عزائم کو سینوں میں بیدار کر

مبشر الدین فاروقی

”ایس آئی او کا تصور(آئیڈیا)، دینِ حق کی جامع فکر اور اس کی اقامت کی تگ ودو سے عبارت ہے۔“


خاص اور منفرد  مواقع پر خاص قسم کے جذبات کو محسوس کرنا  فطری ہے۔  اس لحاظ سے یوم تاسیس اور پھریکے بعد از دیگرے ریاستی سطح پر ممبرس کیمپس وغیرہ جیسے مبارک موقعوں پر تنظیم سے محبت اور وابستگی کے جذبے کا تازہ ہونا  فطری  اورپسندید ہ قرار پائے گا۔پرچم کشائی، نعروں  اور  متنوع قسم کی اجتماعی محفلوں کے ذریعے ان جذبات کے اظہار کا موقع میسر آتا  ہی ہے۔ اس حوالے سے چند باتیں ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔

ابتدائے انسانیت سے  جاری حق و باطل کے درمیان  کشمکش فی زمانہ شدت اختیار کرچکی ہے۔ غزہ میں جاری نسل کشی، عالم اسلام کی دگرگوں صورتحال یا ملک عزیز میں مسلمانوں کو لاحق چیلنجزغرض دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ریشہ دوانیاں اپنے عروج پر ہیں۔ایسے میں وہ لوگ جو اپنی آنکھوں میں  دین حق کی سربلندی کا خواب سجائے پھرتے ہیں ، کسی درجہ غافل نہیں رہ سکتے۔ باطل سے ٹکراتے ہوئے دین حق کو سربلند کرنے کا  عمل   دین سے گہری عقیدت و محبت  کے حامل، اس  کے فہم سے آراستہ ، باہمت اور بلند اخلا ق و کردار کے مالک    افراد کا طلب گار ہوتا    ہے۔ بیالیس سال قبل تاسیس کے وقت  ایسے ہی افراد کی تیاری کو  ایس آئی او نے اپنے قیام کا مقصد قراردیا تھا۔ لہذا ایس آئی او کا تصور(آئیڈیا)، دینِ حق کی جامع فکر  اور اس کی  اقامت کی تگ ودو سے عبارت ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب ملکی و عالمی حالات ، دشواریاں اور چیلنجز ؛فکر مند اور بے چین کرنے والے ہوں، اپنے جذبات کو  صحیح رخ دینے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ دین  اور اجتماعیت سے تعلق کو مضبوط اور گہرا کیا جائے،اسے زیادہ سے زیادہ  معنی خیز بنایا جائے اور میدان عمل میں فعالیت بڑھائی جائے۔  اس حوالے سے دیکھا جائے تو یوم تاسیس اور ہمارے یہ رہائشی کیمپس اور اجتماعات اصلاً اپنے   مقصد کو ذہن میں تازہ کرنے  اور عزم کو بڑھانے کے مواقع ہیں۔    بقول مولانا صدر الدین اصلاحی، دین اپنے ماننے والوں سے ’مکمل، غیر مشروط اور والہانہ اطاعت کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ دین سے وابستگی  حالات یا دیگر عناصر(فیکٹرس) کے تابع نہیں  بلکہ مخلصانہ، مکمل اور  ہر سطح پر ہونی چاہیے۔علمی، فکری، جذباتی، عملی،   غرض ہر سطح پر۔  ظاہر ہے کہ دین کے واضح اور درست تصور کے بغیر یہ وابستگی ادھوری رہے گی۔ چنانچہ فکر و شعور کی پختگی مقدم قرار پاتی ہے اور  عملی میدان کے جاں نثار اس سے کسی صورت بے نیاز نہیں ہوسکتے۔

مومن کے معمولاتِ زندگی کے حوالے سے قرآن نے یہ بات کہی ہے کہ وہ اٹھتے، بیٹھتے، لیٹتے ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں۔ خدا کا ذکر ان کا اوڑھنا بچھونا ہوتا ہے۔ زبان جب خدا کے ذکر سے تر رہے اور دل شکر کے احساس سے معمور ہو تو اللہ تعالیٰ مومن کوفہم  و فراست سے نوازتا ہے۔ اس فہم و فراست کے نتیجے میں وہ دنیا میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا بصیرت سے تجزیہ کرتا  اور ان سے صحیح سبق حاصل کرتا ہے۔ مومن کا ذہن نصیحت پذیر ہوتا اور مختلف مواقع سے عبرت و نصیحت حاصل کرتا ہے۔ چنانچہ   یہ خصوصی ایام ہمیں  خود اپنا اور جملہ تنظیم کی کارکردگی کے احتساب کا بھی موقع فراہم کرتے ہیں اور اپنے عہد و عزم  کو تازہ  بھی کرنے کا  ذریعہ بنتے ہیں۔  نیز یہی ایام ہمیں انفرادی طور پر اپنی شخصیت و کردار کو نکھارنے کی جستجو، بری عادتوں سے چھٹکارا پانے کی کوششیں، قرآن پڑھنےاور  سمجھنے کے معمول کو مضبوط کرنے کا احساس، نمازوں کے حسن و خوبی سے اہتمام کے عزم  وغیرہ کو مہمیز دیتے  ہیں۔ ہر نعمت کا ایک حق ہوتا ہے ، صالح اجتماعیت سے وابستگی بھی ایک بڑی نعمت ہے۔ اس کااولین حق  نہ صرف یہ ہے کہ اس کی قدردانی کی جائے اور  خدا کے حضور شکر بجالایا جائے بلکہ یہ بھی ہے کہ اسے   درست منہج پر قائم  رکھنے کے لیے کوشاں رہاجائے۔یہ کام ٹھوس مطالعہ اور مضبوط فکر  کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ 

یہاں اس  بات کا  تذکرہ بھی بے جا نہ ہوگا  کہ تنظیمی  زندگی  میں کئی دفعہ  چیزیں معمول بننے کے نتیجے میں اپنی معنوی افادیت کھونے لگتی ہیں۔ سرگرمیاں جب روٹین  ہی بن جائیں  تو بڑے مقصد سے ان کا تعلق فراموش ہونے لگتا ہے۔ اس بات کو بہت اچھے سے ذہنوں  میں تازہ کرلینا چاہیے کہ مہمات، کیمپ اور اجتماعات ہی تنظیم کے اصل کام نہیں ہیں۔ خود امیر جماعت، جماعت اسلامی کے حوالے سے بارہا اس بات کا تذکرہ کرچکے ہیں کہ افراد جماعت کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ صرف اجتماعی سرگرمیاں ہی  ایکٹوزم نہیں ہےاور انہیں اسی پر اکتفا نہ کرتے ہوئےانفرادی سطح پر دعوت واصلاح اور دین کی خدمت کے لیے سرگرم ہونا چاہیے۔ تنظیمی کلچر میں بھی انفرادی کردار، انفرادی دعوت کو نہ صرف موضوع بحث بنانے کی ضرورت ہے بلکہ اس کے لیے ترغیب دینے، اس کے لیے مواقع فراہم کرنے، اس حوالے سے سے پائی جانے والی جھجھک و ہچکچاہٹ کو دور کرنے اور مستقل اس بات کی یاد دہانی کرنے کا کام انجام دیا جانا چاہیے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مشن اسٹیٹمنٹ کے مطابق  ایس آئی او نے  اپنے قیام سے لے کر اب تک ہزاروں طلبہ اور نوجوانوں کو دین کے فہم سے آراستہ کیا ،  فکری  واخلاقی  تربیت کی اور میدان عمل میں متحرک رہنے کے مواقع فراہم کیے ہیں۔ یہ سفر جاری ہے۔ خدا سےدعا ہے کہ اس قافلے کو درست منہج پر قائم رکھتے ہوئے اپنی حفظ و امان میں رکھے۔ آمین ثم آمین۔

(مضمون نگار ایس آئی او آف انڈیا کے رکن مرکزی مجلس شوریٰ اور ماہنانہ رفیق منزل کے سابق مدیر ہیں) 

حالیہ شمارے

براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے

شمارہ پڑھیں

امتیازی سلوک کے خلاف منظم جدو جہد کی ضرورت

شمارہ پڑھیں