اس وقت تک اپنے احتجاج کو جاری رکھنے کا اشارہ دیا ہے جب تک وزیر اعظم شیخ حسینہ نوجوان مظاہرین کی اموات کے لیے معافی نہیں مانگتی اور استعفیٰ نہیں دیتی۔ جبکہ فیصلے کی غیر واضح کیفیت نے ان کی کوششوں کو پیچیدہ کردیا ہے۔ حکومت نے اپنے اوپر دباؤ کو کم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے جس کی بناء پر طلبہ کےلیے اپنے احتجاج کی شدت کو برقرار رکھ پانا ایک چیلنج بن چکا ہے۔
مخالف آوازوں کو تشدد سے دبانے میں چھاتر لیگ کی شمولیت نے حکومت کی شبیہ کو مزید مسخ کیا اور عوام کے اشتعال کو بڑھایا ہے۔بنگلہ دیش میں طلبائی احتجاج اب محض کوٹا کا مسئلہ نہیں رہا۔ یہ موجودہ سماجی وسیاسی نظام کے متعلق ایک گہرے اور راسخ عدم اطمینان کو ظاہر کرتا ہے۔ حکومت کے سخت ردعمل اور معنی خیز گفتگو میں شمولیت سے انکار نے بحران کی شدت میں مزید اضافہ ہی کیا ہے، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ملک کے نوجوانوں اور عوام کے وسیع تر مسائل کو مخاطب کرنے کے لیے دیانتداری کے ساتھ کیے گئے عہد کی ضرورت ہے۔ پیش آمدہ ایام اس حوالے سے بڑے قیمتی ہیں کہ آیا طلبہ اپنے عزم کو برقرار رکھتے ہوئے تبدیلی کے لیے کوشش جاری رکھ پاتے ہیں،یا حکومت کی چالاکی اس تحریک کو دبانے میں کامیاب ہوتی ہے۔
(مضمون نگار، این آئی ٹی اگرتلہ سے پی ایچ ڈی کررہے ہیں)