انبیاءکی تاریخ میں ابو الانبیاءحضرت ابراہیم ؑ کی شخصیت غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے۔ قرآن مجید میں جتنے انبیاء ورسل کا ذکر آیا ہے ان میں سے بیش تر آ پ ہی کی نسل سے تھے۔ انبیائی سلسلۃ الذہب میں حضرت ابراہیم ؑکی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہےکہ قرآن مجید میں حضرت موسی ؑ کے بعد سب سے زیادہ تذکرہ آپ ہی کا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی بڑی مذہبی قومیں آپ سے عقیدت رکھتی ہیں اورآپ کی طرف نسبت کرنا اپنے لیے باعث شرف سمجھتی ہیں۔ قرآن مجیدکے مطالعہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے پوری زندگی اپنے رب کی رضا کے حصول اور اس کی خوشنودی کے لیے وقف کردی۔ مسلسل آزمائشو ں کی بھٹیوں میں تپا کر اللہ تعالی نے آپ کو کندن خالص بنا دیا، آپ ہر آزمائش پر کھرے اترے اور راسخ الایمان ہونےکی عملی شہادت پیش کی۔ اسی لیے اللہ تعالی نے آپ کو رہتی دنیا تک انسانیت کا امام و پیشوا بنا یا اور آپ کی ملت کی پیروی کا حکم دیا۔ بلاشبہ آپ کی شخصیت مختلف اوصاف وکمالات کا مجموعہ تھی، جس کے بارے میں ہم سب کو جاننے اور ان صفات کو حرز جاں بنانے کی ضرورت ہے۔ ذیل میں چند صفات براہیمی کو بیان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ ان سے کسب فیض کیا جاسکے۔
مطیع و فرماں براداراورعہد و پیماں کا محافظ
اطاعت خداوندی اورایفائے عہدکی پاسداری انتہائی مقصود امر ہے، اسی لیے انسان کوزندگی کے ہر گوشے میں اطاعت خداوندی کا حکم دیا گیا ہے، جس کی بجاآوری اس کا لازمی فريضہ ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کی حیات مبارکہ صاف و شفاف آئینہ کی طرح ہے۔ آپ نے ہمیشہ اللہ رب العزت کی اطاعت و فرماں برداری کی اور زندگی کے ہر موڑ پر وفاداری کا ثبوت پیش کیا۔ حالات کی ناسازگاری کے باوجود وطن میں دعوت کا فريضہ انجام دیا۔ معبودان باطل کی توہین کے جرم میں قوم نے آپ کو زندہ جلانے کا فیصلہ کیا تو آپ نے یہاں پر بھی بے مثال استقامت کا مظاہرہ کیا۔ گھر بار، مال ودولت اور جاہ و منصب سب کچھ ترک کرکے اللہ کی راہ میں نکل گئے۔ اللہ کے حکم کے مطابق اپنے لخت جگر اور حضرت سارہ کو بے آب و گیاہ وادی میں چھوڑا۔ عمر کے آخری مرحلے میں اپنے لخت جگر کی گردن پر چھری چلاکر اطاعت خداوندی کا اعلی نمونہ پیش کیا۔ اسی لیے اللہ تعالی نے آپ کو مطیع و فرماں بردار کا خطاب دے کر آپ کی اس صفت کو دوام بخشا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے”ان ابراھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا” (بے شک ابراہیم ؑ ایک الگ امت تھے، اللہ کے فرماں برداراور اسی کی طرف یکسو تھے)۔ ایک اور جگہ آپ کی وفاداری کا حوالہ اس طرح دیا گیا گیا ہے، :وابراھیم الذی وفی(اور ابراہیم جس نے وفا کا حق ادا کردیا )۔ دوسری جگہ فرمایا:واذابتلی ابراھیم ربہ بکلمت فاتمھن (یاد کرو کہ ابراہیم کو اس کے رب نےچند باتوں میں آزمایا اور وہ سب میں پورا اتر گیا) ابراہیم ؑاپنے تمام کاموں اور حرکات و سکنات میں مرضی رب کو پیش نظر رکھتے تھے اور بے چوں چراں اس کی منشا کے سامنے سر تسلیم خم کرتےتھے۔ مطیع و فرماں برداری کے ساتھ ابراہیم ؑ کی ایک لازمی صفت ایفائے عہد ہے، جس کا وہ کامل نمونہ تھے۔
حنیفیت
بچپن ہی سےحضرت ابراہیم ؑاپنے مالک حقیقی کی تلاش میں رہے اور جب آپ نے اپنے مالک حقیقی کی معرفت حاصل کرلی تو ساری آسائشوں سے کٹ کر اپنے منعم حقیقی کے لیے یکسو ہو گئے۔ آپ کا دامن ہمیشہ شرک کی غلاظت سے پاک رہا اور آپ ہمیشہ حق کے لیے معرکہ آرائی کرتے رہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :ولم یک من المشرکین (اور وہ مشرکین میں سے نا تھا)۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو صفت حنیفیت سے متصف کیا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے “ان ابراھیم کان امۃ قانتا للہ حنیفا” (بے شک ابراہیم ؑ ایک الگ امت تھے، اللہ کے فرمانبرداراور اسی کی طرف یکسو تھے)۔ جس کا مطلب ہے کہ باطل کو چھوڑ کر صرف اور صرف اللہ تبارک وتعالی کی جانب یکسو ہونا اورجب اس کی راہ میں مصائب و آلام کا سامنا ہو تو ان پر استقامت کاثبوت پیش کرنا۔ ابرہیم ؑ کی اس صفت کو قرآن کریم میں 9 جگہ بیان کیا گیا ہے۔ (البقرۃ:135، آل عمران:67، آل عمران:95، النساء:125، الانعام:161، یونس:105، النحل:120، النحل:123، لروم:30)
ایک فرد ایک امت
حضرت ابراہیم ؑ توحید پرستوں کے سربراہ اور لوگوں کے رول ماڈل ہیں، آپ نے اپنی قوم میں توحید کا علم بلند کیااور شرک کے خاتمہ کے لیے حتی الامکان کوشش کی، اس وقت اپنی قوم کے لوگوں کے دلوں میں توحید کی صدائیں بلند کرنا اور ان کو ان کے آباء اجداد کے دین سے روکنا جان جوکھم کا کام تھا، ابراہیم ؑ بے چوں چرا یہ کام انجام دیتے رہے۔ مذکورہ آیت کی تشریح کرتے ہوئےامام آلوسی رقم طراز ہیں :وذکر فی القاموس ان من معانی الامۃ من ھو علی الحق مخالف لسائر الادیان (ڈکشنری میں امت کے ایک معنی یہ بھی بیان کیے جاتے ہیں کہ وہ شخص جو دین حق پر قائم ہو اور اس کے علاوہ تمام مذاہب کی مخالفت کرتا ہو)۔ حضرت ابراہیم ؑ اپنی ذات میں ایک امت تھے، آپ تن تنہا ہی پوری قوم کی مخالفت کرتے رہے اورکڑی مزاحمتوں کے باوجود درست عقائد سے وابستہ رہے۔ امت کا لفظ ابراہیم ؑ کی جامعیت و مرکزیت کو بیان کر رہاہے اور یہ واضح کر رہا ہے کہ جب اس دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھا، اس وقت صرف ابراہیم ؑ مسلمان تھے۔ ساری دنیا شرک کی علمبردار تھی اور ابراہیم ؑ توحید کے علمبردار تھے۔ صاحب تفہیم اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں: “وہ اکیلا انسان بجائے خود ایک امت تھا۔ جب دنیا میں کوئی مسلمان نہ تھاتو ایک طرف وہ اکیلا اسلام کا علمبردار تھا اور دوسری طرف ساری دنیا کفر کی علمبردار تھی۔ اس اکیلے بندہ خدا نے وہ کام کیا جو ایک امت کے کرنے کا تھا۔ وہ ایک شخص نہ تھا بلکہ پورا ادارہ تھا۔”
آپ کو ایک قوم اور ایک امت اس لیے کہا گیا ہے کہ آ پ ایک خاص مدت تک ایمان لانے میں اکیلے تھے، اس وقت تک روئے زمین پر کوئی ایمان والا نہ تھا۔ ایک روایت میں ہے کہ ابراہیم ؑ نے حضرت سارہ سے کہا: لیس علی وجہ الارض مومن غیری وغیرک (بخاری:3358) اے سارا روئے زمین پر میرے اور تیرے سوا کوئی مومن نہیں ہے۔
مہمان نواز
حضرت ابراہیم ؑکی سیرت سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ آپ بڑے مہمان نواز اور خاطر دارتھے۔ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی زندگی میں ضیافت کوخاص اہمیت حاصل تھی۔ اسلام میں ضیافت کا تصور ابراہیم ؑ کے اس واقعے سے ملتا ہے، جسے قرآن مجید میں بڑے شاندار انداز میں بیان کیا گیا ہے۔ ھل اتاک حدیث ضیف ابراھیم المکرمین، اذ دخلوا علیہ فقالوا سلاما قال سلام قوم منکرون، فراغ الی اھلہ فجاء بعجل سمین، فقربہ الیھم قال الا تاکلون (الذاریات:24-28) کیا تمھیں ابراہیم ؑ کے معزز مہمانوں کی بات پہنچی؟جب وہ اس کے پاس آئے تو انھوں نے سلام کیا، اس نے بھی سلام کا جواب دیا (اور دل میں کہا کہ)یہ تو اجنبی لوگ معلوم ہوتے ہیں، پھر وہ نظر بچا کر اپنے گھر والوں کے پاس گیا اور ان کے لیے فربہ بچھڑے( کا بھنا ہوا گوشت )لایا۔ اور اس کو ان کے سامنے پیش کیا۔ پھر بولا آپ لوگ کھاتے نہیں ؟
عجل اورسمین کی تشریح کرتے ہوئے صاحب تدبر رقم طراز ہیں: “ان الفاظ سے ابراہیم ؑ کی فیاضی کا اظہار ہوتا ہے کہ انہوں نے چند مہمانوں کی ضیافت کے لیے ایک پورا بچھڑا ذبح کرادیا۔”
یہاں پر لفظ سمین آیا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ابراہیم ؑ نے اپنے ریوڑ میں سے خوب تندرست اور موٹا تازہ بچھڑے کا انتخاب کیا۔ سورہ ہود آیت 69 میں حنیذ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ امام رازی اس لفظ کی تشریح کرتے ہوئے رقم طراز ہیں : فَهو الَّذِي يُشْوى في حُفْرَةٍ مِنَ الأرْضِ بِالحِجارَةِ المُحْماةِ، وهو مِن فِعْلِ أهْلِ البادِيَةِ مَعْرُوفٌ، وهو مَحْنُوذٌ في الأصْلِ، كَما قِيلَ: طَبِيخٌ ومَطْبُوخٌ، وقِيلَ: الحَنِيذُ الَّذِي يَقْطُرُ دَسَمُهُ۔ (حنیذ اس گوشت کو کہتے ہیں جسے زمین میں گڈھا کرکے پتھر سے پکایاجاتا ہے اور یہ صحرا کے لوگوں کامشہور عمل ہے۔ اصلا اس کو بھونا جاتا ہے، ایک قول یہ ہے کہ اس کو پکایا جاتا ہے۔ حنیذ کے دوسرے معنی یہ آتےہیں کہ اس سےمزےدار روغن ٹپک رہا ہو)۔
ان آیات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ابراہیم ؑ کس قدر سخی اور کریم تھے، مہمان نوازی پر کس طرح اپنی جان نچھاور کرتے تھے۔ مہمان ابراہیم ؑ کے لیے بالکل اجنبی تھے، پھر بھی انھوں نے خود کو ان کی خاطر داری کے لیے پیش کردیا اور ضیافت کی اعلی مثال پیش کی۔ آناً فاناً ایک بچھڑے کا انتظام کیا اور اہلیہ کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا، تھوڑی دیر بعد ایک وافر مقدار میں بھنا ہوا گوشت کچھ آدمیوں کے سامنے پیش کردیا۔
اخلاق عالیہ کا پیکر
حضرت ابراہیم ؑ کی صفات میں سے ایک نمایاں صفت اخلاق حسنہ تھی، جو آپ کی زندگی کوممتاز اور قابل تقلیدبناتی ہے۔ یہ ابراہیم ؑ کے اخلاق حسنہ ہی تھے کہ اجنبی مہمانوں کو بھنک لگے بغیر ان کے لیے بہترین بھنے گوشت کا بندوبست کردیا۔ ابراہیم ؑ کے اخلاق و کردار کو قرآن مجید نے شاندارانداز میں بیان کیا ہے اور ہر شخص کوابراہیم ؑ کو اپنارول ماڈل بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ حکم خداوندی ہے”قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھہم والذین معہ” (الممتحنہ:4) تمہارے لیے بہترین نمونہ تو ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ہے۔
اس آیت میں ابراہیم ؑ کا اخلاق، کردار اور ان کی شخصیت کا اندازا ہوتا ہے کہ آپ مایہ ناز شخصیت کے حامل تھے۔ اسی لیے ہر شخص کے لیے آپ نمونہ ہیں اس طور پر کہ وہ آپ کی تقلید کرے۔ لفظ اسوہ اس شخص کے لیے استعمال ہوتا ہے، جس کے افعال و اعمال قابل تقلید ہوں اور لوگوں کو اس کے اعمال کی اقتدا کرنے کی ترغیب دلائی جائے۔
صداقت شعاری
حضرت ابراہیم ؑ کی پوری زندگی ہماری آنکھوں کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ آپ کی حیات مبارکہ سچائی، ایمانداری، دیانت داری اور راست بازی سےعبارت ہے۔ آپ کے ہر عمل سے للہیت اور خوشنوی رب کا اظہار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے آپ کو صدیق کا خطاب دیا ہے جوکہ بہت کم انبیاء کو ملا ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے “واذکر فی الکتاب ابراھیم، انہ کان صدیقا نبیا” (المریم:41) اور کتاب میں ابراہیم کی سرگزشت کو یاد کرو، بے شک وہ راست باز اور نبی تھا۔ صدیق مبالغہ کا صیغہ ہے، جس کے معنی راست باز اور صداقت شعار کےہوتے ہیں یعنی پکا سچا انسان، جس نے اپنی زندگی میں کبھی کسی سے کوئی جھوٹ نہ بولا ہو۔ ابراہیم ؑ کی زندگی بھی دو اور دو چار کی طرح واضح ہے کہ آپ نے کبھی بھی کذب اور دغابازی کا سہارا نہیں لیا، ہمیشہ حق کا ساتھ دیا اورتا عمر صداقت کا دامن تھامے رہے۔
قلب سلیم کا مالک
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچپن سے ہی قلبِ سلیم عطا کیا گیا تھا، جو کبھی بھی شرک اور بت پرستی کی طرف مائل نہیں ہوا، ہمیشہ حقیقت کی جستجو ان کےدل کا محور رہی۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :اذ جاءربہ بقلب سلیم (الصافات:84) جب کہ وہ اپنے رب کے حضور قلب سلیم کے ساتھ حاضر ہوا۔ سلیم کا مطلب ہے کہ جس طرح اللہ تعالی نے ابراہیم ؑ کو دل عطا کیا تھا، ابراہیم ؑ ہوبہو اسی دل کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔ جو ہر طرح کے کذب، کدورت، عداوت، بغض اور شرک کی گندگی سے پاک تھا۔ آپ ؑ ایسے دل کے مالک تھے جو تمام اخلاقی و اعتقادی برائیوں سے پاک تھا۔ چنانچہ انھوں نے ابتدا ہی سے بت پرستی کی مخالفت کی۔ اللہ کی تخلیقات میں غور وفکر کے بعد انھیں یقین ہوگیا تھا کہ ساری کائنات کو پیدا کرنے والا ایک معبودِ حقیقی ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے: “اور اس طرح ہم ابراہیم کو آسمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں، چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انھوں نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ ڈوب گیا تو انھوں نے کہا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انھوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ: یہ میرا رب ہے، لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاؤں، پھر جب انھوں نے سورج کو چمکتے دیکھا، تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ زیادہ بڑا ہے، پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں اُن سب سے بیزار ہوں۔ میں نے تو پوری طرح یکسو ہوکر اپنا رُخ اُس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔” (الانعام: 74-79)
متحمل و بردبار
حضرت ابراہیم ؑنےقوم کی طرف سےبدسلوکی کے مقابلے میں صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا۔ آپ کی حیات مبارکہ آزمائشوں اور پریشانیوں کی نذر ہوگئی۔ آپ نے تمام مصائب و آلام پر صبر، تحمل اور بردباری کا مظاہرہ کیا۔ باطل کو کبھی تسلیم نہیں کیا۔ جواں مردی اور بے باکی سے مقابلہ کیا اور اللہ کی راہ میں جو بھی مصیبت آئی اس پر پامردی کے ساتھ جمے رہے۔ قرآن کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ کبھی بھی اللہ کی بارگاہ میں شکوہ کناں نہیں ہوئے بلکہ اس کے حکم کے مطابق اپنی ہر چہیتی چیز کو قربان کرنے کے لیے تیار رہے اور عمر کے آخری مرحلے تک ضبط و تحمل کا مظاہرہ کرتے رہے۔ ارشاد ربانی ہے :ان ابراھیم لاواہ حلیم (التوبۃ:114) بے شک ابراہیم بڑاہی رقیق القلب اور بردبار تھا۔
والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے والا
ابراہیم ؑ کی زندگی کا ایک روشن پہلو والدین کے ساتھ حسن سلوک ہے۔ جب آپ کے سامنے شرک کی قباحت واضح ہوگئی اور حقیقت کھل کر سامنے آگئی تو آپ نے سب سےپہلے اپنی دعوت کا مخاطب اپنے والدین کو بنایا۔ سورہ مریم آیت42-45 میں آپ کی والدین سے محبت، غم خواری اور ہمدردی کا اظہار ہے۔ یہاں پر لفظ “یاابت”کا استعمال ہوا ہے، جس کے بارے میں مفسرین نے لکھا ہے کہ ابراہیم ؑ کا لہجہ نہایت دردمند اور پرسوز تھا۔ آپ اپنے والد کے لیے فکر مند تھے کہ وہ راہ راست پر آجائیں، آپ کا ہر لفظ سے پہلے یا ابت کا استعمال کرنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ کو اپنے والدسے شدید محبت تھی اور آپ ان کوحق کی طرف لانے اور سزائے الہی سے بچانے کے لیے بے چین تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب وہ اخیر عمر تک ایمان نہ لائے تو آپ نے فرط محبت میں اپنے رب کے حضور دعا کی “ربنا اغفرلی ولوالدی وللمومنین یوم یقوم الحساب” (ابراہیم :41)
پروردگارمجھے اور میرے والدین کو اور سب ایمان لانے والوں کو اس دن معاف کردینا جب حساب قائم ہوگا۔
ان تمام صفات کے علاوہ حضرت ابراہیم ؑ کی اور بھی صفات قرآن مجید میں بیان ہوئی ہیں۔ آپ عبادت گزار، ہر آزمائش پر کھرے اترنے والے، بہت آہ و زاری کرنے والے، اللہ کی طرف پلٹنے والے، بارگاہ الہی میں توبہ و استغفار سے کام لینے والے، فرشتوں کےسلام سے بہرہ ور ہونے والےتھے۔ آپ کی یہی صفات عالیہ تھیں جن کے عوض اللہ تعالی نے آپ کو اپنا دوست یعنی خلیل اللہ کے لقب سے سرفراز کیا اور آپ کےمقام(من مقام ابراھیم مصلی ) کو لوگوں کے لیے عبادت گاہ بنا دیا۔ اور انہی اوصاف کی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ کو رہتی دنیا تک کا امام انسانیت بنا دیا۔ ہر مومن اپنے اندر ان تمام اوصاف کو پیدا کرے تاکہ وہ اللہ رب العزت کاابراہیم ؑکی طرح برگزیدہ اور محبوب بندہ بن سکے۔
(مضمون نگار ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ میں ریسرچ اسکالر ہیں۔ )