ہندوستانی سماج اپنے نازک دور سے گزر رہا ہے۔سیاسی،معاشی اور معاشرتی سطح پر ہمارا ملک تنزلی کی طرف مسلسل گامزن ہے۔ہر طلوع ہوتا سورج بہتری کی امید کی کرنیں لاتا ہے لیکن شام ہوتے ہوتے پھر ایک بار حالات سے مایوسی کا گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے۔ 4.1 بلین آبادی والا یہ عظیم الشان ملک آزادی،خوشحالی،ترقی اورعدل و انصاف کی قدروں کی تلاش میں سر گرداں ہے۔یہ سماج کی وہ بنیادی ضرورتیں ہیں جو کہیں مفقود ہو جائیں تو تباہی اس سماج کا مقدر بن جاتی ہے۔آئے دن عوام کی آزادیوں کا دائرہ تنگ کیا جا رہا ہے۔ملک میں کثیر تعداد معاشی طور پر بدحال افراد کی ہے۔دولت کی تقسیم میں ملک کی آبادی کا تقریباً 90 فیصد حصہ پچھڑا ہوا نظر آتا ہے۔نفرت اور عصبیت کے جذبات نے ملک کے پرامن اور اخوت کے ماحول کو آلودہ کر دیا ہے۔ان سب سے بڑھ کر ہمارا ملک عدل و انصاف کے بحران سے دو چار ہے۔
عدل انسانی فطرت کی پکار ہے، انسانی سماج کی بقا کا ضامن ہے۔ ہر شخص کا بنیادی حق ہے کہ جس سماج میں وہ رہتا ہےوہاں انصاف کی حکمرانی قائم رہے۔معاشرے کی کامیابی و ترقی عدل ہی سے وابستہ ہے۔سماج سے اگر عدل کی گرفت کو کمزور کر دیا جائے تو سماج ظلم سے بھر جائے گا۔ظلم وہ تخریبی قوت ہے جو انسانوں کو کچل کر رکھ دیتی ہے۔
گزشتہ 10 سالوں سے ملک میں منظم طریقے سے انصاف کا گلا گھونٹا جا رہا ہے۔ایک ایسی جماعت برسر اقتدار ہے جو بنیادی انسانی اخلاقیات سے عاری،نفرت کے نشے میں مست اور اقتدار کی طلب میں دیوانہ ہوئے ملک کی تخریب کے در پے ہے۔اپنی قلیل تعداد کے باوجود یہ طبقہ سماج میں رسوخ حاصل کر چکا ہے۔امیر ہو یا غریب،مرد ہو یا عورت،شہری ہو یا دیہاتی،ملازم ہو یامالک غرض ہر کوئی ہندوتو کے تخریبی نظریات سے مغلوب دکھائی دیتا ہے۔اپنے مفروضہ ہندو راشٹر کے قیام کی راہ میں یہ اسلام اور مسلمانوں کو عظیم رکاوٹ پاتے ہیں۔مسلمانوں پر قابو پانے کے لئے وہ ہر قسم کا ظلم روا رکھے ہوئے ہیں۔قانون ہی کے استعمال سے ظلم کے نت نئے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔اور ملک کی بڑی اکثریت ان مظالم پرخوشی و مسرت کا اظہار کر رہی یا خاموش تماشائی بنی کھڑی ہے۔
ہندوستانی حکومت مسلمانوں کے دینی معاملات میں قانون سازی کے ذریعے سے درانداز ہونا چاہتی ہے۔ طلاق ثلاثہ قانون کے ذریعے حکومت نے اسلام کے عائلی قوانین میں دست درازی کی شروعات کی اور اب اوقاف ترمیمی قانون کی مدد سے حکومت کی نظر بد، اسلام کے عظیم فلاحی او قافی نظام پر ہے۔اوقاف کے انتظام اور انصرام میں حکومت کلیدی کردار ادا کرنا چاہتی ہے۔
این آر سی اور سی اے اے قوانین کے ذریعے مسلمانوں کو مسلسل خوف و ہراس اور خدشات کی فضا میں رکھا جا رہا ہے۔ہندوستان کا آئین اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ یہاں مذہب کی بنیاد پر کسی بھی گروہ کو اپنے حقوق سے محروم نہیں رکھا جائے گا۔شہریت کے قانون سے مسلمانوں کو خارج کرنا مسلمانوں پر بڑا ظلم ہے۔
جھوٹے الزامات گھڑ تے ہوئے دہشت گردی اور ملک سے غداری کے نام پر ، حکومت سے مختلف رائے رکھنے والے افراد (بالخصوص مسلمانوں )کو طویل عرصے تک قید و بند کی صعوبتوں سے گزارا جا رہا ہے۔ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے بدنام زمانہ اور غیر منصفانہ قانون یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیے گئے افراد میں صرف3 فیصدہی مجرم ثابت کیے گئے ہیں اور بقیہ 97 فیصد ملزمین کو طویل قید کی بندشوں کے بعد با عزت رہا کیا گیا ہے۔ یہ ظلم نا انصافی کی انتہا ہے کہ کسی بے قصور فرد کی آزادی کو قید و بندکی آزمائشوں سے سلب کرلیا جائے۔
ہمارا آئین دفعہ 25 کے تحت ہر شہری کو آزادی دیتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کسی بھی مذہب کو قبول کرے،اس پر عمل پیرا ہو اور اس کی تبلیغ کے لیے جدوجہد کرے۔لیکن دعوت دین کے اس ”جرم“میں کچھ عرصہ پہلے دا عی اسلام ڈاکٹر ذاکر نائک پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور انہیں ملک بدر ہونے پر مجبور کیا گیا۔حال ہی میں عظیم ”جرم“کی پاداش میں مولانا کلیم صدیقی صاحب اور ان کے 10 ساتھیوں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔یہ فیصلہ دستور سے ٹکراتا ہے اور تبلیغ دین کی آزادی سےایک شہری کو محروم کرتا ہے۔حکمران طبقہ اس بات سے تشویش زدہ ہے کہ اسلام کا عدل وانصاف پر مبنی پیغام عوام تک نہ پہنچنے پائے۔اس ظالمانہ فیصلے کے ذریعے دا عیان دین میں خوف پیدا کرنے اورانہیں تبلیغ دین سے سبکدوشی پر مجبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
ریاستی حکومتیں ظلم و نا انصافی کے نت نئے حربے استعمال کر رہی ہیں۔تازہ رحجان بلڈوزر کے ذریعے انصاف کا ہے۔ غیر آئینی طریقہ اپناتے ہوئے حکومتیں بےقصور افراد کے مکانوں کو منہدم کر رہی ہیں۔اترپردیش سے اس ناانصافی کی شروعات ہوئی اور دیکھتے دیکھتے ملک کے دیگر مقامات پر بھی یہ لہر دوڑ پڑی ہے۔جب کئی بے قصور افراد کے گھرڈھا دیےگئے تب سپریم کورٹ نے ہوش کے ناخن لیے اور حکومت کی اس کارروائی کو خیر قانونی کاروائی قرار دیا۔کورٹ نے کہا ہے کہ حکومتوں کی یہ کاروائی قانون پر بلڈوزر چلانے کی مانند ہے ۔
ظلم کی بدترین شکل قتل و فساد ہے۔ہندوستان کی تاریخ مختلف ادوار میں فسادات کے ذریعے بہائے گئے معصومین کے خون سے رنگی ہوئی ہے۔اس زمین پر مذہب کے نام پر اس قدر خون ریزی کی جا رہی ہے کہ انسانیت اس سے شرمسار ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر اکثریتی طبقے کے شر پسند عناصر کا اٹھنااور مسلمانوں کی جان ،مال ،عزت و آبروسے کھیلنا معمول بن چکا ہے۔ان فسادات نے لاکھوں جانیں لی ہیں لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ ان جانوں کو کبھی حقیقی انصاف فر اہم نہیں ہو سکا۔ انصاف پسند معاشرے میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ لوگ بھیڑدر بھیڑ انسانوں کو روندیں اور اس جرم عظیم کی وہ سزا نہ پائیں۔۔۔۔!؟انسانی جان کی یہ بے وقعتی ہندوستانی سماج کی اخلاقی بے حسی کوظاہر کرتی ہے۔سزا سے بچ جانے کا احساس مزید فساد اور کشت و خون کے ارتکاب کا محرک بنتا ہے۔
سماج میں مسلمانوں سے نفرت کے رویے کو عام کیا جا رہا ہے۔تعلیم یافتہ افراد ہوں یا ناخوا ندہ ہر کوئی نفرت کے اس کھیل میں برابر کا شریک بنا ہوا ہے۔یہ اندھی نفرت انہیں عدل و انصاف جیسی عظیم قدروں کی معرفت سےمحروم رکھ رہی ہے۔آنکھوں پر بے حسی اور غرور کا پردہ حائل ہے جس کی وجہ سے انسانوں کی بربادی انھیں خوشی و مسرت کا احساس کرا رہی ہے۔
ہندوستانی جمہوریت حکومت،عاملہ،عدلیہ اور میڈیا ان بنیادوں پر قائم ہیں۔حکومت صر یح طور پر مسلمان مخالف واقع ہو رہی ہے۔مسلمانوں پر ظلم کے ذریعے وہ اکثریتی طبقے کی حمایت لیے کھڑی ہے۔عاملہ حکومت کی مسلم مخالف پالیسی کو روبہ عمل لانے میں مصروف ہے۔ عدلیہ کے ذریعےان مظالم کو جواز عطا کیا جا رہا ہے۔اور میڈیا اس ظلم کے تئیں عوام کی رائے کو ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ان تمام اداروں پر ہندوتوسوچ رکھنے والے افراد قابض ہو چکے ہیں۔ملک کی ترقی،خوشحالی اور انصاف کے لیے یہ عناصر بڑا خطرہ ہیں۔میڈیا کے اکثر اداروں کے مالکان اور با اثر صحافی حضرات اسی فکر سے وابستہ ہیں۔تمام حکومتی اداروں مثلاً پولیس،عاملہ جیسے سول سروس وغیرہ اور تفتیشی ادارے جیسے این آئی اے، سی بی آئی اور ای ڈی پر یہی ہندتوادی سوچ رکھنے والوں کا غلبہ ہے۔کچھ عرصہ پہلے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو اپنے ریٹائرمنٹ کے بعدقانون ساز اسمبلی کا حصہ بنایا گیا۔جن افراد کو قانون کی سربلندی کے لیے غیر جانبدار رہنا چاہیے وہ حکومت میں قائم جماعت سے قریب نظر آرہے ہیں۔جب قافلے کے محافظ ہی رہزن بن جائیں تو قافلے کو لٹنے سے کون بچائے۔ مسلمان اور ملک کے ہر باشعور اور انصاف پسند افراد ا نصاف کے حصول کے تئیں مایوس نظر آتے ہیں۔نا انصافی اور ظلم کی روش ان کے سینوں کو بے چین کر رہی ہے۔نفرت کی اس فضا میں سانس لینا دشوار دکھائی دیتا ہے۔
ظلم و ستم سے دوچار اس معاشرے کو عدل کی راہ پر لانا امّت مسلمہ کا اولین فریضہ ہے۔وطن عزیز کے باشندوں کو انسانیت کے احترام،امن و بھائی چارہ کی تعلیم دینا مسلمانوں کی ذمہ داری ہے۔ظلم و طغیان،عداوت و بغض کی اس آگ کو اللہ کے دین کے ذریعے سے ہی بجھایا جا سکتا ہے۔ دین اسلام وہ واحد دوا ہےجس میں انسانیت کے تمام امراض کا علاج موجود ہے۔اسلام کا مقصدعدل قائم کرنا ہے ۔اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو واضح حکم دیتا ہے کہ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ بِالۡقِسۡطِ شُہَدَآء لِلّٰہِ ۔اے لوگو جو ایمان لائے ہو ، انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو۔(سورہ نساء 135)
موجودہ حالات میں اللہ کا دین ہم سے درج ذیل لا یحہ عمل کا مطالبہ کرتا ہے۔
- مسلمان اپنے خیر امت ہونے اور لوگوں کے لیے برپا کیے جانے کے احساس کو ہر دم تازہ رکھیں اور زندگی کے ہر شعبے میں اسلام پر عمل پیرا ہوں۔
- عوام کی دینی فکر کو مضبوط کیا جائےاور اس بات کے لیے کوشاں رہا جائے کہ دین سے ہماری وابستگی صرف جذباتی نہ ہوں بلکہ عملاً پوری زندگی پر دین کی تعلیمات حاوی ہوں۔ہماری اخلاقی سطح اسلام کے مزاج سے مطابقت رکھتی ہو۔
- مسلمانوں کی آوازیں صرف اپنے مفاد اور اپنی مظلومیت کی خاطر نہ اٹھیں بلکہ تمام انسانوں کی فلاح ان کے مقصود نظر رہے۔
- مسلمان اجتماعیت کی اہمیت کو تسلیم کریں۔چھوٹے چھوٹے اختلافات کو در کنار کر کے دین کے وسیع تر مفاد کے لیے اجتماعی جدوجہد کے عادی ہوں۔
- اپنی مظلومیت پر پنپ رہے جذبات کو تعمیری رخ دیں۔حکمت کے ساتھ، دستوری اختیارات کا مفید استعمال کرتے ہوئے اس ظلم کے ازالے اور عدل کے قیام کے لیے کھڑے ہوں۔
- اہل وطن میں نفرت اور عصبیت کومٹانے کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ ان سے اپنے تعلق کو مضبوط کریں۔ اور اپنے اخلاق کے ذریعے سےان کے دلوں کو فتح کریں۔
- سیاسی میدان میں مسلمان صرف ووٹ بینک بن کر نہ رہ جائیں بلکہ وہ سیاست میں فعال کردار ادا کریں۔ہماری سیاست ذات پات،نسل و زبان،قوم اور علاقہ جیسے تنگی جذبات کا شکار نہ ہوں۔بلکہ سیاست کے ذریعے سےعوام کی فلاح اور اسلامی اقدار کا فروغ ہمارا مشن ہو۔سیاست کے میدان میں ہماری نگاہ بلند ہو،دل فراخ ہو،فکر تعمیری ہو اور نیت للہ ہی ہو۔ملک کے مسائل سے دلچسپی ہو اور ان کے حل کے لیے ہمارے پاس ٹھوس لا یحہ عمل ہو۔
یہ جو ظلم کی بھٹی میں مسلمان تپائے جا رہے ہیں ،یہ اللہ تبارک و تعالی کی آزمائش ہے۔اس ابتلا میں مسلمان صبر کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔صبر جہاں رک جانے اور برداشت کرنے کا نام ہےوہیں اپنے موقف،اپنی دعوت ،اپنے نظریات اور اپنے اخلاق پر ڈٹ جانے کا نام بھی ہے۔یعنی اس آزمائش پر واویلا مچا نے کے بجائے اس میں کھرے اترنے اور دنیا کو عدل و انصاف کے نظام سے متعارف کرانے کے لیے استقامت سے ڈٹ جائیں۔عدل کا جذبہ ملّت کی رگوں میں اس طرح سرایت کر جائے کہ ہم اللہ کے اس فرمان کا عملی نمونہ بن جائیں۔
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡا قَوّٰمِیۡنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالۡقِسۡطِ ۫ وَ لَا یَجۡرِمَنَّکُمۡ شَنَاٰنُ قَوۡمٍ عَلٰۤی اَلَّا تَعۡدِلُوۡا ؕ اِعۡدِلُوۡا ۟ ہُوَ اَقۡرَبُ لِلتَّقۡوٰی ۫ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیۡرٌۢ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ۔
”اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو ۔کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ ۔ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔ اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو ، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے پوری طرح باخبر ہے“ (سوره المائدہ 8)۔
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے رکن ہیں)