بنگلہ دیش کا عوامی انقلاب اور طلبہ

(قسط دوم)

غلام رشید

”دل کے اندر طوفان بہت ہے، دل پر گولی مار نا“ (پولیس کی جارحانہ فائرنگ کے دوران بنگالی طلبہ کا انقلاب آفرین نعرہ)

اگست انقلاب( August Revolution )
5/اگست، 2024ء۔ دوپہر کے وقت، حسینہ عوامی انقلاب کے پیش نظر خفیہ طور پر ملک چھوڑ گئیں۔ بنگلہ دیش کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کوئی وزیراعظم عوامی  انقلاب کے خوف سے ملک چھوڑ کر فرار ہوا ہے۔ شیخ مجیب الرحمن اور ضیاء الحق نے گولیاں کھا کر جان دی، جنرل ارشاد برطرف ہونے کے باوجود فرار نہیں ہوئے، اور خالدہ زیا مخالف پارٹی کی سربراہ کے طور پر جیل میں ہیں۔ لیکن حسینہ ملک چھوڑ گئیں۔ شدید عوامی غصہ واضح ہے کہ یہ ان کے خلاف ہے۔ حسینہ کے فرار ہونے اور حکومت کے گرجانے کے فوراً بعد، ان کے والد اور بنگلہ دیش کے ’فادر آف دی نیشن‘ شیخ مجیب الرحمن کے مجسمہ اور میوزیم کو توڑ دیا گیا۔ کیوں؟ بنگلہ دیش کے ترقی پسند طلبہ تنظیم کے ڈھاکہ یونیورسٹی کمیٹی کے صدر نے کہا، ”شیخ مجیب کا مجسمہ توڑنا عوامی انقلاب کا حصہ ہے۔پرانے کو توڑ دینا انقلاب کا اصول ہے“۔ دراصل، بنگلہ دیش کے لوگ شیخ مجیب کو نفرت نہیں کرتے، بلکہ محبت کرتے ہیں۔ لیکن شیخ حسینہ کی حکومت نے مجیب کے ساتھ انتہائی زیادتی کی۔ لوگوں کو زبردستی تین بار دن میں ان کی تعریف کرنے پر مجبور کیا گیا۔ شیخ مجیب کو حسینہ کی حکومت نے اپنی تمام برائیوں کا پناہ گاہ بنا لیا تھا۔ ”ہم عوامی لیگ ہیں، میں شیخ مجیب کی بیٹی ہوں، اس لیے ہم ہی آزادی کے اصل جذبے کے واحد (Custodian and bearer) حامل اور علمبردار  ہیں!“ کیا شیخ مجیب کے علاوہ آزادی کی جنگ میں کسی اور کی کوئی اہمیت نہیں تھی؟ جنگ کے دوران وہ پورے وقت پاکستان میں قید تھے۔ 1971ء میں پہلے عارضی بنگلہ دیشی حکومت کے وزیرِ اعظم تاج الدین احمد کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟ عوامی لیگ کے بانی مولانا عبد الحمید خان بھاشانی کو کیوں نظرانداز کیا جاتا ہے؟ شیخ حسینہ نے اپنے تمام ظلم، بدعنوانی، اور خود سری کو شیخ مجیب کے نظریات سے جوڑا ہے۔1971ء کے زمانے کے آزادی پسندوں کو چھوڑ کر، صرف ایک کو سوپر ہیرو کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ لوگوں کی ناراضگی اس طرح سے ظاہر ہوئی ہے۔ شیخ مجیب استبدادی رویے کو جائز ٹھہرانے کے ہتھیار کے طور پر پیش کیے گئے تھے۔ حسینہ نے اپنے والد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ شیخ حسینہ کے غلط اعمال کی قیمت ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ رہنما نے چکائی ہے۔

ایک بنگالی کہاوت ہے، ”Tumi Somostho Full Chire Phelle O Bosonter Agomon Thekate Parveena“ (تم جتنے بھی پھول توڑ لو، بہار کی آمد کو روک نہیں سکتے)۔ جس ملک کے عوام انقلاب چاہتے ہیں، اسے روکنے کی طاقت کس میں ہے؟ وقت کے ساتھ دنیا بھر میں ظالموں اور آمروں کا زوال ہوتا ہے۔ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ استبدادی حکمران عوام کے ہاتھوں سے بچ نہیں پاتے۔ عوام کی طاقت ان کے سارے غرور کو مٹی میں ملا دیتی ہے۔ بنگلہ دیش کے مجیب الرحمن کی بیٹی شیخ حسینہ کے معاملے میں بھی یہی ہوا ہے۔ 1975ء کے اگست میں ہی بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کو دھانمندی کے 32 نمبر مکان میں مسلح بغاوت کرنے والے فوجیوں نے قتل کر دیا تھا۔ مجیب نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا کر ایک جماعتی ’باکسال‘ قائم کیا تھا۔ اس کا خمیازہ اسے اپنی جان کی قیمت سے چکاکر بھگتنا پڑا۔ بعد میں جنرل ضیاء الحق اور جنرل ارشاد کو بھی عوام نے معاف نہیں کیا۔ بنگلہ دیش میں عوامی انقلاب کی تاریخ نئی نہیں ہے۔ صدیوں سے بغاوت اور انقلاب کے گانے گانے والے بنگالی طلبہ اور نوجوان ہمیشہ چوکس اور میدانِ عمل میں حاضر رہے ہیں۔ 1952ء میں بنگلہ زبان کے لیے طالب علموں نے اپنے تازہ خون کی قربانیاں دی ہیں۔ 1990ء میں جنرل ارشاد کے دور حکومت میں طالب علموں اور عوام نے زوردار احتجاج   کیا۔ پھر طالب علموں نے ہی حکومت کے استبدادی چال و چلن کے خلاف تحریک چلائی اور ارشاد کی حکومت کا خاتمہ کیا۔ اس کے لیے سخت جدوجہد کرنی پڑی۔ نور حسین اس تحریک میں شہید ہوئے، جن کے سینے اور پیٹھ پر ’استبداد کا خاتمہ ہو، جمہوریت آزاد ہو‘ لکھا ہوا تھا۔ چنانچہ جب بھی ضرورت پڑی، طالب علموں نے اپنے تازہ خون کی قربانیاں دے کر ملک کی حفاظت کی۔

شیخ حسینہ کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ لیکن وہ ڈکٹیٹروں کی طرح اقتدار کو مضبوطی سے تھامے رہنا چاہتی تھیں۔ طلبہ نے انہیں نہیں چاہا۔ مگر گدی کی لالچ سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکیں۔ آخری لمحے تک انہوں نے ہار ماننے سے انکار کیا۔ انہوں نے فوج کو کہا کہ احتجاج کرنے والے طلبہ کے خلاف مزید سختی سے نمٹنا ہوگا۔ بے تحاشا گولیاں چلانی ہوں گی۔ پولیس تو کر رہی تھی، مگر فوج کیوں لوگوں کو نہیں مار رہی؟ فوج نے خون ریزی نہ کرنے کا فیصلہ کیا، اسی لیے آخرکار حسینہ کو فرار ہونا پڑا۔برصغیر کی تاریخ میں یہ فرار اور زوال ایک اہم واقعے کے طور پر درج ہوگا۔ حسینہ کے خلاف سماج کے تمام طبقات اور پیشوں کے لوگوں میں شدید غصہ بڑھ چکا تھا۔ اس کا اظہار صرف وقت کی بات تھی۔ یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات کے احتجاج نے یہ موقع فراہم کیا ، جو سرکاری ملازمتوں میں آزادی کے جنگی سپاہیوں کے کوٹے کی اصلاح کے مطالبے پر تھا۔ سرکاری ملازمتوں میں بنگلہ دیش کے آزادی کے جنگی سپاہیوں کے لیے 30فیصد کوٹہ مختص تھا۔ بعد میں، آزادی کے جنگی سپاہیوں کے بچوں، حتیٰ کہ پوتے پوتیوں کو بھی اس تحفظ کے دائرے میں شامل کر لیا گیا۔ یہ بنیادی طور پر عوامی لیگ کے ایک طرفہ ووٹ بینک کو قائم کرنے کی ضرورت کے تحت ہوا۔ کوٹے کی اصلاح کے لیے تحریک پہلے بھی چل چکی تھی، لیکن حسینہ کی فاشسٹ حکومت نے اسے سختی سے دبایا۔ اس سال، کوٹا اصلاح کی تحریک 1/جولائی 2024ء سے زور و شور سے شروع ہوئی۔14/جولائی کو وزیراعظم شیخ حسینہ کی ایک بیان نے احتجاج کی آگ پر تیل چھڑک دیا۔ انہوں نے کہا، ”تحفظ آزادی کے جنگی سپاہیوں کے بچوں کو نہیں ملے گا تو کیا وہ رضاکاروں کے بچوں کو ملے گا؟“ یہ احتجاج کرنے والے بچوں کے لیے ایک زبردست توہین تھی۔ اس رات، ڈھاکہ یونیورسٹی کے ہاسٹلز میں ہزاروں طلبہ و طالبات باہر آ کر نعرے لگانا شروع کر دیے،  ”Tumi Ke, Ami Ke, Raja Ka, Raja Ka, Ke Boleche, Ke Boleche, Soshtachar Soshtachar“ (تم کون ہو، میں کون ہوں، رضاکار  رضاکار؛ کس نے کہا، کس نے کہا، ظالم ، ظالم)، بنگلہ دیش میں پچھلے ساڑھے سولہ سالوں میں کوئی بھی شیخ حسینہ پر سوال اٹھانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ اغوا، گرفتاری، ہراسانی اور دباؤ کے تحت معاشرہ اور میڈیا بے بس ہو چکے تھے۔ یہ پہلی بار تھا کہ طلبہ نے شیخ حسینہ کے خلاف کھڑے ہو کر نعرے لگائے۔ اس کے ساتھ ہی کوٹے کی اصلاح کی تحریک کی ایک نئی شروعات ہوئی۔15/جولائی کو طلبہ کو دبانے کے لیے چھات لیگ کو میدان میں اتارا گیا۔ اسی دن، عوامی لیگ کے جنرل سیکریٹری اوبیدول قادری نے کہا کہ احتجاج کرنے والوں کا جواب چھات لیگ ہی دے گی، اور وہ تیار ہیں۔ اس کے بعد  چھات لیگ نے ڈھاکہ یونیورسٹی اور دیگر عوامی یونیورسٹیوں میں طلبہ پر بڑے پیمانے پر حملے کیے۔ دفعہ دفعہ طالبات کو بھی پکڑ پکڑ کر پیٹا جاتا ہے۔ طلبہ کو ہدف بنا کر فائرنگ کی جاتی ہے۔ 17/ جولائی کو احتجاج پورے ملک میں پھیل جاتا ہے۔ رنپُر میں بیگم روکیا یونیورسٹی کے طالب علم ابو سعید کو پولیس نے قریب سے گولی مار کر شہید کر دیا۔ یہی ویڈیو بارود پر ایک چنگاری کی طرح کام کرتا ہے۔ اس کے بعد ملک بھر میں احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ مارچ کے دوران نعرے لگنے لگتے ہیں:”Buker Vitore Onek Jhor, Bok Petechi Goli Kour“ (دل کے اندر بہت طوفان ہے، دل پر گولی مار نا)۔

واقعی، مظاہرین شاید سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ان پر گولی چلائی جائے گی۔ عام لوگوں نے بھی نہیں سوچا تھا کہ چند دنوں میں 200سے زیادہ طلبہ اور عام شہری ہلاک ہو جائیں گے۔ کوئی شاید یہ بھی نہ سوچا ہوگا کہ گھروں میں موجود بچے، چھت پر موجود نوجوان، یا بالکونی میں موجود لوگ گولیوں کا شکار ہوں گے۔ اگرچہ19/جولائی کو کرفیو لگانے کے اعلان میں اوبیدول قادری نے کے حکم کے مطابق ”شوٹ آن سائٹ“، یا دیکھتے ہی گولی چلانے کا اعلان جاری کیا گیا ہے۔ بنگلہ دیش میں جو کبھی نہیں ہوا، وہ واقع ہوا۔ بڑے پیمانے پر یونیورسٹی کے طلبہ کو گولی مار کر شہید  کر دیا گیا۔ مائیں روئیں، باپ روئے، ساتھی طلبہ روتے رہے۔ ملک میں غصہ بھڑک اٹھا۔ ایک کے بعد ایک، اساتذہ، والدین، وکلاء، فنکار، ادیب، صحافی، اور ریٹائرڈ فوجی افسران نے تحریک کی حمایت کرنا شروع کر دی۔ تعلیمی عدم مساوات کے خلاف طلبہ تحریک کے منتظمین نے 9 نکاتی مطالبات پیش کیے تھے۔ ان مطالبات کو پورا کرنے کی بجائے، تشدد اور بڑے پیمانے پر گرفتاریوں کا پرانا راستہ اختیار کیا گیا، جسے شیخ حسینہ نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف 16 سال سے استعمال کیا ہے۔ چند دنوں میں 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ تعلیمی عدم مساوات کے خلاف تحریک کے منتظمین ناہید اسلام، سارجس عالم، حسنات عبداللہ، آصف محمود، ابو بکر، اور نصرت تبسم کو اٹھا کر ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کی انٹیلیجنس ڈویژن (ڈی بی) کے دفتر میں رکھا گیا۔ وہاں سے زبردستی تحریک واپس لینے کی ویڈیو پیغام جاری کروایا گیا۔ عوامی احتجاج اور منتظمین کی بھوک ہڑتال کے دباؤ میں انہیں رہا کر دیا گیا۔ 2/ اگست، جمعہ سے احتجاجی مظاہروں نے دوبارہ بنگلہ دیش کو ہلا کر رکھ دیا۔ جمعہ کی نماز کے بعد ملک کے مختلف بڑے شہروں اور یونیورسٹیوں میں غصے سے بھرے طلبہ، اساتذہ، اور عوام کی بھیڑ بڑھتی گئی۔ مظاہرین کی گرفتاریوں کے خلاف اور ان کی رہائی کے مطالبے پر، شہید مینار اور شاہباغ چوک پر لاکھوں لوگوں کا اجتماع ہوا۔ صبح سے بارش ہو رہی تھی، کبھی ہلکی کبھی تیز۔ اس کے باوجود، نعرے بازی سے ماحول گونج اٹھا۔ ڈھاکہ میں جلوس آ رہے تھے اور ان کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ 8 کلومیٹر لمبی سڑک پر احتجاجی جلوس نکلے، اور ڈھاکہ کے مرکزی شہید مینار علاقے میں لوگوں کی بڑی بھیڑ جمع ہو گئی۔ نعرے بازی کے ساتھ یہ مظاہرہ ایک بڑے عوامی سمندر میں تبدیل ہو گیا۔ دوسری جانب، بنگلہ دیش فوج عوام کے خلاف کھڑے ہونے سے انکار کر دیتی ہے۔ شیخ حسینہ آخری کوشش کے طور پر اپنی سیاسی طاقت کو میدان میں اتارتی ہیں۔ ہفتے کے دن احتجاج مزید شدت اختیار کرتا ہے۔ شہید مینار سے ایک نعرے کے ساتھ احتجاج کرنے والے اعلان کرتے ہیں کہ ان کا واحد مقصد حسینہ کا استعفیٰ ہے۔ اتنی زیادہ شہیدوں کا حساب کون دے گا؟ ”ایک مطالبہ، ایک نعرہ، شیخ حسینہ، چھوڑو اقتدار“ کے نعرے کے ساتھ بنگلہ دیش میں شدید احتجاج شروع ہو جاتا ہے۔ کوٹے کی اصلاحات کے مطالبے سے شروع ہونے والا مظاہرہ اب حکومت سے استعفے کے مطالبے میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ طلبہ، اساتذہ، اداکار، ڈائریکٹر، گلوکار، مزدور، رکشا چلانے والے، اور تقریباً ہر سطح کے عام لوگ احتجاج میں شامل ہو گئے۔ ڈھاکہ سے برشال، راجشاہی سے چٹگاؤں تک ایک ہی نعرہ تھ۔ اقتدار چھوڑو۔ شیخ حسینہ نے مظاہرین کے ساتھ بات چیت کرنے کی خواہش ظاہر کی، مگر مظاہرین نے اس دعوت کو مسترد کر دیا۔ ناہید اسلام، تحریک کے ایک اہم منتظم، نے اجتماع سے اعلان کیا کہ اتوار کو ملک بھر میں مکمل عدم تعاون کی تحریک شروع کی جائے گی اور مطالبہ کیا کہ شیخ حسینہ اور ان کی کابینہ کے تمام اراکین استعفیٰ دیں۔ بدلے میں، عوامی لیگ بھی ایک اجتماع کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔ دراصل، وہ مقابلے میں ہتھیاروں کا استعمال کرنا چاہتی تھی۔ 08/ اگست کو، ڈھاکہ کی سڑکوں اور ملک بھر میں عوامی لیگ، یوتھ لیگ، اسٹوڈنٹس لیگ، اور رضاکار لیگ کے رہنما اور کارکن مظاہرین پر حملہ کرتے ہیں۔ کچھ کے پاس آگ کے ہتھیار تھے، اور بہت سے لوگوں کے پاس مقامی ہتھیار تھے۔ اس دن جھڑپوں میں کم از کم 114افراد شہیدوں  ہو گئے۔ تاہم، طلبہ اور عوام کی مزاحمت کے سامنے عوامی لیگ زیادہ دیر تک سڑکوں پر قائم نہیں رہ سکی۔ اسی دن، عدم مساوات کے خلاف طلبہ تحریک کی طرف سے ’لانگ مارچ ٹو ڈھاکہ‘ یا ڈھاکہ کی طرف مارچ کا اعلان کیا گیا۔ اتوار کا دن بہت اہم تھا۔ اس دن واضح ہو جاتا ہے کہ بندوق کی نالی اور طاقت کو برقرار نہیں رکھا جا سکتا۔ لہذا، پیر کو کرفیو نافذ کیا گیا، مگر فوجی سربراہ نے بیان دیا کہ ”بنگلہ دیش کی فوج عوام کے ساتھ ہے“۔ یہ اعلان بہت اہم تھا۔ نتیجتاً، اتوار کی رات سے ہی ڈھاکہ کی طرف عوامی سیلاب تیار ہونا شروع ہو گیا۔ لاکھوں لوگ شاہباغ کی طرف روانہ ہو گئے۔ دوپہر تک واضح ہو گیا کہ حکومت کمزور ہو چکی ہے۔ ساڑھے دو بجے کے قریب، فوج کی مدد سے شیخ حسینہ ملک چھوڑ دیتی ہیں، حالانکہ  01/اگست کو انہوں نے کہا تھا کہ عوامی لیگ یا شیخ حسینہ کبھی نہیں بھاگتی۔ لیکن آخرکار، وہ کمزوری دکھاتے ہوئے فرار ہونے پر مجبور ہو گئیں۔ حقیقت میں، انہیں عوام کی حمایت حاصل نہیں تھی، یہی وجہ تھی کہ انہیں بھاگنا پڑا۔ اگر وہ عوامی ووٹوں سے منتخب ہو کر اقتدار میں آتی تو شاید اس حالت کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

اسی سال 11/ جنوری کو عوامی لیگ کی صدر شیخ حسینہ نے چوتھی بار وزیراعظم کے طور پر حلف اٹھایا تھا۔ اس سے پہلے،1996ء میں وہ انتخابات کے ذریعے وزیراعظم بنیں۔ 2001ءکے انتخابات میں بی این پی کے جیتنے پر، شیخ حسینہ اپوزیشن لیڈر بن گئیں۔ پھر، 2008ء کے آخر میں نگراں حکومت کے تحت انتخابات جیت کر وزیراعظم بنی۔ پانچ سال بعد، 2014ء میں، انہوں نے ایک طرفہ انتخابات کرایا، جس میں 153 ارکان پارلیمنٹ بلا مقابلہ منتخب ہوئے، اور اپوزیشن جماعتوں نے اس انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔2018ءمیں متنازع انتخابات کے ذریعے، شیخ حسینہ دوبارہ وزیراعظم بنیں۔ انتخابی رات کو بیلٹ پر سیل لگانے کے بڑے پیمانے پر الزامات کی وجہ سے اس انتخابات کو ’رات کا ووٹ‘ یا ’نائٹ ووٹ‘ کے نام سے جانا گیا۔ 2024ء کے انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں نے حصہ نہیں لیا، اور شیخ حسینہ اپنے پارٹی کے لیڈروں کو آزاد امیدوار بنا کر ’ڈمی‘ انتخابات کے ذریعے دوبارہ وزیراعظم بن گئیں۔ اپوزیشن نے اس انتخاب کو ’ڈمی انتخاب‘ قرار دیا۔ شیخ حسینہ کی حکومت پر ووٹنگ کے حقوق کی خلاف ورزی، آزادی اظہار پر پابندیاں، انسانی حقوق کی پامالی، وسیع پیمانے پر بدعنوانی اور پیسہ اسمگلنگ، ملک کو سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے میں جکڑنے، ریاستی اداروں کی تباہی، قرض کے نام پر بینکوں کی لوٹ مار، اور آمدنی کی عدم برابری سمیت بہت سے الزامات ہیں۔ انہوں نے RAB (Rapid Action Battilion) کو مخالفینِ حکومت کو قتل اور دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کیا۔ راب کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث امریکہ نے اس پر پابندیاں عائد کی تھیں۔ ان کے دور حکومت میں ’آئناغر‘ نامی ایک خوفناک جیل خانہ بنایا گیا، جو بنگلہ دیش کا نازی کنسنٹریشن کیمپ بن گیا تھا۔ ان تمام امور کے مقابلے میں، وہ بنیادی ڈھانچے اور اقتصادی ترقی کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتی تھیں۔ لیکن آخری دور میں، حکومت نے معیشت کو بھی بحران میں ڈھکیل دیا۔ ملک کی غیر ملکی کرنسی کی ریزرو کم ہو گئی، غیر ادا شدہ قرضے بڑے پیمانے پر بڑھ گئے، اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں محدود آمدنی والے لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گئیں۔ جب لوگوں نے ان مسائل پر سوال اٹھایا، تو شیخ حسینہ اور ان کی حکومت کے وزیروں کے منہ پر مذاق سنا جاتا تھا۔ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے تھے کہ ملک سنگاپور بن گیا ہے۔

1952ء کی زبان کی تحریک، 1969ء کی عوامی تحریک  ، 1990ءکی استبدادی حکومت  مخالف تحریک—لیکن بنگلہ دیش کے لوگوں نے جولائی 2024ء  کے مانند اتنی ہلاکتیں نہیں دیکھی ہیں۔ ماضی کی تحریکوں کی طرح، اس بار بھی طلبا صف اول میں تھے، مگر اس بار خاص بات یہ ہے کہ لڑکیاں اور خواتین بھی بڑی تعداد میں شامل ہوئیں۔ ایک اور بات یہ ہے کہ اس بار لڑائی سوشل میڈیا پر بھی لڑی گئی۔ جب زیادہ تر ٹی وی چینلز حکومت کے کنٹرول میں تھے اور آن لائن پلیٹ فارموں پر دباؤ تھا، طلبہ نے فیس بک، ٹوئٹر جیسے سوشل میڈیا کو اپنی تحریک اور نظریاتی لڑائی کے لیے استعمال کیا۔ وہاں احتجاج پھیل گیا، عزیزوں کی جدائی کا دکھ، پولیس کی فائرنگ کی ویڈیوز۔ پس منظر میں آزادی کے جنگ کے گانے اور وطن پرستی کے گانے گونج رہے تھے۔ نئے نعرے اور دیواروں پر انقلابی جملے بھی سامنے آرہے تھے۔ اس بار کی عوامی تحریک   کی قیادت ’جنریشن زیڈ‘ نے کی۔ معلوماتی ٹیکنالوجی  (Informative Technology)میں ماہر، اس نسل نے اپنی لڑائی اپنے انداز میں لڑی ہے۔ انہیں روکنے کے لیے بار بار انٹرنیٹ بند کیا گیا، لیکن ’بہار‘ کو روکا نہیں جا سکا۔ پھولوں کی کلی آ چکی ہے، اور اسے خوشبو دار پھول بنانے کی ذمہ داری ملک کے تمام طلبہ پر ہے۔ مختلف سازشیں اور بدعنوانیوں کی منصوبہ بندی جاری رہے گی۔ ان سب کو عبور کرکے، مستقبل کے بنگلہ دیش کی تعمیر کا فرض انقلاب سے بھی زیادہ مشکل ہے۔

(مضمون نگار، کولکتہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)

 

اس سیریز کے دیگر مضامین

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں