بنگلہ دیش خطے کا تاریخی پس منظر
بنگلہ دیش نے 1971ء میں ایک آزاد مُلک کے طور پر دنیا کے نقشے پر جگہ حاصل کی۔ اس سے پہلے یہ ملک پاکستان کا حصہ تھا، اور اس سے بھی پہلے یہ خطہ ہندوستان کا حصہ رہا تھا۔ 1947ء میں ہندوستان اور پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پاکستان مسلمانوں کی اکثریتی علاقوں پر مشتمل تھا۔ موجودہ بنگلہ دیش، چونکہ مسلمانوں کی اکثریت والا علاقہ تھا، اس لیے یہ صوبہ (Province) پاکستان کا حصہ بنا اور اس کا نام مشرقی پاکستان رکھا گیا تھا۔ دراصل، یہ غیر منقسم بنگال کا حصہ تھا۔ 1905ء میں لارڈ کرزن نے بنگال کو دو الگ الگ صوبوں میں تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ لیکن قوم پرست بنگالیوں نے اسے ہونے نہیں دیا۔ دراصل، بنگال صوبہ نوابی دور سے ہی ایک وسیع علاقہ رہا ہے۔ 1757ء میں نواب سراج الدولہ کے دور میں ‘بنگالہ’ سے مراد بنگال، بہار اور اڑیسہ تھا۔ بعد میں بنگال کی زمینی حدیں محدود ہوتی چلی گئیں۔ ویسٹ بنگال 1947ء میں قائم ہوا اور بنگال کے مشرقی حصے کا نام مشرقی پاکستان رکھا گیا۔ کولکتہ کے مرکز میں ہندو سماج کے بااثر طبقے نے 1947ء میں ویسٹ بنگال کے لیے ایک زبردست تحریک چلائی۔ مورخ جیا چٹرجی اپنی کتاب ‘بنگال ڈیوائیڈڈ: ہندو کمیونلزم اینڈ پارٹیشن’ (Bengal Divided: Hindu Communalism and Partition) میں بتاتی ہیں کہ 1905ء میں بنگالیوں نے بنگال کی تقسیم کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ وہی لوگ 1947 میں بنگال کو تقسیم کرنے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ یہ تبدیلی کیوں؟ دراصل غیر منقسم بنگال میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، لہٰذا حکومت بھی ان کے ہاتھ میں تھی۔ شِلا سین کی کتاب ‘بنگال میں مسلم سیاست’ سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ اس دور میں ہندو کیسے مسلمان مخالف ہوگئے۔ مسلمانوں کی حکومت کے خلاف ان کے اندر نفرت بھر گئی۔ 1938ء میں صوبائی خودمختار علاقے کے طور پر بنگال کے پہلے وزیراعظم شیرِ بنگال اے کے فضل الحق منتخب ہوئے۔ بعد میں وزیراعظم ناظم الدین اور حسین شہید سہروردی بھی بنے۔ اگر بنگال تقسیم نہ ہوتا تو ہندوؤں کو اقتدار کے مرکز میں جگہ نہیں ملتی۔ بنیادی طور پر اس نقطۂ نظر سے کانگریس اور ہندو مہاسبھا نے بنگال کی تقسیم کے حق میں عوامی رائے قائم کی۔ 1947ء کے بعد مشرقی بنگال، یعنی مشرقی پاکستان میں اے کے فضل الحق، حسین شہید سہروردی، اور مولانا بھاشانی ہی نے سیاسی رہنمائی میں اپنی مہارت دکھائی۔ اس دور میں شیخ مجیب الرحمن کا بھی عروج ہوا۔ وہ کولکتہ کے مولانا آزاد کالج (جو اُس وقت اسلامیہ کالج تھا) کے طالب علم تھے اور کولکتہ کے بیکر ہاسٹل میں رہائش پذیر تھے۔ سہروردی کے قریبی اعتماد کے حامل تھے۔ مجیب الرحمن نے اپنی خودنوشت میں بھی بار بار سہروردی کی زبردست تعریف کی ہے۔ مجیب الرحمن مسلم لیگ کے رکن تھے اور پاکستان تحریک میں بھی شامل رہے۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد، مجیب الرحمن نے مولانا بھاشانی کے ساتھ مل کر عوامی مسلم لیگ بنائی۔ بعد میں، اس میں سے مسلم لفظ ہٹا کر پارٹی کا نام صرف عوامی لیگ رکھ دیا گیا۔ مجیب الرحمن، تاج الدین احمد جیسے نوجوان رہنماؤں نے عوامی لیگ کو ایک ترقی پسند سیاسی جماعت کے طور پر منظم کیا۔
مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کی کشمکش اور قیامِ بنگلہ دیش
مشرقی پاکستان میں 1952ء میں زبان کے مسئلے پر تحریک ہوئی۔ آہستہ آہستہ وہاں بنگالی مسلم قوم پرستی کی پیدائش ہوئی۔ مغربی پاکستان کے حکمرانوں کی آمریت پسندانہ سوچ نے اسے مزید شدت بخشی۔ 1970ء کے انتخابات میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ نے واضح اکثریت حاصل کی، لیکن جنرل یحییٰ خان کے اقتدار کی منتقلی میں تاخیر نے بنگلہ دیش کے مطالبے کو مزید شدت عطا کی۔ مجیب نے مشرقی بنگال کو آزاد کرنے کا اعلان کیا۔ 25/مارچ 1971ء کو پاکستانی فوج نے ڈھاکا پر حملہ کیا۔ مجیب کو گرفتار کر کے مغربی پاکستان بھیج دیا گیا۔ خونریز جنگ کے بعد پاکستان سے الگ ہو کر بنگلہ دیش قائم ہوا۔ جنرل عثمانی، جنرل ضیاءالرحمن، جنرل شفی اللہ اور دیگر مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) کے فوجی افسران نے بھی مغربی پاکستان کے خلاف بغاوت کا اعلان کر کے آزادی کی جنگ میں حصہ لیا۔ بھارت کی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھی فوج بھیج کر بنگلہ دیش کی مدد کی۔ ایک طرف آزادی کے جنگجو اور بھارتی فوج تھی، جبکہ دوسری طرف پاکستانی فوج۔ 16/دسمبر1971ء کو بنگلہ دیش کی جیت ہوئی۔ اس آزادی کی جنگ کے دوران، کولکتہ میں عوامی لیگ کی قیادت میں عارضی بنگلہ دیش حکومت کام کر رہی تھی، جس کے وزیراعظم مجیب کے ساتھی تاج الدین احمد تھے۔ بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد، شیخ مجیب جنوری 1972ء میں وہ پاکستان سے کولکتہ کے راستے ڈھاکہ آئے ۔ چونکہ عوامی لیگ نے اس جنگ میں سیاسی قیادت فراہم کی تھی، اس لیے اس جماعت کی قیادت نئے بنگلہ دیش میں اقتدار میں آئی۔ لیکن قحط، لوٹ مار، اور بدعنوانی نے ملک کو تباہ و برباد کر دیا۔ الزام لگایا گیا کہ مجیب اور عوامی لیگ کی اقربا پروری نے ملک میں بدامنی پیدا کی۔ یہ تاثر پھیلانے کی کوشش کی گئی کہ سب کچھ انہی کے ہاتھوں ہوا ہے۔ اقتدار کو اپنے کنٹرول میں کر لیا جاتا ہے۔ لوگ جو عوامی لیگ سے محبت کرتے تھے، جو مجیب کی باتوں پر جان دینے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے تھے، وہ اس کی نئی شکل دیکھ کر مایوس ہو جاتے ہیں۔ مجیب نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی اور ایک جماعتی نظام ‘باکشل’ قائم کیا۔ باکشال یا بنگلہ دیش کسان محنت کش عوامی لیگ کے نام سے صرف ایک ہی جماعت رکھی گئی۔ تمام اخبارات بند کر دیے گئے اور حکومت کے کنٹرول میں صرف 4 اخبارات جاری رکھے گئے۔ اس آمریت سے تنگ آ کر فوج کے ایک حصے نے 15/اگست 1975ء کو مجیب کا قتل کر دیا۔ چونکہ فوج نے عملی طور پر آزادی کی لڑائی میں حصہ لیا تھا، وہ بھی آزادی کی جنگ کے میدان میں لڑ چکے تھے۔ان کی خون کی قیمت پر حاصل کی گئی آزادی کی ایسی حالت دیکھ کر وہ غصے سے بھڑک اٹھے تھے۔ مجیب کے قتل کے بعد بنگلہ دیش میں مٹھائیاں تقسیم کی گئیں اور عوام نے سکون کا سانس لیا، لیکن ان کا یہ سکون زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔ 1975ء میں مختلف واقعات کے ذریعے فوج کے سربراہ جنرل ضیاءالرحمن اقتدار کے مرکز میں آ گئے۔ انہوں نے آزادی کی جنگ کے میدان میں کمانڈر کی حیثیت سے قیادت فراہم کی اور ملک میں انتہائی مقبول ہو گئے۔ حتیٰ کہ آزاد بنگلہ دیش کا پہلا اعلان بھی انہوں نے چٹاگانگ کے آزاد بنگلہ دیش ریڈیو مرکز سے کیا تھا۔
This is Swadhin Bangla Betar Kendra. I, Major Ziaur Rahman, at the directive of Bangabandhu Sheikh Mujibur Rahman, hereby declare that the independent People’s Republic of Bangladesh has been established. At his direction, I have taken the command as the temporary Head of the Republic. In the name of Sheikh Mujibur Rahman, I call upon all Bangalees to rise against the attack by the West Pakistan army. We shall fight to the last to free our motherland. By the grace of Allah, victory would be ours. Joy Bangla
پاکستانی فوج کی بندوقوں کے سامنے مشرقی پاکستان کے عوام جب مشکلات کا شکار تھے، تو 27/مارچ کو ضیاء کی آواز نے بنگالیوں کو نئی راہ دکھائی۔ اس موقع پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ ضیاء نے آزادی کا اعلان دو بارہ کیا تھا۔ پہلی بار مجیب کے نام کے بغیر۔ کچھ دیر بعد مقامی رہنماؤں کی مشاورت سے مجیب الرحمن کا نام شامل کرکے اعلان کیا۔ بہر حال، جنگ آزادی میں ضیاء الرحمان کی بے پناہ خدمات کے باعث جب وہ اقتدار میں آئے تو لوگوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ استبداد کے خاتمے کی خوشی بھی ان کے خوش ہونے کی ایک وجہ بن گئی۔ جنرل ضیاءالرحمان ملک میں جمہوریت بحال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجیب نے مذہبی سیاست پر پابندی لگا دی تھی۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش بھی ممنوع ہو گئی تھی۔ ضیاءالرحمان سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے تھے، اس لیے انہوں نے تمام پابندیاں اٹھا لیں۔ مذہبی سیاست کو بنگلہ دیش میں جگہ مل گئی۔ تب سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے اثرات بڑھنے لگے۔30/مئی 1981ء کو چٹگانگ میں صدر ضیاءالرحمان کا فوج کے بعض ارکان نے قتل کر دیا۔ فوج کے سربراہ جنرل ارشاد نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ 1990ء میں اس کے خلاف بنگلہ دیش میں شدید عوامی تحریک شروع ہوئی۔ مجیب کی بیٹی شیخ حسینہ، ضیاءالرحمان کی بیوی خالدہ ضیاء، اور جماعت اسلامی کے جنرل کے خلاف عوامی تحریک چلائی تھی۔ ارشاد اقتدار سے ہٹ گئے، لیکن انہوں نے ملک چھوڑ کر فرار نہیں ہوا ۔ 1991ء میں عام انتخابات ہوئے، جس میں خالدہ ضیاء کی بنگلہ دیش نیشنیلسٹ پارٹی (بی این پی)، جماعت اسلامی کا اتحاد۔ 1996ء میں جماعت اسلامی نے نگران حکومت کے مطالبے پر حسینہ کی عوامی لیگ کے ساتھ مل کر تحریک چلائی۔ اس سال کے انتخابات میں حسینہ جیت کر پہلی بار وزیراعظم بنی۔
بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کا ایک اہم کردار ہمیشہ نظر آتا ہے، کیونکہ اس ملک کے لوگ اسلام پسند ہیں۔ اس زمین سے پیر حضرت شاہ جلال کا بھی تعلق ہے۔ اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ پاکستان جماعت اسلامی، بنگلہ دیش جماعت اسلامی، اور جماعت اسلامی ہند کا سیاسی اور سماجی طور پر تقابل کیا جائے تو بنگلہ دیش جماعت اسلامی سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ یہ تینوں تنظیمیں ایک نہیں ہیں، لیکن ان کا فکری محور اور بنیادی لٹریچر ایک ہےجسے ان کے کارکن (Cadres) پڑھتے ہیں۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی نے سماجی اور سیاسی طور پر ملک کی قیادت کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ مذہبی رسومات کے علاوہ، انہوں نے مقامی ثقافت کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر ایک نئی راہ متعارف کرائی۔ بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے ایک اہم رہنما مولانا دلاور حسین سیدھی ایک ‘مَاس لیڈر’ اور عالمی شہرت یافتہ مقرر تھے۔ انہوں نے اسلامی جلسوں میں تقریر کر کے مقبولیت حاصل کی تھی۔ انہوں نے جماعت اسلامی کی سیاست کو عام لوگوں میں متعارف کرانے میں کامیابی حاصل کی، ایسی مثالیں کم ہی ملتی ہیں۔
1971ء میں بنگلہ دیش کی آزادی کے بعد سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی۔ اسی دوران جماعت اسلامی کی تنظیمی موجودگی بظاہر ختم ہو گئی۔ اس وقت شکایات سامنے آنے لگیں کہ جماعت نے آزادی کی جنگ کی مخالفت کی۔ یہ سچ ہے کہ جماعت نے نہیں چاہا کہ پاکستان ٹوٹ کر دو ملک بن جائیں، کیونکہ وہ ملت کے اتحاد پر یقین رکھتے تھے اور قومی سوچ کے حامی نہیں تھے۔ یہی صورت حال 1947ء میں بھارت کی تقسیم کے وقت بھی تھی؛ جماعت نے اس وقت بھی تقسیم کی مخالفت کی تھی۔
“جماعت اسلامی کو 1971ء کے جنگی جرائم کے مجرم کے طور پر متعین کیا گیا، لیکن اس وقت اس پر ‘سیاست’ نہیں کی گئی۔” آزادی کے بعد عام معافی کے تحت جماعت اسلامی کے کچھ رہنما اور کارکن جیل سے باہر آ گئے، لیکن جماعت اسلامی بطور پارٹی ممنوع رہی۔ 1979ء میں جماعت اسلامی کو براہ راست سیاست کرنے کا موقع ملا۔ ان کی بڑی کامیابی 1991ء کے انتخابات میں آئی۔ اُس وقت عام انتخابات میں انہوں نے 18 نشستیں جیتیں اور ان کی حمایت سے حکومت تشکیل دی گئی جس کی سربراہی بی این پی نے کی ۔ اس کے بعد سے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی پر پابندی عائد کرنے اور جنگی جرائم کے مجرموں کے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے تحریکیں شروع ہو گئیں۔ اس تسلسل میں 1992ء میں سماجی کارکن جہانارا امام کی قیادت میں جو عوامی عدالت منعقد ہوئی، وہاں جماعت اسلامی کے امیر غلام اعظم کو موت کی سزا سنائی گئی۔ 1994ء میں عدالت کے فیصلے سے غلام اعظم کو شہریت واپس مل گئی، اور جماعت اسلامی بھی دوبارہ فعال ہو گئی۔ 2001ء کے انتخابات میں جب بی این پی کی قیادت میں اتحاد اکثریت حاصل کر کے اقتدار میں آیا، تو جماعت اسلامی کے رہنما مطیع الرحمان نظامی اور علی احسان محمد مجاہد نے وزارتیں حاصل کیں۔ آزاد بنگلہ دیش میں یہ جماعت اسلامی کی پہلی حکومت میں شرکت تھی۔ اگرچہ بنگلہ دیش کی سیاست میں اس جماعت کے بارے میں شدید بحث و مباحثہ ہوتا رہا ہے، مگر ملک میں ان کے حامیوں کی ایک تعداد موجود ہے۔1971ء میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزام میں سزا یافتہ افراد بنگلہ دیش میں اعلیٰ سطح کے رضاکار اور جنگی جرائم کے مجرم کے طور پر جانے جاتے تھے۔ ایک تنظیم نے جنگی جرائم میں ملوث 1,775 افراد کی فہرست تیار کی ہے۔ ان میں 369 پاکستانی فوجی مجرم شامل ہیں، جن میں 145 اعلیٰ سطح کے مجرم ہیں۔ اس کے علاوہ، بنگالی معاونین رضاکار ، البدر ، اور امن کمیٹی کے 1,328 افراد اور بہاریوں کے طور پر جانے جانے والے 78 دلال شامل ہیں۔2008ء کے آخر میں بنگلہ دیش کی عام انتخابات میں شیخ حسینہ کی عوامی لیگ نے انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا کہ راجاکاروں کا محاکمہ کیا جائے گا۔ چنانچہ 2008ء میں عوامی لیگ اقتدار میں آئی، جو کہ 5/ اگست 2024ء کو بغاوت کے آغاز تک برقرار رہی۔ تنقید کا موضوع یہ ہے کہ، جنگی جرائم کے محاکمہ کا نعرہ لگا کر حسینہ اقتدار میں آئی، مگر اس نے ایسا نہیں کیا۔ صرف سیاسی انتقام کے طور پر جماعت اسلامی کے چند سرکردہ رہنماؤں کا متنازعہ محاکمہ ہوا، جن میں غلام اعظم، مولانا دلاور، حسین سیدھی، مطیع الرحمن نظامی، محمد مجاہد، اور میر قاسم علی شامل ہیں۔ یہ سب بنگلہ دیش جماعت اسلامی کے اعلیٰ قیادت میں شامل تھے۔ انہیں سزا دی گئی۔ نظامی، مجاہد، اور میر قاسم کو پھانسی دی گئی، جبکہ غلام اعظم اور سیدھی قید میں رہتے ہوئے فوت ہو گئے۔ دنیا بھر کے انسانی حقوق کے کارکنوں اور بنگلہ دیش کی عوام نے بار بار سوال اٹھایا کہ صرف چند سرکردہ سیاسی رہنماؤں کا ہی محاکمہ کیوں ہوا؟ عوامی لیگ میں شامل راجاکار اور جنگی جرائم کے مرتکب افراد کا محاکمہ کون کرے گا؟ عوام کے سامنے سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔ شیخ حسینہ کے دوہرے معیار اور فاشسٹ کردار کا بتدریج انکشاف ہوتا رہا ہے۔ عوامی بغاوت کے بعد، آج جب جماعت اسلامی ہندوؤں کے مندروں کی نگرانی کر رہی ہے اور عام لوگوں کی حفاظت اور امن و امان بحال کرنے میں مدد کر رہی ہے، تو حسینہ کے فاشسٹ کردار کی حقیقت اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔
(مضمون نگار، کولکتہ یونیورسٹی میں ریسرچ اسکالر ہیں)