ذکریٰ حمید
الفارابی کا پورا نام ابونصر محمد بن محمد بن اوزلغ بن عرفان ہے۔ الفارابی کے والد کا نام محمد بن طرخان تھا جو ایک فوجی افسر تھے۔ آپ فارسی کے رہنے والے تھے۔ فاراب خراسان میں ایک شہر کا نام ہے، اس پر تمام مورخین کا اتفاق ہے چونکہ ابونصر الالفارابی کی پیدائش فاراب میں ہوئی اس لیے آپ الفارابی کہلائے۔ مسلم دنیا آپ کو الفارابی کے نام سے جانتی ہے۔ آپ کی پیدائش کا تاریخ میں پتہ نہیں چلتا لیکن یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ 26 ہجری میں آپ کی پیدائش ہوئی۔ آپ کی وفات 80 برس کی عمر میں رجب 339 ہجری بمطابق دسمبر 950 عیسوی میں ہوئی۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ آپ کی ولادت 36 ہجری میں ہوئی ہوگی۔ الالفارابی کا تعلق شافعی فقہ سے تھا۔ الفارابی نے بچپن میں ہی اپنے شہر کو الوداع کہہ دیا تھا اور بغداد آگئے، یہیں آپ کی تعلیم وتربیت ہوئی۔ آپ یہیں پروان چڑھے۔ بغداد اس وقت کا بڑا تعلیمی مرکز سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت بغداد میں عباسی حکومت قائم تھی، عباسی حکومت میں مامون اور ہارون رشید کا زمانہ ہر اعتبار سے سنہرا دور کہلایا۔ انہوں نے تعلیم کی خوب سرپرستی کی اس کی سب سے بڑی مثال بیت الحکمۃ ہے۔ جس کے کارنامے کو اسلامی دنیا آج بھی سراہتی ہے۔
اس کے بعد سیف الدولہ امیر حلب کے مصاحبوں میں شامل ہوئے۔ ایک شورش کی وجہ سے الفارابی نے بغداد سے حلب کا رخ کیا تھا۔ جب وہ حلب سے دمشق کی جانب سفر کر رہے تھے تبھی ان کی وفات ہوگئی۔ 336 ہجری آپ کی وفات کے بعد سیف الدولہ نے صوفیوں کا لباس پہنا اور آپ کی قبر پر جاکر اظہار تاسف کیا، ابن ابی اصبغہ سے منقول ہے کہ “سیف الدولہ نے اپنے پندرہ مصاحبین کے ساتھ الفارابی کے جنازے کی نماز ادا کی تھی۔” مورخین عرب کا ماننا ہے کہ الالفارابی نے اپنی وفات سے ایک سال قبل مصر کی سیاحت کی تھی۔
الفارابی ذکی النفس، خلوت گزین، سادہ طبیعت کے مالک تھے۔ ان کے استغناء کی کیفیت یہ تھی کہ سیف الدولہ کے ان تمام قیمتی انعامات میں سے جو ان کو دئیے جاتے تھے صرف چاندی کے چار درہم روزانہ لیا کرتے، جس کو وہ اپنی زندگی کی اہم ضروریات میں خرچ کرتے۔
غذا میں مینڈھے کے دل کا شوربہ، ریحانی شراب کے ساتھ استعمال کرتے اور رات کو چوکیداروں کے پاس جاتے تاکہ ان کے چراغ کی روشنی میں پڑھ سکیں۔ الفارابی مملکت، عقل کے حکمران تھے۔ ابن ابی اصبغہ نے اپنی کتاب “عیون الانبیاء” میں لکھا ہے کہ الفارابی دمشق میں کسی باغ کے نگہبان تھے اور ہمیشہ فلسفے کے مطالعہ میں منہمک رہتے تھے۔ لیکن اس بات سے الفارابی کی قدر و منزلت میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔ مورخین لکھتے ہیں کہ الالفارابی نے یوحنا بن جیلان سے تعلیم حاصل کی تھی اور دوسرے استاد جن کا نام روبیل تھا، سے آپ نے تعلیم حاصل کی تھی۔
کہا جاتا ہے کہ الالفارابی کو دنیا کی بیشتر زبانوں پر عبور حاصل تھا۔ لیکن زیادہ تر اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ صرف فارسی، ترکی اور عربی زبان سے واقف تھے۔ ویسے تو الالفارابی کو کئی علوم میں عبور حاصل تھا، لیکن آپ کا پسندیدہ مضمون فقہ تھا۔ علم موسیقی کے بھی ماہر تھے۔ اس پر کتاب بھی لکھی جو علم النغام کے نام سے مشہور ہوئی۔ تاریخ کی کتابوں سے پتہ چلتا ہے کہ علم نحو میں الالفارابی کو اس قدر مہارت تھی کہ وہ ان کی تصنیف کی زبان بن گئی۔ عربی زبان کو فلسفیانہ طرز تحریر دیا۔ اس کے علاوہ ارسطو کی کتاب کو رومن سے عربی زبان میں ترجمہ کیا۔ منطق پر بارہ کتابیں لکھیں۔ ارسطو کی کتابوں کی شرحیں لکھی جو 17 سے زائد بتائی جاتی ہیں۔ 20 کتابیں، 15 رسالے لکھے ہیں۔ الالفارابی نے مختلف موضوعات پر تقریباً 80 کتابیں لکھی ہیں۔ الالفارابی فلسطین بھی گئے تھے جہاں انہوں نے ایک مصنف کی حیثیت سے اپنی زندگی کے ۲۰ سال گزارے۔ یورپ میں آپ کو فادر Best کہا جاتا ہے۔ الالفارابی کتابوں کا مطالعہ کثرت سے کیا کرتے تھے۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ محفوظ کیا گیا ہے کہ الالفارابی نے ارسطو کی کتاب النفس کو سوبار پڑھا، السماع الطبيعي کو 40 مرتبہ پڑھا۔
الالفارابی اسلامی دنیا کا ایک ایسا نام ہے جس نے فلسفہ کی دنیا میں ایک سنہرا باب لکھا ہے۔ یا یوں کہیں کہ الالفارابی فلسفہ کی دنیا کا ایک سنہرا باب ہے۔ جس نے اپنے علم کی بنیاد پر اللہ کے وجود کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ آپ کا فلسفہ یہ ہے کہ عقل و مجاز کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کو ثابت کیا جاسکتا ہے۔ اس بات کو الالفارابی نے اپنے فلسفہ کا مقصد بنایا اور اس کو اپنے علم و حکمت کی بنا پر ثابت کیا ہے۔ آپ کا ایک اہم کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے افلاطون اور ارسطو کے فلسفے میں مطابقت کی کوشش کی ہے۔
الالفارابی کا ماننا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے وجود پر دلیل نہیں لائی جاسکتی کیونکہ وہ خود تمام اشیاء کی دلیل اور علت ہے اور وجود اور حقیقت کے اندر ایک ہوجاتے ہیں۔ اس کے تصورات ہی میں داخل ہے کہ وہ واحد ہے کیونکہ اگر دو اولیٰ اور مطلق ذاتیں ہوتیں تو وہ کسی حد تک یکساں، کسی حد تک مختلف ہوتیں۔ دونوں میں سے کوئی بسیط نہ رہتی، سب سے اکمل ذات کو واحد ہونا چاہئے۔ اس اول، واحد، حقیقی وجود کو ہم خدا کہتے ہیں۔
الفارابی کا ماننا ہے کہ نفس کے اسرار و خواہشات فطری طور پر انسان میں موجود ہوتی ہیں۔ جہاں تک وہ ادراک یا تصور کرتا ہے اس میں حیوانوں کی طرح ارادہ بھی ہوتا ہے۔ لیکن اختیار صرف انسان رکھتا ہے کیونکہ اس کا دار و مدار عقل کے غور و فکر پر ہے۔
الالفارابی نے منطق کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے ہیں۔ انہوں نے منطق کی دوقسمیں بتائی ہیں۔ تصور۔ تصدیق۔ تصور میں آپ نے تمام فکر اور تعریفات کو داخل کیا ہے۔ تصورات کا ذکر تعریفات کے ساتھ محض ظاہری حیثیت کے اعتبار سے ہے اور اصل میں تصورات بجائے خود حقیقت سے کوئی علاقہ نہیں رکھتے یعنی یہ صحیح ہے نہ غلط۔ یہاں تصور سے الفارابی کا مقصود خیال کے سادہ ترین عناصر ہیں جس میں حواسِ خمسہ کے ذریعہ حاصل کئے ہوئے خارجی اشیاء و ادراک بھی شامل تھیں اور وہ خلقی تصورات بھی جو ابتدا سے ذہن میں موجود ہوتے ہیں۔ جیسے واجب، موجود، ممکن وغیرہ۔ ہم انسان کو ان تصورات کی طرف متوجہ کرسکتے ہیں۔ اس کے نفس میں اس کا شعور پیدا کرسکتے ہیں لیکن انہیں ثابت نہیں کرسکتے۔
تصدیق میں استدلال اور رائے کو داخل کیا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ استدلال کے ذریعہ تصدیقات کا ان اصولوں پر مبنی ہونا ثابت کیا جاسکتا ہے جو ذہن میں خلقی طور پر موجود ہیں۔ جنہیں عقل خود بخود قبول کرلیتی ہے اور جس میں ثبوت کی پیمائش نہیں۔ استدلال کی بحث جس کے ذریعہ سے ہمیں کسی معلوم اور ثابت شدہ شئے کی مدد سے کسی نامعلوم شئے کا علم ہوتا ہے۔ الفارابی کے نزدیک اصلی منطق ہے۔
الفارابی کی منطق محض علمی خیالات کی تحلیل ہی نہیں ہے بلکہ اس میں بہت سے مسائل صرف و نحو کے متعلق اور بعض نظریہ علم کے مباحث بھی شامل ہیں۔ ابونصر نے منطق پر 12 کتابیں لکھی ہیں۔ الفارابی کا ایک نظریہ یہ ہے کہ نفس جسم کی مکمل صورت ہے لیکن نفس کی تکمیل عقل سے ہوتی ہے۔ عقل ہی اصل انسان ہے۔ اس لیے یہی سب سے زیادہ غور و فکر اور بحث کے قابل ہے۔ عقل انسانی میں پہنچ کر تمام ارضی چیزیں ایک برتر ہستی اختیار کرلیتی ہیں جو مجسمات کو نصیب نہیں ہے۔ عقل انسانی کی غایت اور اس کی سعادت یہ ہے کہ عقل افلاس سے واصل ہو جائے اور اس طرح خدا کی قربت اختیار کرے۔
الالفارابی اسلامی دنیا کا پہلا شخص ہے جس نے منطق کو باضابطہ طریقہ سے لوگوں سے آشنا کیا اس لیے آپ کو Father of Formal Logic بھی کہاجاتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی اہم کتاب “آراء أهل المدينة الفاضلة ومضاداتها” ہے۔
اس کے علاوہ آپ کو اخلاقیات، فلکیات، الٰہیات یا ماوراء الطبعیات کے میدان میں کمال حاصل ہے۔ اس کے علاوہ آپ کا شمار اطبا میں بھی ہوتا ہے۔ لیکن بظاہر آپ نے کبھی مطب نہیں کیا۔ آپ نے اپنے آپ کو ہمہ تن روحانی علاج کے لیے وقف کردیا تھا۔ صفائے قلب کو آپ تمام فلسفیانہ غور و فکر کی بنیاد اور اس کا ثمرہ سمجھتے تھے۔
ٹی جے دوبولر اپنی کتاب تاریخ فلسفہ اسلام میں لکھتے ہیں کہ “الالفارابی ذہنی دنیا میں ابدی حقیقت کی خاطر زندگی بسر کرتے تھے۔ یہ اقلیم عقل کا بادشاہ مال دنیا کے اعتبار سے فقیر تھے۔ اپنی کتابوں اور اپنے باغ کے پھولوں اور پرندوں میں مگن رہا کرتے تھے۔ آپ کی وفات 339 ہجری بمطابق 950 عیسوی میں ہوئی۔